متفرق مضامین

1991ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی دورۂ قادیان کی کچھ یادیں

(ابوالاحسان)

تاریخی سال1991ء، خوبصورت ترین ایام، یادگار لمحات، ناقابل فراموش یادیں، جب خدا کا پیارا خلیفہ 44سال بعد قادیان دارالامان کی مقدس سرزمین پردوبارہ جلوہ افروز ہوا۔ خدا کا نور اُس مقدس خلیفہ کے وجود کے ذریعہ ایسا برسا کہ قادیان کی بستی نور سے نہلا گئی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا قادیان کی مقدس سرزمین پر ورود مسعود ہوا۔ عجیب جذبات تھے، اہل ِقادیان 44سال سے خلافت ِاحمدیہ کے دیدار کے منتظر تھے اور اکثر انتظار کرنے والی نگاہیں تو فراق میں ہی دنیا سے رخصت ہو گئیں اور اہل پاکستان خلافت سے دوری کا تازہ غم لیے ہوئے تھے۔ خلیفۂ وقت سے ملاقات کےلیے انگلستان تک پرواز کی استطاعت کہاں، قریباً پانچ ہزارپروانوں کو اپنی محبوب شمع تک رسائی مل گئی اور وہ سب آج بھی اپنی اس خوش قسمتی پر نازاں اور اُن کے دل حمد باری تعالیٰ سے لبریز ہیں۔

خاکسار اُس وقت جامعہ احمدیہ کا طالب علم تھا، اُن پانچ ہزاری خوش قسمت افراد میں اللہ تعالیٰ کے فضل نے میرا نام بھی لکھ دیا۔ مزید خوش قسمتی یہ کہ پہلے قافلے میں جانے کی سعادت ملی۔ دیدارِ یار کےلیے قادیان کی مقدس بستی کےلیے لاہور سے بذریعہ ٹرین روانگی ہوئی۔ جذبات ناقابل بیان، روح گداز، لبوں پر حمد ودرود، پیارے حضور کی حفاظت کےلیے ہر لمحہ دعائیں، اٹاری ریلوے اسٹیشن سے custom clearanceکے بعد بسوں کے ذریعہ قافلہ قادیان کےلیے روانہ ہوا۔ شام ڈھلنے کو تھی، بڑے منظم طریقہ پر قافلہ رواں دواں تھا، بسوں کو اپنے مقررہ نمبروں پر چلنے کی ہدایت تھی۔ پاکستان سے جانے والے پہلے قافلہ سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا قادیان میں ورودِ مسعود ہو چکا تھا۔

قادیان دارالامان کی مقدس بستی میں ناقابل بیان کشش اور سکون، دل اُس کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں، یہ سکون مسیح موعودؑ کے دم سے ہے۔

وہ بستی جس کے ذروں نے مسیحا کے قدم چومے

اِسی جذب سے خلافت احمدیہ نے بھی حصہ پایا۔ قافلہ قادیان کی طرف رواں دواں، جہاں پر کشش محبوب خلیفہ موجود، ہمارے دل جذبات کی رَو میں بہ بہ جاتے تھے، رات کے اندھیرے میں دُور سے مینارۃ المسیح کا دیدار، بسوں میں ہی دعائیں اور سرزمین قادیان میں آمد بھلائے نہیں بھولتی۔

مجالس عرفان

بعد نماز ِمغرب مسجد اقصیٰ میں چاند طلوع ہوتا تھا، مجلسِ عرفان منعقد ہوتی تھی، پر معارف باتیں اور جی بھر کر دیدارِیار کی خواہش میں ہمارے قدم خود بخود مسجد اقصیٰ قادیان کی طرف اُٹھتے چلے جاتے تھے۔ ایک دن اللہ تعالیٰ کا ایسا انعام ہوا جس کی یاد سے آج بھی دل لطف اُٹھاتا ہے۔ نماز کے بعد لوگ قریب قریب ہوکر بیٹھ جاتے تھے اور مسجد اقصیٰ کے صحن سے بھی کافی لوگ اندر سما جاتے۔ حضورؒ ایک کرسی پر تشریف فرما ہو جاتے اور عرفان کے موتی بکھیرتے۔ جس کرسی پر حضورؒ تشریف فرما ہوتے اُس کے سامنے میز نہ ہوتا تھا۔ ایک روز خاکسار کو بالکل حضور پر نور کے قدموں میں بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔ خاکسار حضورؒ کے اتنا قریب بیٹھا تھا کہ حضور کا چہرۂ مبارک دیکھنے کےلیے اوپر منہ اُٹھا کر دیکھنا پڑتا تھا۔ اتنا نور تھا کہ نظر حضورؒ کے چہرہ پر ٹکتی نہ تھی۔ اتنی لمبی دیر اتنا جسمانی قرب خلافت احمدیہ سے نہ پہلے ملا تھا نہ پھر سعادت ملی۔ کاش کبھی پھر یہ خوش بختی نصیب ہو۔

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی

قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی مصروفیات بےانتہا اورملاقات کرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اس لیے حضورِاقدس سے ہماری مسجد اقصیٰ قادیان میں اجتماعی ملاقات اس طرح ہوئی کہ احباب ِجماعت لائنوں میں کھڑے تھے اور ہمارا محبوب آقا، ہمارے پیارے حضورؒ خود ایک ایک فرد کے پاس تشریف لاتے، مصافحہ ہوتا۔ اس مختصر سے وقت میں جس کی خوش قسمتی ہوتی اسے حضورؒ کچھ استفسار فرما لیتے یا کوئی شخص جرأت کر کے کوئی بات حضور کی خدمت میں عرض کردیتا۔ اس کے بعد حضور اگلے فردسے مصافحہ کےلیے آگے بڑھ جاتے۔

یہاں بھی رہ نمائی اور شفقت کے حسین نظارے دیکھنے کو ملے۔ خاکسار سے دو افراد پہلے لائن میں کھڑے ایک صاحب نے حضورؒ سے مصافحہ کے بعد فوراً اپنی جیب سے قلم نکالے اور حضورؒ کی خدمت میں بصد ادب عرض کیا کہ حضور اِن قلموں کو چھو کر متبرک فرمادیں۔ حضورؒ نے ازراہ ِشفقت قلم ہاتھ میں لیے اور پھر اُن صاحب کو واپس کر دیے۔ اِسی دوران اُن صاحب کے ساتھ کھڑے شخص کو خیال آیا کہ یہ ideaاچھا ہے لیکن اُن کے پاس قلم نہیں تھے اور نہ وہ لائے تھے، فوراً اپنے بائیں طرف کھڑے صاحب جو میرے دائیں طرف کھڑے تھے، سے جلدی سے پوچھنے لگے کہ کوئی قلم ہے(یعنی ہے تو دے دیں تا کہ میں بھی حضور سے متبرک کروا لوں )۔ اُن کی آواز پیارے حضور نے سن لی اور محبت سے رہ نمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’نقل نہیں کرتے ‘‘۔ گویا پیارے حضورؒ نے یہاں بھی محبت سے اصلاح فرما دی اور ہم ساتھ کھڑے سننے والوں کی بھی عمر بھر کےلیے تربیت ہو گئی۔

پھر اُس شخص کا مصافحہ حضورِؒ سے ہوا جس کے بعد حضورؒ آگے بڑھے۔ اُس سے اگلے فرد، جو خاکسار کے دائیں طرف کھڑے تھے، نے حضورؒ سے نہایت ادب سے درخواست کی کہ حضور رومال۔ حضور نے فرمایا، ہاں یہ ٹھیک ہے (یعنی نقل نہیں کی اور نیا ideaہے تبرک لینے کا )۔ شفقتوں کا سمندر بہ رہا تھا، حضورؒ نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، رومال نکالا، اسے متبرک فرمایا اور اُس خوش قسمت فرد کو وہ رومال دے دیا اور مصافحہ کےلیے میری باری آگئی، پر نور ہاتھ خاکسار نے چومے اور خاکسار نے اپنی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی چاندی کی انگوٹھی اُتارکر بصد ادب حضور پرنور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور اپنی اَلَیْسَ اللّٰہُ والی انگوٹھی سے مس کر دیں۔ حضورؒ نے کمال شفقت فرماتے ہوئے مجھ سے وہ انگوٹھی لی، اپنی انگوٹھی کے ساتھ میری انگوٹھی کو بھی پہن لیا اور آگے بڑھ گئے۔ ایک لمحہ کےلیے تو خاکسار کو کچھ سمجھ نہ آیا اور لا شعوری طور پر فوراً میں لائن سے نکل کر پہرےداروں کے پیچھے پیچھے حضور کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ پہریداروں نے بھی نہ روکا کیونکہ اُنہیں علم تھا کہ میری انگوٹھی حضور کے پاس ہے۔ میں متفرق خیالات کا شکا ر حضورؒ سے فاصلہ پر پہریداروں کے پیچھے پیچھے چلتا رہا اور سوچتارہا کہ شاید حضورؒ نے تحفہ سمجھ کر انگوٹھی رکھ لی ہے اور دل میں یہ فیصلہ کیا کہ حضورؒ سے انگوٹھی واپس نہیں مانگوں گا کیونکہ یہ بے ادبی ہوگی۔ حضورؒ انگوٹھی ساتھ لے گئے تو یہ بھی بہت خوش بختی ہوگی۔ خاکسار شعوراً حضورؒ کے زیادہ قریب بھی نہ ہوا کہ حضور کا جو بھی ارادہ ہے، اُس میں میں مخل بھی نہ ہوں۔ انگوٹھی حضور کو دینے کی فوری برکت یہ ملی کہ ہماری لائن آغاز میں تھی اور باقی ساری مسجد اقصیٰ میں لائنوں میں مصافحوں کے دوران میں حضور کے ساتھ ساتھ رہا اور دیدارِیار سے جھولیاں بھریں اورحضور کی صحبت دیر تک میسر آگئی جوشاید انفرادی ملاقات سے بھی زیادہ پُر لطف وقت تھا۔ مصافحے ختم ہوئے، حضور مسجد اقصیٰ کے اُس حصہ میں پہنچ گئے جہاں حضور کے نعل مبارک رکھے ہوئے تھے اور میں حضور سے کافی فاصلے پر پیچھے رُک گیا اور دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ حضورکو مستحضر نہیں ہوگا کہ انگوٹھی حضور کے پاس ہے یا حضور نے تحفہ سمجھ کر رکھی ہے۔ بہر حال میں خاموش اپنے ارادہ پر قائم تھا کہ حضور کو یاد نہیں دلانا، جو خدا کی مرضی ہوئی۔ حضور کی بارعب مترنم آواز نے میرے خیالات کی رو کو توڑا اور نعل مبارک پہنتے ہوئے فرمایا کہ کہاں ہیں وہ جن کی انگوٹھی میرے پاس ہے۔ مجھے تو جیسے دو جہاں کی دولت مل گئی ہوگی۔ فوراً آگے ہوا، ادب سے عرض کیا، جی حضور، اور پیارے حضور نے اپنی انگلی سے میری انگوٹھی اتاری جو حضور نے اپنی اَلَیْسَ اللّٰہُ والی انگوٹھی کے اوپر پہنی ہوئی تھی اور میری انگوٹھی میری طرف بڑھا دی، خاکسار نے بڑھ کر تھامی، ناقابل بیان جذبات سے حضور کو جزاک اللہ عرض کیا اور وہ شفقتوں بھرا سمندر نعل مبارک پہن کر آنکھ سے اوجھل ہو گیا۔ ایں سعادت بزور بازو نیست والحمدللّٰہ الحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک

میں کون تھا، کون ہوں، ایک عام سا احمدی، کمزور انسان، جامعہ احمدیہ کا ادنیٰ ترین طالب علم، نہ کوئی دنیاوی وجاہت، نہ کوئی پہچان۔ ہاں ایک احمدی، خلافتِ احمدیہ کے عشق میں ڈوبا ہوا، اَور تو کچھ بھی نہ تھا، لیکن خلافت احمدیہ ہر احمدی فرد سے اسی طرح محبت کرتی ہے جس طرح حضور نے مجھ ناچیز پر شفقتوں کی انتہا کردی۔ جس انگوٹھی کو صرف مس کرنے کےلیے دیا تھا وہ لمبا وقت حضورؒ کے دست مبارک کی زینت رہی اور حضرت مسیح موعودؑ کی انگوٹھی سے مس رہی۔ دنیا کے پردے پر عام لوگوں سےاتنی محبت کی ایسی مثالیں کہاں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس تبرک کی برکت سے مجھے اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کے حقیقی مضمون کا وارث بنا دے۔ آمین

وہاں گزار اہوا ہر لمحہ ایک خوبصورت داستان ہے اور وہ بھی ناقابل بیان داستان، چند لمحے ہدیہ قارئین کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے، ہم اور ہماری نسلیں قیامت تک خلافت ِاحمدیہ کے سچے خادم، مطیع اور فرمانبردار ہوں اور اسی طرح ہم شفقتیں سمیٹتے رہیں۔

وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button