متفرق مضامین

جلسہ سالانہ قادیان 2010ء

(نفیسہ محمود۔ آسٹریلیا)

وہ لمحہ میں کبھی نہیں بھول سکتی جب 2010ء میں ہم کو یہ خوشخبری ملی جس کا دو سال سے انتظار تھا کہ ہم چاروں کے یعنی میرا ،میرے شوہر کا اور دونوں بچوں کا قادیان جلسہ سالانہ کےلیے ویزا لگ گیاہے۔ ہم پچھلےدو سال سے ویزا اپلائی کر رہے تھے ایک مرتبہ ویزاملا نہیں جبکہ دوسری مرتبہ حالات کی وجہ سے جانا ممکن نہ ہو سکا۔ خوشی کا حال بیان کرنا تو ممکن ہی نہیں بس اب انتظار تھا تو 24؍دسمبر کا کہ جس دن ہم نے قادیان جانا تھا۔ اپنے ایک عزیز کے ساتھ صبح ساڑھے نوبجے لاہور بارڈر پر پہنچے بس دل تھا کہ اب اڑ کے قادیان پہنچ جائیں۔ بارڈر پر لاہور کی جماعت نے بہترین انتظام کیا ہوا تھا۔ پانی، چائے، لذیذ ناشتہ ہر چیز میسر تھی۔ ہر بڑا چھوٹا اپنی اپنی ڈیوٹی بڑے جوش و خروش سے نبھا رہا تھا۔ 10-11سال کے بچے نہ جانے صبح کب سے آئے ہوئے تھے اور پوری مستعدی اور جوش سے سب کی مہمان نوازی کر رہے تھے۔ شدید سردی اور اتنے لوگوں کی موجودگی نے ان کی مستعدی میں ذرہ برابر کمی نہیں آنے دی۔ ہشاش بشاش مسکراتے اپنی اپنی ڈیوٹیاں انجام دیتے وہ ننھے فرشتے دل میں اتر رہے تھے اور دل خدا کی حمد سے بھر رہا تھا کہ خدا نے اپنے مسیح کو کیسی پیاری جماعت عطا کی جس کا بچہ بچہ بغیر کسی لالچ کے بس خدا کی رضا کی خاطر پوری تندہی سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ کسی تھکان اور بےزاری کا شائبہ تک نہیں ان کو دیکھ کر دل سے ان کےلیے دعائیں نکلتیں خدا ان کو اپنی امان میں رکھے اور قربانی کا یہ جذبہ کبھی بھی ماند نہ ہو نے پائے۔ آمین ثم آمین۔

بہرحال بارڈر کی تمام کارروائی سے فارغ ہوتے 12 سے اوپر کا وقت ہوگیا مگر کسی احمدی کے چہرے پر تھکان یا بےچینی کے آثار نہیں تھے۔ سب خوشی خوشی اپنے کام نپٹا کے چلتے جارہے تھے۔ ہم بھی چلتے چلتے واہگہ بارڈر پہنچے وہاں کسٹم وغیرہ سے فارغ ہوئے وہیں بارڈر پر قادیان کے خدام بسوں کے ٹکٹ کے سٹالز لگائے ہوئے تھے جن پر جلسہ سالانہ قادیان کی مبارکباد کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کے استقبال کےلیے پوسٹر بھی آویزاں تھے اور دوسری طرف زبردست کھانے کا مکمل انتظام اور وہی ڈیوٹی دیتے ہشاش بشاش چہرے۔ وہاں سے بس میں بیٹھ کے قادیان کی پیاری بستی کو روانہ ہوئے۔ دل تھا کہ بےقابو ہوا جارہا تھا کہ کب مسیح کی بستی کا دیدار ہوگا۔ جب بٹالہ پہنچے تو بتایا گیا کہ تھوڑی دیر میں مینارۃ المسیح دکھائی دے گا بس پھر کیا تھا سب بس کی کھڑکیوں سے لگ گئے اور جو ہماری طرح پہلی مرتبہ جارہا تھا اس کی تو حالت دیدنی تھی۔ مینار نظر آتے ہی دل ایسا زور کا دھڑکا کہ جیسے باہر آجائے گا۔ خدا کی حمد اور شکر سے آنسو تھے کہ تھم ہی نہیں رہے تھے۔ دل بار بار بے یقینی کی کیفیت سے دوچار کہ کیا واقعی ہم قادیان پہنچنے والے ہیں! اور جب قادیان بس پہنچی اور وہاں خدام نے فلک شگاف نعروں سے ہمیں خوش آمدید کہا وہ نعرے جو ہم پاکستانی صرف ٹی وی پر سن سکتے تھے آج ہمارے آس پاس گونج رہے تھے۔ اللہ اللہ وہ نظارہ آج بھی میرے دل کی دھڑکن کو تیز اور آنکھوں سے آنسو رواں کردیتا ہے۔ وہ کیفیت صرف محسوس کی جاسکتی ہے بیان کرنا بس سے باہر ہے۔ ہمارے ٹھہرنے کا انتظام جامعۃ المبشرین جبکہ مردوں کا سرائے طاہر میں تھا۔ دونوں عمارتیں آمنے سامنے ہیں۔ہم نے جلدی جلدی اپنے اپنے کمروں میں اپنا اپنا سامان رکھا اور خدا کے مسیح کی بستی کی زیارت کو نکل پڑے۔ ایک عجیب کیفیت تھی۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ کیا یہ وہی جگہ ہے وہی راستے ہیں جہاں میرے پیارے مسیحؑ نے کبھی قدم رکھے ہوں گے آج ہم چل رہے ہیں۔ دل تو کسی پل قابو میں آ ہی نہیں رہا تھا۔ بہشتی مقبرہ گئے۔ اس نبی آخر الزماں غلام مصطفیٰ مسیح و مہدی موعود علیہ السلام کے مزار کو دیکھا مگر یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ہم کو اس عظیم الشان نبی کے مزار پر دعا کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ ؎

صدشکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا

ساتھ ہی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار اور بہت سے پاک وجود جو اس پیاری بستی میں اپنے محبوب کے ساتھ مدفون ہیں جن کو اس دنیا میں بھی اور آخری آرام گاہ میں بھی پیارے مسیحؑ کا قرب نصیب ہوا۔ کیا ہی خوش نصیب وجود تھے۔

نماز تہجد روح تک کو جھنجھوڑ ڈالتی۔ وہ ایسی نماز ہوتی گویا ہم خدا کے پاس بیٹھے ہیں۔وہ پر رقت دعائیں اور تلاوت قرآن کریم۔ تمام مسجد آنسوؤں اور آہ و بکا سے بھر جاتی۔ دل چاہتا یہ نماز کبھی ختم ہی نہ ہو۔ سب سے اوپر والی منزل پر ٹین کے شیڈ کے نیچے سخت سردی میں بھی تہجد ادا کی مگر شوق کی گرمی نے سردی کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔ ویسی ہی آہ و زاری سے سب نے نماز ادا کی جیسے نیچے ہالز میں لوگ کر رہے تھے۔ غرض وہ دنیا وہ ماحول ہی اور تھا اس دنیا کا حصہ ہی نہیں لگتا تھا۔ خدا گویا ہم پر جھکا ہوا تھا، ہم کو سن رہا تھا، کیا بتاؤں وہ سب کیا تھا۔ وہ بیت الدعا میں دعا اور نوافل کےلیے قطار بندی۔ صبح فجر سے 9بجے تک اور رات مغرب سے 8بجے تک کا وقت عورتوں اور بچوں کے لیے مخصوص تھا۔

بچوں پر بھی اس ماحول کا ایسا اثر ہوا کہ میرے دونوں بیٹے جو اس وقت 10 سال کے تھے تہجد کے شوق میں سوتے نہیں تھے اور نوافل ادا کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے۔ بیت الدعا میں دعا کرنے کا اپنا ہی لطف ہے۔ عجیب سرور ہے، وہاں سے نکلنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ وہ بیت الذکر، بیت الفکر، بیت الدعا میں دعاؤں اور نوافل کی توفیق پانا۔ ان جگہوں پر جانا جہاں خدا تعالیٰ کے نشانات ظاہر ہوئے۔ مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ، سرخ چھینٹوں والا کمرہ، وہ کمرہ جہاں آپؑ نے کئی ماہ تک روزے رکھے، وہ کھڑکی جہاں سے آپ علیہ السلام بعض روایات کے مطابق گزر کرمسجد مبارک تشریف لے جاتے۔ غرض کس کس جگہ کا ذکر کروں وہ بستی تو تبرکات سے بھری پڑی ہے اس کے ذرے ذرے سے برکت ٹپکتی ہے۔

دارالمسیح جائیں تو باہر نکلنے کو دل ہی نہیں کرتا۔ کہیں امام الزماںؑ کی پیدائش کا کمرہ، کہیں حضرت اماں جانؓ کا دالان، ان کا باورچی خانہ اور کھڑکی جہاں سے آپ علیہ السلام کو کھانا پہنچایا جاتا۔ وہ کمرہ جہاں آپ علیہ السلام کو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کشفی رنگ میں ہوئی۔ وہ بیت الدعا جو آپ نے صرف اسلام کی سر بلندی کی دعائیں کرنے کےلیے تعمیر کروایا۔ غرض ایسی کون سی جگہ ہے جو اپنی طرف نہیں کھینچتی اور دل نہیں چاہتا کہ وہاں بیٹھ کر ان دنوں کو چشم تصور سے دیکھا جائے۔ اس بستی کا ذرّہ ذرّہ ایک عظیم الشان نبی کی داستان سناتا ہے۔

اور وہ جلسہ کے تین دن۔ کیا کہوں کیا تھے وہ دن وہ بھی مجھ جیسی کئی پاکستانی عورتوں اور مردوں کےلیے جو یہ تین دن اپنے گھروں میں ٹی وی کے آگے نمناک آنکھوں کے ساتھ گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہاں وہ تین دن جو اپنے اندر بے شمار برکتیں سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں جن کو محسوس کرنے کےلیے ہر پاکستانی احمدی کا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کب وہ دن آئیں گے جب ان کا خلیفہ ان کے درمیان ہوگا اورربوہ کی سرزمین پھر سے اذانوں اور اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھے گی۔

27سال بعد جلسہ سالانہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا کسی معجزہ سے کم نہیں تھا۔ 27سال پہلے بس ہلکا سا ہی یاد تھا کہ جلسہ ہوتا تھا۔ سب اکٹھے ہوتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے خطابات ہوتے تھے۔ لنگر ہوتا تھا۔ پر جب پوری طرح ہوش آیا تو یہ نعمت ہی ہم پاکستانیوں سے چھن گئی۔ ہمارے لیے تو جلسہ بس ٹی وی لاؤنج تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔ مگر قادیان میں وہ روح پرور نظارے، وہ کھلے بندوں اذانیں، فلک شگاف نعرے آسمان تلے باجماعت نمازیں بے خوف و خطر اپنے عقیدہ کا اظہار کسی نعمت سے کم نہیں۔

جلسے کا ایک ایک لمحہ اپنے اوپر طاری کیا جس کو ابھی بھی محسوس کرتی ہوں۔ صبح صبح جیسے تیسے ناشتہ کرکے جلدی جلدی جلسہ گاہ پہنچ جاتی کہ سب سے آگے جگہ ملے۔ اس وقت دھند کی وجہ سارا ماحول بہت خوبصورت دِکھتا۔ پنڈال میں بچھی پرالی دھند اور اوس کی وجہ سے پوری طرح بھیگی ہوتی مگر کسی بھی چیز کی پروا کیے بغیر سب آرام سے بیٹھ جاتے۔

وہ پرمعارف تقاریر، دلنشیں نظمیں۔ سب سے بڑھ کر میرے پیارے آقا میرے پیارے حضور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی لائیو خطاب جو ہم اپنے پنڈال میں فل وائیڈ سکرین پر دیکھ رہی تھیں۔ میں ہمیشہ سب سے آگے ہی بیٹھتی اس لیے اس دن بڑی سکرین پر اپنے پیارے آقا کو اتنے قریب سے دیکھا تو بس دیکھتی ہی رہ گئی۔ خداتعالیٰ کی اس نعمت پر قربان ہونے کو جی چاہتا اور نظر ہٹانے کو بھی دل نہیں چاہتا تھا اور اس روشن پروقار پرنور چہرے پر نظر ٹھہرتی بھی نہیں تھی۔ پیارے آقا کو دیکھ کر کتنی ہی بہنیں سسک پڑیں کہ جانے ہمارے پیارے حضور کب واپس آئیں گے اور تڑپ کر دعا کرتیں۔ حضور کی اقتدا میں اختتامی دعا نے ایک عجیب سکون بخشا۔ ایسا لگا گویا ساری محرومیاں دور ہوگئیں۔ بس وہ تین دن ایسے لگے کہ پلک جھپکتے گزر گئے۔ وہ تین دن میری زندگی کے بہترین دن تھے۔ اگلے دو روز خوب بارش ہوئی کہ جل تھل ہوگیا مگر قربان جاؤں اس پیارے امام پر کہ ایسی پیاری جماعت تیار کی جو ہر مشکل کو با حسن و خوبی دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ان سب نے ساری ساری رات کھلے میدانوں میں شدید سردی اور گہری دھند میں پوری مستعدی سے محض للہ ڈیوٹی دی۔ کیا عورتیں کیا مرد کیا بچے بچیاں سب ایک منظم فوج کی طرح اپنے اپنے محاذ سنبھالے ہوئے چاق و چوبند نظر آتے۔ آخری دنوں میں ان سب چہروں سے تھکن کے آثار تو دکھائی دیتے مگر بیزاری یا اکتاہٹ کا شائبہ تک نہیں تھا۔ ہنستے مسکراتے چہروں سے ہم کو الوداع کہا۔ دل سے دعا نکلتی کہ اللہ ان سب کو دین و دنیا کی تمام نعمتوں سے نوازے۔ آمین۔

کیرالہ سے آنے والوں کی ہمت اور جذبہ قابل دید تھا۔ وہاں کی لجنہ ہمارے ساتھ ہی رکی تھیں۔ بے انتہا غربت کے باوجود اتنی دور سے صرف اور صرف جلسہ کےلیے آئے۔ ان کے جذبہ کو دیکھ کر ان پہ رشک آتا تھا کہ ان کی یہ قربانی خدا ضرور قبول فرمائے گا۔ ان کو کھانے سے یا کسی بھی اور چیز سے کچھ غرض نہیں تھی بس ان کو شوق تھا تو جلسہ کا۔ ہم پاکستانیوں سے وہ بہت محبت سے پیش آئیں۔ شاید اس لیے کہ ربوہ بھی جماعت کا مرکز ہے جو پاکستان میں واقع ہے۔ بہرحال ان کی محبت کا یہ حال تھا کہ ایک نے اچانک میرا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگیں آپ پاکستان سے ہیں ہمارے لئے دعا کریں ہم آج واپس کیرالہ جارہے ہیں۔میں تو ایک گنہگار شخص ہوں لیکن ان کی اس بات سے میرا دل خدا کے حضور سجدہ میں جھک گیا کہ خدا نے ہم پاکستانی احمدیوں کی محرومیوں کا ازالہ کیسے پیارے پیارے طریقے سے کر رکھا ہے جس کا کبھی وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔

سبحان اللّٰہ و بحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم۔

ایک واقعہ جو اتنا پیارا ہے کہ آج بھی یاد آتا ہے تو دل حمد سے بھر جاتا ہے۔

ایک دن ہم سب بہشتی مقبرہ سے ملحقہ باغ میں ٹہلتے ہوئے اس شاہ نشین تک پہنچے جہاں وہاں لکھی ہوئی تحریر کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ تازہ شہتوت تناول فرماتے اور ساتھ ساتھ ان سے پر معارف مکالمات بھی جاری رہتے تو اسی شاہ نشین پر ایک 70 – 75 سالہ بزرگ اپنے امام سے عقیدت میں سر شار اسی جگہ بیٹھ کر کوئی پھل کھانے میں مصروف اپنے امام کی سنت پوری کر رہے تھے۔ اتنا پیارا منظر تھا کہ دل چاہا ان کی تصویر لی جائے اور میرے شوہر نے ان کی تصویر لی۔ اور ان بزرگ کی اپنے امام سے محبت دیکھ کر دل سے دعا نکلی کہ خدا تو ہمارے دلوں کو مسیح الزماں کی محبت سے ہمیشہ پر رکھیو۔ آمین ثم آمین

31؍دسمبر کو وہاں سے واپسی کا سفر کیا۔ واپسی پر دل اداس بھی تھا مگر خدا کے شکر سے لبریز بھی کہ اس نے جیتے جی ہم کو اس پیاری بستی کی زیارت کروائی۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ

واپسی پر پھر وہی ہنستے مسکراتے ڈیوٹی دیتے ہوئے چہرے جو تھکن کا احساس تک نہیں ہونے دیتے، ان پیارے پیارے چہروں کو دیکھتے سراہتے ان کےلیے دعائیں کرتے اپنی اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔ اس امید اور دعا کے ساتھ کہ اللہ دوبارہ ہم کو مسیح پاکؑ کی اس بستی میں لائے۔ آمین ثم آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button