متفرق مضامین

ہزار آنکھ میں اشکوں کے جل رہے تھے چراغ دیے بھی ساتھ تری یاد کے جلا کے چلے

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

میرا تعلق بھی احمدیت کی اس نسل سے ہے جس نے ربوہ میں آنکھ کھولی اور بچپن ہی سے احمدیہ کلچر میں پروان چڑھنے کا انمول موقع میسر آیا۔ یہ وہ کلچر تھا جس میں ننگے سر پھرنا آوارگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد لوگ بزرگوں کی قبروں پردعا کے لیے بہشتی مقبرہ کا رخ کرتے۔سارا دن السلام علیکم، جزاکم اللہ،الحمدللہ کی آوازیں کانوں میں پڑتیں۔ بڑے کا احترام لڑکپن سے سکھایا جاتا تھا۔روحانیت کی اس فضا میں جلسہ اجلاسات میں شرکت رائج الوقت ثقافت میں دلچسپی کا مظہر ٹھہرتی۔ سال بھر کی دلچسپیوں میں اجتماع اور جلسہ سالانہ کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ذیلی تنظیموں کے اجتماعات سے فارغ ہوتے ہی جلسہ سالانہ کا انتظار دل میں کھلبلی مچا دیتا۔اونٹوں پر بالن فروخت کرنے والوں کی آمد ہم بچوں کے لیے جلسہ سالانہ کے ایام قریب آنے کی نوید تھی۔ جب ہم ربوہ کی سڑکوں پر پرالی کے ٹرالر دیکھتے تو دل بلیوں اچھلنے لگتا کہ لو جی جلسہ آگیا۔ دفتر جلسہ سالانہ کے باہر پڑی پرالی کے ڈھیر پر ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلنا گویا جلسہ سالانہ کی پہلی مصروفیت تھی۔ پرائمری سکول سے ہائی سکول میں داخلہ کی خوشی میں یہ زعم بھی شامل تھا کہ اب جلسہ سالانہ کی ڈیوٹی کے قابل شمار کیے جائیں گے۔ اس زمانہ میں جلسہ سالانہ کا ڈیوٹی چارٹ چھاپ کر مساجد سے ملحق نوٹس بورڈ پر چسپاں کیا جاتا تھا۔ ہائی سکول کی اصل عمارت میں آٹھویں،نویں اور کلاس دہم کے علاوہ سائنس بلاک تھا۔ چھٹی اور ساتویں کلاس بورڈنگ ہاؤس میں لگا کرتی تھیں۔ سکول کی عمارت سے بورڈنگ ہاؤس جاتے ہوئے درمیانی راستہ میں دائیں طرف کتابوں کاپیوں کی ایک دکان تھی جو ماسٹر عبدالرحمان صاحب مرحوم کے صاحبزادے منیر الرحمان چلایا کرتے تھے۔ بائیں طرف ٹک شاپ تھی۔ جس پر دودھ،چائے اور کیک رس کے علاوہ کوئی چوتھی چیز موجود نہ ہوتی۔ جس روز ٹک شاپ پر ڈیوٹی چارٹ چسپاں ہوا تو اس طرف رش کرنے والوں میں یہ طفل مکتب بھی شامل تھا۔ جو جلسہ سالانہ پر پہلے بھی ڈیوٹی دے چکے تھے انہوں نے گذشتہ سال والے محکمہ میں اپنا نام جلد تلاش کر لیا لیکن وہ جنہوں نے پہلی بار ڈیوٹی دینی تھی ان کو اپنے نام کی تلاش کے لیے چارٹ کا مطالعہ کرنا تھا۔ تجسس کے وہ لمحات آج بھی میرے بچپن کی یادوں کا سرمایہ ہیں۔ جب میں نے اپنا نام شعبہ آب رسانی میں دیکھا تو یہ بات ہی خوشی کا باعث تھی کہ مجھے جلسہ کی ڈیوٹی کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔ اس ڈیوٹی کے حوالے سے پہلا تاثر جو ذہن میں آیا وہ مہمانوں کو پانی پلانے سے تھا۔بیس روز بعد جب ڈیوٹی پر حاضر ہوئے تو ڈیوٹی کے خدوخال پتہ چلے جو ذہن میں ابھرنے والے تاثر سے یکسر مختلف تھے۔ 1963ء کے جلسہ سالانہ پر مکرم حسن محمد خان عارف افسر شعبہ آب رسانی تھے۔ ان کے ساتھ مکرم ملک محمد احمد صاحب نائب افسراور ملک محمد دین صاحب جو دفتر کمیٹی آبادی تحریک جدید کے کارکن تھے انچارج دفتر تھے۔ معاونین میں میرے علاوہ فرید عارف اور کریم احمد نذیر کے نام مجھے اب تک یاد ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب دفتر جلسہ سالانہ چار دیواری کے تکلف سے آزاد ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ سامنے کھلے میدان میں شعبہ جات کے دفاتر خیموں میں قائم کیے جاتے۔ پہلی سروس جو ہم معاونین نے سرانجام دی وہ نظامت پرالی سے پرالی حاصل کرکے شعبہ آب رسانی کو ملنے والے خیمہ میں اس کو بچھانے کی تھی۔ پہلے روز کا بیشتر وقت دوسرے شعبہ جات کے دفاتر میں تاکا تاکی میں گزر گیا۔ دن ڈھلے ایک قافلہ شعبہ آب رسانی کے خیمہ میں اترا جس میں شامل ہر ایک کے ہاتھ میں حقہ،گلے میں ایک چادر اور کندھے پر مشک تھی۔ ملک محمد دین صاحب ان سب سے ایسے ملے جیسے یہ سب ان کے ذاتی مہمان ہوں۔ مہمانوں اور میزبان کے درمیان جاری خوش گفتاری میرے اوپر سے گزرتی رہی۔ ابھی یہ چاند ماری جاری تھی کہ بستروں سے بھرا ایک تانگہ آن پہنچا۔ شعبہ آب رسانی کے پرانے کارکنوں نے کہرام برپا کر دیا۔کانوں گو آگیا۔ کانوں گو آگیا۔ بعد میں یہ عقدہ کھلا۔ کانوں گو دراصل ماشکیوں کا ٹھیکہ دار تھا جو ہر سال جلسہ سالانہ پر ماشکی سپلائی کر کے ان کے کام کی نگرانی کیا کرتا۔ ہم کارکنان جو ابھی سکول کے بچے تھے نے چند منٹ میں بستروں سے بھرا تانگہ خالی کر دیا۔ یہ سب ایک گول دائرے میں بیٹھ گئے۔ ملک محمد دین صاحب نے دربار سجایا اور لنگر خانوں میں ضرورت کے مطابق سقوں ( رائج الوقت لفظ ماشکیوں ) کی تقسیم شروع ہوئی۔ فہرستیں بنائی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد یہ سب سوئے منزل روانہ ہوئے۔ میں بھی چار ماشکیوں کو لے کر لنگر خانہ تین جو ہائی سکول کے بورڈنگ ہاؤس سے ملحق تھا کی طرف چل پڑا۔ ملک محمد احمد صاحب کے ہاتھ کی لکھی پرچی میرے ہاتھ میں تھی۔ اسی پرچی پر وصولی کے دستخط لے کر واپس ملک صاحب کو جمع کروا دی۔ اگلی صبح مجھے بتایا گیا کہ دن میں دو بار مجھے اس لنگر خانہ میں جا کر ان چاروں کا حال احوال پو چھنا ہے،منتظمین سے ان کے کام کی رپورٹ لا کر دینی ہے اور لنگر خانہ سے دریائے چناب تک کے درمیانی محلہ جات میں گلیوں میں لگے ہینڈ پمپ کو تیل دینا ہے۔ جو حکم ملا وہ اس تصور سے یکسر مختلف تھا جو آب رسانی کی ڈیوٹی کے حوالے سے میرے ذہن میں محفوظ تھا۔ چھ روز تک دن میں دو بار دریائے چناب تک پیدل مارچ نے جلسہ کی ڈیوٹی کا نشہ ہرا کر دیا۔ اگلے سال میں نے ڈیوٹی بدلنے کی کوشش کی لیکن شومئ قسمت کہ چارٹ چھپا تو میرا نام پھر شعبہ آب رسانی میں تھا اور یوں میں تین سال تک جلسہ سالانہ کے ایام میں دارالنصر، دارالیمن اور باب الابواب میں لگے نلکوں کو تیل دیتا رہا۔

تین سال بعد حادثاتی طور پر ہماری ڈیوٹی تبدیل کر دی گئی۔ ماشکیوں کا ٹھیکہ دار کانوں گو دن بھر لنگر خانوں میں پانی سپلائی کرنے والے ماشکیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کے درمیان موجود رہتا اور رات شعبہ آب رسانی کے دفتری خیمہ میں بسر کرتا۔تین سال میں بے تکلفی بھی بڑھ گئی تھی۔ ہم پر اس کا یہ راز فاش ہو گیا کہ اس کے ذاتی سامان میں عام سادہ اور میوے والا گڑ موجود ہے جو یہ روز اپنے ماشکیوں میں تقسیم کرتا ہے۔ کریم نذیر۔ فرید عارف نے ہمت بندھوائی اور ہم نے میوے والے گڑ پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا۔ تین دن بعد کانوں گو ٹھیکہ دار نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ میں چھ دن کا گڑ لایا تھا تین دن میں ختم ہو گیا۔ یہ لڑکے میرا گڑ کھا گئے۔اب میں اپنے بندوں کو گڑ کہاں سے مہیا کروں۔ سادہ گڑ تو مہیا کر دیا گیا لیکن میوے والا گڑ ربوہ میں ناپید تھا۔ مکرم حسن محمد خان عارف افسرشعبہ اب رسانی کے پاس پیشی ہوئی۔ ملزمان میں ان کا بیٹا بھی شامل تھا۔ خوب ڈانٹ ڈپٹ ہوی لیکن آخر پر پیار سے بھی سمجھایا بجھایا گیا۔ بتایا گیا کہ ٹھیکہ دار اگر اپنے ماشکی واپس لے جائے تو لنگروں میں پانی کی سپلائی کا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔

ٹھیکہ دار کانوں گو جلسہ سالانہ فیملی کا ممبر بن چکا تھا اور جلسہ کو ہماری طرح انجوائے کرتا تھا۔ جلد بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن یہ ضرور ہوا کہ اگلے سال ڈیوٹی چارٹ چھپا تو ہم تینوں کی ڈیوٹی علیحدہ علیحدہ شعبہ میں درج تھی۔ میرا قرعہ فال شعبہ استقبال میں نکلا۔

شعبہ آب رسانی میں میرے تینوں افسر نہایت خلیق ، محبت کرنے والے اور مشفقانہ وجود تھے۔ ملک محمد دین صاحب تو میرے جرمنی آنے کے بعد جلد فوت ہو گئے۔ مکرم حسن محمد خان عارف اور مکرم ملک محمد احمد سے ان کی وفات تک تعلق رہا۔ ملک صاحب تو جرمنی میں مدفون ہیں۔ مکرم حسن صاحب سے آخری ملاقات ان کی وفات سے چند ماہ پہلے کینیڈا میں ہوئی۔ مکرم سید کمال یوسف صاحب مجھے بھی ہمراہ لے گئے اور یوں پیار بھرے وجود سے آخری ملاقات کا موقعہ میسر آگیا۔ اللہ تینوں محسنوں کو جوار رحمت میں جگہ دے۔

دو سال شعبہ استقبال میں مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب کے معاونین میں شامل رہا۔ کالج میں آئے تو پروفیسر صوفی بشارت الرحمان صاحب کی ہمسائیگی کی بدولت مجھے دفتر جلسہ سالانہ میں لے گئے جہاں وہ بحیثیت نائب افسر انچارج دفتر تھے۔ جامعہ احمدیہ کے دو طالب علم مکرم مجید سیالکوٹی اور مکرم منیر بسمل ہر وقت افسر صاحب جلسہ سالانہ حضرت سید میر داؤد احمد کے حکم کی بجا آوری کے لیے مستعد رہتے جبکہ کالج سے میں اور مکرم راجہ ناصر احمد مکرم پروفیسر بشارت الرحمان صاحب کا نظر انتخاب تھے۔ موبائل کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔ لنگر خانوں میں عام فون بھی مہیا نہ تھے۔ ہم سارا دن دفتر افسر جلسہ سالانہ اور دوسرے شعبہ جات کے درمیان پیغام رسانی کا فریضہ سرانجام دیتے۔ لنگر خانوں میں جانے کے لیے بائیسکل کی سہولت میسر تھی۔ اس ڈیوٹی کو ادا کرنے کی توفیق چار سال تک ملتی رہی۔ اس دفتر میں کام کرنے والے بزرگوں کی رفتار، انداز، سلیقہ، فوری فیصلہ کرنے کی خدا داد صلاحیت۔ ان تھک محنت کو ذاتی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ اگر کچھ نہیں سیکھ سکے تو اپنی نالائقی ہے ورنہ لوہے سے کندن ہو جانے کے کئی مواقع میسر آئے۔ زندگی نے وفا کی اور وقت میسر ہوا تو ان چار سالوں میں ہنگامی ضرورتوں کو جس انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچتے دیکھا وہ سپرد قلم ہو جائے تو آنےوالی نسلوں کے علم میں آئے کہ جلسہ سالانہ کے انعقاد کے لیے بزرگوں نے کیسے کیسے پاپڑ بیلے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان بزرگوں کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور ان کا شمار اپنے پیاروں میں کرے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button