ایک نووارداور حضرت اقدس علیہ السلام (حصہ پنجم۔ آخری)
حضرت اقدس:اچھا کیا آپ نے دو تین روز کا مصمم ارادہ کر لیا ہے؟
نو وارد: کل عرض کروں گا۔
حضرت اقدس: میں چاہتا ہوں کہ آپ دور دراز سے آئے ہیں کچھ واقفیت ضرور ہونی چاہیے۔ کم از کم تین دن آپ رہ جائیں۔ میں یہی نصیحت کرتا ہوں اور اگر اَور نہیں تو آمدن بارادت ورفتن باجازت ہی پر عمل کریں۔
نو وارد: میں نے یہاں آکر اوّل دریافت کر لیا تھا کہ کوئی امر شرک کا نہیں۔ اس لیے میں ٹھہر گیا کیونکہ شرک سے مجھے سخت نفرت ہے۔
حضرت اقدس نے پھر جماعت کو خطاب کرکے فرمایا کہ
میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ وشتم تک بھی نو بت پہنچ جاوے تو اس کو گوارا کرنا چاہیے کیونکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے۔ ہمارا کیا حق ہے کہ اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مرید وں سے چاہتے ہیں۔ یہ بھی ہم ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے بات کریں۔[ البدر میں ہے:
’’اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ وشتم تک بھی اس کی نو بت پہنچے تو تم کو چاہیے کہ چپ کر رہو جس حال میں کہ وہ ہمارے حالات سے واقف نہیں ہے نہ ہمارے مُریدوں میں وہ داخل ہے تو کیا حق ہے کہ ہم اس سے وہ ادب چاہیں جو ایک مرید کو کرنا چاہیے۔ یہ بھی ان کا احسان ہے کہ نرمی سے بات کرتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہماری جماعت پر وہ دن آوے کہ جو لوگ محض نا واقف ہیں اگر وہ آویں تو بھائیوں کی طرح سلوک کریں۔ بھلا ان لوگوں کو کیا پڑی ہے کہ تکلیف اُٹھا کر کچی سڑک پر دھکے کھاتے آتے ہیں۔ پیغمبر خدا فرماتے ہیں کہ زیارت کرنے والے کا حق ہے کہ جو چاہےکہے۔ ہمارے لیے تلخی کرنامعصیت ہے ان کو اسی لیے ٹھہراتا ہوں کہ یہ غلطی رفع ہو۔ بھائیوں کی طرح سلوک کیا کرو اور پیش آیا کرو۔ ‘‘ (البدر جلد 2نمبر7مورخہ 6؍مارچ 1903ء صفحہ 51)]
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ ٹھہریں۔ چونکہ کلمہ کا اشتراک ہے جب تک یہ نہ سمجھیں جو کہیں ان کا حق ہے۔
(ملفوظات جلدنمبر 5صفحہ 91-92۔ ایڈیشن 1984ء)