متفرق مضامین

رشیا سے جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے تاثرات

(رانا خالد احمد۔ انچارج رشین ڈیسک یوکے)

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی صداقت کو تمام عالم پر عیاں اورپوری شدّ و مدّ کے ساتھ ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بےشمار پیش خبریاں عطا فرمائی ہیں۔ان میں سے بہت سی پیشگوئیاں ان کی مبارک زندگی میں ہی ظاہر ہوگئیں اور باقی آپ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد پوری ہو تی چلی جا رہی ہیں۔ ایک عظیم الشان پیشگوئی آپؑ نے 1907ء میں اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر ان الفاظ میں بطور بشارت سنائی کہ

’’میں اپنی جماعت کورشیا کے علاقہ میں ریت کی مانند دیکھتا ہوں‘‘

(تذکرہ صفحہ 691)

اس بشارت کی تشریح فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا:

’’حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو روس میں ریت کے ذرّوں کی مانند دیکھتا ہوں۔پس اگر روس کی کامل تباہی مراد ہوتی تو ریت کے ذروں کا ذکر نہ ہوتا۔مراد یہ ہے کہ نظام ٹوٹے گاروسی قوم سلامت رہے گی اورا سے یہ توفیق ملے گی کہ وہ احمدیت کے نور سے منور ہو اور وہ نئی زندگی حاصل کرے۔پس روس کو نئی زندگی دینے والے ہم ہی ہوںگے۔‘‘

(الفضل 22؍اگست 1990ء)

چنانچہ خلافت رابعہ کے دور میں سوویت یونین کی شکست وریخت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ارشاد پر یوکے اور پاکستان سے بعض احباب جماعت نے رشیا اور دیگر ریاستوں کا دورہ کیا اور 90کی دہائی کے آغاز میں باقاعدہ مرکزی مبلغین کا تقرر عمل میں آیا۔جس کے نتیجہ میں جلد ہی رشیا،لتھوانیا،قزاخستان،قرغیزستان، بیلاروس،یوکرائن،ازبکستان وغیرہ ممالک میں مخلص جماعتیں قائم ہوگئیں۔

پھر یہی سلسلہ خلافت خامسہ کے مبارک دور میں بھی جاری رہا اور دیگر ریاستوں مثلاً تاجکستان،ترکمانستان،استونیا، لٹویا،آذربائیجان،مالدووا اور آرمینیا میں بھی احمدیت کا نفوذ عمل میں آیا۔ان ممالک سے تمام نومبائعین کی سب سےپہلی اور شدید خواہش یہی نظر آتی ہے کہ وہ کسی طرح جلد از جلد اپنے پیارے خلیفہ وقت کےساتھ ملاقات کرسکیں اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کرسکیں۔اس بات کو ممکن بنانے کے لیے وہ خاص طور پر کوشش کرتے ہیں اور رقم بچا بچا کر سفر خرچ جمع کرتے رہتے ہیں۔اس موقع پر اس امر کا ذکر کرنا مفید ہو گا کہ خلافت خامسہ کے مبارک دور میں تمام رشین بولنےا ور سمجھنے والے ممالک کی جماعتوں کو منظم کرنے کے لیے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2009ءمیں مرکزی رشین ڈیسک لندن کا قیام فرمایا۔چنانچہ اس بارے میں حضورا نور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 31؍دسمبر 2010ء میں ایک موقع پر فرمایا:

’’میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بات کرنا چاہتا تھا۔اس میں اللہ تعالیٰ نے اس سال ہمیں یہ بھی ایک فضل عطافرمایا جس کا مَیں اپنے جلسہ کے جو دوسرے دن کی رپورٹس ہوتی ہیں اس میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ رشین ڈیسک کے ذریعہ سے ایم۔ٹی۔ اے پر رشین پروگرام بھی اب جاری ہیں، خطبات کا ترجمہ بھی اور ویب سائٹ بھی شروع ہو گئی ہے۔ پہلے کہیں اِکّا دُکّا مجھے رشین احمدیوں کے خطوط آیا کرتے تھے اور وہ تھے بھی چند ایک۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کی تعداد سینکڑوں میں ہو گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام بھی ہے کہ روس میں ریت کے ذروں کی طرح احمدیت کو پھیلتے دیکھا۔(ماخوذ از تذکرہ صفحہ 691۔ چوتھا ایڈیشن۔ مطبوعہ ربوہ۔)‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ31؍دسمبر2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل21؍جنوری2011ءصفحہ8)

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جن مخلصین کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے بہت سے افراد نے جلسہ ہائے سالانہ منعقدہ یوکے،جرمنی اور قادیان میں شرکت کی سعادت حاصل کی ہے۔ان میں سے چند افراد نے جلسوں میں شمولیت کے بعد اپنے اندر پیدا ہونےو الی نمایاں روحانی تبدیلیوں کےذکر کے علاوہ اپنےا پنے دلی جذبات کا اظہار بھی کیا ہے۔جلسہ سالانہ قادیان کے حوالے سے بعض افراد کے تأثرات پیش خدمت ہیں۔

قرغیزستان سے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے والے بعض احباب کی پُرسرور یادیں

1۔ جماعت احمدیہ قرغیزستان کے نیشنل پریذیڈنٹ مکرم الیاس کُباتَوف صاحب تحریر کرتے ہیں کہ

’’اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے 2014ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی توفیق ملی اور اس کے نقوش زندگی بھررہیں گے۔ سفرکا آغاز دہلی کی فلائٹ سے ہوا۔ دہلی پہنچ کر میں نے جماعت کی کسی بھی مسجد کو پہلی دفعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اس سے پہلے میں نے مصر،قزاقستان اور قرغیزستان میں جماعت کے دفاتر اور نماز سنٹر ہی دیکھے تھے اور مسجد کو پہلی دفعہ دیکھ کر مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ مسجد میں امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا ایک اپنا ہی احسا س ہوتا ہے۔

قادیان پہنچ کر میں نے وہاں پر حقیقی اتحاد اور پیار محبت کا ماحول دیکھا اور اس ماحول میں ہم ایسے غرق ہوئے جیسے پانی کی لہریں آپ کو سر سے پاؤں تک اپنے اندر ڈبو دیتی ہیں مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں کسی اور ہی دنیا اور ماحول میں موجود ہو ں اور ایسے ماحول کو چھوڑ کر آنا بہت ہی مشکل تھا۔میں تمام ممبران خدام الاحمدیہ اور دوسرے کارکنان کا جنہوں نے ہماری اس جلسے پر خدمت کی بہت شکر گزار ہوں۔میں اپنے احساسات پر قابو نہ پاسکتا تھا اور بعض اوقات جلسے کی تقاریر سنتے ہوئے رو پڑتا تھا کیونکہ یہ تقاریر اتنی اہم تھیں جو کہ زندگی کو ایک نئی روح عطا کرتی تھیں۔

اپنے پیارے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرتے وقت وہاں کی فضامیں مکمل اطمینان اور سکینت تھی اور ایک دوسری دنیا میں ڈوب گیا، رات کاسا سناٹا تھا۔ اور وہاں پر میں ان خیالوں میں ڈوب گیا جب میں نےسن 2001ء کو مدینہ منورہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کی تھی وہاں پر میرے احساسات کچھ اور ہی تھے اور ایسے احساسات تھے جیسا کہ سورج کی کرنیں ہوتی ہیں۔ میں نے سوچا تو مجھے اس کا جواب مل گیا کہ ایسا کیوں تھا۔مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ یا د آگئے کہ جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سراج منیر ہیں اور مسیح موعود علیہ السلام بدر ہے جو کہ سورج سے روشنی لے کر چمکتا ہے۔وہاں پر میں نےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ عملاًمحسوس کیے۔

واپسی پر میں نے دو خوابیں دیکھیں ان میں سے ایک لکھ دیتا ہوں۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ شام کے وقت جب سورج غروب ہوتا ہے میں قادیان میں رشتہ ناطہ کے دفتر میں ہوں،وہاں پر کوئی بھی موجود نہیں تھا اور میں کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں پر حضرت امام مہدی علیہ السلام بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ کچھ کاغذات دیکھ رہے ہیں۔ میں نے بہت شرم محسوس کی کہ آپ اکیلے کام کر رہے ہیں اور وہاں اور کوئی بھی نہیں ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا ہوں اور میری دائیں ٹانگ آپ کی بائیں ٹانگ کے ساتھ لگ رہی ہے اور اس وجہ سے مجھے بہت زیادہ گھبراہٹ ہوئی۔ آپ علیہ السلام نے مجھے ایک کاغذدیا اس پر عربی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا میں نے اس کو پڑھ لیا تھا لیکن بھول گیا کہ اس میں کیا لکھا ہوا تھا اس کا مجھے بہت افسوس ہے۔

اللہ تعالیٰ میرے اندر موجود ہر قسم کا تکبر و رعونت معاف کرے اور اللہ تعالیٰ مجھے عاجزی وتقویٰ عطا فرمائے اور مجھے جماعت کے لیے ایک فائدہ مند وجود بنائے آمین۔‘‘

2۔ جماعت احمدیہ قرغیزستان کی مقامی جماعت بِشکیک سے مکرم سلامت کِشتوبائَیو صاحب تحریر کرتے ہیں کہ

’’میں سمجھتا ہوں کہ بانیِ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمدیہ قادیانی علیہ السلام کی پیدائش اور قیام کی جگہ کو جا کر دیکھنا ہر احمدی مسلمان کی خوہش ہوتی ہے۔ میں نے قادیان کے بارے میں ہمارے پیارے بھائی راویل بخارائیو کی لکھی کتاب ’’وہ راستہ جو خدا جانتا ہے‘‘سے پڑھا۔ اُس کتاب کو پڑھنے کے بعد وہاں جانا ایک خاص تاثیر کا حامل ہوا۔ اِس طرح سال 2013ء میں اللہ تعالیٰ نے یہ موقع فراہم کیا۔

سب سے پہلے قادیان میں داخل ہوتے وقت منارۃ المسیح پر نظر پڑھی۔مینار کو دیکھنے والی آنکھ پر یقین نہ ہوا۔ کسی خیالی کہانی میں چلنے کا احساس ہوا۔ قادیان کے قصبے میں جماعت کا نعرہ’’ محبت سب کےلیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ تحریر کردہ محراب سے داخل ہوئے۔داخلے کے وقت ہی گھروں میں لگی قرآنِ کریم کی آیات، آنحضور ﷺ کی احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو پڑھ کر اور گلیوں میں احمدی مسلمانوں کا ہجوم دیکھ کر دل پرولولہ ہو گیا۔ خاص طور پر گلیوں میں خواتین اور مردوں کو الگ الگ قطاروں میں چلتا دیکھ کر حقیقی مسلمانوں کے آداب و اخلاق کا پہلی بار گواہ ہوا۔ ہمارے قیام کا انتظام سرائے وسیم میں کیا گیا۔

وہاں خدمت پر مامور احمدیوں کے اخلاق دیکھ کر اُن خدمتگاروں اور اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکرادا کیا۔ قرآنِ کریم میں لکھی گئی سچے مسلمانوں کی تصویر قادیان میں دیکھی۔ پہلے ہی دن دنیا کے چاروں کونوں سے آئے احمدی مسلمانوں کے اخلاص اور باہمی محبت کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پہلی صبح اندھیرے میں قادیان کی تنگ گلیوں سے نمازِ تہجد کےلیے مسجداقصیٰ کی طرف گئے۔ گلیوں میں مسلمانوں کا ہجوم صبح سویرے اپنے خدا کی عبادت کےلیے جا رہا تھا۔ اُس دن سے لے کر ہر روز گلیوں میں لوگوں کا ہجوم نماز کےلیے جاتا تھا۔

اِسی طرح جلسہ کے ایمانی روح سے بھرے ہوئے مضامین نے ہماری روح پرایک خاص تاثیر چھوڑی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر گئے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ بہشتی قبر کی زیارت کی۔ اپنی زندگی میں پہلی دفعہ کسی قبر پر جا کر اتنی زندہ توانائی کا احساس ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کی جائے پیدائش اور نشوونما پانے والی جگہ نیز اللہ تعالیٰ کی وحی کا نزول ہونے والی جگہ پر اللہ تعالیٰ کے متواتر فضلوں کے وجود کا احساس ہوتا رہا۔ اِسی طرح جلسہ کے آغاز سے اختتام تک اللہ تعالیٰ کی برکات اور معجزات کا مشاہدہ کیا۔ قادیان سے رخصت ہوتے وقت بہشت سے واپس جانے کے احساس نے بہت بے چین کیا۔ اللہ تعالیٰ کا اپنی جماعت میں شامل کرنے پر ہزارہا شکر ادا کرتا ہوں۔‘‘

3۔ جماعت احمدیہ قرغیزستان کی مقامی جماعت بِشکیک سے مکرمہ یولیا گُبانَوفا صاحبہ تحریر کرتی ہیں کہ

’’جب مجھے بیعت کیے ہوئےاورجماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کیے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ہماری جماعت میں جلسہ سالانہ کا انعقاد ہوتا ہے۔ اور عنقریب جلسہ سالانہ ہمارے امام مہدی علیہ السلام کے آبائی وطن قادیان میں ہونا ہے۔

میں نے فوراً وہاں جانے کا ارادہ کر لیا۔ لیکن یہ خیال کرتے ہوئے کہ جلسہ سالانہ کے ایام کیتھولک کرسمس کے ایام کے ساتھ ہی آ رہے ہیں تو چونکہ اس وقت میں قرغیزستان میں امریکی بَیس میں کام کیا کرتی تھی، ایسا لگتا تھا کہ ان تاریخوں میں چھٹی ملنا محض ناممکن ہے۔میں نے دعائیں کرنا شروع کیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے چھٹی مل گئی اور اس طرح میں اس حیرت انگیز سفر پر جانے کے قابل ہوئی۔

ہندوستان کے سفر کے دوران وہاں قیام اور واپسی تک ہم نے ہرلمحہ معجزات اور اللہ کی مدد کا مشاہدہ کیا۔ اللہ کی مدد سے ہر قسم کے مراحل مکمل ہوئے اورہم قادیان کے تمام مقاماتِ مقدسہ کو دیکھنے کے قابل ہوئے۔

قادیان میں زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب میں کسی بھی مسجد میں گئی تھی۔ مسجد میں داخل ہوکر مجھ پر جذبات کا سیلاب امڈ آیا اور میں نماز پڑھتے ہوئے مسلسل روتی رہی۔ یہ ایک غیر معمولی احساس تھا، میں اس مسجد میں تھی جہاں اللہ کے پیغمبر نمازیں پڑھتے اور دعا ئیں کرتے تھے، ایسا لگتا تھا کہ زندگی میں اس سے زیادہ خوشی اورخوش قسمتی کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ایسا لگا تھا کہ جیسے جلسہ سالانہ ایک ہی لمحہ میں گزر گیا ہے۔ہم نے وہاں شہر کی سیر کی، مقدس مقامات کی زیارت کی، احمدی مسلمانوں کی یکجہتی اور اللہ اور اس کے رسول حضرت امام مہدی علیہ السلام سےاحمدی مسلمانوں کی محبت کا مشاہدہ کرنا ہمارے لیے بہت دلچسپ تھا۔

قادیان کے لوگ بڑے مہمان نواز اور اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ اللہ کے عجائبات ختم نہیں ہوئے،اس نے ہر موڑ پر ہماری مدد کی۔ ہمیں قادیان کی سیر ایک دوست نے کروائی، اس نےہمیں تحائف دیے، اس نے ہمیں درویشان قادیان سے ملاقات کروائی جنہوں نے خلیفۃ اللہ کی آواز پر لبیک کہا تھا اور اس کی مدد کی۔ غرض اس شہر کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی یادسے بھری ہوئی تھی۔

اس طرح کے احساسات کا تجربہ اس ماحول میں بغیر شامل ہوئے کرنا مشکل ہے۔ جلسہ سالانہ احمدی مومنین کے لیےروحانی ترقی کا اور اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنےکا بہترین موقع ہے۔

حالات بہتر ہونے پر جہاں بھی جلسہ سالانہ ہوا میں وہاں ضرور شامل ہوں گی،خاص طور اس جگہ جہاں پر ہمارے پیارے امام بنفس نفیس شامل ہوں گے تاکہ حضور انور کا دیدار کر سکوں۔اللہ تعالیٰ کا ہزاروں، لاکھوں شکر کہ اس نے 2013ءمیں مجھےحضرت امام مہدی علیہ السلام کی پاک بستی میں منعقد جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی۔ وہ بستی جس میں ہمارے امام مہدی دعائیں کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے میری دعائیں قبول فرمائیں اور اس نے ہمیں خوبصورت بیٹی کی نعمت سے نوازا۔جس کا ہونا محض ایک خواب ہی تھا۔ الحمدللہ، الحمدللہ، الحمدللہ!‘‘

4۔ جماعت احمدیہ قرغیزستان کی مقامی جماعت اَوش سے مکرم کابل جان خدائی بَیردَیو صاحب تحریر کرتے ہیں کہ

’’خاکسار کو جلسہ سالانہ قادیان 2018ء میں جماعت احمدیہ قرغیزستان کے تین افرادِ جماعت کے ساتھ شرکت کرنے کی توفیق ملی۔ امیرِ قافلہ کی ذمہ داری خاکسار کے سپردکی گئی۔ جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی اجازت دینے پر خاکسار حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ 23؍دسمبر 2018ء کو جماعت احمدیہ دہلی کے خدام نے ائیرپورٹ پر ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ اور ہمیں دہلی کے مشن ہاؤس میں پہنچایا۔ الحمدللہ۔ 25؍دسمبر کو ہم بذریعہ ٹرین دہلی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کی جگہ قادیان بخیروعافیت پہنچے۔ ہمارے وفد نے قادیان میں سرائے وسیم میں قیام کیا۔

قادیان کا جلسہ سالانہ ہر سال ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مجھے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے جلسہ سالانہ 2016ءمیں بھی شمولیت کی توفیق ملی۔اُس کے بعد تین ماہ جامعہ احمدیہ قادیان میں اردو زبان سیکھی۔ الحمدللہ۔ اِس طرح خاکسار نے اپنے وفدکے احباب کو جلسہ سالانہ کے مقاصد، برکتوں اور زیارت کے مقاصد کے بارے میں بتایا اور مترجم کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ نمازوں کے اوقات میں بروقت نمازیں ادا کیں اور بہشتی مقبرہ جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر کی زیارت کر کے دعا کی توفیق ملتی رہی۔ تمام مسلمانوں کی ہدایت، تمام احمدیوں کےلیے امان اور دینی مہمات میں کامیابی کےلیے دعا کی۔ وہاں پاکستان سے آئے ہوئے احمدیوں، علماء اور جامعہ احمدیہ ربوہ کی شخصیات سے بھی ملے اور اُن کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ سہ روزہ جلسہ سالانہ میں جماعت کے علماء سے علم و عرفان سے بھری دینی معلومات سننے کی سعادت نصیب ہوئی۔

قادیان کی بابرکت زمین پر رکھے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کے پیغمبر آنحضرت ﷺپر درود وسلام بھیجا۔ مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ میں باجماعت نمازِ تہجد ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے امام مہدی علیہ السلام کی قیامگاہ سے نور اور برکت حاصل کی۔ ہر روز بیت الدعا میں پڑھے دو رکعت نوافل سے خشوع وخضوع کی نعمتیں حاصل کیں۔الحمدللہ۔ اِسی طرح وفد کے احباب کے ساتھ نیا سال دو رکعت نوافل اور دعاؤں کے ساتھ منایا۔ اِسی طرح قادیان میں نوتعمیر مسجد مسرور، نمائش، روٹی پلانٹ اور خاص طور پر دارالمسیح کا دورہ کیا۔ جلسہ سالانہ کے ختم ہونے کے بعد رشیا سے آئے احمدی مہمانوں کے ساتھ ہوشیار پور کی زیارت کی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گوشۂ تنہائی میں عبادت کی تھی۔ وہاں جماعت کی مرکزی عمارت کی نئے سرے سے مرمت کی گئی تھی۔

ہوشیارپور میں یوکے سے آئے رضاکاروں نے ہمارا استقبال کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گوشۂ تنہائی کی عبادات کے حوالے سے ہمیں معلومات فراہم کیں۔ جلسہ کی برکات سے ہم نے وافر حصہ پایا۔ مہمان نوازی کا معیار بہت اعلیٰ سطح کا تھا۔ دور دراز افریقہ، انڈونیشیا وغیرہ ممالک سے آئے احمدی بھائیوں سے تعارف ہوا۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ کے مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں جان کر اُس پر ایمان لانے پر اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کیا۔ نیز اُس کی تعلیمات کو ساری دنیا میں پھیلانے کی ذمہ داری نبھانے کا عہد کیا۔

ہم نے پاکستان سے آئے بہت سے احمدی بھائیوں کے ساتھ تعارف کیا۔ بیت الدعا میں نوافل ادا کرنے کےلیے قطار میں ہم اپنی باری انہیں دے دیتے۔ اُن سے الوداع ہوتے ہوئے ہماری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ نمازوں میں اُن کےلیے بہت دعائیں کیں۔

مختصر یہ کہ قادیان میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ میں شرکت کر کے شرائطِ بیعت میں کیے گئے عہد و پیمان کو ایک بار پھر نئے سرے سے دہرانے کا موقع ملا۔ ہمیں ایسے نشان عطا کرنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمتوں سے حصہ لینے کا موقع فراہم کرنے پر خاکسار حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضور کو صحت و امان میں رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دینی امور میں کامیابی سے نوازے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے میں خود ہمارا ممد و معان ہو۔ آمین۔ ‘‘

5۔ جماعت احمدیہ قرغیزستان کی مقامی جماعت قرغیزستان سے مکرم اِسمائیلو آئی بیک اَنس صاحب تحریر کرتے ہیں کہ

’’اللہ تعالیٰ کی تائید اور فضل سے جلسہ سالانہ قادیان 2018ءمیں شمولیت کی توفیق ملی۔ جلسہ کے بارے میں احساسات و جذبات الگ سے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سرِزمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ذوق بالکل الگ ہے۔ اور یہ کہ تمہارے ہر طرف احمدی مسلمان اکٹھے ہیں۔

روزانہ صبح کے وقت نمازِ فجر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر جا کر دعا کرنا بہت اثر رکھتا ہے۔ کیونکہ وہاں جا کر آنحضرت ﷺ کی اُس ہدایت کو انسان یاد کرتا ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ جا کر امام مہدی کو میرا سلام پہنچانا۔جلسہ کی تقاریر اور وہاں ساری دنیا کی مختلف اقوام سے آئے مسلمان بھائیوں سے یکجہتی کا اظہار بہت اہمیت کا حامل ہے۔

عشاء کی نماز کےلیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مسجد میں جا کر آپ کی دعا کرنے والی جگہوں پر دعا کرنا بہت بابرکت ہے۔ … میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ قادیان میں دوبارہ شامل ہونے کی توفیق سے نوازے۔ کیونکہ اُس جلسہ کی برکات کا اظہار الفاظ سے کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘

6۔ جماعت احمدیہ قرغیزستان کی مقامی جماعت بِشکیک سے مکرم عاقِل بیگ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ

’’ہماری جماعت کے صدر صاحب نے مجھے2016ءمیں جلسہ سالانہ قادیان پر جانے کی دعوت دی جس پر میں نے قادیان جانے کی تیاری شروع کر دی لیکن ہمارے ایک بھائی نے مجھے اپنا جلسہ میں شمولیت کا تجربہ بتایا تھا جس کی وجہ سے میرےدل میں کچھ بے چینی سی پیدا ہو گئی لیکن اس کے باوجود بھی میں نے جلسہ پر جانے کا ارادہ مضبوط رکھا۔جلسہ پر جانے سے پہلے میری طبیعت ناساز تھی لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے میں جلسے پر چلا گیا۔

جب ہم دہلی مسجد میں پہنچے تو وہاں پر مجھے جلسہ کا ماحول محسوس ہوا وہاں پر بہت سے ملکوں سے لوگ آئے ہوئے تھے جو اس انتظار میں تھے کہ کب قادیان جائیں۔ وہاں پر انگلش زبان کی وجہ سے مجھے کافی آسانی رہی۔مجھے سب دوستوں سے مل کر باتیں وغیرہ کرنابہت اچھا لگا۔مجھے پیٹ کی ایک بیماری ہے جس کی وجہ سے میں تیز مرچوں والا کھانا نہیں کھا سکتا اس لیے میں قرغیزستان سے بہت سی دوائیں بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ انڈین کھانا بہت ہی مرچوں والا ہوتا ہے جس کو میں نے وہاں کھایا تھا لیکن اللہ کے فضل سے میرا پیٹ ٹھیک رہا اور میں ساری دوائیں واپس لے آیا وہاں پر مجھے ان کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔

دہلی سے قادیان کا سفردس گھنٹوں میں مکمل ہوا ہم رات کو قادیان پہنچے،سب دعاؤں میں مصروف ہوگئے جیسے ہی ہم نے مینارۃ المسیح کو دور سے دیکھا،میرے دل میں بہت خوف اور گھبراہٹ پیدا ہوئی۔جب ہم بس سے باہر نکلے تو ہماری طرف بہت سے بچے بھاگتے ہوئے آئے اور ہمارا استقبال کیا۔ہمارے ساتھ طلائی بیگ صاحب معلم سلسلہ بھی تھے جو اردو جانتے ہیں انہوں نےہمارے لیے ترجمہ کا کام کیا انہوں نے ہی ہمیں مساجد اور دارالمسیح کا دورہ کروایا اور جماعت کی تاریخ اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تاریخ کے بارے میں بتایا ہمیں بہشتی مقبرہ کی سیر کروائی مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں اپنے ہی گھر موجود ہوں اور وہاں سے واپسی کا دل نہیں کرتا تھا۔ تمام انتظامات بہت اچھے تھے۔ ہم نے وہاں پر مہمانوں کی اور علماء کی تقاریر سنیں اور بہت سے ملکوں کے احمدی بھائیوں سے تعارف حاصل کیا،بعض کے ساتھ ابھی تک بھی میری خط وکتابت جاری ہے لیکن ہم زیادہ دیر وہا ں رہ نہ سکے اور اس کاہمیں بہت دکھ ہوا۔مجھے یہ محسوس ہوا کہ اگر ہم قادیان سے واپس چلے جائیں گے تو جو کچھ بھی ہم نے حاصل کیا ہے سب کچھ جاتا رہے گا جب میں واپس گھر آیا تو دو ہفتے تک ڈپریشن کا شکار رہا اور میرا دل چاہتا تھا کہ میں واپس جلسےکے ماحول میںہی چلا جاؤں۔‘‘

7۔ جماعت احمدیہ قرغیزستان کی مقامی جماعت کاشغَر کِشْتاک کے صدر مکرم اَشیر علی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ

’’اللہ تعالیٰ کے فصل سے خاکسار کو 2013ءمیں جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔اور اس جلسہ میں خاص طور پر مہمانوں کےلیے کیے گئے انتظامات اور خدام کی خدمت نے بے حد متاثر کیا۔ کیونکہ خاکسار اِس بات سے واقف ہے کہ ایک چھوٹے گھر میں بھی مہمانوں کی مہمان نوازی کرنا خاصا مشکل کام ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ میں جلسہ سے پہلے حج کی ادائیگی کر کے آیا تھا۔ جو چیزیں میں نے حج کے دوران محسوس کیں وہی قادیان کے جلسہ سالانہ میں بھی محسوس ہوئیں۔ جیسے میں نے حج کے ایام میں حضرت محمد ﷺ کے روضے کی زیارت کی تھی نیز دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی قبور کی زیارت کی تھی۔ قادیان میں تہجد کی نماز ادا کی۔ حج کے دوران بھی مجھے ایسے ہی محسوس ہوتا تھا۔ مجھے جلسہ سالانہ قادیان ایسا لگا جیسے میں اپنے حج کو قادیان میں مکمل کر رہا ہوں۔اور میں مکہ والے حج میں ہی ہوں۔

قادیان کے جلسہ کے دوران مربی سلسلہ ارشد محمود ظفر صاحب نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ ’’اَشیر صاحب! آپ کو جلسہ کیسا لگ رہا ہے؟‘‘ تو میں نے ان سے مزاح میں کہا کہ غیر احمدی لوگ ہم پر جو تہمت لگاتے ہیں کہ احمدی لوگ حج کرنے کےلیے قادیان جاتے ہیں تو میرے خیال میں وہ سچ کہتے ہیں کیونکہ مجھے حج جیسا ہی لگ رہا ہے۔

بے شک حج کعبہ کے پاس ہی ہوتا ہےلیکن جو باتیں میں نے کعبہ میں حج کے دوران محسوس کیں اسی طرح قادیان میں بھی محسوس ہوئیں۔ قادیان سے واپس گھر آتے ہوئے مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کسی فرض یا نفل کی ادائیگی کر کے واپس آرہا ہوں۔‘‘

8۔ جماعتِ احمدیہ قرغیزستان کی مقامی جماعت بِشکیک سے مکرم رمضان بَیک مَمبَیتَو صاحب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے قرغیزستان احمدیہ مسلم جماعت کے ممبر کے طور پر جلسہ سالانہ قادیان 2018ءمیں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ الحمدللہ۔ میرے لیے اِس جلسہ میں شمولیت نے بہت سی باتیں کھولی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مہدی معہود علیہ السلام کے بارے میں دی گئی پیشگوئیوں کا پورا ہونا، دینِ اسلام کی حقیقت اور خلافت کی برکت عیاں ہوئی۔ جس پراللہ تعالیٰ کا ہزارہا شکر اور حمد کرتا ہوں۔

اور خاکسار جلسہ کے موقع پر تمام خدمت کرنے والے ہمارے تمام بھائیوں نیز رُفعت صاحب، اِلدار صاحب، رستم صاحب اور اسامہ شاہد صاحب کےلیے دعا کی درخواست ہے جنہوں نے ہمارے لیے ترجمہ کے فرائض سرانجام دیے۔‘‘

قزاخستان سے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے والے بعض احباب کے تاثرات

قزاخستان جماعت میں ایک کثیر تعداد ایسے احباب پر مشتمل ہے جو سوویت زمانہ میں پلے بڑھے اور دین سے متعلق آگاہی بہت ہی کم ہے، مسلمان اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی عملاً صرف نام کے مسلمان تھے، ایسے میں جب جماعت کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی تو تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں سخت پریشانی تھی کہ یہ معاملہ کیونکر حل ہو اور پھر قازاخستان سے یوکے اور یورپ کے ویزوں کے حصول میں مشکلات اور آنے جانے کے اخراجات چونکہ اکثر احباب کے لیے آسان نہیں ہیں تو 2012ءسے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لیے احباب کو خاص تحریک کی گئی، جس پر احباب کی ایک بڑی تعداد نے ان جلسوں میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے اوراب تو بعض احباب باقاعدہ پورا سال تھوڑی تھوڑی رقم جمع کرتے ہیں تا کہ قادیان کی زیارت کر سکیں، قادیان کی زیارت کے بعد جب دوست واپس پہنچتے ہیں تو خوشی ان کے چہرہ سے عیاں ہوتی ہے اور پیدائشی احمدی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے فالحمدللّٰہ علیٰ ذالک، گذشتہ چند سالوں میں بعض احباب کے تاثرات بغرض دعا و ازدیاد ایمان کے لیے پیش خدمت ہیں۔

ایان براییف صاحب قزاخستان کےدارالحکومت استانہ میں رہتے ہیں، 2010ء میں بیعت کی توفیق حاصل ہوئی، مخلص نو جوان ہیں ان کا کہنا ہے کہ قادیان میں وقت گزارنا ایسا تھا کہ جیسے جنت میں وقت گزر رہا ہو، اب قادیان گئے 6برس بیت چکے ہیں مگر بار بار جانے کو دل کرتا ہے اور خواہش ہے کہ وہاں جا کرپورا ایک سال رہوں، میں اللہ تعالیٰ کا بہت شکر گزار ہوں اور خوش ہوں کہ مجھے قادیان کی زیارت کا موقع ملا۔

الماتی سے قوت صادیقوف صاحب کو اہلیہ اور دو بیٹیوں کے ہم راہ 2012ء میں جلسہ میں شمولیت کی توفیق ملی، وہ بتاتے ہیں کہ جلسہ پر جانے سے پہلے ہمارے مقامی معلم عزیزم رفعت صاحب نے انہیں سگریٹ نوشی کی عادت چھوڑنے اور قادیان میں اس عادت سے پرہیز کرنے کا کہا مگر میں دہلی میں نظر چھپا کر سگریٹ نوشی کرتا تھا دہلی سے روانگی پر انہوں نے مجھے کہا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو اللہ نے سفید پرندوں کے آنے کی خوشخبری دی تھی تو کیا اب تم اپنی چونچ میں سگریٹ لے کر جاؤ گے، اللہ کے فضل سے قادیان کی برکت سے اس عادت سے جان چھوٹ گئی ہے۔ جب ہم قادیان پہنچے تو میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسا محبت بھرا ماحول تھا کہ جنت کا سماں لگتا تھا، مجھے پاکستانی احمدی بھائیوں کے مضبوط ایمان اور قادیان دیکھنے کی خوشی اور قادیان کے مقامی احمدیوں نے جس طرح ہماری تواضع کی وہ بھلائی نہیں جا سکتی، اور جب جلسہ شروع ہوا تو اس سے ہمارے ایمان بڑھ گئے، بہت اچھی باتیں سننے کو ملیں، کچھ درویشوں کے گھر جانے کا موقع ملا جنہوں نے ہماری تواضع ایسے کی جیسے بڑے لوگوں کی کی جاتی ہے، 8 سال گزر گئے بہت جی چاہتا ہے کہ دوبارہ قادیان کی زیارت کر سکیں۔

آکان صاحب نورسلطان (استانہ)سے تحریر کرتے ہیں کہ مجھے 2018ء میں شمولیت کی توفیق ملی، یہ ایک نہ بھولنے والا روحانی سفر تھا، قادیان کی بستی ایسی مقدس ہے کہ اتنا وقت گزر جانے کے باوجود اب بھی جذبات میں جوش پیدا کرتی ہے اور شائد جو وقت مجھے وہاں گزارنے کی توفیق ملی میں انہیں کبھی بھلا نہ سکوں گا اور وہ دنیا ہی دوسری تھی جسے میں الفاظ میں بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس بستی کی زیارت سے جو ایمان میں ایک جھٹکے کے ساتھ بیداری پیدا ہوتی ہے وہ روحانی اڑان کی طرح ہے اور مجھے بہت سے لوگوں کا پتہ ہے جنہیں اس مقدس بستی کی زیارت کے بعد اپنی بعض بد عادات سے چھٹکارا مل گیا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزارپر کھڑے ہوکر مجھے لگا کہ ہم صرف خوش قسمت ہی نہیں کہ امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کی توفیق پائی بلکہ حضرت رسول کریم ﷺ کا سلام پیش کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ بار بار زیارت کی توفق عطا فرمائے۔

محترم راویل سگیتوف صاحب شمکنت شہر کے رہنے والے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ مجھے 2000ءمیں بیعت کی توفیق ملی اور 2012ءمیں مجھے اپنی اہلیہ اور قزاخستان سے ایک بڑے وفد کے ہم راہ جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی توفیق ملی۔ یہ ایک ایسا نہ بھولنے والا سفر ہے جس نے میرے دل و دماغ پر گہرا نقش چھوڑا ہے، دہلی سے قادیان بذریعہ بس اندھیرے راہ کے سفر میں اچانک قطبین کی روشنی کی طرح قادیان کی بستی نظر آئی تو بہت جذبات کے ساتھ الحمدللہ، اللہ اکبر، اللہ اکبر کے الفاظ نکلے۔ ہمیں بہت محبت کے ساتھ مہمان خانہ میں ٹھہرایا گیا، روزانہ مسجد اقصیٰ میں تہجد اور باجماعت نمازوں کی ادائیگی کی توفیق ملی، روزانہ ہمیں قادیان کی بستی کو دیکھنے کا موقع ملا، لدھیانہ اور ہشیار پور اور وہ مکان جس میں پہلی بیعت ہوئی کی زیارت کی توفیق بھی ملی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور صحابہ کے واقعات سننے کا موقع بھی ملا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر پر بھی حاضری دی، اس دوران جن کیفیات سے گزرا ہوں انہیں ضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں اس وقت بھی آنسو نکل پڑتے تھے اور آج 8سال گزر جانے کے بعد بھی یہ الفاظ لکھتے ہوئے وہی جذباتی کیفیت ہے۔ قادیان بہت یاد آتا ہے خواہش ہے کہ پھر دوبارہ زیارت کو جاؤں اور اپنے ایمان کو تازہ کروں۔

شمکنت شہر سے نیشنل صدر لجنہ اماءاللہ قزاخستان محترمہ السیا سگیتووا صاحبہ بتاتی ہیں کہ مجھے 2012ءمیں اپنے خاوند صاحب اور دوسرے احمدی بہن بھائیوں کی معیت میں قادیان جانے کی توفیق ملی، قادیان میں تمام احمدی ایک دوسرے سے ایسے ملتے تھے جیسے ایک دوسرے کو جانتے ہوں، مقامات مقدسہ کی زیارت کی توفیق ملی جس پر میں اللہ تعالیٰ کی بہت مشکور ہوں کہ اس کے فضل سے توفیق ملی اب خواہش ہے کہ دوبارہ قادیان بھی جاؤں اور یوکے میں اپنے امام سے ملنے کی خواہش بھی ہے اللہ پوری فرمائےآمین۔

مایا تولیباییوا صاحبہ کو 2009ء میں بیعت کی توفیق ملی وہ بتاتی ہیں کہ انہیں اپنے خاوند صاحب کے ہم راہ 2015ءکے جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی توفیق ملی اور وہاں جو روحانی ماحول تھا اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، تیسرے دن حضور انور کے خطاب کے بعد خواتین رو پڑیں، اللہ تعالیٰ ہمیں قادیان کی دوبارہ زیارت کی توفیق عطا فرمائے اور حضور انور سے ملاقات کی خواہش بھی پوری ہو۔

صفیہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ مجھے 2014ءمیں قزاخستان کے وفد کے ہم راہ قادیان جانے کی توفیق ملی، دہلی سے قادیان بذریعہ بس آدھی رات کے وقت پہنچے اور قادیان میں پہلی نظرجو پڑی تو وہ ایک سفید روشن مینار تھا جس کا گہرا اثر ہوا۔ قادیان میں با جماعت نمازوں کی ادائیگی، تہجد اور بہشتی مقبرہ وغیرہ مقدس مقامات نے ان پر گہرا اثر چھوڑا اور تیسرا دن کچھ افسردہ کر دینے والا تھا کہ جب حضور انور کا آن لائن خطاب دیکھا اور سنا تو اس خطاب سے مجھے احساس ہواکہ میں عالمگیر جماعت کے ساتھ کیسے جڑی ہوئی ہوں۔ پاکستان سے احمدی خواتین نے میرے دل پر بہت گہرا اثر چھوڑا، میں ان کے اخلاص اور نیکیوں سے متاثر ہوئی مجھے ایسے بھی لگا جیسے ان میں سے بہتوں نے اس سفر کے لیے بہت قربانی کی ہے اور اس جلسہ کے دوران زمین پر پرالی پر بیٹھ کر سردی برداشت کرتی رہیں، مجھے یہ بھی علم ہے کہ انہیں اپنے وطن میں بہت سی تکالیف کا سامنا ہے لیکن انشاءاللہ اندھیرے کے بعد اجالا ہی ہوتا ہے۔

یسبول صاحب کرغندہ شہر کے رہنے والے ہیں اور 2017ءمیں بیعت کی توفیق ملی، بتاتے ہیں کہ قادیان میں جلسہ سالانہ میں شرکت سے میرے اندر بہت نمایاں اور گہری تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، میرا اندر سکون سے بھر گیا ہے اور مجھے اپنے ارد گرد سے بھی محبت محسوس ہوتی ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں اللہ کے قریب ہوا ہوں۔

مکرم روفات توکاموف صاحب معلم جماعت احمدیہ الماتی قزاخستان لکھتے ہیں کہ پیارے حضور کی اجازت سے جماعت احمدیہ قزاخستان نے 2010ء سے جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کا آغاز کیا۔ مشنری انچارج مکرم عطاء الرب صاحب کے ویزہ کے حصول میں مشکلات کے پیشِ نظر، اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے والے قافلہ کا امیر بننے کی مستقل طور پر سعادت نصیب ہوتی رہی۔ خاکسار کو پہلی مرتبہ 2011ءمیں اپنی اہلیہ کے ہم راہ قادیان جانے کا شرف نصیب ہوا، اُس سال قافلہ کی مجموعی تعداد 18 تھی۔ 2ویگنوں پر دہلی سے قادیان روانہ ہوتے وقت ہمیں کچھ مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب ہم دھند کی شدت کی وجہ سے راستہ بھی بھول گئے۔ لیکن الحمدللہ کہ احباب نے صبر کا مظاہر ہ کیا اور ہمارے پیارے نبی آنحضورﷺ کے فرمان کو یاد کیا کہ اگر تمہیں برف کی سلوں پر گھٹنوں کے بل بھی چل کر جانا پڑے تو ضرور جانا۔ بعدازاں 6 مرتبہ جب ہمیں قادیان جانے کا شرف نصیب ہوا تو میں نے قافلہ والوں کو ہر مرتبہ یہ حدیث یاد کروائی اور الحمدللہ کہ ہر فردِ جماعت نے کسی بھی قسم کی مشکل کے وقت صبر کا مظاہرہ کیا۔ اُس کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا جب پہلی مرتبہ ہماری مینارۃ المسیح پر نظر پڑی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر کوئی جو مینارۃ المسیح کو دیکھتا ہے وہ اس کیفیت کو سمجھ سکتا ہے۔ جب ہمیں بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی قبر کی زیارت کا موقع ملا تو ہر فرد کی آنکھ اشکبار تھی۔ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آنحضورﷺ کا سلام حضرت مسیح موعودؑ تک پہنچا نے کی توفیق عطا فرمائی۔ جب جلسہ سالانہ کا آغاز ہوا تو دل میں اس خیال نے جوش مارا کہ جلسہ کا آغاز اسی مقام سے ہوا تھا، اور ہر تقریر ہماری روح کی تسکین کا باعث بنتی رہی۔ انڈیا کے احمدی بھائیوں کی مہمان نوازی اعلیٰ درجہ کی تھی، انہوں نے انتہائی عزت افزائی اور اعلیٰ توجہگی کا مظاہرہ کیا۔ ہم امیر مقامی قادیان مکرم محمد انعام غوری صاحب کے انتہائی شکرگزار ہیں اور اُن سب کا بھی جو جلسہ کے انتظام میں تعاون کرتے رہے۔ اسی طرح ہمیں درویشانِ قادیان سے بھی ملاقات کا شرف نصیب ہوتا رہا، اُن کے گھروں میں جانے، اُن کے ہاں چائے پینے اور ان سے تاریخی واقعات سننے کا بھی موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ درویشانِ قادیان اور اُن کے اہلخانہ سے راضی ہو۔ اسی طرح خاکسار پاکستان سے آئے احمدیوں سے ملاقات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح کی پُرخلوص محبت اور ایسی توجہ خاکسار نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اُن کی محبت اور توجہ اُس وقت قابلِ دیدنی تھی جب انہیں معلوم ہوا کہ ہم Soviet Union کا حصہ رہے ہیں اور ہر کوئی خواہشمند تھا کہ ہمارے ساتھ تصویر اتروائے۔ قادیان کی طرف ہمارا ہر سفر شاملینِ جلسہ کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوا۔اُن میں سے بہتوں کی حالتیں بدل گئیں اور مسلسل بہتری کی جانب مائل ہیں۔ہم میں سے ہر ایک خواہشمند ہے کہ جب اس عالمی وبا کا خاتمہ ہو تو ہم لازماً قادیان جائیں کہ ہمارے دل ان روحانی مقامات سے بہت اداس ہیں جن میں حضرت مسیح موعودؑ نے زندگی بسر کی اور جہاں حضورؑ چلتے پھرتے رہے۔

٭…٭…٭-

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button