تاریخ احمدیت

15؍جنوری1934ء: ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کن زلزلہ خدا کے زبردست نشانوں میں سے ایک نشان

20؍ اپریل 1907ء کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہندوستان کے شمال مشرق میں آنے والے ایک تباہ کن زلزلہ کا نظارہ دکھایا گیا۔ چنانچہ حضورؑ فرماتے ہیں :

’’رؤیا میں دیکھا کہ بشیر احمد کھڑا ہے وہ ہاتھ سے شمال مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ زلزلہ اس طرف چلا گیا۔ ‘‘

( بدر2؍مئی 1907ء و الحکم 30؍اپریل 1907ء)

چنانچہ اس پیشگوئی کے عین مطابق15؍ جنوری 1934ء کو ایک قیامت خیز زلزلہ آیا جس نے بنگال سے لے کر پنجاب تک تباہی مچا دی بے شمار عمارتیں گر گئیں زلزلہ سے زمین پھٹ گئی طغیانی سے آبادیاں غرق ہو گئیں اور بیس ہزار انسانوں کی جانیں ضائع ہو گئیں۔ زلزلہ کی ہلاکت آفرینیوں کا اثر اتنا وسیع تھا کہ ہر طرف شور محشر بپا ہو گیا جس کی کسی حد تک تفصیل اس زمانے کے اخبارات مثلاً الجمیۃ(دہلی)۔ مدینہ(بجنور)۔ اخبارحقیقت(لکھنؤ)۔ سرچ لائٹ(پٹنہ)۔ اتحاد(پٹنہ)۔ سرفراز(لکھنؤ)۔ اہل حدیث (امرتسر)۔ سیاست(لاہور)۔ زمیندار(لاہور)۔ انقلاب(لاہور)۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ (لاہور)۔ (سٹیٹسمین) ملاپ (لاہور)۔ پرتاپ (لاہور) اور پرکاش (لاہور) میں مل سکتی ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا رسالہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رؤیا میں چونکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے اشارہ کرنے کا ذکر موجود تھا اور خدائی تصرف کے تحت سب سے پہلے ان ہی کا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ یہ وہی موعودہ زلزلہ ہے اس لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ان سے فرمایاکہ وہ اس تازہ نشان پر مفصل رسالہ لکھیں کیونکہ انہی کے منہ سے یہ الفاظ نکلوائے گئے ہیں۔

(الفضل8؍فروری1934ء)

چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ’’ایک اور تازہ نشان‘‘ کے عنوان سے ایک اہم رسالہ تصنیف فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے الہامات و کشوف کی روشنی میں اس زلزلہ کی پانچ ایسی واضح علامتیں بیان کیں جن سے اہل علم پرپوری طرح کھل گیا کہ یہ زلزلہ خدا کے زبردست نشانوں میں سے ایک تازہ نشان ہے۔

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا یہ قیمتی مضمون الفضل4؍ مارچ 1934ء میں بھی شائع شدہ ہے۔)

حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس رسالے کے آخر میں مصیبت زدگان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے نہایت پرخلوص اور محبت سے لبریز الفاظ میں لکھا۔

’’ہم دنیا کی مصیبت پر خوش نہیں ہیں اور خدا جانتا ہے کہ اس زلزلہ کی تباہ کاری پر ہمارے دلوں میں ہمدردی اور مواخات کے کیا کیا جذبات اٹھتے ہیں ہم ہر اس شخص سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں جسے اس زلزلہ میں کسی قسم کا نقصان پہنچا ہے ہم ہر مالک مکان کے ساتھ اس کے مکان کے گرنے پر۔ ہر باپ کے ساتھ اس کے بیٹے کے مرنے پر ہر خاوند کے ساتھ اس کی بیوی کے فوت ہونے پر۔ ہر بھائی کے ساتھ اس کے بھائی کے جدا ہونے پر۔ ہر بیٹے کے ساتھ اس کے باپ کے رخصت ہونے پر۔ ہر بیوی کے ساتھ اس کے خاوند کے گزر جانے پر۔ ہر دوست کے ساتھ اس کے دوست کے بچھڑنے پر سچی اور مخلصانہ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اور دوسروں سے بڑھ کر اپنی ہمدردی کا عملی ثبوت دینے کے لئے تیار ہیں۔ اور اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں مگر اس سے بھی بڑھ کر ہمارا یہ فرض ہے کہ جب خدائے ذوالجلال کا کوئی نشان پورا ہوتا دیکھیں تو اسے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اور لوگوں کو بتائیں کہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں اس طرح پوری ہوا کرتی ہیں۔ تاکہ وہ خدا کو پہچانیں اور اس کے بھیجے ہوئے مامور و مرسل کو شناخت کریں اور خدا سے جنگ کرنے کی بجائے اس کی رحمت کے پروں کے نیچے آجائیں ‘‘۔

(رسالہ ہندوستان کے شمال مشرق کا تباہ کن زلزلہ)

مصیبت زدگان کی مرکزی امداد

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے2؍ فروری 1934ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ زلزلے کے مصیبت زدگان کی بلا امتیاز مذہب و ملت امداد کریں۔

(الفضل 8؍فروری 1934ء)

مرکز کی طرف سے مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہی اظہار ہمدردی اور تفصیلات مہیا کرنے کے لیے بہار بھجوائے گئے۔

(الفضل 30؍ جنوری 1934ء )

اور مئی 1934ء میں تیرہ سو روپیہ کی رقم حضرت مولانا عبدالماجد صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ بھاگلپور کو روانہ کی گئی۔ علاوہ ازیں ایک ہزار روپیہ ریلیف فنڈ میں دیا گیا۔

(الفضل 31؍ مئی 1934ء )

احمدیان بہار کی خدائی حفاظت

اس قیامت خیز زلزلہ میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے صوبہ بہار کے احمدیوں کی جانیں معجزانہ رنگ میں محفوظ رہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا عبدالماجد صاحبؓ بھاگلپوری امیر صوبہ بہار نے 22؍ فروری 1934ء کو زلزلہ کے چشم دید حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا۔

میرا مکان بھاگلپور کا چاروں طرف سے مسقف ہے اور درمیان میں صحن دس گیارہ ہاتھ مربع ہے۔ زلزلہ کے وقت چاروں جانب کے مکان میں سخت جنبش ہوئی اور بظاہر کوئی امید کسی کے بچنے کی نہ تھی اس وقت ہم سب لوگ مع (صاحبزادہ مرزا) حنیف احمد سلمہ، سربسجود ہو کر دعا میں مشغول ہو گئے۔ خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور سب کی جانیں بچ گئیں۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ شہر کے کسی اور احمدی کو بھی خدا کے فضل سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔

مونگیر کے احمدی بھی عجیب و غریب طریقہ سے بچے۔ سید وزارت حسین صاحب راجہ صاحب کے ملازم ہیں راجہ صاحب کے پاس ان کے مکان میں بیٹھے تھے کہ زلزلہ محسوس ہوا۔ دونوں باہر کو بھاگے اور خدا کے فضل سے بچ گئے۔ راجہ صاحب کا محل اور وزارت حسین صاحب کا کمرہ جس میں وہ رہتے تھے بالکل مسمار ہو گیا اور تمام مال و اسباب اس میں دب گیا۔ مولوی عبدالباقی صاحب مولوی علی احمد صاحب کے بھتیجے مونگیر میں ملازم ہیں ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ نماز ظہر پڑھ کر قرآن مجید پڑھ رہے تھے کہ زلزلہ محسوس ہوا۔ نیچے سے کسی نے پکارا کہ بھاگو! وہ اسی حالت میں زینہ سے اترے اور نیچے پہنچے ہی تھے کہ سارا مکان بیٹھ گیا۔ ان کا بھی کوئی مال و اسباب نہیں نکل سکا۔ حکیم خلیل احمد صاحب کے بال بچے رام پور میں تھے اور حکیم صاحب گھر میں اکیلے تھے مکان سے باہر نکل آئے اور مکان زمین بوس ہو گیا۔ دو بھائی سید عبدالغفار صاحب و سید محمد حنیف صاحب کی دکانیں بازار میں تھیں۔ وہ اپنے مکان سے تو نکل گئے مگر دوسرے مکان کی دیوار کے نیچے دونوں بھائی دب گئے سید محمد حنیف صاحب تو شہید ہو گئے اور سید عبدالغفار صاحب کئی گھنٹہ کے بعد زندہ نکالے گئے جس مکان کی دیوار ان پر گری وہ کسی روئی کے تاجر کا تھا۔ روئی یا سوت کا ایک گٹھا ان کے اوپر پہلے گرا پھر دیوار آپڑی انہیں سانس لینے کا موقع اسی گٹھے کی وجہ سے مل گیا۔ ان کا بیان ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی الہامی دعا

رَبِّ کُلُّ شَیْ ءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَ انْصُرْنِیْ وَ ارْحَمْنِیْ

پڑھتا رہا۔

سید وزارت حسین صاحب کے دو بھتیجے اور داماد اور ایک لڑکا مظفر پور میں تھے۔ وہ لوگ بھی محض قدرت الٰہی سے بچ گئے۔ عورتیں عید کے لیے کچھ دن پہلے اورین اپنے گاؤں میں چلی گئی تھیں اور لوگ مکان سے نکل بھاگے اور بچ گئے۔ لڑکا دو منزلہ پر تھا مکان گر گیا اور کئی ہزار کا زیور۔ نقدی اور سامان دب گیا۔ لوگ کسی طرح چوتھے دن اورین پہنچ گئے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب مرحوم کے فرزند محمد اسمعیل صاحب بھی مظفر پور میں تھے وہ بھی محفوظ رہے۔ الغرض سوائے ایک احمدی کے بہار میں کوئی احمدی زلزلہ کے حادثہ میں فوت نہیں ہوا۔

عجیب بات یہ ہے کہ اس ہیبت ناک زلزلہ کے آنے سے پہلے حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور ان کی اہلیہ صاحبہ سید وزارت حسین صاحب، بھائی منظور عالم صاحب، بھائی شمس الہدیٰ صاحب وغیرہ بہاری احمدیوں کو منذر خوابیں آئیں اور حکیم خلیل احمد صاحب کو تو صاف دکھایا گیا کہ بہت بڑا زلزلہ آیا ہے اور سخت بدحواسی پھیلی ہوئی ہے۔

(الفضل 18؍فروری 1934ء )

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ174تا 177)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button