نماز

نماز میں السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کہنا شرک نہیں ہے؟

سوال:ایک دوست نے سوال کیا کہ نماز میں التحیات پڑھتے وقت جب ہم

السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ

کہتے ہیں تو کہیں ہم شرک کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ہوتے کیونکہ یہ الفاظ تو زندہ انسانوں کےلیے بولے جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب عطافرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 06؍جون 2018ء میں فرمایا:

جواب: مستند احادیث سے ثابت ہے کہ تشہد میں پڑھی جانے والی یہ دعا آنحضورﷺ نے خود صحابہ کو سکھائی اور فرمایا کہ جب تم یہ دعا کرو گے تو تمہاری یہ مناجات زمین و آسمان میں موجود اللہ کے ہر نیک بندہ تک پہنچ جائیں گی۔

(صحیح بخاری کتاب الاذان)

گویا حضورﷺ نے خود یہ وضاحت فرما دی کہ تمہاری یہ دعا زندہ لوگوں کو بھی پہنچ رہی ہے اور جو وفات پا چکے ہیں انہیں بھی تمہاری دعا کی برکتیں مل رہی ہیں۔ پس اس قسم کی دعاؤں میں جو مخاطب کا صیغہ یا حرف ندا وغیرہ استعمال ہوتا ہے، اس سے کسی قسم کے وہم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری دعا کا مخاطب تو فوت ہو چکا ہے، اس لیےکہیں یہ شرک نہ شمار ہو۔

اس میں شرک والی کوئی بات نہیں، کیونکہ جس طرح اس دنیا میں ایک شخص کی آواز کو دوسرے شخص تک پہنچانے کےلیے اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ذریعہ بنایا ہے، اسی طرح روحانی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہماری مناجات کو فوت شدگان تک پہنچانے کےلیے اپنے فرشتوں کو ذریعہ بنایا ہے۔ چنانچہ جب ہم قبرستان جاتے ہیں تو وہاں پر جو دعا پڑھتے ہیں ، اس کی ابتدا بھی

’’السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقُبُوْرِ‘‘

سے ہی ہوتی ہے، جس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہم ان مردوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں یا وہ ہمارے سامنے موجودہوتے ہیں۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ

السَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ

جو کہا جاتا ہے کیا اسے مردے سنتے ہیں؟ اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا:

’’دیکھو! وہ سلام کا جواب وعلیکم السلام تو نہیں دیتے، خدا تعالیٰ وہ سلام (جو ایک دعا ہے) ان کو پہنچا دیتا ہے۔ اب ہم جو آواز سنتے ہیں اس میں ہوا ایک واسطہ ہے لیکن یہ واسطہ مردہ اور تمہارے درمیان نہیں لیکن السلام علیکم میں خدا تعالیٰ ملائکہ کو واسطہ بنا دیتا ہے۔اسی طرح درود شریف ہے کہ ملائکہ آنحضرتﷺ کو پہنچا دیتے ہیں۔‘‘

(اخبار بدر مؤرخہ 16؍مارچ 1904ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’فرط محبت یا فرط غم میں غائب کو ندا کی جاتی ہے اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ بجسد عنصری موجود ہو بلکہ اظہار محبت کا یہ ایک طریق ہے۔‘‘

(الحکم مؤرخہ 10؍فروری 1904ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button