متفرق

عورت اور تربیت اطفال

الفضل قادیان کے کالم تَادِیْبُ النِّساء سے ایک انتخاب

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے مستورات کے لیے’’احمدی خاتون‘‘ نامی رسالہ جاری کیا تھا جس کا نام حضرت مصلح موعودؑ نے بدل کر ’’تادیب النساء‘‘رکھ دیا۔یہ رسالہ بند ہوا تو اخبار ’’الفضل‘‘ میں خواتین کے مضامین شائع ہونے لگےاور ایک صفحہ اس مقصد کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ذیل میں تادیب النساء میں سے ایک انتخاب ہدیہ قارئین ہے۔

’’عورتوں کا سب سے بڑا کام بچوں کی تربیت ہے اور چونکہ بچے ہروقت اپنی مائوںکے ساتھ رہتے ہیں۔اس لئے جیسی عمدگی کے ساتھ وہ ان کی تربیت کر سکتی ہیںاَور کوئی نہیں کر سکتا۔حتیٰ کہ باپ جو اس کی تربیت کا ذمہ دار ہے اور استاد جو اس کی تعلیم کا نگران ہے وہ بھی اس کی تربیت ایسی عمدگی کے ساتھ نہیں کر سکتا ۔کیونکہ باپ تو ماں پر چھوڑ کر علیحدہ ہو جاتا ہے اور استاد کے سپرد بچہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے چال چلن کا ایک ہلکا ڈھانچہ پہلے تیار ہو چکا ہوتا ہے ۔ اور گو استاد کو بہت سے موقعے بچہ کی اصلاح کے ملتے ہیں ۔ مگر پھر بھی جو اثرات کہ نہایت کم سنی سے بچہ کے دل پر اثر اندازہونا شروع کر دیتے ہیں ان کی اصلاح اس سے نہیں ہو سکتی ۔ اور یہ ماں کا ہی کام ہے کہ وہ پیدا ہونے کے وقت سے بچہ کی ایسی تربیت کرے کہ وہ بڑا ہو کر مفید اور اپنی قوم کے لیے با برکت بن سکے ورنہ اس میں اورحیوانوں میں کچھ فرق نہ ہو گا ۔یہ والدہ کا ہی فرض ہے کہ وہ ایک دلیر اور مضبوط دل کا طالبعلم استاد کےسپرد کرے ۔ اور پھر یہ بھی اسی کا فرض ہے کہ وہ ایک قوی اور شجاع نوجوان ابنائے آ دم کی خدمت کے لیے تیار کرے ۔ اگر وہ اس خدمت کو پورا نہیں کر سکتی اور اس کے بجا لانے میں کوتاہی کرتی ہے تو وہ ملامت کے لائق ہے کیونکہ اس نے بنی نوع انسان میں سے چند نہایت قیمتی اور خوبصورت پھولوں کو پژمردہ کیا اور ان کی تربیت میں سستی کر کے بجائے قوم کے لئے مفید بنانے کے آگے ہی حد سے بڑھے ہوئے بار کو گراں سے گراں تر بنا دیا ۔

بچوں کی تربیت میں ایک نقص

اگرچہ بچوں کی تربیت کے متعلق عورتوں سے کئی قسم کی کوتاہیاں ہو رہی ہیں لیکن اس وقت میں انہیں ایک نہایت خطرناک نقص کی طرف متوجہ کرتا ہوں جو نہ صرف یہ کہ بچوں کی تربیت میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے بلکہ ان کی آئندہ قابلیت کو ایسا تباہ کر دیتا ہے کہ پھر ان میں کسی اصلاح کی قابلیت نہیں رہتی اور اگر وہ بڑے ہو کر کوئی اصلاح کرنا بھی چاہیں تو طبیعت کی بے استقلالی انہیں ایسا کرنے نہیں دیتی ۔یہ نقص کیا ہے؟ بچوں کا ڈرانا ۔

بعض مائیں اپنے آرام کی خاطر ذرہ بچہ رویا وہ اسے کسی وہمی چیز کا نام لے کر ڈرا دیتی ہیں اور اُسے چُپ کرانے کی کوشش کرتی ہیں ۔بعض دفعہ بچہ ضد کرتا ہے اور وہ اسے خوف زدہ کر کے اپنے ڈھب پہ لانا چاہتی ہیں ۔ بیشک اس وقت بچہ خاموش بھی ہو جاتا ہے ۔اور اپنی ضد بھی چھوڑ دیتا ہے لیکن اس ذرہ سے فائدہ کے لیے اس کی قابلیت اس کی جرأت اس کی دلیری اس کے استقلال کو ہمیشہ کے لیے ملیا میٹ کر کے غارت کر دیا جاتا ہے ۔اس فائدہ کی مثال وہی ہے جو شراب اور جوئے کی ہے …ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں اس لیے ہم ان کے استعمال کی اجازت نہیں دیتے ۔ اس طرح بچوں کو ڈرانے سے اگر کوئی وقتی فائدہ ہوتا ہے تو اس فائدہ کے بدلے انہیں ایسا خطرناک نقصان پہنچ جاتا ہے کہ جس کا ازالہ حد امکان سے باہر ہو جاتا ہے ۔والدہ کا تو فرض تھا کہ وہ بچہ کو بچپن سے ہی جرأت و بہادری سکھائے ۔اور اس کے دل میں ہمت و استقلال پیدا کرے ۔ نہ کہ یہ طاقتیں جس حد تک طبعاً اس میں موجود تھیں انہیں بھی تباہ کر دے ۔جب کہ اس وقت سے جب کہ وہ دودھ پیتا ہے اور ابھی نیک و بد کی تمیز نہیں جانتا ، بزدلی ڈرپوکی کم ہمتی کی تعلیم دی جائے گی تو بڑا ہو کر اس نے کرنا ہی کیا ہے ۔ وہ تو بجائے دنیا کے لیے مفید ہونے کے مضر ہو گا ۔‘‘

( الفضل 16؍جولائی1913ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button