بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر 6)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭…احمدیت کے غلبہ کی صورت میں دنیا کی سیاسی فضاکیسی ہو گی؟

٭…نماز میں التحیات پڑھتے وقت جب ہم

السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ

کہتے ہیں تو کہیں ہم شرک کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ہوتے کیونکہ یہ الفاظ تو زندہ انسانوں کےلیے بولے جاتے ہیں؟

٭… کیاجنازہ کے ساتھ خواتین قبرستان ساتھ جا سکتی ہیں نیزکیا تدفین کے وقت وہ مَردوں کے پیچھے کھڑی ہوں یا گاڑیوں میں بیٹھی رہیں؟

٭… حدیث ثقلین کی حقیقت کیا ہے؟

٭…حدیث

الصَّلَاةُ الْمَكْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ

کے ہوتے ہوئے افراد جماعت کےلیے کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا کیوں درست نہیں؟

٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین انگوٹھیاں بنوائی تھیں، دو انگوٹھیاں ہم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک میں دیکھی ہیں، تیسری انگوٹھی کس کے پاس ہے؟

٭…اگر تیسری جنگ عظیم ہوتی ہے تو کیا جماعت احمدیہ کے افراد بھی اس کی زَد میں آ سکتے ہیں؟

٭…عموماً نوجوان طبقہ کاروبار یا ملازمت کے سلسلے میں شہر چلا جاتا ہے، جس سے دیہاتی جماعتوں میں کارکنان اور عہدیدار احباب کی کمی ہوتی جارہی ہے، اس حالت میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟

سوال: مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کی طرف سے تیار کردہ تربیتی امور سے متعلق سوال و جواب پر مشتمل مسودہ میں ایک سوال کہ احمدیت کے غلبہ کی صورت میں دنیا کی سیاسی فضاکیسی ہو گی؟کے بارے میں رہ نمائی فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26؍مئی 2018ء میں فرمایا:

جواب: سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی دو حکومتوں کے آپس میں لڑنے اور باقیوں کو ان کے درمیان صلح کروانے کا جو حکم دیا ہے اس میں دراصل یہ پیشگوئی بھی ہے کہ جب ساری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہو جائے گا تو اس وقت بھی ساری دنیا میں ایک حکومت نہیں ہو گی بلکہ الگ الگ حکومتیں ہوں گی۔

پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب احمدیت کا غلبہ ہو گا تو دنیا میں سیاسی لحاظ سے اگرچہ الگ الگ حکومتیں ہوں گی جن کے ملکی قوانین اسلامی قوانین سے نہیں ٹکرائیں گے۔ لیکن اس زمانہ میں سیاست اور روحانیت کے معاملات الگ الگ طے ہوں گے۔ خلافت حقہ اسلامیہ تو ساری دنیا میں ایک ہی ہو گی اور تمام حکومتیں علمی اور روحانی اعتبار سے خلیفۂ وقت سے رہ نمائی حاصل کریں گی۔ لیکن ان کے سیاسی معاملات میں خلیفۂ وقت کا کوئی دخل نہیں ہو گا۔ اورکوئی خلیفہ خود فوج لےکر کسی حکومت پر حملہ آور نہیں ہوگا۔

سوال:ایک دوست نے سوال کیا کہ نماز میں التحیات پڑھتے وقت جب ہم

السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ

کہتے ہیں تو کہیں ہم شرک کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ہوتے کیونکہ یہ الفاظ تو زندہ انسانوں کےلیے بولے جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب عطافرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 06؍جون 2018ء میں فرمایا:

جواب: مستند احادیث سے ثابت ہے کہ تشہد میں پڑھی جانے والی یہ دعا آنحضورﷺ نے خود صحابہ کو سکھائی اور فرمایا کہ جب تم یہ دعا کرو گے تو تمہاری یہ مناجات زمین و آسمان میں موجود اللہ کے ہر نیک بندہ تک پہنچ جائیں گی۔

(صحیح بخاری کتاب الاذان)

گویا حضورﷺ نے خود یہ وضاحت فرما دی کہ تمہاری یہ دعا زندہ لوگوں کو بھی پہنچ رہی ہے اور جو وفات پا چکے ہیں انہیں بھی تمہاری دعا کی برکتیں مل رہی ہیں۔ پس اس قسم کی دعاؤں میں جو مخاطب کا صیغہ یا حرف ندا وغیرہ استعمال ہوتا ہے، اس سے کسی قسم کے وہم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری دعا کا مخاطب تو فوت ہو چکا ہے، اس لیےکہیں یہ شرک نہ شمار ہو۔

اس میں شرک والی کوئی بات نہیں، کیونکہ جس طرح اس دنیا میں ایک شخص کی آواز کو دوسرے شخص تک پہنچانے کےلیے اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ذریعہ بنایا ہے، اسی طرح روحانی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہماری مناجات کو فوت شدگان تک پہنچانے کےلیے اپنے فرشتوں کو ذریعہ بنایا ہے۔ چنانچہ جب ہم قبرستان جاتے ہیں تو وہاں پر جو دعا پڑھتے ہیں ، اس کی ابتدا بھی

’’السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُوْرِ‘‘

سے ہی ہوتی ہے، جس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہم ان مردوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں یا وہ ہمارے سامنے موجودہوتے ہیں۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ

السَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ

جو کہا جاتا ہے کیا اسے مردے سنتے ہیں؟ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا:

’’دیکھو! وہ سلام کا جواب وعلیکم السلام تو نہیں دیتے، خدا تعالیٰ وہ سلام (جو ایک دعا ہے) ان کو پہنچا دیتا ہے۔ اب ہم جو آواز سنتے ہیں اس میں ہوا ایک واسطہ ہے لیکن یہ واسطہ مردہ اور تمہارے درمیان نہیں لیکن السلام علیکم میں خدا تعالیٰ ملائکہ کو واسطہ بنا دیتا ہے۔اسی طرح درود شریف ہے کہ ملائکہ آنحضرتﷺ کو پہنچا دیتے ہیں۔‘‘

(اخبار بدر مؤرخہ 16؍مارچ 1904ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’فرط محبت یا فرط غم میں غائب کو ندا کی جاتی ہے اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ بجسد عنصری موجود ہو بلکہ اظہار محبت کا یہ ایک طریق ہے۔‘‘

(الحکم مؤرخہ 10؍فروری 1904ء)

سوال:ایک خاتون نے جنازہ کے ساتھ خواتین کے قبرستان جانے، تدفین کے وقت ان کے مردوں کے پیچھے کھڑے ہونے یا گاڑیوں میں بیٹھے رہنے کے بارے میں حضور انور سے مسئلہ دریافت کیا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 09؍جون 2018ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا، حضور انور نے فرمایا:

جواب:مستند احادیث سے پتہ چلتاہے کہ آنحضورﷺ نے عموماً خواتین کوجنازہ کے ساتھ قبرستان جانے سے منع فرمایا ہے لیکن اس بارے میں خواتین پر بہت زیادہ سختی بھی نہیں کی گئی اور اگر کسی خاص وجہ سے کوئی عورت جنازہ کے ساتھ دیکھی گئی تو اس سے آنحضورﷺ نے درگذر فرمایا۔

زمانہ جاہلیت میں میت پر نوحہ کا بہت زیادہ رواج تھا اور زیادہ تر نوحہ عورتیں ہی کیا کرتی تھی۔ اسلام نے نوحہ کو حرام قرار دیا تو اس کے ساتھ ہی عورتوں کو بھی عموماً میت کے ساتھ قبرستان جانے سے منع کر دیا گیا تا کہ ان میں سے کوئی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے تدفین کے وقت واویلے کی صورت پیدا نہ کردے۔علماء سلف اور فقہاء نے بھی خواتین کے جنازہ کے ساتھ جانے کوناپسندیدہ قرار دیا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک اور آپ کے بعد خلفائے احمدیت کے زمانہ میں عموماً یہی طریق رہا ہے کہ جنازہ پڑھتے وقت عورتوں کو الگ انتظام کے ساتھ نماز جنازہ میں تو شامل ہونے دیا جاتا ہے لیکن تدفین کے وقت عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

پس کسی خاص وجہ کے علاوہ عورتوں کو جنازہ کے ساتھ قبرستان نہیں جانا چاہیے، لیکن اگر کسی مجبوری کے تحت خواتین کو جنازہ کے ساتھ قبرستان جانا پڑ جائے تو جیسا کہ آپ نے اپنے خط میں تحریر کیا ہے انہیں تدفین کے وقت اپنی گاڑیوں میں ہی بیٹھے رہنا چاہیے اور قبر تیار ہونے پر مردوں کے وہاں سے ہٹ جانے کے بعد اگر وہ چاہیں تو قبر پر دعا کر سکتی ہیں۔

سوال:ایک دوست نے حضور انور کی خدمت اقدس میں حدیث ثقلین کی ثقاہت کے بارے میں کچھ روشنی ڈالنے کی درخواست کی ۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 29؍جون 2018ء میں اس سوال کا درج ذیل بصیرت افروز جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:اس بارے میں دو قسم کی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں۔ ایک میں

كِتَابَ اللّٰهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّه ِ

کے الفاظ آئے ہیں اور دوسری میں

كِتَابَ اللّٰهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي

کے الفاظ آئے ہیں۔

كِتَابَ اللّٰهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّه ِ

والی روایات ثقہ اور مستند ہیں۔ قرآن کریم دراصل خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور حضورﷺ کی سنت اس کلام کی عملی تفسیر ہے، جو دونوں لازم و ملزوم اور ہر قسم کے ظن سے پاک ہیں۔ اور یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کو مضبوطی سے تھامنے(یعنی ان کے احکامات پر عمل کرنے) والےکبھی گمراہ نہیں ہو سکتے۔ حضرت انس بن مالکؓ نے اپنی موطا میں اسے درج کیا ہے۔

جبکہ

وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي

والی روایات کو اگرچہ صحاح ستہ میں سے بعض کتب نے روایت کیا ہے لیکن امام بخاری نے اسے اپنی صحیح میں درج نہیں کیا ۔ علمائے حدیث نے ان روایات پر روایتاً اور درایتاً بہت کلام کیا ہے۔ نیزاسماء الرجال کی کتب میں ان روایات کے راویوں پر بہت زیادہ جرح کی گئی ہے اور ثابت کیاگیا ہے کہ ان کی اسناد میں ضرورکوئی نہ کوئی ایسا راوی ہے جس کی ہمدردیاں اہل تشیع کے ساتھ تھیں۔

ان روایات کے ایک راوی حضرت زید بن ارقم ؓکا اپنا بیان قابل غور ہے کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور بہت کچھ جو میں نے حضورﷺ سے سنا تھا بھول چکا ہوں۔

ان روایات کے ایک راوی حضرت جابر بن عبداللہؓ ہیں۔ ان سے مروی ایک مختصر روایت جو صحیح مسلم اور سنن ترمذی نے درج کی ہے اس میںكِتَابَ اللّٰهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي کے الفاظ بیان ہوئے ہیں لیکن حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سےیہی روایت جب تفصیل کے ساتھ صحیح مسلم ، سنن ابن ماجہ نے درج کی تو ان میں کہیں وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي کے الفاظ درج نہیں کیے بلکہ صرف كِتَابَ اللّٰهِ کے الفاظ روایت کیے ہیں۔

پس موطا امام مالک ، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ وغیرہ کی صرف وہ روایات قابل اعتماد اور روایتاً اور درایتاً قابل قبول ہیں جن میں کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا ذکر ہے یا کتاب اللہ اورحضورﷺ کی سنت پر چلنے کا ذکرکیا گیا ہے۔ اور باقی سب ایسی روایات جن میں کتاب اللہ کے ساتھ أَهْلَ بَيْتِي یا وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِيکے الفاظ آئے ہیں، وہ جیسا کہ علمائے حدیث اور ماہرین اسماء الرجال نے بیان کیا ہے،قابل قبول نہیں ہیں۔

سوال:ایک دوست نے حدیث

الصَّلَاةُ الْمَكْتُوْبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ(سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ)

کی روشنی میں دریافت کیا ہے کہ افراد جماعت کےلیے کسی غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا کیوں درست نہیں؟اس سوال کا جواب عطا فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 05؍اکتوبر 2018ء میں فرمایا:

جواب: یہ مکمل حدیث سنن ابی داؤد کتاب الجہاد میں اس طرح درج ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجِهَادُ وَاجِبٌ عَلَيْكُمْ مَعَ كُلِّ أَمِيْرٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَالصَّلَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَيْكُمْ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ وَالصَّلَاةُ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا كَانَ أَوْ فَاجِرًا وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ۔

گویا اس میں صرف نماز پڑھنے کے بارے میں ارشاد نہیں فرمایا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر امیر کی قیادت میں جہاد کرو اور ہر مسلمان کی نماز جنازہ ادا کرو۔لیکن آنحضورﷺ کی اپنی سنت اس سے مختلف ہے کیونکہ حضورﷺ نے نہ مقروض کی، نہ خیانت کرنے والے کی اور نہ ہی خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ خود پڑھی۔

اسی لیے علمائے حدیث نے اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے اور اس روایت کی سند پر کئی اعتراضات اٹھائے ہیں۔

علاوہ ازیں کتب احادیث میں حضورﷺ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ

’’لَا يَؤُمَّنَكُمْ ذُوْ جُرْأَة فِي دِيْنِهِ‘‘

یعنی کوئی ایسا شخص جو اپنے دین میں بے باک ہو گیا ہو یا دینی احکامات کا خیال نہ رکھتا ہو وہ تمہاری امامت ہر گز نہ کروائے۔

امامت کے حوالہ سے سب سے بڑھ کر وہ حدیث ہے جس میں آنحضرتﷺ نے آنے والےمسیح موعود کے بارہ میں فرمایا ہے کہ

وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ۔

یعنی اس وقت تمہارا امام تم میں سے ہی ہو گا۔اور یہ حدیث کتب احادیث کی سب سے مستند کتب بخاری اور مسلم دونوں میں موجود ہے۔

حضورﷺنےاس حدیث میں فرمایا ہے کہ فاسق فاجر کے پیچھے نماز پڑھو، یہ نہیں فرمایا کہ مکفر اور مکذب کے پیچھے نماز پڑھو۔ پس اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا مطلب صرف یہ ہو گا کہ حضورﷺ دراصل ہمیں ایک انتظامی امر کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ جب اپنے لوگوں میں سے کسی کو امام بنا دیا جائے تو اس کے اعمال میں تجسس کر کےاس کی خامیاں تلاش کرنے کی کوشش نہ کیا کرو بلکہ پوری اطاعت کے ساتھ اس کی اقتدا میں نماز ادا کر کے اس کی قبولیت کا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا کرو۔

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ سوئٹزرلینڈ کی نیشنل مجلس عاملہ کی مورخہ 07؍نومبر 2020ء کو ہونے والی Virtualملاقات میں ایک ممبر عاملہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تین انگوٹھیاں بنوائی تھیں، دو انگوٹھیاں ہم نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک میں دیکھی ہیں، تیسری انگوٹھی کس کے پاس ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا جواب عطا فرماتے ہوئے فرمایا:

جواب:

أَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَہٗ

والی انگوٹھی حضرت اماں جان ؓنے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو دےدی تھی اور دوسری انگوٹھی جس پر

غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَقُدْرَتِیْ

کا الہام درج تھا،حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو دےدی تھی اور ’’ مولیٰ بس‘‘ والی انگوٹھی حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کو دےدی تھی۔ أَلَيْسَ اللّٰهُوالی انگوٹھی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو دی تھی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے وصیت کی تھی کہ میرے بعد یہ انگوٹھی جو بھی خلیفہ بنے گا، اس کو ملے گی اوربجائے ذاتی ہونے کے خلافت کو منتقل ہو جائے گی۔ لیکن جو دوسری دو انگوٹھیاں تھیں وہ دونوں بھائیوں نے اپنے پاس رکھی رکھیں۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی انگوٹھی جو تھی ان کی وفات کے بعد میرے والد صاحب کے پاس آئی۔ اس کے بعد میری والدہ نےان کی وفات کے بعدمجھے دےدی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے جب خلافت کا منصب دیا تو میں نے وہ انگوٹھی پہننی بھی شروع کر دی۔ تیسری انگوٹھی جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے پاس تھی، وہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی وفات کے بعد حضرت مرزا مظفر احمد صاحب کو منتقل ہو گئی تھی۔ حضرت مرزا مظفر احمد صاحب کےکوئی اولاد نہیں تھی تو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی بیٹی امۃ الجمیل صاحبہ اور محترم ناصر احمد سیال صاحب ابن حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ؓکے بیٹے کو لے پالک بنایا تھا،اور وہ ان کے ساتھ رہا، ان کے گھر میں پلا بڑھا،تواس کے بعد انہوں نے وہ انگوٹھی اس کو دےدی وہ آجکل امریکہ میں رہتا ہے۔

سوال: اسی ملاقات مورخہ07؍نومبر2020ء میں ایک اور ممبر عاملہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور انور نےگذشتہ روز کے خطبہ جمعہ میں تیسری جنگ عظیم کا ذکر فرمایا تھا۔ اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو کیا جماعت احمدیہ کے افراد بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا درج ذیل الفاظ میں جواب عطافرمایا۔حضورانورنےفرمایا:

جواب:مثال تو یہ ہے ناں کہ آٹے کے ساتھ گھن بھی پستا ہے۔ہم گھن تو نہیں ہیں لیکن جب دنیا پہ اثرات ہوں گے تو احمدی بھی اس کی زد میں آئیں گے لیکن ان کی بہت معمولی تعداد ہو گی۔اسلام کی فتوحات کےلیے جو جنگیں ہوئی تھیں،اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کی تھی کہ جنگیں تم جیتو گے اور آنحضرتﷺ کے زمانہ میں جنگیں جیتتے رہےلیکن کیا صحابہ شہید نہیں ہوتے رہے؟اب بیماریاں آتی ہیں۔ ان بیماریوں کےلیے نشانات آرہے ہیں، زلزلے آ رہے ہیں، طوفان آ رہے ہیں۔ ان میں بعض دفعہ بعض احمدیوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

اگر ہم اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق پیدا کیے رکھیں گےتو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے

جوکہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

اگر ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق صحیح ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے، اس کی تعلیم پہ عمل کرنے والے ہوں گے،اس کے بندوں کے حق ادا کرنے والے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ ہمارے نقصانوں کو بہت کم کر دے گا۔اور ہمیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بچا لے گا،اور دنیا کو پھر سبق ملے گا۔لیکن اس سے پہلے اگر ہم یہ حق ادا کر رہے ہیں تو ہمیں دنیا کو بتانا ہوگا کہ ان آفات کی وجہ اور جنگ کی وجہ خدا سے دوری ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا نہ کرنے ہیں۔ اس لیے تم لوگ سنبھل جاؤ۔ جب جنگ عظیم ختم ہو گی تو لوگوں کو پتہ ہو گا کہ ہاں ایک طبقہ، ایک قوم، مسلمانوں کا ایک فرقہ، ایک جماعت ہمیں یہ تلقین کیا کرتی تھی، تب ان کا خدا تعالیٰ کی طرف رجوع پیدا ہو گا۔ اس وقت وہ آپ کی طرف آئیں گے۔

پس اگر تو ہم اپنے حق ادا کر رہے ہیں تو آئندہ جنگ عظیم کے بعدجو جماعت کی ترقی کے نشانات ہیں وہ ہم دیکھیں گے۔اور اگر ہم حق ادا نہیں کر رہے اور ہمارا بھی دنیا داروں کی طرح حال ہے، دنیا میں ڈوبے ہوئے ہیں، پانچ وقت کی نمازوں کو بھول گئے ہیں،اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کو بھول گئے ہیں، لوگوں کے حق ادا کرنے کو بھول گئے ہیں تو پھر ہم بھی(اس جنگ کے اثرات کی زد میں) چلے جائیں گے۔ہماری کوئی گارنٹی تو نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہوئی ہے کہ تم نے بیعت کر لی ہے تو تم بچ جاؤ گے۔بیعت کے ساتھ شرائط ہیں، وہ ہم پوری کریں گے تو بچ جائیں گے۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ آگ سے وہ بچائے جائیں گے جب تم شرائط پوری کرو گے۔ اللہ تعالیٰ سے پیار کا اظہار صرف زبانی نہیں ہوگا بلکہ عملی اظہار ہو گا۔ تب تم بچائے جاؤ گے۔

سوال:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ بنگلہ دیش کے مربیان کی مورخہ 08؍نومبر 2020ء کو ہونے والی Virtualملاقات میں ایک مربی صاحب نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ عموماً نوجوان طبقہ کاروبار یا ملازمت کے سلسلے میں شہر چلا جاتا ہے، جس سے دیہاتی جماعتوں میں کارکنان اور عہدیدار احباب کی کمی ہوتی جارہی ہے، اس حالت میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا جواب عطا فرماتے ہوئے فرمایا:

جواب: یہ تو دنیا کا قانون ہے ، ہر جگہ دنیا میں اسی طرح ہوتا ہے کہ جوRural Area،دیہاتی ایریا ہےوہاں سے Urban Areaمیں Migrationہوتی ہے، شہری علاقہ میں Migrationہوتی ہے۔ اور جہاں قوموں نے ترقی کرنی ہوتی ہے یہ Naturalچیز ہے۔چھوٹےعلاقے ہیں، قصبے ہیں، گاؤں ہیں ان کی آبادیاں تیزی سے بڑھ رہی ہوتی ہیں۔اگر آبادیاں وہیں رہیں گی اور پڑھ لکھ کے شہر میں نہیں آئیں گی تو پھر ترقی نہیں ہو سکتی۔ یہ تو نشانی ہے اس بات کی کہ شہروں میں ترقی کے مواقع زیادہ ہیں اور قوم ترقی کر رہی ہے۔ یا پڑھائی کے مواقع زیادہ ہیں اور وہ پڑھائی کر کے آگے بڑھ رہے ہیں۔

ہاں بنگلہ دیش میں آپ کی ایک Economistتھی اس نے Cottage Industryکا سسٹم شروع کیا تھا کہ بجائے باہر جانے کےدیہاتوں میں اور چھوٹے قصبوں میں Cottage Industry ہو اور لوگ وہیں کام کریں اور وہیں ان کو Investmentکرنے کے مواقع میسر آجائیں۔ اگر ویسے کوئی مواقع میسر آ جائیں تو بڑی اچھی بات ہے، جماعت کے لوگوں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور پھر وہاں رہ کے کام کرنا چاہیے۔ لیکن جو بہت زیادہ پڑھے لکھے ہیں، جن کو تعلیم حاصل کر کے پھر آگے بڑھنے کے زیادہ مواقع میسر آ رہے ہیں، انہوں نے تو ظاہر ہےباہر جانا ہے۔پھر اس کا یہی علاج ہے کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں وہ اپنا کام زیادہ سے زیادہ نبھانے کی کوشش کریں اور بیعتیںکرانے کی کوشش کریں، زیادہ تبلیغ کریں، لوگوں کو زیادہ جماعت کا تعارف کروائیں اور جو نوجوان نسل نیچے سے اٹھ رہی ہے ، اطفال میں سے خدام میں آ رہے ہیں ان میں احساس ذمہ داری پیدا کریں کہ وہ زیادہ سے زیادہ جماعت کا کام کر سکیں۔

دیکھیں حصول معاش کےلیے انہوں نے باہر جانا ہی جانا ہے۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ ایک تو ان علاقوں میں بیعتیں کروائیں ،دوسرے جو نئی نوجوان نسل ہےاس کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ جماعت کو سنبھال سکیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button