تاریخ احمدیت

19؍دسمبر 1928ء: قادیان کی ترقی کا نیا دَور اور ریل کی آمد (قسط۔ دوم۔ آخری)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی یہ بات پوری ہوئی کہ قادیان میں لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی

(گذشتہ سے پیوستہ) اب صرف اسٹیشن کی تعمیر اور ریلوے لائن کی تکمیل کا کام باقی تھا۔ (الفضل 30؍ نومبر 1928ء) جو دن رات ایک کر کے مکمل کر دیا گیا۔ قادیان کے سب سے پہلے اسٹیشن ماسٹر بابو فقیر علی صاحب مقرر ہوئے۔ (الفضل 11؍دسمبر 1928ء)اور اسٹیشن کا نام ’’قادیان مغلاں‘‘ تجویز کیا گیا۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ لائن کے بوٹاری تک جانے کا فیصلہ ہوا تھا مگر ابھی لائن قادیان کے حدود تک نہیں پہنچی تھی کہ ریلوے حکام نے قادیان سے آگے لائن بچھانے کا فیصلہ ملتوی کر دیا۔ اور نہ صرف اگلے حصہ کی تعمیر رک گئی(الفضل 2؍ نومبر 1928ء)بلکہ آگے بچھی ہوئی ریلوے لائن اکھاڑ بھی دی گئی۔ اور جو اراضی اس کے لیے مختلف مالکوں سے خریدی گئی تھیں وہ اخیر میں نیلام عام کے ذریعہ فروخت کر دی گئی۔

ان حالات سے ظاہر ہے کہ یہ لائن خالص خدائی تصرف کے تحت محض قادیان کے لیے تیار ہوئی۔ منشی محمد دین صاحب سابق مختار عام (والد ماجد شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ سلسلہ) کا بیان ہے کہ جب ریلوے لائن بچھ گئی تو متعلقہ یورپین ریلوے افسر کی پرتکلف دعوت حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی میں کی گئی۔ سروے کا عملہ بھی شامل تھا۔ اور جماعت کے کئی معززین بھی شامل تھے۔ اس موقع پر اس یورپین افسر نے یہ بات ظاہر کی کہ میرے اندر کوئی ایسی طاقت پیدا ہوگئی تھی جو مجھے چین نہیں لینے دیتی تھی۔ اور یہی تحریک ہوتی تھی کہ جلد لائن مکمل ہو۔

(مکتوب شیخ محمد دین صاحب محررہ 20؍ جولائی 1928ء صفحہ5بنام مولف کتاب)

بالآخر یہ بتانا ضروری ہے کہ سلسلہ کے مفاد، قادیان کی ترقی اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لحاظ سے ضروری تھا کہ لائن قادیان کے شمال کی طرف سے ہوکر گذرے مگر ریلوے حکام اور علاقہ کی غیر احمدی اور غیر مسلم آبادی اسے جنوب سے گذارے جانے کے لیے انتہائی جوش اور پوری سرگرمی سے کوشش کر رہی تھی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنی فراست و بصیرت سے اس صورت حال کو پہلے سے معلوم کرلیا اور اس کی روک تھام کے لیے ابتدا ہی میں خاص انتظام سے ایک زبردست مہم شروع کرا دی۔ یہ مہم کیا تھی اس میں کن بزرگوں نے حصہ لیا۔ اور کس طرح کامیابی ہوئی اس کی تفصیل شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام کے بیان کے مطابق درج ذیل ہے فرماتے ہیں :

غالباً 1928ء کی ابتدا یا 1927ء کے آخر کا واقعہ ہے کہ کسی اخبار میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ …نے ایک سرکاری اعلان پڑھا جس میں اس قسم کا کوئی ذکر تھا کہ ریلوے امرت سر سے بیاس تک ملائی جائے اس پر حضور نے فوراً مولوی عبدالمغنی خان صاحب کو ناظر خاص مقرر فرمایا۔ حکام سے رابطہ کے لیے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ جو اس وقت ناظر امور خارجہ تھے مقرر کیے گئے۔ میں اور منشی امام الدین صاحب(والد ماجد چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ) ان دونوں بزرگوں کے لیے بطور معاون تجویز ہوئے۔

[حاشیہ: ’’اصحاب احمد‘‘ جلد اول صفحہ 104میں لکھا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے منشی صاحبؓ کو حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب کا نائب فرمایا اور منشی صاحب کئی ماہ تک سارا سارا دن پیدل سفر کر کے تندہی سے کام کرتے رہے۔ ]

ہماری تجویز یہ تھی کہ یہ ریلوے بٹالہ کے شمال کی طرف سے آئے اور قادیان کے شمالی جانب سے ہوتی ہوئی سری گوبندپور پہنچے۔ مگر محکمہ ریلوے اور علاقہ کے غیر مسلموں اور دوسرے مخالفین کی تجویز یہ تھی کہ ریل بٹالہ کے جنوب سے ہوتی ہوئی قادیان کے جنوب مقبرہ بہشتی کی طرف جائے وہاں سے سری گوبند پور سے ہوتی ہوئی بیاس تک پہنچائی جائے۔ ہماری طرف سے حکام کو بتایا گیا کہ بٹالہ کے جنوب کی اراضیات زیادہ زرخیز اور قیمتی ہیں اور شمالی جانب کی اراضیات کم قیمت کی ہیں۔ چنانچہ ریلوے نے ہماری یہ تجویز مان لی۔ اور سروے شروع ہوگیا۔ ریلوے نے اس ٹکڑا پر ریلوے لائن بچھانے کے لیے ایک یورپین افسر مقرر کیا تھا جو بہت ہوشیار نوجوان تھا۔ سروے کرنے والا سارا عملہ مسلمان تھا اور اس عملہ کے افسر معراج دین صاحب اوورسیر تھے۔ میری یہ ڈیوٹی تھی کہ میں اس عملہ کے ساتھ دن رات رہوں اور جماعتی مفاد کے مطابق اوورسیر معراج دین صاحب کو بتاؤں کہ ریلوے لائن بٹالہ کے شمال سے ہوتی ہوئی اس اس طریق سے آئے۔ چنانچہ جب سروے لائن نہر تتلے والی کے قریب پہنچ گئی تو مخالف عنصر نے جس میں قادیان کے مسلمان اور سکھ وغیرہ بھی شامل تھے پھر زور لگایا کہ ریلوے لائن قادیان کی جنوبی جانب سے پہنچے اس مرحلہ پر یورپین افسر نے حکم دیا کہ سروے کر کے معلوم کیا جائے کہ شمالی اور جنوبی جانب سے خرچ میں کس قدر تفاوت ہوگا۔ بظاہر حالات شمالی جانب خرچ قریباً لاکھ ڈیڑھ لاکھ زیادہ تھا۔ مگر ریلوے اوورسیر نے جب شمالی اور جنوبی جانب کا خرچ پیش کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں فرق خفیف سا ہے ( جس کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ قادیان کی جنوبی جانب پست تھی اور سیلاب کا پانی وہاں جمع رہتا تھا۔ جس سے بچاؤ کے لیے بھرتی ڈال کر لائن بچھانے کے اخراجات بھی اس میں شامل کرنے پڑتے تھے۔ مولف) بنابریں یورپین افسر نے ریلوے کے افسران بالا سے بھی یہی منظوری لے لی کہ لائن قادیان کے شمال ہی کی طرف سے گذاری جائے۔ چنانچہ لائن قادیان کے شمالی جانب سے تعمیر کی گئی۔ بلکہ اسی خسرہ نمبر سے آئی اور اسی مجوزہ جگہ پر اسٹیشن بنا جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ پہلے سے تجویز فرما چکے تھے۔

(ماخوذ از مکتوب جناب شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام 20؍ جولائی و 27؍جولائی 1965ء)

المختصر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی یہ بات پوری ہوئی کہ قادیان میں لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی اور اس طرح قادیان میں گاڑی کا آنا سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا ایک چمکتا ہوا نشان بن گیا۔ اور قادیان کے ریلوے نظام سے وابستہ ہونے کے بعد سلسلہ کی ترقی کا میدان وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ فالحمد للہ علی ذالک۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ 87تا 89)

امرتسر قادیان ریلوے کا افتتاح اور گاڑی پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا مع خدام سفر

ریلوے پروگرام کے مطابق چونکہ 19؍دسمبر 1928ء کو امرت سر سے قادیان جانے والی پہلی ریل گاڑی روانہ ہونی تھی۔ اس لیے قادیان سے بہت سے مرد عورتیں اور بچے اس تاریخ کو امرت سر پہنچ گئے۔ نیز حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بنفس نفیس 3بجے بعد دوپہر امرت سر تشریف لے آئے تا قادیان ریلوے کے افتتاح کی تقریب پر اس خدائے قدوس کے آگے دست دعا بلند کریں جس نے محض اپنے فضل و کرم سے موجودہ زمانے کی اہم ایجاد کو خدام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آرام و آسائش کے لیے مرکز احمدیت تک پہنچا دیا۔

حضورؓ کے امرت سر اسٹیشن پر تشریف لاتے ہی ہجوم بہت زیادہ ہوگیا کیونکہ قادیان کے دوستوں کے علاوہ گوجرانوالہ، لاہور، امرت سر اور بعض دور دراز مقامات کے احباب بھی آگئے اور گاڑی روانہ ہونے سے قبل قادیان جانے والوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ ریلوے والوں کو پہلی تجویز کردہ گاڑیوں میں اور ڈبوں کا اضافہ کرنا پڑا۔

گاڑی کے پاس ہی اذان کہی گئی اور حضورؓ نے ظہر و عصر کی نمازیں ایک بہت بڑے مجمع کو باجماعت پڑھائیں اس کے بعد حضورؓ نے احباب کو شرف مصافحہ بخشا۔ پھر حضورؓ گاڑی کے دروازہ میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ریل کا قادیان میں آنا مبارک کرے۔ یہ کہہ کر حضورؓ نے مجمع سمیت چند منٹ تک نہایت توجہ اور الحاح سے دعا کرائی اور پھر سب احباب گاڑیوں میں سوار ہوگئے۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے ریل گاڑی کے جاری ہونے سے متعلق چار صفحہ کا ایک بہت عمدہ اور مؤثر ٹریکٹ تیار کر کے گاڑی چلنے کے موقع پر تقسیم کر دیا۔ جس میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے اوائل زمانہ کی مشکلات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ثابت کیا کہ ریل کا کسی حصہ ملک میں جاری ہو جانا معمولی بات ہے مگر قادیان کی ریل خاص تائید الٰہی میں سے ہے اور اس کی تقدیر خاص کے ماتحت تیار ہوئی ہے اور ان عظیم الشان نشانوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ انبیاء کی تائید کے لیے ظاہر فرماتا ہے۔

(حاشیہ: اس کا مکمل متن الفضل 25؍دسمبر 1928ء صفحہ 7تا8میں چھپا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قادیان میں گاڑی آنے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہمرکاب سفر کرنے کی نسبت ایک مبشر خواب بھی دیکھا تھا جس کا ذکر آپ نے اس ٹریکٹ میں بھی کر دیا ہے۔ )

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے رونق افروز ہونے کے بعد جتنی دیر تک گاڑی اسٹیشن پر کھڑی رہی۔ مدرسہ احمدیہ کے سکاؤٹس نہایت خوش الحانی سے اردو اور پنجابی نظمیں پڑھتے رہے اور انہوں نے چند آیات و الہامات سے جو سرخ رنگ کے کپڑوں پر چسپاں تھیں گاڑی بھی خوب سجائی اور جاذب نظر بنالی تھی۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :

٭…اَلَاۤ اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ۔ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ

٭…وَ اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ وَ اِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ

٭… دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔

٭…اَھْلاً وَّ سَھْلاً وَّ مَرْحَبًا

٭…خوش آمدید

٭…غلام احمد کی جے۔

٭… یہ میرے رب سے میرے لیے اک گواہ ہے

یہ میرے صدق دعویٰ پر مہر الٰہ ہے

گاڑی نے اپنے مقررہ وقت 3 بج کر 42 منٹ پر حرکت کی اور ساتھ ہی اللّٰہ اکبر کا نہایت بلند اور پر زور نعرہ بلند ہوا جو گاڑی کے ریلوے یارڈ سے نکلنے تک برابر بلند ہوتا رہا۔ گاڑی دیکھنے کے لیے آدمیوں کے گذرنے کے پل پر بڑا ہجوم تھا۔ اللہ اکبر اور’’غلام احمد کی جے‘‘ کے نعرے راستہ کے ہر گاؤں اور اسٹیشن پر بلند ہوتے آئے اگرچہ گاڑی امرتسر ہی سے بالکل پر ہوگئی تھی اور ہر ایک درجہ میں بہت کثرت سے آدمی بیٹھے تھے۔ لیکن بٹالہ اسٹیشن پر تو ایسا اژدہام ہوگیا تھا کہ بہت لوگ گاڑی میں بیٹھ نہ سکے اور بہت سے بمشکل پائدانوں پر کھڑے ہو سکے۔ کچھ قادیان سے پہلے اسٹیشن وڈالہ گرنتھیاں پر بھی جہاں اردگرد کے بہت سے احمدی مرد و عورتیں جمع تھیں چند ہی اصحاب بدقت بیٹھ سکے۔ آخر گاڑی اپنے وقت پر 6بجے شام کو قادیان کے پلیٹ فارم پر پہنچی یہاں بھی قرب و جوار کے بہت سے دوستوں کا ہجوم تھا اسٹیشن جھنڈیوں اور گملوں سے خوب آراستہ تھا۔ فضا بہت دیر تک اللہ اکبر اور ’’غلام احمد کی جے‘‘ کے پرجوش نعروں سے خوب گونجتی رہی۔ کچھ عجیب ہی شان نظر آ رہی تھی۔ گذشتہ سال انہی ایام میں کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اس مقام پر اتنی رونق اور ایسی چہل پہل ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے قلیل ہی عرصہ میں ایسے سامان پیدا کر دیے کہ بالکل نیا نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ فالحمد للہ علی ذالک۔

اس سفر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضور کے اہل بیت کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کئی نونہال بھی اس گاڑی میں تشریف لائے تھے۔ اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ، حضرت مولانا مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ، حضرت مولانا مولوی شیر علی صاحبؓ، حضرت عرفانی کبیر شیخ یعقوب علی صاحبؓ ایڈیٹر الحکم، حضرت مولوی میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر ’’فاروق‘‘، حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال، حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ اور کئی اور مقامی بزرگوں کو بھی اس گاڑی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔

(الفضل 25؍ دسمبر 1928ء۔ ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 90 تا 92)

[حاشیہ:اس پہلی گاڑی کے گارڈ کا نام بابو ولی محمد صاحب اور ڈرائیور کا نام بابو عمر دین صاحب تھا گاڑی امرت سر سے بٹالہ تک 25میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بٹالہ تا قادیان 15میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آئی جس میں پانچ بوگیاں تین سنگل گاڑیاں اور دو بریک وان تھیں۔ انجن Class T۔ S اور 709 نمبر کا تھا۔ اس پہلی گاڑی کو جو امرت سر سے قادیان جانی تھی دیکھنے اور اس میں سفر کرنے کے لیے دور ترین فاصلہ سے جو پہلے ٹکٹ خریدے گئے وہ مکرم شیخ احمد اللہ صاحب ہیڈ کلرک کنٹونمنٹ بورڈ نوشہرہ اور ان کی ہمشیرزادی زبیدہ خاتون صاحبہ کے نوشہرہ چھاؤنی سے قادیان تک کے تھے یہ گاڑی رات کو ساڑھے6 بجے امرت سر چلی گئی جس میں بٹالہ، امرت سر اور لاہور کے بہت سے اصحاب واپس ہوگئے۔ ریل کے افتتاح پر احمدیان مالابار اور احمدیہ ایسوسی ایشن میمو(برما) نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حضور مبارکباد کے تار ارسال کیے اور اپنی عدم شمولیت پر اظہار افسوس کیا۔ ]

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 119)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button