کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

ایک نووارد اور حضرت اقدس علیہ السلام

13؍فروری 1903ء کو ایک ڈاکٹر صاحب[ البدر میں اس نووارد کانام محمد یوسف درج ہے۔ (البدر جلد 2نمبر6مورخہ 27؍فروری 1903ء صفحہ 44) ]لکھنؤ سے تشریف لائے بقول ان کے وہ بغدادی الاصل ہیں اور اب عرصہ سے لکھنؤ میں مقیم ہیں۔ ان کے چند احباب نے ان کو حضرت حجۃ اللہ علیہ السلام کی خدمت میں بغرض دریافت حال بھیجا ہے۔ چنانچہ وہ بعد مغرب حضرت اقدس علیہ السلام کے حضور حاضر ہوئے اور شرفِ ملاقات حاصل کیا ۔جو کچھ گفتگو آپ سے ہوئی ہم اس کو ذیل میں درج کرتے ہیں۔ (ایڈیٹر الحکم)

حضرت اقدس: آپ کہاں سے آئے ہیں؟

نووارد: میں اصل رہنے والا بغداد کا ہوں مگر اب عرصہ سے لکھنؤ میں رہتا ہوں ۔ وہاں کے چند آدمیوں نے مجھے مستعد کیا کہ قادیان جاکر کچھ حالات دیکھ آئیں۔

حضرت اقدس: امرتسر میں آپ کتنے دن ٹھہرے؟

نووارد: پانچ چھ روز۔

حضرت اقدس:کیا کام تھا؟

نووارد:محض یہاں کے حالات کا معلوم کرنا اور راستہ وغیرہ کی واقفیت حاصل کرنا۔

حضرت اقدس:کیا آپ کچھ عرصہ یہاں ٹھہریں گے؟

نووارد:کل جائوں گا۔

حضرت اقدس:آپ دریافت حالات کے لیے آئے اور کل جائیں گے اس سے کیا فائدہ ہوا؟ یہ تو صرف آپ کو تکلیف ہوئی۔ دین کے کام میں آہستگی سے دریافت کرنا چاہیے ۔تاکہ وقتاً فوقتاً بہت سی معلومات ہوجائیں۔ جب وہاں آپ کے دوستوں نے آپ کو منتخب کیا تھا تو آپ کو یہاں فیصلہ کرنا چاہیے۔ جب آپ ایک ہی رات کے بعد چلے جائیں گے تو آپ کیا رائے قائم کرسکیں گے؟ اب ہم نماز پڑھ کے چلے جائیں گے۔ آپ کو کوئی موقعہ ہی نہ ملا۔

اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے

كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (التوبۃ:119)

کہ صادقوں کے ساتھ رہو یہ معیت چاہتی ہے کہ کسی وقت تک صحبت میں رہے کیونکہ جب تک ایک حد تک صحبت میں نہ رہے وہ اسرار اور حقائق کُھل نہیں سکتے۔ وہ اجنبی کا اجنبی اور بیگانہ ہی رہتا ہے اور کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا۔

نووارد:میں جوکچھ پوچھوں آپ اس کا جواب دیں۔ اس سے ایک رائے قائم ہوسکتی ہے۔ جن لوگوں نے مجھے بھیجا ہے انہوں نے تقیہ[ اغلباً یہ لفظ تقید ہے جو سہو کتابت سے تقیہ لکھا گیا ہے۔ البدر میں اس کا ذکر یوں ہے کہ ’’اگر چہ وہ لوگ جن کی طرف سے میں آیا ہوں آپ کا ذکر ہنسی اور تمسخر سے کرتے ہیں مگر میرا یہ خیال نہیں ہے‘‘(البدر جلد 2نمبر 6مورخہ 27؍فروری 1903ء صفحہ 44)]تو کیا نہیں کہ جاکر کیا دیکھوں۔ آپ چونکہ ہمارے مذہب میں ہیں اور آپ نے ایک دعویٰ کیا ہے اس کا دریافت کرنا ہم پر فرض ہے۔

حضرت اقدس: بات یہ ہے کہ مذاق،تمسخر صحتِ نیت میں فرق ڈالتا ہے اور ماموروں کے لیے تو یہ سنت چلی آئی ہے کہ لوگ ان پر ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں مگر حسرت ہنسی کرنے والوں ہی پر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا ہے

يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ(یٰسٓ:31)

ناواقف انسان نہیں جانتا کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ وہ ہنسی اور مذاق میں ایک بات کو اڑانا چاہتا ہے مگر تقویٰ ہے جو اسے راہِ حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

میرا دعویٰ ایسا دعویٰ نہیں رہاجو اَب کسی سے مخفی ہو۔ اگر تقویٰ ہو تو اس کے سمجھنے میں بھی اب مشکلات باقی نہیں رہیں۔ اس وقت صلیبی غلبہ حد سے بڑھا ہوا ہے اور مسلمانوں کا ہر امر میں انحطاط ہورہا ہے۔ ایسی حالت میں تقویٰ کا یہ تقاضا ہے اور وہ یہ سبق دیتا ہے کہ تکذیب میں مستعجل نہ ہو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت یہود نے جلدی کی اور غلطی کھائی اور انکار کر بیٹھے نتیجہ یہی ہوا کہ خدا کی لعنت اور غضب کے نیچے آئے۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت عیسائیوں اور یہودیوں نے غلطیاں کھائیں اور انکار کر دیا اور اس نعمت سے محروم رہے جو آپ لے کر آئے تھے۔ تقویٰ کا یہ لازمہ ہونا چاہیے کہ ترازو کی طرح حق و انصاف کے دونو پلّے برابر رکھے۔ اسی طرح اب یہ زمانہ آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا تو اسی طرح مخالفت کا شوراُٹھا جیسے شروع سے ہوتا آیا ہے۔ یہی مولوی جو اَب منکر ہیں اور کُفر کے فتوے دیتے ہیں میرے مبعوث ہونے سے پہلے یہ لوگ منبروں پر چڑھ کر بیان کیا کرتے تھے کہ تیرھویں صدی بہت خراب ہے جس سے بھیڑیوں نے بھی پناہ مانگی ہے اور اب چودھویں صدی آئی ہے جس میں مسیح اور مہدیؑ آئے گا اور ہمارے دکھوں کا علاج ہوگا یہاں تک کہ اکثر اکابرینِ اُمّت نے آنے والے کو سلام کی وصیت کی اورسب نے یہ تسلیم کیا کہ جس قدر کشوف اہل اللہ کے ہیں وہ چودھویں صدی سے آگے نہیں جاتے مگر جب وہ وقت آیا اور آنے والا آگیا تو وہی زبانیں انکار اور سبّ وشتم کے لیے تیز ہوگئیں۔ تقویٰ کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر وہ تسلیم کرنے میں سب سے اوّل نہ ہوتے تو انکار کے لیے بھی تو جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی ۔کم از کم تصدیق اور تکذیب کے دونو پہلو برابر رکھتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بدوں نصوصِ قرآنیہ وحدیثیہ اور دلائل قویّہ عقلیہ وتائیداتِ سماویہ کے مان لیں۔ مگر ہم یہ افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مسلمان جن کو قرآن شریف میں سورہ فاتحہ کے بعد ہی

ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ(البقرۃ:3)

سکھایا گیاتھا اور جن کو یہ تعلیم دی گئی تھی

اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ(الانفال:35)

اور جن کو بتایا گیا تھا

اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ(المآئدۃ:28)

ان کو کیا ہو گیا کہ انہوں نے اس معاملہ میں اس قدر جلد بازی سے کام لیا اور تکفیر اور تکذیب کے لیے دلیر ہو گئے۔ ان کا فرض تھا کہ وہ میرے دعاوی اور دلائل کو سنتے اور پھر خدا سے ڈر کر ان پر غور کرتے۔ کیا ان کی جلد بازی سے یہ پتہ لگ سکتا ہے کہ انہوں نے تقویٰ سے کام لیا ہے ۔جلد بازی اور تقویٰ کبھی دونو اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ نبیوں کو اللہ تعالیٰ نے یہی کہا

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ(الاحقاف:36)

پھر عام لوگوں کو کس قدر ضرورت تھی کہ وہ تقویٰ سے کام لیتے اور خدا سے ڈرتے۔

(ملفوظات جلدنمبر 5صفحہ 82-85۔ ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button