متفرق مضامین

حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے مطہّر دن مقدس راتیں

(امۃ الباری ناصر)

آپ چل کر تو نے دکھلادی رہِ وصلِ حبیب

ہم کو بتلایا کہ یوں ملتا ہے یارِ بے نشاں

(حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ )

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔ (آل عمران:32)

تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی محبت، رحم اور بخشش حاصل کرنے کے لیے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی اتباع لازم ہے۔ آپؐ وجہ ِتخلیق کائنات ہیں۔آپؐ مطلوب ِخالق و مخلوق ہیں ۔آپؐ محبوب ساجدو مسجود ہیں ۔آپؐ مقصود ِعابد و معبودہیں ۔آپؐ مجسم قرآن اور مظہرِ نورِ الٰہی خدا نما ہستی ہیں ۔آپؐ رحمۃ للعا لمینؐ اور شفیع المذنبینؐ ہیں ۔صاحب ِمعراج اورصاحبِ قرآن ہیں آپؐ وہ نبیٔ کامل ہیں جن پر خود اللہ تعالیٰ اور اُس کے ملائک درود و سلام بھیجتے ہیں۔ آپؐ کی بیعت اللہ کی بیعت ہے (الفتح : 11)آپؐ کی پیروی اللہ تعالیٰ کی پیروی ہے اور اللہ پاک کو اس قدر پیاری ہے کہ جو اس کے محبوب سے محبت کرتا ہے اسے اپنی محبت عنایت فرماتا ہے۔ آپؐ کی اتباع کےلیے آپؐ کی سیرت و سوانح کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ آپؐ ایسا کیا کرتے تھے جو محبوبِ خدا ٹھہرے؟مولیٰ کریم نے آپؐ کوساری انسانیت سے چن لیا۔ خیر البشر اور خاتم النبیینؐ بنایا ۔آپؐ کیسے نظر آتے ہوں گے ؟ شب و روز کے معمولات کیا ہوں گے ؟ یہ سب جاننے کی خواہش میں قرآن پاک، احادیث اور اسوۂ حسنہ کی کتب سے آپؐ کے روزو شب، مطہّر دنوں اور مقدس راتوں کا تصوّر باندھا ہے جو آپ کی خدمت میں اس اعتراف کے ساتھ پیش کرتی ہوں کہ آپؐ کے خلقِ عظیم کے حسن کے بیان کا حق ادا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ لاکھوں درود و سلام کے ساتھ مختلف جگہوں اور مختلف اوقات کے واقعات یکجا کرکے آپؐ کی ایک پیاری سی تصویر بنائی ہے جسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ پر ایمان بڑھتا ہے۔

شانِ حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے

تیرے پانے سے ہی اُس ذات کو پایا ہم نے

یااللہ! ہزاروں لاکھوں درود وسلام ہوں شہِ لولاکؐ پر جو مافوق الفطرت نہیں تھےگوشت پوست کے انسان تھے بشری ضرورتیں بھی لاحق تھیں۔ پھر آپؐ کیسے فرشتوں سے آگے بڑھ گئے اور صاحبِ قوسین اور مظہرِ اتم الوہیت کے آخری روحانی مقام پر پہنچ گئے۔

نصف یا اس سے بھی زیادہ رات عبادت میں گزارنے والے کے دن کی ابتدا طلوع آفتاب سے پہلے تہجد سے ہوتی ہے رات کا پچھلا پہر ہے،آپؐ بستر سے اُٹھ جاتے ہیں،وضو اور مسواک کے بعد سنوار کر پیار سے نفل ادا فرماتے ہیں، قرآن پاک کی لمبی لمبی تلاوت فرماتے ہیں، تھوڑا سا آرام کرتے ہیں، اتنے میں صبح کی سہانی فضا میں حضرت سیدنا بلالؓ کی آوازِاذان گونجتی ہے۔ گھر میں دو سنت ادا کرکے مسجد تشریف لے آتے ہیں۔ یہاں نمازی دیوانہ وار رسالت مآبؐ کی امامت میں نماز فجر کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کچھ عرصہ پہلے دن رات عورتوں اورشراب و کباب، رقص و سروداور راگ رنگ میں مست دعوتِ عیش دیا کرتے تھے۔ اللہ رجوع برحمت ہوا اور ایک مسیحا نفس فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعاؤں نے ان کی کایا پلٹ دی اب ان کی اعلیٰ لذّات ان کے خدا میں ہیں۔ اب وہ سحر خیز نمازی ہیں۔ چہروں پر نور آ گیا ہے اور قلبِ نہاں پر خدا کی محبت کے ٹھنڈے سائے ہیں۔ آپؐ نمازفجر کی امامت فرماتے ہیں۔ نماز آپؐ کی آ نکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نماز ختم کرنے کو دل نہیں چاہتا لمبی لمبی سورتوں کی پُر سوز تلاوت فرماتے ہیں خوش الحانی ایسی کہ کائنات رقص کرتی ہے سادہ سی مسجد ہے جس کی چھت کھجور کے پتوں کی ہے بارش ہو تو پانی ٹپکتا ہے اور ریتلی کنکروں والی زمین ہے چٹائیاں ہیں بھی تو کنکروں کا نوکیلا پن کہاں روک سکتی ہیں۔ اس مسجد کی کوئی تزئین و آرائش نہیں لیکن یہ دنیا کی سب سے زیادہ بھاگوں والی مسجد ہے۔ اس کی سجاوٹ اس کے نمازیوں کا تقویٰ ہے نماز کے بعد شہنشاہِ دو جہاںؐ اپنا رخ انور نمازیوں کی طرف کرکے کچھ دیر بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا دلربا حسن ہے !

اِنِّیْ اَرَی فِیْ وَجْھِکَ الْمُتَھَلِّلٖ

شَاْنًا یَّفُوْقُ شَمَائِلَ الْاِنْسَانٖ

چاند سے زیادہ حسین گول چہرہ گندم گوں سفیدی مائل رنگت ہلکے خمدار بال داڑھی گھنی اور خوبصورت پیشانی اور ناک اونچی آ نکھیں سیاہ پلکیں دراز جسم در میانہ جلد ملائم جسم اور پسینہ سے اُ ٹھتی ہوئی گلاب کی خوشبو، سر بڑا، سینہ فراخ، ہاتھ پاؤں بھرے بھرے، گفتگو میں آ ہستگی۔ چہرے پر متانت اور دلآویزمسکراہٹ، خالق ِکائنات مصور ازل کا یہ شاہکار حسنِ سیرت اور حسنِ صورت دونوں میںبے مثال ہیں۔ شہنشاہِ دو جہاں کے اس در بار میں کوئی امتیاز ی نشست نہیں ہے۔ کھجور کے درخت کا پرانا تنا ہے جس سے ٹیک لگا لیتے ہیں۔ اس الوہی مجلس میں تدریس قرآن کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تازہ نازل ہونے والی آیات سناتے ہیں۔ اللہ جل شانہ نے آنحضورﷺ کوقرآن کی امانت سنبھالنے کے قابل سمجھا ہے آپؐ اس کےمعلّم اور مفسّر ہیں تئیس سال یہ سلسلہ جاری رہا آسمان سے نور کی مسلسل بارش ان خاک نشینوں میں آسمانی نور بھر دیتی ہے۔ قرآن سیکھنا سکھانا جاری رہتا ہے۔ اصحاب رسول اللہؐ شوق سےقرآن پاک سنتے ہیں اکثر تو ساتھ ساتھ حفظ کر تے ہیں۔ قرآن امام ہے۔ قرآن نورہے۔ قرآن ہدایت ہے۔ قرآن رحمت ہے۔ اسی سے وہ آتشِ عشق بھڑکتی ہے جو ان کے دلوں میں بسنے والے ہر قسم کے بُتوں کو بھسم کر دیتی ہے۔ وہاں صرف خدائے واحد کا تخت بچھتا ہے۔ آپؐ نزول کے ساتھ کاتبین وحی سے نئی آیات کا مقام متعین کرکے قرآن میں لکھواتے ہیں۔ آسمان سے احکام آنے کے ساتھ عمل شروع ہوجاتا ہے ایک نیا اسلامی معاشرہ جنم لے رہا ہے۔ یہ بڑی بابرکت محفل ہے آپؐ کسی بیمار سے طبیعت دریافت فر ماتے ہیں۔ کسی کے خواب کی تعبیربتاتے ہیں۔ کبھی اپنا خواب سناتے ہیں۔ کوئی صاحب مسجد سے غیر حاضر ہیں تو ان کے متعلق دریافت فرماتے ہیں:

سرور خاصانِ حق شاہِ گروہِ عاشقان

آنکہ روحش کرد طَے ہر منزلِ و صلِ نگار

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 23)

ترجمہ:وہ خاصانِ حق کا سردار اور عاشقانِ الٰہی کی جماعت کا بادشاہ ہے جس کی روح نے معشوق کے وصل کے ہر درجے کو طے کر لیا ہے۔

ناشتے کا خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا پانی میں شہد ڈال کر پینا معمول تھا۔ کچھ کھانے کے لیے میسر ہوا تو کھالیا نہیں تو روزے کی نیت کرلی۔

دن چڑھتا تو اس او لوالعزم شخص کی مصروفیات شروع ہوجاتیں۔ آپؐ کی مصروفیات کیا ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی۔

…اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ(الانعام :163)

…میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مَرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

آپؐ کے شب و روز قریب سے دیکھنے کے لیے صحرائے عرب کی پیاری بستیوں کا نقشہ ذہن میں لائیے۔ چھوٹے بڑے کچے پکے ساتھ ساتھ ملے ہوئے مکان اکثر مکانوں پر کھجور کے پتوں کی چھتیں ہیں۔ دروازوں کے آگے ٹاٹ یا کمبل کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ لوگ اونٹوں، گھوڑوں اور گدھوں پر سواری کرتے ہیں بکریاں بھی پالتے ہیں کھیتی باڑی بھی ہوتی کھجور کے درخت ہیں جن سے کئی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں دن کی گہما گہمی نمازوں کے اوقات کے ساتھ گھٹتی بڑھتی ہے تجارتی قافلوں کی آمد ورفت رونقیں بڑھاتی ہے۔ اونٹوں کی گردنوں میں بندھی گھنٹیوں کی آ واز ایک معمول ہے گلیوں میں بچے نیزہ بازی شمشیر زنی اور گھڑ سواری کی مشقیں کرتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہیں مائیں دودھ کے ساتھ اسلام کی خاطر جینے مرنے کا جذبہ پلاتی ہیں۔

پیغام حق دینا اولین ذمہ داری ہے۔ تلاش میں ہیں کہ وہ کیا خدمت بجا لائیں جس سے خدا کی خوشنودی حاصل ہو۔ خدمت خلق کا کوئی بھی کام، بیواؤں کا سودا لانا، بیماروں کی عیادت کرنا۔ غریبوں کی مدد کرنا حتیٰ کہ فرصت ملتی تو اپنے ہاتھ سے کسی غریب کا جوتا مرمت کردیتے یا کسی ضرورت مند کے کپڑے سی دیتے ہیں۔

بچوں کی تربیت کرنے کو اہمیت دیتے ان کو سلام میں پہل کرتے باتوں باتوں میں اللہ پاک کی محبت کا جادو جگاتے۔ ادب آداب کی باتیں، سچ جھوٹ کی تمیز اور آپس میں محبت سے رہنے کا سبق دیتے۔ کبھی اذان کا مقابلہ کرواتے قرآن سنتے۔ اسلام کے احکام اور ان کی حکمت بتاتے۔ اصلاحِ خلق کی خاطر بُرائی جڑ سے اُکھیڑ دینے کے لیے چھوٹی سے چھوٹی بات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ بازار سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ ایک دکاندار اپنے سامنے غلّے کا ڈھیر لگائے بیٹھا ہے۔ دام در یافت کیے تو مناسب لگے آپؐ آگے نہیں چلے صرف دام نہیں گندم بھی تو دیکھنی تھی معیاری ہے یا نہیں اپنا ہاتھ غلے کے ڈھیر میں گھُسا دیتے ہیں تا کہ جانچ سکیں کہ ایسا تو نہیں اوپر اچھی خشک گندم ہو اور اندر گیلی گندم چھپائی ہو۔ محسوس فرمایا کہ اندر کے حصے میں کچھ نمی ہے دکاندار نے غلط کام کیا تھا۔ فرمایا من غشنا فليس مناجو ہمیں دھوکا دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔ بے احتیاطی، لا پرواہی، دانستہ دھوکا دینے کے جرم کی ایک سزا تجویز فرمائی ’’ایسے شخص کا ہم سے تعلق نہیں ہوگا۔ ‘‘ یہ اتنی سخت سزا تھی کہ کوئی بھی کسی چھوٹے بڑے ناحق فائدے کے لیےآنحضورﷺ سے ناتا توڑنا گوارا نہ کرتا قیامت تک کے لیے کاروبار ی معاملات میں دیانت داری کی تعلیم دے دی کہ ایمان دار ہی امین و صادق سے منسوب ہو سکتے ہیں۔ اپنے صحابہؓ کو سادگی اور دنیاوی عیش سے بے رغبتی کی تعلیم دیتے۔ ایک دفعہ کہیں تشریف لے جارہے تھے دیکھا کہ ایک مکان دوسرے مکانوں سے قدرے اونچا ہے۔ آپؐ نے رُک کر اسے دیکھا اور اس طرح دوسروں سے نمایاں ہوکر بڑائی کا احساس ظاہر کرنے سے منع فرمایا۔ دنیاوی قیام عارضی ہے یہاں رہنا نہیں تو سجاوٹیں کیا کرنی۔ آپؐ فرماتے زندگی تو ایسی ہے جیسے ایک مسافر کسی درخت کے نیچے کچھ دیر بیٹھ کر آرام کرے اور پھر آگے چل دے۔

کوئی مخبر اطلاع دیتا ہے کہ کوئی دشمن لشکر کشی کا ا رادہ رکھتا ہے۔ مناسب معلومات کے بعد جہاد کا فیصلہ ہوتا ہے یہاں کوئی چھاؤنی یاجنگی تربیت حاصل کرنے والی مخصوص فوج نہیں ہے جسے کوچ کا حکم دینا ہے۔ ہر شخص اسلام کا سپاہی ہے گھر گھر جنگی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں بستی کا ماحول بدل جاتا تلواریں چمکائی جا رہی ہیں جس کے پاس جو کچھ ہے جنگ کی تیاری کے لیے پیش کر دیتا ہے کوئی آدھا مال لا رہا ہے تو کوئی اپنا سارا مال قدموں میں ڈھیر کر دیتا ہے۔ یہ یقین ہے کہ سرِ راہ پر مولیٰ کریم کھڑا ہے کوئی پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ ضد اور اصرار اس پر ہے کہ ہمیں شامل کیا جائے اس پر نہیں کہ پیچھے رہنے دیا جائے۔ کسی پروانۂ توحید پر تشدّد کی خبر آپؐ کے لیے بہت تکلیف دِہ ہوتی آپ انتہائی نرم دل رکھنے والے ہیں زیادتی اور ظلم کہیں بھی ہو انسانوں سے، جانوروں سے، پرندوں سے آپؐ تڑپ جاتے ہیں اسے دور کرنے کی ہر کوشش کرتے ہیں ہرانسان کا دُکھ اپنا دُکھ سمجھتے ہیں۔ آپؐ کل عالمین کے لیےرحمت ہیں۔ سب کے لیے خیر کی دعا کرتے اکثر راتیں اُمّت کی مغفرت کے لیے دعا میں گزر جاتیں حتّیٰ کہ دشمنوں اور تشدّد کرنے والوں کو بھی دعا میں شامل رکھتے اس امید سے کہ ان کی اولادوں سے توحید کے پرستار پیدا ہوں گے۔ انہیں پتھروں سے قطرات محبت ٹپکیں گے آپؐ کی خوشی کسی روح کو آستانۂ الٰہی پر جھکانے میں ہے۔ مولا کریم آپؐ کی خوشی کے سامان کرتا ہے کوئی شخص یا قبیلہ اسلام قبول کر نے آجاتا ہے بستی میں حمدو شکر اور خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے یہی اُن پاک نفوس کی حقیقی خوشی اور عید ہے۔ دلوں پر پیغامِ محمدﷺ کا جادو چل رہا ہے۔ کشاں کشاں پروانے شمع کے گرد جمع ہورہے ہیں۔ نَو واردان مختلف الخیال لوگ ہیں لا مذہب یا ہر مذہب کی بگڑی ہوئی صورت کے برائے نام عامل ان کی تعلیم و تر بیت بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔ آپؐ راتوں کو جاگ جاگ کر مقلب القلوب سے دعا کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کا جلوہ دیکھ لینے والے موم کی طرح پگھل کر آستانہ الوہیت پر گِر جاتے۔ ہر نیک عمل پر جزا میں خدا کی خوشنودی کی حرص میں صحابہ کرامؓ سر دھڑ کی بازی لگانے کو سعادت سمجھتے۔ اسلام فروغ پارہا ہے اللہ پاک کے قرب کا میدان کھلا ہے باری تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا درجہ سب سے بڑے متقی کا ہے جس میں رنگ و نسل کی کوئی تفریق نہیں۔ خدا کی راہ میں شہید ہونا سب سے بڑی سعادت ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ خدا اور رسولِ خداﷺ کے عشق کی سر شاری نے خدا نما انسان پیدا کیے۔ اطاعت کا رنگ دیکھیے سب کے محبوبؐ ایک تقریر کے دوران فر ماتے ہیں ’’ بیٹھ جاؤ‘‘ تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ یہ آواز سُن کراُسی لمحے مسجد کے راستے کی ایک گلی میں بیٹھ جاتے ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں آج سے شراب حرام ہوگئی تو برسوں سے شراب کے عادی لوگوں نے شراب کے مٹکے توڑ دیےاور مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ ایک محفل ِمے نوشی میں یہ بھی ہوا کہ ایک شخص نے کہا لگتا ہے اعلان ہو رہا ہے کہ شراب حرام ہو گئی ہے کوئی پتہ کر کے آئے دوسرے نے کہا پہلے موجود شراب بہا دو اگر اعلان واقعی شراب کے منع ہونے کا ہے تو ہم اطاعت میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ خواتین بھی اطاعت میں پیچھے نہ تھیں حکم ہوا آج سے عورتیں اپنے لباس کے اوپر خمار اور جلباب اوڑھیں گی۔ اس کی جس رنگ میں اطاعت ہوئی ایک روایت ہے کہ حکم ہوا توعورتوں نے سروں پر چادر وں کو منہ کے آگے کھینچنا شروع کیا کر دیا۔

خُلقِ قرآن کا مجسم نمونہ پیارے حبیب سہ پہر کو راستے میں ایک مزدور کو شدید گرمی میں پسینے میں شرابور محنت کرتے دیکھتے ہیں دلداری کے لیے پیچھے سےآ تے ہیں اس کی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں بوجھو تو کون ہوں اس تھکے ماندے محنت کش کے لیے کس قدر خوشی کا سامان کردیا۔

گھر تشریف لاتے ہیں چہرے پر پیار بھری مسکراہٹ ہے قدم دھیرے دھیرے رکھتے ہیں۔ کوئی سو رہا ہو تو نیند خراب نہ ہو۔ خود بھی قیلولہ فرماتے ہیں۔ گھر میں کچھ کھانے کو ہوتا تو تناول فرمالیتے کبھی فرمائش کرکے کھانا بنوایا نا ہی ماحضر پر تنقید فرمائی اکثر کچھ کھجوریں اور جَو کی روٹی ہوتی۔ وہ بھی اگر کوئی سائل آواز دے دیتا تو اُسے عنایت فر مادیتے اور سادہ پانی پی کر خدا کا شکر ادا فر ماتے۔ دو وقت لگا تار پیٹ بھر کر کھانا میسر نہ ہوا خوراک بے حد سادہ اور کم تھی۔ وسائل کی کمی نہیں ہے ؟ آپؐ کے لیے تو کائنات اور اس کے سب خزائن بنے ہیں۔ مگراللہ تعالیٰ نے آپؐ کو سکھایا تھا:

’’اپنی آنکھیں اس عارضی متاع کی طرف نہ پسار جو ہم نے ان میں سے بعض گروہوں کو دنیوی زندگی کی زینت کے طور پر عطا کی ہے تاکہ ان کی آزمائش کریں اور تیرے رب کا رزق بہت اچھا ہے اور بہت زیادہ باقی رہنے والا ہے ‘‘(طہ :132)

آپؐ کی ترجیحات میں دنیاوی آرام ہے ہی نہیں۔ ایک دفعہ حضرت عمرؓ آپؐ کے گھر کی بے سروسامانی اور آپؐ کے بدن پر چٹائی پر سونے کی وجہ سے بنے ہوئے نشان دیکھ کر دکھ سے روپڑے کہا کہ یارسول اللہﷺ آپ دنیا کے معزز ترین انسان ہیں آپ کا یہ حال ہے جبکہ قیصرو کسریٰ ریشم کے بچھونے رکھتے ہیں۔ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کو دنیا مل جائے اور ہمارے لیے آخرت ہو نیز فرمایا قیصرو کسریٰ کا انجام تو آگ ہے اور میری اس کھردری چارپائی کا ٹھکانا جنت ہے۔

آپ گھر میں ٹھہرتے تو کسی کام میں عار محسوس نہ فرماتے۔ بیویوں کا چھوٹے چھوٹے کاموں میں ہاتھ بٹاتے۔ اُن کی دلداری فر ماتے۔ اُن کے رشتہ داروں کو اپنا رشتہ دار سمجھتے۔ آپ کی ازواج مطہرات، نیکی وپارسائی کا نمونہ تھیں آپ اُن کو دین کی تعلیم دیتے تاکہ وہ سب مسلمان خواتین کی تر بیت کر سکیں۔ آپؐ ارشاد فرماتے جاؤ فلاں گھر میں وفات ہو گئی ہے اُن کے گھر تعزیت کے لیے جاؤ وہاں اس بات کا خیال رکھنا جزع فزع نہ ہو۔ میت تیار کرنے کے طریق بتاتے۔ کسی کے گھر میں ولادت متوقع ہوتی تو خبر گیری کے لیے بھیجتے اور بچے کی پیدائش پر عمل میں لانے والے اسلامی آداب بھی بتاتے۔

شام کا در بار بھی عام ہوتا ہر شخص اپنی حاجت پیش کرتا تھا۔ اُس معاشرے کا عمومی نمونہ باہمی مساوات پر قائم تھا۔ اگر حضرت عمرؓ اپنے گھر سے بھوک سے تنگ آ کر باہر نکلتے ہیں تو حضرت ابو بکرؓ کا بھی یہی عالم ہے اور کھانا رسول اللہﷺ کے گھر بھی نہیں ہے۔ سب ایک بڑے کنبے کے رکن ہیں اس یکجائی اور توازن نے بڑے بڑے مسئلوں پر عمدگی سے قابو پایا ہوا ہے۔ اگر کسی کی بیٹی شادی کی عمر کو پہنچی ہے، یا کوئی عورت بیوہ ہو گئی ہے، یاکسی کی طلاق ہو گئی ہے تو ایسی عورتوں کے مسائل کا باعزت حل صرف اُن کے والدین یا سرپرستوں کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔ معاشرہ اس کا حل نکالتا آپؐ کسی کو تحریک فر ماتے کے تمہارے پاس وسائل ہیں تم فلاں سے شادی کر لو۔ زندگی تکلفات سے عاری ہے اس لیے ایک خاتون کے نان نفقہ کے انتظام کے قابل ہونا ہی شادی کے لیے کافی ہوتا۔ اگر وہ راضی ہوتے تو خاتون سے پوچھ کر سادگی سے شادی کا انتظام فر ما دیتے۔ اس طرح ایک ایسی مثال قائم فر مادی جس میں جذباتی گھٹن بے راہ روی، غیر محفوظ ہونے کے احساس اس قسم کے سارے مسائل کا مکمل حل بتا دیا۔ اس طرح مردوں عورتوں کی عفت وعصمت بھی محفوظ رہتی۔ بچوں کی تربیت بھی سانجھی ذمہ داری ہے ساری بستی کے بزرگ ان پر نگاہ رکھتے اور حسبِ ضرورت تر بیت فر ماتے۔ پڑوسی کے حقوق دیتے ایک دوسرے سے محبت کرنے سے متعلق ارشادات پر عمل ہو تو دنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔

صحرائی راتیں دن کی نسبت ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ سر شام ہی عبادت کی تیاری اور جلدی سونے کا رواج تھا۔ گھروں میں چراغ نہ جلتے تھے نماز عشاء کے بعد دیر تک جاگنا پسند نہیں تھا تاہم ضروری امور کے صلاح مشورے کے لیے کبھی دیر بھی ہوجاتی۔ اسی پارلیمنٹ میں بڑے بڑے تبلیغی منصوبے، مالی اور انتظامی امور زیر بحث آتے ہیں گھریلو مسائل بھی حل ہوتے ہیں آپؐ کی محبت میں آپؐ کی زبان مبارک سے نکلنے والے جامع اور مؤثر پُر حکمت الفاظ سننے کے شوق میں احباب نماز عشاء کے بعد بھی حاضر رہتے۔ اگر نماز میں حاضری کم ہوتی تو آپؐ کو اچھا نہ لگتا۔ آپؐ دو جہانوں کے لیے باعث رحمت تھے۔ بہت درد سے فرماتے کہ میرا دل چاہتا ہے اِن گھروں کو آگ لگا دوں جہاں سے لوگ رات کی نماز میں شامل ہونے کے لیے نہیں نکلتے۔

مسجد میں بنے ہوئے حجروں میں ازواج مطہرات میں سے جس کی باری ہوتی وہ شوق سے آپؐ کی آمد کا انتظار کرتیں۔ آپؐ گھر میں بہت دلچسپی لیتے۔ بیویوں کے ساتھ پیار محبت سے رہتے لیکن رات بھی زیادہ خیال اپنے خدا کی عبادت کی طرف رہتا کبھی رات یوں گزرتی کہ حضرت عائشہؓ کے ہاں باری ہے فرماتے ہیں عائشہ مجھے خوش نہیں کروگی۔ اور کبھی اس جواںعمر بیوی سے پوچھتے اگر تم اجازت دو تو میں رات اپنے رب کی عبادت میں گزاردوں۔ ایک رات یہ بھی ہوا کہ بیگم کی آنکھ کھلی تو حضورؐ بستر پر نہ تھے اس خیال سے کہ دیکھوں تو سہی میری باری ہے آپؐ کہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تلاش کیا تو آپ ایک قبرستان کی پتھریلی زمین پر سجدہ ریز رو رو کر دعائیں کرتے ملے۔ یہی کام آپؐ کو سب سے زیادہ محبوب تھا۔ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے بستر کی دو تہوں کو دہرا کرکے چار تہیں کردیں تو بستر نسبتاً آرام دہ ہوگیا خوب نیند آئی۔ صبح اُٹھ کر فرمایا عائشہ بستر پہلے جیسا ہی بچھایا کرو وہی ٹھیک ہے آج رات تو اس نے مجھے تہجد سے روک دیا۔

رات باوضو سوتے مسواک پابندی سے کرتے عمو ماً دائیں کروٹ دایاں ہاتھ دائیں رخسار مبارک کے نیچے ہوتا۔ سوتے وقت یہ دعا فر ماتے۔

اللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ…۔

پوری دعا کا تر جمہ ہے اے میرے اللہ میں اپنے آپ کو تیرے حوالے کرتا ہوں اپنی آبرو تیرے سپرد کرتا ہوں۔ اپنے سب معاملات تیرے حوالے کرتا ہوں اور تجھے اپنا سہارا بنا تا ہوں تیری طرف رغبت رکھتا ہوں اور تجھ ہی سے ڈرتا ہوں تیرے سوا کوئی جائے پناہ نہیں اور نہ ہی کوئی جائے نجات، میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا ہوں جو تو نے اُ تاری ہے اور تیرے اس نبی پر بھی ایمان لاتا ہوں جو تونے بھیجا ہے۔

سو نے کی کیفیت میں بھی اپنے مولیٰ کریم کی یاداَولیٰ ہے۔ فرمایا:’’میری آنکھیں تو بے شک سوتی ہیں لیکن دل بیدار رہتا ہے۔ ‘‘( بخاری)

تو وہ آئینہ ہے جس نے منہ دکھایا یار کا

جسم خاکی کو عطا کی روح اے جانِ جہاں

یہ دعا ہے میرا دل ہو اور تیرا پیار ہو

میرا سر ہو اور تیرا پاک سنگِ آستاں

یہ اُس ہستی کی ایک ہلکی سی تصویر ہے جو اپنے ربّ پر عاشق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم بھی آپؐ کی اتباع میں اللہ کا پیار محبت حفاظت نصرت اور بخشش حاصل کرسکیں آمین۔ آئیے مل کے درود پڑھتے ہیں:

اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيدٌ۔ اللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ۔

جَان و دِلَم فدائے جَمَال محمد اَست

خَاکَم نِثَارِ کُوچَۂ آلِ محمد اَست

میری جان اور میرا دل حضرت محمدﷺ کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل محمدﷺ کے کوچہ پر قربان ہے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button