نکاح وطلاق

میدانِ جنگ میں بر سرِپیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات کی وضاحت

سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ مجھے یہ معلوم کر کے شدید دھچکا لگا کہ اسلام بر سر پیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے اور ان کو بیچنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ بات میرے لیے بہت حوصلہ شکن تھی۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت کے بعد مجھے امید تھی کہ آپ اس بات کی تردید فرمائیں گے اور اسلام کو اس نظریہ سے پاک قرار دیں گے لیکن میں نے ایسا نہیں پایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 3؍مارچ 2018ء میں اس سوال کا نہایت بصیرت افروز جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:اصل بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کی اچھی طرح وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیداہوجاتی ہیں اور ان غلط فہمیوں کی تردید حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی تحریرات میں فرمائی ہے اورآپ کے خلفاء بھی حسب موقعہ وقتاً فوقتاً اس کی تردیدکرتے رہے اور اصل تعلیم بیان فرماتے رہے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ اسلام برسرپیکار دشمن کی عورتوں کے ساتھ صرف اس وجہ سے کہ وہ برسر پیکار ہیں قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ جوبھی دشمن ہے ان کی عورتوں کوپکڑلاؤاور اپنی لونڈیاں بنالو۔

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب تک خونریزجنگ نہ ہو تب تک کسی کو قیدی نہیں بنایاجاسکتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (الانفال:68)

کسى نبى کےلیے جائز نہىں کہ زمىن مىں خونرىز جنگ کئے بغىر قىدى بنائے۔ تم دنىا کى متاع چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت پسند کرتا ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

پس جب خونریزجنگ کی شرط لگا دی تو پھر میدان جنگ میں صرف وہی عورتیں قیدی کے طور پر پکڑی جاتی تھیں جو محاربت کےلیے وہاں موجودہوتی تھیں۔ اس لیے وہ صرف عورتیں نہیں ہوتی تھیں بلکہ حربی دشمن کے طورپر وہاں آئی ہوتی تھیں۔

علاوہ ازیں جب اس وقت کے جنگی قوانین اوراس زمانہ کے رواج کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہےکہ اس زمانہ میں جب جنگ ہوتی تھی تو دونوں فریق ایک دوسرے کےافراد کو خواہ وہ مردہوں یابچے یاعورتیں قیدی کے طور پر غلام اورلونڈی بنا لیتے تھے۔ اس لیے

وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا(الشوریٰ:41)

کے تحت ان کے اپنے ہی قوانین کے تابع جوکہ فریقین کو تسلیم ہوتےتھے، مسلمانوں کا ایسا کرنا کوئی قابل اعتراض امر نہیں ٹھہرتا۔ خصوصاً جب اسے اس زمانہ، ماحول اورعلاقہ کے قوانین کے تناظرمیں دیکھا جائے۔ اس زمانہ میں برسرپیکار فریقین اس وقت کےمروجہ قواعد اور دستورکے مطابق ہی جنگ کررہے ہوتے تھے۔ اور جنگ کے تمام قواعدفریقین پرمکمل طورپرچسپاں ہوتے تھے، جس پر دوسرے فریق کو کوئی اعتراض نہ ہوتا تھا۔ یہ امور قابل اعتراض تب ہوتے جب مسلمان ان مسلمہ قواعدسے انحراف کر کے ایسا کرتے۔

اس کے باوجود قرآن کریم نے ایک اصولی تعلیم کے ساتھ ان تمام جنگی قواعدکو بھی باندھ دیا۔ فرمایا

فَاعۡتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ(البقرۃ:195)

یعنی جوتم پرزیادتی کرے توتم بھی اس پرویسی ہی زیادتی کروجیسی اس نے تم پرکی ہو۔ پھرفرمایا

فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ (المائدۃ:95)

یعنی جواس کے بعد حدسے تجاوزکرے گا اس کےلیے دردناک عذاب ہوگا۔

یہ وہ اصولی تعلیم ہے جو سابقہ تمام مذاہب کی تعلیمات پربھی امتیازی فضیلت رکھتی ہے۔ بائبل اور دیگر مذاہب کی کتب مقدسہ میں موجودجنگی تعلیمات کامطالعہ کیاجائے تو ان میں دشمن کوتہس نہس کرکے رکھ دینے کی تعلیم ملتی ہے۔ مردوعورت تو ایک طرف رہے ان کے بچوں، جانوروں اور گھروں تک کولوٹ لینے، جلادینے اور ختم کردینے کے احکامات ان میں ملتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم نے ان حالات میں بھی جبکہ فریقین کو اپنے جذبات پرکوئی قابونہیں رہتا اورد ونوں ایک دوسرے کومارنے کے درپے ہوتے ہیں اور جذبات اتنے مشتعل ہوتے ہیں کہ مارنے کے بعد بھی جذبات سردنہیں پڑتے اور دشمن کی لاشوں کوپامال کرکے غصہ ٹھنڈاکیاجاتاہے، ایسی تعلیم دی کہ گویامنہ زورگھوڑوں کولگام ڈالی ہواور صحابہؓ نے اس پرایسا خوبصورت عمل کرکے دکھایا کہ تاریخ ایسے سینکڑوں قابل رشک واقعات سے بھری پڑی ہے۔

اس زمانہ میں کفارمسلمان عورتوں کوقیدی بنالیتے اور ان سے بہت ہی نارواسلوک کرتے۔ قیدی توالگ رہے وہ تو مسلمان مقتولوں کی نعشوں کا مثلہ کرتے ہوئے ان کے ناک کان کاٹ دیتے تھے۔ ہندہ کاحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کاکلیجہ چبانا کون بھول سکتاہے۔ لیکن ایسے مواقع پر بھی مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ ہرچندکہ وہ میدان جنگ میں ہیں لیکن پھر بھی کسی عورت اورکسی بچے پرتلوارنہیں اٹھانی اور مُثلہ سے مطلقاً منع فرما کر دشمنوں کی لاشوں کی بھی حرمت قائم فرمائی۔

جہاں تک لونڈیوں کا مسئلہ ہے تواس بارہ میں اس امر کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جبکہ دشمن اسلام مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلموں کا نشانہ بناتے تھے اور اگر کسی غریب مظلوم مسلمان کی عورت ان کے ہاتھ آجاتی تو وہ اسے لونڈی کے طور پر اپنی عورتوں میں داخل کر لیتے تھے۔ چنانچہ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَاکی قرآنی تعلیم کے مطابق ایسی عورتیں جو اسلام پر حملہ کرنے والے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کےلیے آتی تھیں اور اُس زمانہ کے رواج کے مطابق جنگ میں بطور لونڈی کےقید کر لی جاتی تھیں۔ اور پھر دشمن کی یہ عورتیں جب تاوان کی ادائیگی یا مکاتبت کے طریق کو اختیار کر کے آزادی بھی حاصل نہیں کرتی تھیں تو ایسی عورتوں سے نکاح کے بعد ہی ازدواجی تعلقات قائم ہو سکتے تھے۔ لیکن اس نکاح کےلیے اس لونڈی کی رضامندی ضروری نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح ایسی لونڈی سے نکاح کے نتیجہ میں مرد کےلیے چار شادیوں تک کی اجازت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یعنی ایک مرد چار شادیوں کے بعد بھی مذکورہ قسم کی لونڈی سے نکاح کر سکتا تھا۔ لیکن اگر اس لونڈی کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو وہ ام الولدکے طور پر آزاد ہو جاتی تھی۔

علاوہ ازیں اسلام نے لونڈیوں سے حسن سلوک کرنے، ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنے اور انہیں آزاد کر دینے کو ثواب کا موجب قرار دیا۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے :

قَالَ النَّبِيُّﷺ أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا وَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ۔

(صحیح بخاری کتاب العتق بَابُ العَبْدِ إِذَا أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَنَصَحَ سَيِّدَهُ)

یعنی نبی کریمﷺ نے فرمایا جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے نہایت اچھے آداب سکھائے اور پھر اسے آزادکرکے اس سے شادی کرلے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔

رویفع بن ثابت انصاری روایت کرتے ہیں :

سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِﷺ يَقُولُ يَوْمَ حُنَيْنٍ قَالَ لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ۔ يَعْنِي إِتْيَانَ الْحَبَالَى۔ وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتَّى يَسْتَبْرِئَهَا وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَبِيعَ مَغْنَمًا حَتَّى يُقْسَمَ۔

(سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فِي وَطْئِ السَّبَايَا)

میں نے رسول اللہﷺ کو حنین کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کےلیے جائز نہیں کہ وہ اپنا پانی کسی اور کی کھیتی میں لگائے۔ یعنی حاملہ عورتوں سے ازدواجی تعلق قائم کرے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کےلیے جائز نہیں کہ قیدی عورت سے وہ صحبت کرے جب تک کہ استبرائے رحم نہ ہو جائے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کےلیے جائز نہیں کہ وہ مال غنیمت کو تقسیم سے پہلے فروخت کرے۔

پس اصولی بات یہی ہے کہ اسلام انسانوں کو لونڈیاں اورغلام بنانے کے حق میں ہر گز نہیں ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں، اس وقت کےمخصوص حالات میں مجبوراً اس کی وقتی اجازت دی گئی تھی لیکن اسلام نے اورآنحضرتﷺ نے بڑی حکمت کے ساتھ ان کو بھی آزادکرنے کی ترغیب دی اور جب تک وہ خود آزادی حاصل نہیں کر لیتے تھے یا انہیں آزاد نہیں کر دیا جاتا تھا، ان سےحسن واحسان کے سلوک کی ہی تاکیدفرمائی گئی۔

اورجونہی یہ مخصوص حالات ختم ہوگئے اور ریاستی قوانین نے نئی شکل اختیارکرلی جیساکہ اب مروج ہے تواس کے ساتھ ہی لونڈیاں اور غلام بنانے کا جواز بھی ختم ہوگیا۔ اب اسلامی شریعت کی روسے لونڈی یاغلام رکھنے کاقطعاً کوئی جوازنہیں ہے۔ بلکہ حکم وعدل حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اب موجودہ حالات میں اس کوحرام قراردیاہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button