متفرق

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 57)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

قرآن مجید میں فتنۂ دجال کا ذکر

اول بآخر نسبتے دارد

قرآنِ شریف کو سورۃ فاتحہ سے شروع کر کے

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِیْنَ۔(الفاتحہ : 7)

پر ختم کیا ہے۔ لیکن جب ہم مسلمانوں کے معتقدات پر نظر کرتے ہیںتو دجال کا فتنہ اُن کے ہاں عظیم الشّان فتنہ ہے اور یہ ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ دجال کا ذکر ہی بھول گیا ہو، نہیں ۔بات اصل یہ ہے کہ دجال کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں نے دھوکا کھایا ہے۔ سورۃ فاتحہ میں جو دو فتنوں سے بچنے کی دعا سکھائی ہے۔ اوّل

غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ ۔غَیْرِالْمَغْضُوْب

سے مراد باتفاق جمیع اہل اسلام یہود ہیں۔اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت امّت پر آنے والا ہے جبکہ وہ یہود سے تشابہ پیدا کرے گی۔ اور وہ زمانہ مسیح موعود ہی کا ہے۔ جبکہ اس کے انکار اور کفر پر اسی طرح زور دیا جائے گا جیسا کہ حضرت مسیح ابنِ مریم کے کفر پر یہودیوں نے دیا تھا۔ غرض اس دعا میں یہ سکھایا گیا کہ یہود کی طرح مسیح موعود کی توہین اور تکفیر سے ہم کو بچا۔ اور دوسرا عظیم الشان فتنہ جس کا ذکر سورۃ فاتحہ میں کیا ہے اور جس پر سورۃ فاتحہ کو ختم کر دیا ہے وہ نصاریٰ کا فتنہ ہے۔ جو

وَلَا الضَّآلِّیْن

میں بیان فرمایا ہے ۔اب جب قرآن شریف کے انجام پر نظر کی جاتی ہے ۔تو وہ بھی ان دونوں فتنوں کے متعلق کھلی کھلی شہادت دیتا ہے۔ مثلاً غیر المغضوبکے مقابل میں سورۃ تبّت یدا ہے۔ مجھے بھی فتویٰ کفر سے پہلے یہ الہام ہوا تھا۔ا

ذیمکر بک الذی کفر۔اوقد لی یا ھا مان لعلی اطلع علیٰ الہ موسیٰ و انی لا ظنہ من الکاذبین۔تبت یداابی لھب وتب ما کان لہ ان ید خل فیھا الا خائفا وما اصابک فمن اللّٰہ ۔

یعنی وہ زمانہ یاد کرکہ جبکہ مکفر تجھ پر تکفیر کا فتویٰ لگائے گا۔ اور اپنے کسی حامی کو جس کا لوگوں پر اثر پڑ سکتا ہو۔کہے گا کہ میرے لیے اس فتنہ کی آگ بھڑکا۔ تا میں دیکھ لوں کہ یہ شخص جو موسیٰ کی طرح کلیم اﷲ ہونے کا مدعی ہے۔ خدا اس کا معاون ہے یا نہیں۔ اور میں تو اسے جھوٹا خیال کرتا ہوں۔ابی لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور آپ بھی ہلاک ہو گیا۔ اس کو نہیں چاہیے تھا کہ اس میں دخل دیتا، مگر ڈر ڈر کر اور جو رنج تجھے پہنچے گا وہ خدا کی طرف سے ہے۔

غرض سورۃ تبت میں

غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ

کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے اور

وَلَا الضَّآلِّیْنَ

کے مقابل قرآن شریف کے آخر میں سورہ اخلاص ہے اور اس کے بعد کی دونوں سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ان دونوں کی تفسیر ہیں۔ ان دونوں سورتوں میں اس تیرہ وتار زمانہ سے پناہ مانگی گئی ہے جبکہ مسیح موعود پر کفر کا فتوی لگا کر… مغضوب علیہم کا فتنہ پیدا ہوگا۔ اور عیسائیت کی ضلالت اور ظلمت دنیا پر محیط ہونے لگے گی۔ پس جیسے سورۃ فاتحہ میں جو ابتدائے قرآن ہے۔ ان دونوں بلاؤں سے محفوظ رہنے کی دعا سکھائی گئے ہے۔ اسی طرح قرآن شریف کے آخر میں بھی ان فتنوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم کی۔ تا کہ یہ بات ثابت ہو جاوے کہ اول بآخر نسبتے دارد۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 227-228)

اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ مقولہ استعمال کیا ہے ۔ اَوَّل بِآخِر نِسْبَتِے دَارَدْ۔یعنی، اول کو آخر سے نسبت ہوتی ہے ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button