متفرق مضامین

’’یہ قادیان سے آیا ہے!‘‘

(آصف محمود باسط)

ربوہ میں موسمِ سرما کے عروج کی ایک یخ بستہ صبح۔ مسجد اقصیٰ کا کھلا میدان مگر ہجومِ خَلق سے کناروں تک بھرا ہوا۔ ایک شامیانہ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ خطاب فرما رہے ہیں۔ فلک شگاف نعرے۔ یہ ایک چھ سالہ بچے کی جلسہ سالانہ کی سب سے پرانی یاد ہے۔

1981ء کے جلسہ سالانہ کا ذکر ہے۔چھ سال کی عمر میں میں وہاں سٹیج کی سیڑھیوں پر بیٹھا کیوں ٹھٹھرتا تھا؟ بات یہ تھی کہ میرے والد صاحب کی ڈیوٹی مولانا عبدالمالک خان صاحب مرحوم کے ساتھ جلسہ کے سٹیج پر تھی۔ میں ان کے ساتھ ہولیا تھا۔ والدہ نے مجھے خوب اہتمام سےتیار کر کے بھیجا تھا، مگر ٹھنڈ تھی کہ ہڈیوں تک اترتی تھی۔ اپنے والد صاحب کے اہم کام میں حارج نہ ہونے کے خیال سے چپ چاپ سٹیج کی سیڑھیوں پر بیٹھا جلسہ کا منظر دیکھ رہا تھا۔ ہر لمحے دو لمحے کے بعد فلک شگاف نعرے گونجتے۔ خدا جانے ان نعروں میں کیا تھا کہ اس چھوٹی سی عمر میں بھی جسم میں گرمی کی ایک لہر دوڑ جاتی۔ میں اٹھ کر کھڑا ہو کر نعرے لگنے کا نظارہ دیکھتا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ آئندہ کئی دہائیوں کے لیے میرے کان ان نعروں کی آواز کو ترس جائیں گے۔جلسہ سالانہ ربوہ کی رونقوں اور نوربرساتے ماحول کی یہی بچپن کی یادداشتیں کئی سال تک سینے میں دبائے پھرنا تھا۔

صرف تین ماہ بعد مارچ 1982ء میں ہم اپنے والد صاحب کے ساتھ زیمبیا کے لیے روانہ ہوگئے۔ عمر اگرچہ صرف سات برس تھی، مگر ربوہ بے طرح یاد آتا۔ یہ ایک ننھے سے بچے کے اداسیوں سے متعارف ہونے کا ابتدائی تجربہ تھا۔ وہ تجربہ جو زندگی بھر کے لیے اپنی چھاپ دل و دماغ پر چھوڑ جاتا ہے۔نہ زبان آتی ہو، نہ دوست ہوں، اور اس باعث کسی سے کھیل بھی نہ سکے۔ اس بچے کے پیر ابھی پردیس میں جمے بھی نہ تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے وصال کی خبر آگئی۔ ابھی ہمیں یہاں پہنچے تین ہی ماہ تو ہوئے تھے۔کہ اس خبر سےگھر بھر میں سوگ پڑگیا۔ اداسیاں پھیلیں، لیکن اگلے ہی روز خوف کو امن میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ مگر یہ سب کچھ ایک سات سالہ بچے کے کل کے لیے بارِ گراں تھا۔ تنہائیاں، اداسیاں، غم اور خوشی۔ اتنا سب کچھ اس کم سنی میں کہاں سنبھلتا ہے؟

پھر دسمبر 1982ء آیا۔ تب بیرونی مشنوں میں حضرت خلیفۃ المسیح کے خطبات اور خطابات بذریعہ آڈیو موصول ہوا کرتے تھے۔ جنوری میں ایک روز ڈاک آئی تو جلسہ سالانہ 1982ء پر فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے خطابات ہم تک پہنچے۔ والد صاحب تو بہت اہتمام سے یہ کیسٹ سنا بھی کرتے اور ہمیں سنایا بھی کرتے۔ تب تو کچھ سمجھ بھی نہ آیا کرتا، مگر کس کی مجال تھی کہ اُٹھ کر اِدھر اُدھر ہوجائے یا بیچ میں کوئی آواز بھی نکال لے۔ سو ہم بچے بت بنے بیٹھے رہتے۔ مگر اس روز جب یہ کیسٹ چلی، تو ہم بچے بھی بت بنے بیٹھے نہ رہے۔ ایسا لگا جیسے تن بدن میں کوئی برقی لہر دوڑ گئی ہو۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا وہ خطاب تھا جو ’’نورِ مصطفویﷺ اور نارِ بولہبی‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔

’’پس آؤ آج کی دعاؤں میں خصوصیت کے ساتھ ہم درود بھیجیں محسنِ اعظم محمد رسول اللہ ﷺ پر اور سلام بھیجیں روحِ بلالی پراور سلام بھیجیں روحِ خباب پر، اور سلام بھیجیں روحِ خبیب پر…‘‘

ہم بہت بچہ تھے، مگر ہماری اونگھتی سماعت یکایک چونک کر اٹھ بیٹھی۔

’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے، زمین و آسمان ٹل جائیں مگر یہ تقدیر نہیں بدل سکتی کہ ہمیشہ ہر حال میں نارِبولہبی یقیناً شکست کھائے گی اور نورِ مصطفوی ﷺ یقیناً کامیاب ہوگا۔‘‘

اللہ اکبر! کیا تیقن تھا۔ روحِ خباب، روحِ خبیب، نارِ بولہبی… کچھ سمجھ نہ آئی۔ سمجھ آئی تو یہ بات سمجھ آئی کہ ہم کسی پختہ یقین کے مضبوط حصار میں ہیں۔

’’محمد مصطفیٰ ﷺ والذین معہُ غالب آنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔مغلوب ہونے کے لیے نہیں بنائے گئے۔‘‘

سبحان اللہ! ان پرولولہ الفاظ اور پس منظر میں سنائی دیتی پرجوش نعروں کی آوازیں میرے بدن میں ایک بار پھر کپکپی پیدا کرگئیں۔ وہ جلسہ گاہ، وہ دھند اور کہر میں ڈوبا ربوہ جو حضرت خلیفۃ المسیح کے خطاب اور نعرہائے تکبیر سے حدت حاصل کرتا اور زائرینِ جلسہ کے قدموں کی دھمک سے دھڑکتا تھا، بے طرح یاد آنے لگا۔ اس خطاب کا مفہوم اور ان اجنبی اصطلاحوں کے معانی والد صاحب سے کرید کرید کر پوچھے۔ انہوں نے بڑے صبر کے ساتھ سمجھائے۔ جتنا تھوڑا بہت سمجھ آیا، اُس میں کئی دن لگ گئے۔ یوں کئی دن ہمارے گھر میں جلسہ سالانہ کا چرچا رہا۔

ہم پانچ سال زیمبیا میں گزار کر ربوہ واپس پہنچے تو 1987ء کا سال چڑھ چکا تھا۔ ربوہ وہ ربوہ تو رہا ہی نہیں تھا۔ نہ وہاں حضرت خلیفۃ المسیح رہے تھے، نہ جلسہ سالانہ کی رونقیں۔ مسجد اقصیٰ کے میدان کے گرداگرد اَبھی حفاظتی فصیل نہ بنی تھی۔ وہ سیڑھی دار چبوترے اب بھی اس جلسہ گاہ کے کناروں پر نظر آتے جن پر چوبی تختے رکھ کر نشست کا سامان کیا جاتا تھا۔ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان چبوتروں کی سسکیاں گویا سنائی دیتیں۔ یہ کئی سال سے بے رونق اور بے آباد جو پڑے تھے۔

پھر ایم ٹی اے کا ظہور ہوا اور جلسے کی کمی کسی حد تک پوری ہوئی۔ مقامی مسجدوں اورگھروں میں بیٹھ کر جلسہ کے تین روز حضرت خلیفۃ المسیح کے خطابات سن کر میرے اندر چھپے اس چھ سالہ بچے کی رگوں میں دوڑنے والا خون نیم گرم ہی سہی مگر گرماضرور جاتا۔ یوں کئی سال بیت گئے۔ کالج کا زمانہ گزرا۔ یونیورسٹی کا دور آیا اور گزر گیا۔ شادی ہوگئی۔ بچہ بھی پیدا ہوگیا۔ جلسہ کی رونق پاکستان میں نہ لوٹنی تھی، سو نہ لوٹی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے ننھے بچے کو گود میں بٹھا کر پہلی مرتبہ ایم ٹی اے پر جلسہ دکھایا، تو میرے ساتھ دراصل دوبچے تھے۔ ایک وہ جو گود میں تھا، اور ایک وہ جو دل کے نہاں خانوں میں آج بھی ایڑیاں اٹھا اٹھاکر حضور کی ایک جھلک اوردھند میں سے اٹھتے نعروں کا منظر دیکھتا تھا۔

پھر 2002ء کا سال آیا۔اپریل میں میں اپنی اہلیہ اور دو سالہ بچے کے ساتھ لندن پہنچا۔ دو ہی ماہ گزرے تھے کہ جلسہ سالانہ کی آمد آمدکا غلغلہ مچا۔دل مچلنے لگا۔ یقین نہ آیا کہ جلسہ سالانہ ایک مرتبہ پھر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکیں گے۔ پھر جلسے کے دن آئے اور ہم اسلام آباد ٹلفورڈ میں حاضرہوئے۔ اپنے بچے کو انگلی سے لگاکر چلاتے ہوئے جب میں اسے جلسہ گاہ کی رونقیں اور گود میں اٹھا کرحضور ؒ کی آمد کے نظارے دکھاتا، تو اسے معلوم بھی نہ تھا کہ وہ اس وقت ایک چھ سالہ بچے کی گود میں ہے جو خود بھی بہت اشتیاق سے یہ نظارے دیکھ رہا ہے۔ باپ کو بھی کیا کیا سوانگ بھرنے پڑتے ہیں! بچوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور ہم ان کی آڑ میں اپنے دل کی گہرائیوں میں چھپے ایک بچے کی تسکین کررہے ہوتے ہیں۔بعض اوقات تو خود ہمیں بھی معلوم نہیں ہوتا۔

2003ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی وفات کا المناک سانحہ گزرا۔ خوف کا دھارا پھر پھوٹا، مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کی طرح ساتھ ہی ایک امن کا دھارا بھی بہا دیا۔ یہ دونوں دریاملے اور پھر مل کر صرف امن کا دھارا باقی رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپریل 2003ء میں جماعت احمدیہ مسلمہ کو خلافتِ خامسہ کی نعمت سے نوازا، اور دو ہی ماہ بعد جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔

مجھے وہ لمحہ آج بھی یاد ہے جب حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ پرچم کشائی کے لیے اسلام آباد کی جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ میں نے حضور کو خلافت سے پہلے ربوہ میں دیکھا تھا۔ جلسہ سالانہ کی کارروائی ایم ٹی اے پر سنتے دیکھتے بھی دیکھا تھا۔ خلیفۃ المسیح اور جلسہ سالانہ سے محروم کیے گئے ربوہ میں میرے اندر کا چھ سالہ بچہ مجھے ربوہ کے گلی کوچوں میں لیے پھرتا۔ بہت سے لوگوں میں اس ربوہ کی جھلک کو تلاش کرتا۔ یہ جو آج لوائے احمدیت کی ڈور کھینچ کر اسے جلسہ گاہ کی کھلی فضا میں لہرا رہے تھے، ان میں بھی اس بچے کی آنکھوں نے اس ربوہ کی جھلک کو ڈھونڈا تھا۔ آج یہ لوائے احمدیت کے پاسبان تھے۔ آج خدا نے انہیں دنیائے اسلام پر ایک سائبان بنا دیا تھا۔ آپ دستارِ خلافت پہنے جب جلسہ سالانہ کے سٹیج پر تشریف لائے، تو وہ بھی کیا ہی نظار ہ تھا۔ کل عالم میں پھیلی جماعت میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔

اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ستاری کا خاص سلوک فرمایا اور دسمبر 2004ء میں میری وقفِ زندگی کی درخواست حضور نے ازراہِ شفقت منظور فرمالی۔ میری تعیناتی ایم ٹی اے میں ہوئی۔ اب جلسہ سالانہ کے ساتھ ایک نئے طرز کے تعلق کا آغاز ہوا۔ جلسہ سالانہ برطانیہ اگرچہ جولائی کے آخر پرہوتا، مگر ایم ٹی اے میں تو گویا جنوری ہی سے شروع ہوجایا کرتا۔جلسہ کی تیاری کے سلسلہ میں میٹنگز ہورہی ہیں، آلات کی خرید اور کرایہ پر حصول کے سلسلے چل نکلے ہیں، ڈیوٹیاں طے ہو رہی ہیں۔ یوں چھ سات ماہ کا عرصہ گزرتا اور ہم جلسہ گاہ میں نصب ایم ٹی اے کے خیموں میں ڈیوٹیوں پر موجود ہوتے۔ ڈیوٹی کے اپنے تقاضے ہوتے۔ دل میں چھپا چھ سالہ بچا زور لگا لگا کر ادھر کو کھینچتا جدھر حضرت صاحب تشریف لارہے ہوتے، یا تشریف لے جارہے ہوتے۔ مگر اسے سمجھانا بجھانا پڑتا۔بمشکل سمجھ توجاتا مگر یہ بچہ بڑا ہونے ہی میں نہ آتا۔ہر سال جلسہ کے دنوں میں بیدار ہوتا، اور چھ سال کی عمر سے ذرا بھی بڑا نہ ہواہوتا۔

برطانیہ کا جلسہ موسمِ گرما میں ہوتا ہے۔ مگر موجودہ جلسہ گاہ ایسے کھلے سبزہ زار میں واقع ہے کہ صبح صبح حدِ نظر تک پھیلے سبزے پر کہر اور فضا میں دھند کی ایک لہر سی چھائی ہوتی ہے۔ یوں ہر روز ہی 1981ء کی ربوہ کی جلسہ گاہ کی دھند چشمِ تصور کے سامنے آجاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ربوہ کے جلسہ کے دنوں کی تمام خوشبوئیں اور تمام خوش رنگیاں بھی۔ چائے خانوں پر جلتی لکڑی اور اس کے ساتھ کڑھتی ہوئی چائے کی خوشبو۔ قسما قسم کی اشیائے خورونوش کی خوشبو۔ پرالی کی خوشبو۔ ربوہ کی کچی مٹی کی خوشبو۔کتابوں کی دکانوں کی خوشبو۔ جلسہ کی اپنی خوشبو۔ اور اگر حضرت خلیفۃ المسیح آپ کے پاس سے گزر جائیں تو ان کے وجود کی وہ آسمانی خوشبو جس جیسی خوشبو دنیا کا کوئی عطار نہیں بناسکتا۔

کسے خبر تھی کہ یہ خوشبویات جو تخیل اور تصور بن کر دل و دماغ سے آآکر لپٹی ہیں، سچ مچ میں دوبارہ نصیب ہوجائیں گی۔

2005ء کا سال ابھی چڑھا ہی تھا کہ حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کے قادیان جانے کی خبر گرم ہوئی۔ کوئی کہتا افواہ ہے۔ کوئی کہتا کہ بالکل پکی بات ہے اور تیاریاں بھی شروع ہیں۔ جوں جوں مہینے گزرتے گئے، محسوس ہونے لگا کہ خبر سچ ہے۔ تیاریاں نظر بھی آنے لگیں۔ ایم ٹی اے میں تیاری زیادہ قریب سے نظر آتی۔ پھر ویزوں کے حصول کی کوششیں شروع ہوئیں۔ دل میں چھپا چھ سالہ بچہ خوب سرگرم ہوا۔ کبھی ہاتھ پکڑ کر ویزے کی درخواست پُر کروارہا ہے۔ کبھی سفری دستاویزات کے حصول کی سعی میں لیے لیے پھررہا ہے۔ کبھی راتوں کو قادیان کے خواب دکھا رہا ہے اور وہ حالت کررہا ہے کہ یار کو میں نے مجھے یارنے سونے نہ دیا۔

ویزے کے حصول کے لیے لندن میں جماعت یوکے کے تحت ایک دفتر قائم کردیا گیا۔ جن دوستوں نے ان دنوں ویزے کے حصول کی کوشش کی ہے، وہ جانتے ہیں کہ اس دفتر میں کیا گھمسان کا رن مچتا تھا۔ صبح و شام عازمینِ جلسہ وہاں یوں ہجوم لگائے رکھتے جیسے وہیں سے کوئی سرنگ سیدھی قادیان کو جاتی ہو اور یہ پیشکش محدود مدت کے لیے ہو۔

خیر مدت تو محدود تھی ہی۔ اتنی محدود کہ ہمیں اپنا ویزا ملنا ناممکن نظر آنے لگا۔ جماعت کی طرف سے مقرر افسر نے بھی مایوس کن سی خبر سنادی۔ چھ سالہ بچے کی تمام تر ضد اور اترے چہرے کے باوجود فیصلہ کیا کہ ٹکٹ منسوخ کروادی جائے۔ سو ٹریول ایجنٹ کو فون کردیا کہ ٹکٹ منسوخ کردے۔ اس نے کہا کہ ایک آدھ دن لگ جائے گا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ اب جانا ہی ممکن نہیں تو ایک آدھ دن لگے یا جتنا بھی۔

اس وقت تک حضرت صاحب ماریشس سے ہوتے ہوئے بھارت میں رونق افروز ہوچکے تھے۔ جس دن ٹکٹ منسوخ کرنے کا کہا، اسی دن معلوم ہوا کہ اگلے روز حضور قادیان میں ورود فرمائیں گے۔ یہ مناظر ایم ٹی اے پر لائیو دکھائے جانے تھے۔

قادیان میں دوپہر کا وقت تھا اور یہاں بہت صبح کا۔ بھئی کیا نظارہ تھا! حضرت خلیفۃ المسیح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مولد و مسکن کی گلیوں میں چل رہے ہیں۔ ساتھ عشاق کا ایک سمندر ہے جو دونوں طرف پھیلا ہوا ہے۔ سمندر کے بیچ میں راستہ بنا ہےاور اس میں یہ فتح مند جرنیل گزررہا ہے۔ ہر گلی کوچے میں جھنڈیاں لہرا رہی ہیں۔ قمقمے روشن ہیں۔ رنگین بتیاں جھالر کی طرح ہر گھر کے چوباروں سے لٹک رہی ہیں۔ ایک عجیب و غریب ملکوتی نظارہ تھا۔ جلد شاہِ قادیاں، تشریف لائے قادیاں کے خواب کی تعبیر۔

میں نے فون اٹھایا اور لگا ٹریول ایجنٹ کو فون کرنے۔ ابھی اس کا دفتر نہ کھلا تھا۔ تب تک اس کا نمبر ملاتا رہا جب تک دفتر کھل نہ گیا اوراس نے فون اٹھا نہ لیا۔ نہایت مختصر الفاظ میں اسے کہا کہ ابھی ٹکٹ منسوخ نہ کی جائے۔ جونہی یہ نظارے ایم ٹی اے کی سکرین سے ہٹے، نہا دھو کر تیار ہوکر بیت الفتوح کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہاں ابھی دفتر کھلا ہی تھا۔ جو صاحب ویزوں کے حصول (اور بعض نالاں دوستوں کے بقول ’’عدم حصول‘‘)کے ذمہ دار تھے ابھی دفتر نہ پہنچے تھے۔ عملے نے بتایا کہ وہ تو سیدھا بھارت کے سفارتخانے چلے گئے ہیں اور شام کو واپس آئیں گے۔ مایوس ہو کر لوٹتے ہوئے سوچا کہ پہلے فون کر کے پوچھ ہی لیتے۔ یوں ہی گاڑی (اور منہ) اٹھا کر ادھر دوڑ لگادی۔ مگر دل تھا کہ کسی طور چین نہ پکڑتا تھااور کہیں ایک چھ سالہ بچہ ضدپکڑ گیا تھا۔

سہ پہر شام میں ڈھلنے ہی والی تھی کہ موبائل پر فون آیا۔ اور ساتھ ہی یہ خوش خبری بھی کہ ویزا لگ گیا ہے۔ اس کے آگے انہوں نے کیا لمبی داستان سنائی، سچ پوچھیں کہ نہ میں سن رہا تھا اور نہ کچھ سمجھ آرہی تھی۔ اتنا معلوم ہوا کہ وہ یہ بتاتے تھے کہ اس ویزے کے حصول کے لیے انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔ جو بھی تھا، وہ شکریہ کے بہت مستحق تھے، سو بوکھلاہٹ میں شکریہ ادا کردیا۔اور لگے گھر کی الماریاں کھولنے اور کونوں کھانچوں سے گردخوردہ سوٹ کیس اور سفری بیگ نکالنے۔ سوچا تو کئی دفعہ تھا کہ

آہ کیسی خوش گھڑی ہوگی کہ بانیلِ مرام

باندھیں گے رختِ سفر کو ہم برائے قادیاں

مگر وہ خوش گھڑی ایسی خوش ہوگی کہ خوشی کے مارے قدم بھی سیدھنے نہ پڑیں اور ہاتھ پاؤں پھول جائیں، یہ اندازہ ہی نہ تھا۔ مگر ہم خوشی خوشی سامان باندھتے رہے۔ کپڑے وغیرہ نکال لیے اور انہیں بستے میں ڈالنے لگے تو معلوم ہوا کہ من کے چھ سالہ بچے نے یہاں بھی شرارت کی تھی۔

بچپن میں امی سردیوں میں بہت اہتمام کروایا کرتیں۔ اکتوبر چڑھتا تو ہمارے شلواروں اور پتلونوں کے نیچے پہننے والے گرم پاجامے اور قمیص کے نیچے پہننے والے گرم سویٹر ہمیں زیبِ تن کروادیے جاتے۔ یہ ادلتے بدلتے تو رہتے مگر مارچ سے پہلے ان سے نجات ممکن نہ ہوتی۔ دھوپ نکل آئے، سردی بہت شدید نہ بھی پڑ رہی ہو، مگر امی کا یہ فیصلہ شاید ریلوے کا ٹائم ٹیبل دیکھ کر ہوتا۔ اکتوبر سے مارچ تک سرما کا موسم تھا اور یہ زیر جامہ جات مع دیگر لوازمات لازمی۔

آج جب کئی برس بعد 1981ء کے ماحول میں جلسہ دیکھنے کی امید جاگی، تو ہم نے بے ارادہ ویسے ہی گرم ملبوسات بھی ساتھ باندھ لیے، جیسے امی نے اس صبح مجھے پہنا رکھے تھے۔ جس روز حضرت خلیفۃ المسیح خطاب فرماتے تھے اور دھند میں ڈھکے میدان میں سےنعروں کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔اور ایک بچہ سردی اور نعروں سے پیدا ہونے والی برقی لہر کے باعث کونے میں کھڑا کپکپاتا تھا۔

اب ہمارے اور قادیان کے درمیان جو جست بھر کا فاصلہ رہ گیا تھا، وہ ہم نے ورجن ایٹلینٹک کی فلائٹ کے ذریعہ طے کیا۔اندراگاندھی ایئرپورٹ پر اترے تو ہماری پاکستانی قومیت کے طفیل ہمیں ایک فارم پکڑادیا گیا کہ اسے روزانہ پُر کرنا اور قادیان کے مقامی تھانے سے تصدیق کروانا ہے۔ ایئرپورٹ سے نکلے تو لگا پاکستان پہنچ گئے۔ سب کچھ ویسا ہی تو تھا۔ رکشوں کا شور، ٹیکسیوں کا بھیڑ بڑکا، سڑکوں پر رش، ٹھیلہ بانوں کے آوازے۔ سبھی کچھ!

ہماری دہلی سے قادیان کی ریل اگلے روز صبح روانہ ہونی تھی۔ وہ پورا دن اور رات بسر کرنے کا انتظام مشن ہاؤس واقع تغلق آباد، نئی دہلی میں تھا۔ وہاں پہنچ کرآرام کرنے کو ذرا بھی جی نہ چاہا۔ ایک مقامی دوست سے درخواست کی کہ ہمیں نظام الدین اولیاؒ کے مزار، مرزا غالب کے مزار اور غالب کے مسکن محلہ بلی ماراں لے جائیں۔ اللہ ان کا بھلا کرے کہ وہ ساتھ ہولیے اور ہمارے اس شوق کے پورا ہونے کا انتظام ہوگیا۔ جوں توں رات بسر کی اور صبح سویرے دہلی ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا۔ ٹرین وقت پر چلی اور سہ پہر کے قریب امرتسر پہنچی۔وہاں سے آگے ایک پک اپ نما موٹر کا انتظام تھا جس پر ہم قادیان کے لیے روانہ ہوئے۔ اس گاڑی میں ہم سب احمدی احباب و خواتین ہی تھے۔ جوں جوں قادیان قریب ہوتا گیا، آپس کی گفتگو کے سلسلے کم سے کم تر ہوتے گئے۔

گھنٹہ بھر کا سفر ختم ہونے کو آیا اور مینارۃ المسیح پر نظر پڑی تو ہوتے ہوتےسب خاموش ہو چکے تھے۔ سب کی نظریں ایسے تھیں کہ جیسے کوئی انہونا واقعہ دیکھ لیا ہو۔ واقعہ اَن ہونے سے کچھ کم بھی نہ تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح، مسیح پاکؑ کی بستی میں بنفسِ نفیس موجود ہوں، جلسہ میں رونق افروز ہو رہے ہوں اور ہمارے بخت ایسے جاگے ہوں کہ ہم بھی وہاں موجود ہوں۔ یہ اتفاقات اکٹھے روز روز کہاں ہوا کرتے ہیں؟ پس ہم سب جو اس گاڑی میں سوار تھے۔ ہم سب جو بہت دُور دُور سے قادیان کی مقدس بستی کی خاک کو اپنی جبینوں اور آنکھوں سے لگانے پہنچے تھے۔ ہم سب جو جانتے تھے کہ یہ واقعات روز روز نہیں ہوا کرتے۔ ہم سب قادیان میں وارد ہوئے۔ مَن کے بچے کا بھی آج عجیب عالم تھا۔ نہ نچلا بیٹھتا تھا نہ بیٹھنے دیتا تھا۔

گیسٹ ہاؤس کہاں ہے، رہائش کہاں ہوگی، کھانا کہاں سے ملے گا؟ یہ سب سوال ثانوی ہوگئے۔ مغرب کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ حضور نے اپنے دفتر سے مسجد میں تشریف لے جانا تھا۔ وہی منظر جو ہم نے کچھ روز قبل ایم ٹی اے پر دیکھا تھا، اب نظروں کے سامنے تھا۔ جیتا جاگتا منظر۔ پریوں کی کہانیوں جیسا ان ہونا سا منظر۔ عشاق تھے کہ ٹوٹے پڑتے تھے۔ میں ایسی جگہ پر تھا جہاں ایڑیاں اٹھانے کی ضرورت نہ تھی۔ مگر بے ارادہ ایڑیاں اٹھ گئیں اور حضور کے دیدار کے لیے آنکھیں بچھ گئیں۔ وہی سردی جسم سے لپٹتی تھی۔ وہی دھند فضا میں چھانے لگی تھی۔ چائے خانوں کے چولہوں میں لکڑی جلنےلگی تھی۔ قسما قسم کی خوشبوئیں پھیل رہی تھیں۔ بلند آواز میں نظمیں چل رہی تھی۔ اس ہجوم میں ہر بندہ پھولے نہ سماتا تھا۔ اور اس ہجوم میں ایک چھ سالہ بچہ بھی کسی سینے میں بَلیوں اچھل رہا تھا۔

قادیان کی بستی کا چپہ چپہ آباد تھا۔ لوگوں سے، خوشیوں سے، مسرتوں سے، امیدوں سے، دعاؤں سے۔منہ اندھیرے ہی لوگ باجماعت تہجد کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ جلسہ کے دنوں میں حضور مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھاتے۔جوق در جوق آنے والے عشاق کو مسجد میں جگہ مل گئی تو مل گئی ورنہ مساجد کے صحن، پھر مساجد کی چھتیں، مسجد سے متصل گلیاں، سب جبینوں سے سج جایا کرتیں۔ جہاں تک ہوسکتا انتظامیہ سائبان باندھ دیتی مگر یہ سائبان رات بھر پڑنے والی اوس اور کہر سے بوجھل ہوکربیچ میں سے ڈھلک جاتے اور پھر ہوا کے کسی جھونکے سے ٹپک پڑتے۔ مگر مجال ہے کہ پانی کی اس دھار کے نیچے کھڑے نمازی ذرہ برابر بھی گھبرا کر اِدھر اُدھر ہوجائیں۔ وہ نمازیں جو حضور کے پیچھے نصیب ہوتیں، وہ سب زائرین ِ قادیان کے لیے دعاؤں کا مورچہ تھیں۔ کون ایسا محفوظ مورچہ چھوڑ کر بھاگتا ہے؟

فجر کی نماز ختم ہوتی تو سب نمازی بلکہ یوں کہہ لیں کہ سبھی زائرینِ قادیان اور اہالیانِ قادیان بہشتی مقبرہ کا رخ کرتے۔بہشتی مقبرہ کی راہداریوں میں ایک طرف اندر جانے والوں کا ہجوم ہے تو دوسری طرف دعا کر کے واپس آنے والوں کا۔اس آمنے سامنے کی صورت میں کئی برسوں کے بچھڑے آشنا چہرے ایک دوسرے کو پہچانتے، ایک دوسرے سے گرمجوشی سے مصافحے کرتے، فرطِ محبت میں ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ جاتے۔

جس مہمان کا جہاں قیام و طعام کا انتظام ہوتا، وہاں واپس جاکر ناشتہ، جلسے کی تیاری اور پھر جلسہ گاہ کا رخ کر کے جلسہ کی کارروائی سے فیض حاصل کرنا ہوتا۔وہ نظارے دیکھنا ہوتے جب حضور جلسہ گاہ میں تشریف لاتے اور سب سے خطاب فرماتے۔

درمیانی وقفوں میں طرح طرح کی سرگرمیاں رہتیں۔ بٹوارے کے وقت جو بزرگ قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے تھے، وہ اپنے آبائی گھروں کی تلاش میں نکلتے۔ ساتھ اپنے بچوں کو بھی لے جاتے اور بڑے شوق سے اپنے گھر کو ڈھونڈتے ہوئے پہنچتے۔ بڑی خوشی سے بتاتے کہ میں اس کمرے میں پیدا ہوا تھا۔ ہم اس صحن میں کھیلاکرتے۔ ہمارے والد جب شام کو گھر لوٹ کر آتے تو ہم اس کمرے میں بیٹھ کر ان سے باتیں کیا کرتے۔ کوئی بزرگ بتاتا کہ میں سات سال کا تھا جب ہجرت ہوئی۔ کوئی کہتا میں دس سال کا تھا۔ کوئی کہتا میں چودہ برس کا تھا۔ اور اس وقت ان کی آنکھوں سے سات، دس اور چودہ سال کے بچے جھانک رہے ہوتے۔

یہ سب بزرگ جاتے وقت اپنے بچپن یہاں امانتا ًدفنا گئے تھے۔ ان گھروں میں اب اور لوگ آباد تھے۔ جہاں یہ بہت سے بچپن دفنائے گئے تھے، ان پر ہزاروں قدم اور کئی دہائیوں کے پھیر گزر چکے تھے۔ ان بچپنوں کی قبروں کے تعویذ زمانے کے ہاتھوں مسمار ہو چکے تھے۔ میں نے قادیان کے محلوں کے بہت سے گھروں سے ایسے بزرگوں کو اشکبار نکلتے دیکھا۔ خود میرے والد صاحب، جو عام طور پر بہت ہی مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، کی آنکھوں میں بھی کبھی نمی نظر آئی تو ایسے ہی لمحات میں نظر آئی۔ خاص طور پر جب انہوں نے مجھے بتایا کہ ’’یہاں ایک الماری ہوتی تھی۔ میں اپنے جوتے پالش کرکے اس کے نیچے رکھ گیا تھا کہ کچھ ہی دن میں واپس آئیں گے۔ تو پہنوں گا۔‘‘ ظاہر ہے وہ الماری اب وہاں نہیں تھی۔ وہ جوتے بھی نہیں تھے۔ مگر بچپن کی ایک یاد اب بھی دل کی کسی الماری کے نیچے پڑی چمک رہی تھی۔بالکل محفوظ!

یہ خوبصورت، چمکدار دن اور کہر میں بھیگی سرد راتیں بہت جلد بیت گئیں۔حضور ابھی قادیان ہی میں تھے کہ ہمارے واپس لندن جانے کا وقت آگیا۔

اس زمانے میں ایم ٹی اے کا دفتر مسجد فضل سے ملحق محمود ہال کے ایک حصے میں ہوتا تھا۔ یوں حضرت صاحب کے پیچھے دن میں تقریباً سبھی نمازیں پڑھنے کا موقع مل جاتا۔ دفتر کی کھڑکی بالکل مسجد فضل کے سامنے کھلتی۔ ہر نماز پر حضور کے آنے اور جانے کا منظر میں اور میرے دل میں چھپا چھ سال کا بچہ بڑے شوق سے دیکھا کرتے۔ مگر قادیان میں ہم دونوں نے حضور کو دیکھا تو لگا کہ ہم اس وقت کسی اور دنیا میں ہیں۔ حضور بھی کسی اور دنیا میں ہیں۔ مسیح پاکؑ کی بستی کا عجیب جادو تھا۔ لندن میں دن میں کئی مرتبہ حضور کو دیکھنے والے بھی کبھی پیچھے نہ رہے۔میں نے لندن سے گئے کئی لوگوں کو دیکھا کہ حضور جب بھی قادیان کی گلیوں میں سے گزرتے، وہ بھی عشاق کے اس ہجوم کی دھکم پیل میں لگے، ایڑیاں اٹھا کر حضور کے دیدار کے لیے ترسے جاتے۔ ہاتھ ہوا میں لہراتے۔ ’’السلام علیکم حضور!‘‘ کے نعرے لگاتے۔عجیب وقت تھا اور عجیب حالت تھی!

خیر! ہماری واپسی کے سفر کی صبح آپہنچی۔ میرے دوست اور ایم ٹی اے کے رفیقِ کاربرادرم شاہد احمد صاحب میرے ہمسفر تھے۔ ہم قادیان سے کس دل سے روانہ ہوئے۔ کس دل سے امرتسر کے سٹیشن پر بیٹھ کر دہلی جانے والی ریل گاڑی کا انتظار کیا۔ اور کس دل سے دہلی میں رات بسر کی۔ یہ بیان کی حدوں سے باہر کی باتیں ہیں۔ قادیان پہنچتے وقت جو سناٹا اس موٹر میں طاری ہوگیا تھا، وہی سناٹا ہم دونوں کے بیچ میں بھی تب تک حائل رہا جب تک ہمیں مینارۃ المسیح نظر آتا رہا۔ اس کے بعد بھی بہت دیر تک۔امرتسر اسٹیشن پہنچے تو لگا کہ پیر زمین پر واپس لگے ہیں۔اس کیفیت کے لیے الفاظ کا دامن تنگ ہے۔ یہ کہہ دینا کہ دل اداس تھےیقیناً کسرِِ بیان ہے۔

اگلے روز دہلی کے اندرا گاندھی ایئرپورٹ پر پہنچے تو پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات سیدھے کیے اور بڑے سکون سے بورڈنگ سٹاف کے سامنے رکھ دیے۔ شاہد صاحب تو گزر گئے۔جو افسر میرا پاسپورٹ دیکھ رہا تھا اس نے پاسپورٹ اپنے پاس ہی رکھا اور ان فارموں کا مطالبہ کیا جو آتے وقت مجھے ایئرپورٹ پر دیے گئے تھے۔ میں نے وہ فارم بھی پیش کیا۔ اس نے پوچھا: ’’دوسرا فارم؟‘‘ میں نے کہا ’’کون سا دوسرا فارم؟‘‘اس نے کہا ’’دو فارم ہیں جو ہر پاکستانی شہری نے تصدیق کرواکے واپس جمع کروانے ہوتے ہیں!‘‘میں نے اسے بتایا کہ مجھے ایک ہی فارم ملا تھا اور میں بڑی ذمہ داری سے اسے پُر بھی کرتا رہا ہوں اور پولیس سے تصدیق بھی کرواتا رہا ہوں۔ اُس نے میرے سارے کاغذات لیے اور اٹھ کر کہیں چلا گیا۔ پھر اس کے ساتھ دو افراد آئے اور دوسرے فارم کا مطالبہ کرنے لگے۔ میں نے انہیں بھی سچ بات بتادی کہ مجھے ایک ہی فارم دیا گیا تھا اور وہ حاضر ہے۔ پھر وہ گئے اور چار اور افراد کو لے آئے۔ اچھا خاصا تماشہ کھڑا ہوگیا۔ ایک پاکستانی شہری جو انڈیا کے بارڈر پر کھڑا ہو اور ’’مشکوک‘‘ قراردیا جارہا ہو، اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس اعصاب شکن صورت حال سے گزرے ہوں۔(یہ صورت حال بارڈر کےدوسری طرف بھی ایسی ہی اعصاب شکن اور خوفناک ہے)۔

کوئی آدھ گھنٹہ کے بعد یہ سب واپس آئے۔ اب کے ان کے ساتھ ایک اعلیٰ افسر تھا۔ اس نے میرے پاس آکر پوچھا:’’کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ میں نےبتایا کہ ’’قادیان میں جلسہ تھا۔ وہاں سے واپس لندن جارہا ہوں۔‘‘

یہ اعلیٰ افسر آدمی بھی اعلیٰ نکلا۔ پلٹ کر اپنے عملہ کو آواز لگائی:

’’یہ قادیان سے آیاہے۔اسے جانے دو!‘‘

کہنے والے کہتے ہیں کہ میں ایک بہت ہی حساس صورت حال سے بچ نکلا۔ ورنہ یہ ناممکن تھا کہ ایسی گھمبیرتا میں سے صاف نکل آؤ۔

یہ مسیحِ پاک علیہ السلام کی پاک بستی کے پاک نام کا جادو تھا۔نادانستہ ہی سہی، مگر میں غلطی پر تھا۔ قانون کی نظر میں میں ہی قصور وار ٹھہرتا۔ مگر قادیان کی بستی کا نام سن کر مجھے بخش دیا گیا۔

جس آدمی کے پاس اپنی بخشش کے لیے کوئی بھی اعمال نہ ہوں۔ کوئی بھی نیکیاں نہ ہوں۔ جس میں کوئی گُن نہ ہوں۔ وہ آدمی اس دعا کے سہارے جیتا ہے کہ جب روزِ حشر وہ حساب کے لیے پیش ہو تو کہیں سے آواز آجائے:

’’یہ قادیان سے آیاہے۔ اسے جانے دو!‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button