کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

اپنی جماعت کے لیے ایک بہت ضروری نصیحت

آج کل زمانہ بہت خراب ہو رہا ہے۔ قسم قسم کا شرک، بدعت اور کئی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ بیعت کے وقت جو اقرار کیاجاتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ یہ اقرار خدا کے سامنے اقرار ہے۔ اب چاہیے کہ اس پر موت تک خوب قائم رہے ورنہ سمجھو کہ بیعت نہیں کی اور اگر قائم ہو گے تو اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں برکت دے گا۔ اپنے اللہ کے منشاء کے مطابق پوراتقویٰ اختیار کرو۔ زمانہ نازک ہے۔ قہر الٰہی نمودار ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے موافق اپنے آپ کو بنا لے گا۔ وہ اپنی جان اور اپنی آل واولادپر رحم کرے گا۔

دیکھو انسان روٹی کھاتا ہے۔ جب تک سیری کے موافق پوری مقدارنہ کھالے تو اس کی بھوک نہیں جاتی۔ اگر وہ ایک بھورہ روٹی کا کھا لیوے تو کیا وہ بھوک سے نجات پائے گا؟ ہرگزنہیں۔ اور اگر وہ ایک قطرہ پانی کا اپنے حلق میں ڈالے تو وہ قطرہ اسے ہرگز نہ بچا سکے گا بلکہ باوجود اس قطرہ کے وہ مرے گا۔ حفظِ جان کے واسطے وہ قدر ِمحتاط جس سے زندہ رہ سکتا ہے جب تک نہ کھالے اور نہ پیوے نہیں بچ سکتا۔ یہی حال انسان کی دینداری کا ہے۔ جب تک اس کی دینداری اس حد تک نہ ہو کہ سیری ہو بچ نہیں سکتا۔ دینداری، تقویٰ، خدا کے احکام کی اطاعت کواس حد تک کرنا چاہیے جیسے روٹی اور پانی کو اس حد تک کھاتے اور پیتے ہیں جس سے بھوک اور پیاس چلی جاتی ہے۔

خوب یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کی بعض باتوں کو نہ ماننا اس کی سب باتوں کو ہی چھوڑنا ہوتا ہے۔ اگر ایک حصہ شیطان کا ہے اور ایک اللہ کا تو اللہ تعالیٰ حصہ داری کو پسند نہیں کرتا۔ یہ سلسلہ اس کا اسی لیے ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طرف آوے۔ اگرچہ خدا کی طرف آنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایک قسم کی موت ہے مگر آخر زندگی بھی اسی میں ہے۔ جو اپنے اندر سے شیطانی حصہ نکال کر پھینک دیتا ہے۔ وہ مبارک انسان ہوتا ہے اور اس کے گھر اور نفس اور شہر سب جگہ اس کی برکت پہنچتی ہے۔ لیکن اگر اس کے حصہ میں ہی تھوڑا آیا ہے تو وہ برکت نہ ہو گی جب تک بیعت کا اقرار عملی طور پر نہ ہو۔ بیعت کچھ چیز نہیں ہے۔ جس طرح سے ایک انسان کے آگے تم بہت سی باتیں زبان سے کرو مگر عملی طور پر کچھ بھی نہ کرو تو وہ خوش نہ ہوگا۔ اسی طرح خدا کا معاملہ ہے وہ سب غیرت مندوں سے زیادہ غیرت مند ہے کیا ہوسکتا ہے کہ ایک تو تم اس کی اطاعت کرو پھر ادھر اس کے دشمنوں کی بھی اطاعت کرو اس کانام تو نفاق ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اس مرحلہ میں زید وبکر کی پروا نہ کرے۔ مرتے دم تک اس پر قائم رہو۔

بدی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک خدا کے ساتھ شریک کرنا۔ اس کی عظمت کو نہ جاننا۔ اُس کی عبادت اوراطاعت میں کسل کرنا۔ دوسری یہ کہ اس کے بندوں پر شفقت نہ کرنا۔ ان کے حقوق ادانہ کرنا۔ اب چاہیے کہ دونوں قسم کی خرابی نہ کرو۔ خدا کی اطاعت پر قائم رہو۔ جو عہد تم نے بیعت میں کیا ہے اس پر قائم رہو۔ خدا کے بندوں کو تکلیف نہ دو۔ قرآن کو بہت غور سے پڑھو۔ اس پر عمل کرو۔ ہر ایک قسم کے ٹھٹھے اور بیہودہ باتوں اور مشرکانہ مجلسوں سے بچو۔ پانچوں وقت نماز کو قائم رکھو۔ غرض کہ کوئی ایسا حکمِ الٰہی نہ ہو جسے تم ٹال دو۔ بدن کو بھی صاف رکھو اور دل کو ہر ایک قسم کے بیجا کینے، بغض وحسد سے پاک کرو۔ یہ باتیں ہیں جو خد اتم سے چاہتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ کبھی کبھی آتے رہو۔ جب تک خدا نہ چاہے کوئی آدمی بھی نہیں چاہتا۔ نیکی کی توفیق وہی دیتا ہے۔

دو عمل ضرور یاد رکھو۔ ایک دعا۔ دوسرے ہم سے ملتے رہنا تاکہ تعلق بڑھے اور ہماری دعا کا اثر ہو۔

(ملفوظات جلدنمبر 5صفحہ 75-77۔ ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button