حضرت مصلح موعود ؓ

احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن کا صحیح نمونہ پیش کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے (قسط چہارم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ ہمیشہ یاد رہتا ہے میں چھوٹا تھا کہ میں نے اور دوسرے بچوں نے مل کر جہلم سے ایک کشتی منگوائی۔ وہ کشتی نیلام ہوئی تھی اور ہمیں سَستی مل گئی تھی۔ یوں تو ویسی کشتی اُن دنوں سَو ، سَوا سَو روپیہ میں تیار ہوتی تھی مگر ہمیں صرف سترہ روپیہ میں مل گئی اور چھبیس روپے کرایہ لگا۔ جب وہ یہاں آ گئی تو جو خریدنے والے تھے ان میںسے کئی باہر چلے گئے اور آخر نگران مَیں ہی مقرر ہوا۔ ہم نے اُس کوایک زنجیر سے باندھ کر ڈھاب کے کنارے رکھا ہوا تھا۔ بعض دفعہ جب ہم وہاں موجود نہ ہوتے تو لڑکوں نے کشتی کھول کر لے جانا اور خوب کودنا اور چھلانگیں لگانا اور چونکہ وہ بے احتیاطی سے استعمال کرتے تھے اس لیے کشتی کے تختے روز بروز ڈھیلے ہوتے چلے گئے ۔ میں نے اس کے انسداد کے لیے کچھ دوست مقرر کر دیے اور انہیں کہہ دیا کہ تم نگرانی رکھو اور پھر کسی دن اگر لڑکے کشتی کو کھول کر پانی میں لے جائیں تو مجھے اطلاع دو۔ چنانچہ ایک دن قادیان کے بہت سے لڑکے اکٹھے ہو کر وہاں گئے۔ انہوں نے کشتی کھولی اور خوب کودنا پھاندنا شروع کردیا۔ اس طرح پانی میں کوئی کشتی کو اِدھر سے کھینچتا کوئی اُدھر سے، مجھے بھی اطلاع ہوئی میں غصے سے ہاتھ میں بید لیے دَوڑتا ہوا وہاں چلا گیا اور وہاں چاروں طرف لڑکے مقرر کر دیے کہ کسی کو بھاگنے نہیں دینا۔ جب لڑکوں نے ہمیں دیکھا تو انہوں نے اِدھر اُدھر بھاگنا چاہا مگر چاروں طرف آدمی کھڑے تھے۔ آخر وہ اُسی طرف آئے جس طرف مَیں کھڑا تھا اور کشتی کو کنارے پرلگاتے ہی سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ اَور تو نکل گئے لیکن ایک قصاب کالڑکا مَیں نے پکڑ لیا اور گو وہ مجھ سے بہت مضبوط تھا اور اُس کا جسم بھی ورزشی تھا مگر میں جانتا تھا کہ وہ میرامقابلہ نہیں کر سکے گا۔ کچھ اُس میں فطرت کی اس کمزوری کا بھی دخل تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ لوگ ہم پر ہاتھ نہیں اُٹھا سکتے کیونکہ ہم یہاں کے مالک ہیں۔ غرض بچپن کی جو ناعقلی ہوتی ہے کہ انسان اپنے رُعب سے بعض دفعہ ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے اس کے مطابق میں نے زور سے ہاتھ اُٹھا کر اُسے مارنا چاہا۔ اُس نے پہلے تو اپنا منہ بچانے کے لیے ہاتھ اُٹھایا جس پر مجھے اور زیادہ طیش آیا اور میں نے زیادہ سختی سے اُسے تھپڑ مارنا چاہا مگر ابھی تھپڑ اُسے نہیں مارا گیا تھا کہ اُس نے اپنا منہ میرے سامنے کر دیا اور کہنے لگا لو جی مارلو۔ اِس پر یکدم میرا ہاتھ نیچے گِر گیا اور مَیں شرمندہ ہوا کہ فتح آخر اُس کی ہوئی حالانکہ جسمانی لحاظ سے وہ گو مجھ سے طاقت وَر تھا مگر رُعب کے لحاظ سے وہ مجھ سے کمزور تھالیکن چونکہ اُس نے مقابلہ سے انکار کیا اور کہا کہ مار لو تو میری انسانیت نے مجھے کہا اب اگرتُو نے اسے مارا تو تُو انسان کہلانے کامستحق نہیں رہے گا۔ لیکن اگر وہ تندرست اور زبردست نوجوان ہونے کی بجائے ایک چھوٹا سا بچہ ہوتا، اُس کی پیٹھ میں خم ہوتا، اس کے سینہ میںگڑھا پڑا ہوا ہوتا، اس کی گردن دُبلی پتلی ہوتی، اس کی ناک سے رال بہ رہی ہوتی اور وہ کہتا مارلو تو مجھ پرکچھ بھی اثر نہ ہوتا کیونکہ میں جانتا کہ اِس میں مقابلہ کی طاقت ہی نہیں۔ پس میں نے اگر جسمانی ورزش کی ہدایت دی ہے تو اِس لیے کہ تمہاری قربانی دنیا کوسچی معلوم ہو یہ نہ ہو کہ تم ماریں بھی کھائو اور قربانی بھی سچی معلوم نہ ہو۔ وہ مار لوگوں کے لیے ہدایت کاموجب بنتی ہے جو طاقت رکھتے ہوئے کھائی جائے مگر جو ماربُزدلی کی وجہ سے کھائی جائے اس سے حقارت اور نفرت بڑھتی ہے۔ جب لوگ یہ سمجھیں کہ وہ ایک تھپڑ ماریں تو دوسرا دو تھپڑ مار سکتا ہے، وہ اگر ایک گال پر خراش پیدا کریں تو دوسرا ان کے دانت نکال سکتا ہے، وہ اگر کھوپڑی پر چوٹ لگائیں دوسرا ان کے سر کو پھوڑ سکتا ہے تو اگر ایسی طاقت رکھنے والا انسان ایک کمزور انسان سے کہے کہ میں تم سے مار کھا لیتاہوں تو دوسرے انسان کے دل پرضرور چوٹ پڑتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ کوئی ایسی طاقت ہے جس نے اسے اتنی بڑی قربانی پر آمادہ کر دیا اور وہ سچائی کو قبول کرلیتا ہے۔

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھو آپؐ نے مکہ میںصبرکیا اور ایسا صبر کیا جس کی نظیر دنیا میںنہیں ملتی۔ مگر لوگ کہہ سکتے تھے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ بُزدل ہے اس لیے لڑائی سے کنارہ کرتا ہے۔ مگر پھر اللہ تعالیٰ آپؐ کو مدینہ میں لے گیا اور وہاں فوجوں کی کمان آپؐ کو کرنی پڑی اور ایسے ایسے مواقع آئے جن میںآپؐ کو اپنی بہادری کے جوہردکھانے پڑے۔ اُحد کے موقع پر ہی ایک شخص جومکہ کا بہت بڑا جرنیل تھا آگے آیا اور اس نے کہا مَیں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ میںمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں گااس لیے میرے مقابلہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو ہی نکالا جائے۔ صحابہؓ بڑے بہادر اور تجربہ کار تھے، وہ شمشیر زنی سے واقف تھے، وہ نیزہ بازی کو خوب جانتے تھے، وہ لڑائی کے اصول اور فن کے ماہر تھے، وہ سارے اِس نیت سے کھڑے ہوگئے کہ ہم مر جائیں گے مگر اِس شخص کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچنے نہیں دیں گے لیکن آپؐ نے فرمایا رستہ چھوڑ دو۔ صحابہ نے آپؐ کے حکم کے ماتحت رستہ خالی کر دیا۔ اِس پر یہ جرنیل شیر کی طرح گرجتا ہوا آپؐ کے مقابلہ میںآیا۔ آپؐ نے اپنا نیزہ بڑھا کر اُس پر وار کیا اور اُس کی گردن پر ایک معمولی سا زخم لگادیا وہ اُسی وقت چیخ مار کر واپس لَوٹ گیا۔لوگوں نے اُس سے کہا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ یا تو اس بہادری سے حملہ کرنے کے لیے گئے تھے او ریا اس بُزدلی کے ساتھ واپس بھاگ آئے اور پھر تمہارا تو زخم بھی کوئی بڑا نہیں اُ س نے کہا بے شک یہ ایک چھوٹا سا زخم ہے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سارے جہنم کی آگ اِس میں بھردی گئی ہے جو مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی۔(سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 85۔ مطبوعہ مصر 1295ھ(مفہوماً)) یہ ایک نشان تھا جو خدا تعالیٰ نے دکھایا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ فرمانا کہ میرے لیے رستہ چھوڑ دو اس نے بتادیا کہ مکہ میں کفار کے مظالم آپؐ کمزوری یا بُزدلی کی وجہ سے برداشت نہیں کرتے تھے بلکہ بہادری اور طاقت کے ہوتے ہوئے برداشت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ کی قربانیوں کو دیکھ کر لوگ ہدایت پا جاتے تھے۔

قرآن آپؐ نے سنایا اور سالوں سنایا مگر حمزہؓ پر جو آپؐ کے چچا تھے کوئی اثر نہ ہوا، توحید کے وعظ آپؐ نے کئے اور سالوں کئے مگر حمزہؓ پر کوئی اثر نہ ہوا، اصلاحی تعلیم آپؐ نے دی اور سالوں دی مگر حمزہؓ پر کوئی اثر نہ ہوا،نماز یں آپؐ نے پڑھیںاور پڑھائیں اور سالوں پڑھیں اور پڑھائیں مگر حمزہؓ پر کوئی اثر نہ ہوا۔آپؐ نے صدقے دیئے اور دلائے اور سالوں صدقے دیئے اور دلائے مگر آپؐ کے چچا حمزہؓ پر کوئی اثر نہ ہوا،آپؐ خانہ کعبہ سے باہر پتھر کی ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوجہل آگیا اور اُس نے پہلے تو آپؐ کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور پھرغصہ میں اُس نے زور سے آپؐ کے منہ پرایک تھپڑ ما ر دیا ۔ حمزہؓ کی ایک لونڈی اُس وقت دروازہ میں کھڑی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی وہ اِس کو برداشت نہ کرسکی اور اندر ہی اندر سارا دن کڑھتی رہی۔ حمزہؓ شکار کے بہت شوقین تھے اور وہ گھوڑے پر چڑھ کر شکار کے لیے حرم سے باہر نکل جایا کرتے تھے۔ اُس دن وہ شکار کر کے فخر سے گھر میں داخل ہونے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی لونڈی جو دیر سے ان کے گھر میں رہتی تھی اور جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بچپن کازمانہ دیکھا ہوا تھااورجو آپؐ سے آپؐ کے دادا کومحبت تھی اُسے بھی جانتی تھی وہ بیٹھی ہوئی رو رہی ہے۔حمزہؓ نے پوچھا بی بی کیوں روتی ہو؟ عرب لوگ گھر کی مامائوںاورخادمائوں کی بڑی عزت کرتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کسی نے اِس کی ہتک کی ہوگی اور اب میرا فرض ہے کہ میں اِس ہتک کا بدلہ لوں۔ لونڈی نے اپنا سر اوپر اُٹھایا اور کہا بڑے بہادر بنے پھرتے ہو۔ حمزہؓ نے کہا کیوں کیا ہوا؟ کونسی شکایت پیدا ہو گئی ہے؟ وہ کہنے لگی تم ہتھیار لگائے پھرتے ہو اور آج آمنہ کے بیٹے کو بغیر کسی قصور کے ابوجہل نے مارا ہے۔ حمزہؓ وہیںسے پلٹے اور جہاں ابوجہل مکہ کے دوسرے سرداروں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا وہاں پہنچے اور اُس کے سر پر زور سے کمان مار کر کہا محمدؐ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے صبر کیا اور تم نے اُس پر ظلم کیا۔ تم اگر اپنے آپ کو بہادر سمجھتے ہو اور تم میں طاقت ہے تو آئو اور مجھ سے مقابلہ کرلو۔ اس کے بعد وہ اِس جوش کی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس تشریف لے گئے۔ جس شخص کے دل پر قرآن سننے کا اثر نہیں ہوا تھا، جس شخص کے دل پر توحید کے وعظوں سے کوئی اثر نہیں ہوا تھا، جس شخص کے دل پر اخلاق کے نمونے اور تعلیم نے کوئی اثر نہیں کیا تھا، جس شخص کے دل پر صدقہ وخیرات نے کوئی اثر نہیں کیا تھا چونکہ وہ بہادر تھا یہ چیز اُسے کاٹ کر رکھ گئی کہ ایک بہادر آدمی صبر کرتا ہے اور ظالم سے مار کھا لیتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے آپؐ کے کمرے میںداخل ہوتے ہی کہا

اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِ لٰـہَ اِلَّاللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ

میں ایمان لاتا ہوں کہ خدا ایک ہے اور میں ایمان لاتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اُس کے رسول ہیں۔(سیرت ابن ہشام جلد1صفحہ 98-99۔ مطبوعہ مصر1295ھ)اگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بہادر نہ ہوتے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دلیر نہ ہوتے، اگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شجاع نہ ہوتے تو آپؐ کاصبر حمزہؓ کی ہدایت کا موجب کبھی نہیںہو سکتا تھاکیونکہ کمزور تو صبر کیا ہی کرتا ہے۔ بے شک کمزوروں پر ظلم بھی لوگوں کے دلوں میںرحم پیدا کرتا ہے مگروہ ظلم صرف رحم پیدا کرتا ہے ہدایت کاموجب نہیںہوتا۔ہدایت ہمیشہ طاقت ور کے ظلم کے نتیجہ میں ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ کمزور کے ظلم کو دیکھ کر لوگ رو دیتے ہیں،آہیں بھر دیتے ہیں مگرکمزور کے ظلم کو دیکھ کر مذہب تبدیل نہیں کرتے۔مذہب اُس وقت تبدیل کرتے ہیںجب وہ ایک بہادر اور جری انسان کو گالیاں سنتے اور صبر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تب وہ کہتے ہیں کہ اِس کا صبر کسی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ خدائی حکم کی وجہ سے ہے۔ پس جب مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ اپنے وقتوں میں سے کچھ وقت کھیلوں میں لگائو تو میںتمہیںیہ نہیں کہتا کہ تم اتنا وقت دنیا کے کاموں میں خرچ کرو بلکہ میں تمہیں اصلاح وہدایت کابہترین نمونہ بنانا چاہتا ہوں۔ جب تم کبڈی کھیلتے ہو یا کوئی اَور کھیل کھیلتے ہو اِس نیت اور ارادہ سے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو درحقیقت تم نیکی کرتے ہوکیونکہ تمہارا سب کام لوگوںکی ہدایت اور اسلام کو پھیلانے کے لیے ہے۔ پس بہادر بنو اور سچے بہادر بنو جیسا کہ میں نے بتایا ہے سچا بہادر وہ ہے جو ظلم کے وقت صبر سے کام لیتا اور طاقت رکھتے ہوئے عفو سے کام لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جب قربانی کا وقت آتا ہے وہ عواقب سے نہیں ڈرتا۔ بعض لوگ اس کے بُرے معنے لیتے ہوئے میری طرف غلط باتیں منسوب کیا کرتے ہیں مگر میں ان کے اعتراضوں سے ڈر کر اس سچائی کو نہیں چھپا سکتا جس کے بغیر اخلاق مکمل نہیں ہو سکتے اور جس کا دوسروں کو سکھانا میرا فرض ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button