متفرق مضامین

تدوین حدیث اور پہلی تین صدیوں میں ضبط تحریر میں آنے والی کتب حدیث (قسط دوم)

(خواجہ عبد العظیم احمد۔پرنسپل جامعۃ المبشرین نائجیریا)

تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی بھی حدیثیں ہوں، ان پر نظر کرو اور انہیں لکھ لو، کیونکہ مجھے علم دین کے مٹنے اور علماء دین کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے

دوسری صدی ہجری میں ضبط تحریر میں آنے والی کتب ِاحادیث

پہلی صدی ہجری کے اختتام پر اور دوسری صدی ہجری کی شروعات سے قبل حدیث شریف کی جمع و تدوین باقاعدگی کے ساتھ شروع ہو چکی تھی۔ اس سلسلے میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمات سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ذیل میں ان کا مختصر سا تعارف اور ان کی خدمات کے حوالے سے ایک نوٹ پیش کیا جائے گا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز

(ولادت:62ھ۔وفات:101ھ)

آپ کا نام عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم تھا اور کنیت ابو حفص تھی۔ آپ بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ/حکمران تھے اور سلیمان بن عبدالملک کے بعد حاکم بنے۔ آپ کو آپ کے نیکی و تقویٰ، علم و فضل اور زہد و ورع کی وجہ سے عمر ثانی کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ آپ کو چھٹا خلیفہ راشد بھی کہتے ہیں۔آپ کی پیدائش 62ھ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ کا نام ام عاصم تھا جو عاصم بن الخطاب کی صاحبزادی تھیں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی پوتی تھیں۔ اس حساب سے آپ حضرت عمر بن خطاب کے پڑ نواسے تھے۔ آپ نے اس وقت کے صحابہ حضرت انس بن مالکؓ، سائب بن یزید اور یوسف بن عبد اللہ جیسے جلیل القدر صحابہ اور تابعین سے فیض حاصل کیا۔ آپ کا دَور گو مختصر رہا مگر اس نے دور فاروقی کی یاد تازہ کر دی۔ آپ نہایت عابدو زاہد، متقی و پرہیزگار، خدا رسیدہ و بندہ پرور بزرگ تھے۔ آپ کی وفات 101ھ میں ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 39سال تھی۔ آپ کو حلب کے قریب دیر سمعان میں سپرد خاک کیا گیا جو شام میں ہے۔

جمع و تدوین حدیث اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے کار ہائے نمایاں

حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حدیث کی تدوین کو ایک فن کی حیثیت سے اسلامی ممالک میں اس وقت کے موجود صحابہ اور تابعین کرام کو شاہی حکم کے ذریعہ شروع کیا تھا۔ آپ نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ

‘‘تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی بھی حدیثیں ہوں، ان پر نظر کرو اور انہیں لکھ لو، کیونکہ مجھے علم دین کے مٹنے اور علماء دین کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کی حدیث قبول نہ کرو اور لوگوں کو چاہیے کہ علم پھیلائیں اور (ایک جگہ جم کر) بیٹھیں تاکہ جاہل بھی جان لے اور علم چھپانے ہی سے ضائع ہوتا ہے۔ ’’

( فتح الباری شرح صحیح بخاری، کتاب العلم، باب کیف یُقبضُ العلمُ۔، جلد اوّل، صفحہ 256، مطبوعہ دار السلام الریاض )

ایسا ہی خط حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مدینہ منورہ کے علماء کوبھی لکھا، مدینہ کے محدث امام زُہریؒ کو بھی ایسا ہی حکم دیا۔ امام زہری نے کس طرح تعمیل کی۔ حضرت ابوزناد بتلاتے ہیں کہ ہم امام زہری کے پاس ملاقات کو گئے تو ان کے پاس علماء کی ایک ٹیم بیٹھی تھی جن کے پاس تختیاں اور رجسٹر تھے اور وہ ان پر لکھ رہے تھے۔ الغرض تابعین علماء میں سے جناب مجاہد بن جبر کے پاس تفسیر میں لکھا ہوا ایک ذخیرہ تھا۔ آپ مکہ میں تھے، بصرہ میں حضرت قتادہؓ، شام میں حضرت مکحولؓ، یمن میں وہب بن منبہ اور معمر بن راشد، بصرہ میں سعید بن عروبہ، کوفہ میں سفیان ثوری، خراسان میں ابراہیم بن طہمان، مدینہ میں حضرت مالک بن انس نے ‘‘موطأ’’ لکھی۔

ان میں سے بعض اہل علم تابعین کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اور بعض کا ذکر ان کی کتب کے ذکر کے ساتھ آئندہ سطور میں کیا جائے گا۔ پہلی صدی میں جامعین حدیث نے کسی ترتیب کے ماتحت احادیث کو جمع نہیں کیا، دوسری صدی کی کتب احادیث میں نمایاں بات ان کو ترتیب سے لکھنا بھی ہے۔

حدیث، تاریخ، تفسیر اور سیرت کی بنیادی اوراوّلین باقاعدہ کتب کےحوالے سے امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف ‘‘الرسالۃ المستطرفۃ’’ میں ایک اساسی اہمیت کی حامل بات لکھتے ہیں کہ

‘‘سو پہلی (باقاعدہ) تصنیف اس ضمن میں جو مکہ میں لکھی گئی ابن جریج کی ہے، اس میں آثار صحابہ اور کچھ تفسیری نکات جو عطاء، مجاہد اور ان کے علاوہ حضرت ابن عباس کے تلامذہ سے مروی تھے موجود تھے۔ اس کے بعدیمن میں معمر بن راشد یمانی کی کتاب تھی جن میں سنن تھیں۔ پھر موطأ تھی۔ اس کے بعد سفیان ثوری اور سفیان بن عیینہ کی جوامع تھیں جن میں آثار و تفسیر کے نکات تھے۔ یہ پانچ کتابیں اوائل اسلام میں باقاعدہ طور پر تصنیف کی گئیں۔ ’’

( الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 9۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993)

امام کتانی کی بیان کردہ ان کتب کا تفصیلاً ذکر آگے کیا جائے گا۔

1.کتب عبدالمالک بن عبد العزیزبن جریج مکی

(ولادت:80ھ۔ وفات150ھ)

آپ کا نام عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج تھا اور کنیت ابو الوليد تھی۔ آپ کا سن پیدائش 80ھ ہے اور مکان پیدائش مکہ مکرمہ ہے۔ آپ کی وجہ شہرت آپ کے علم و تفقّہ کے ساتھ ساتھ آپ کی محدثیت بھی ہے۔ آپ تبع تابعین میں سے تھے۔ آپ نے اپنے والد عبد العزيز، عطاء بن ابی رباح، زيد بن اسلم، زهری، صالح بن كيسان، عبد الله بن محمد بن عقيل، عمرو بن دينار، نافع مولى بن عمر اورہشام بن عروة وغیرہ تابعین سے سند حدیث لی۔ آپ کی احادیث کی کتاب ‘‘کتاب السنن’’محققین نے اپنی کتب میں بیان کی جو کہ صحیحین کے ماخذ میں شمار ہوتی ہے۔

(کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب السین۔ السنن الموجودۃ قبل الصحیحین۔ صفحہ 1008دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)

آپ کے نام سے تفسیر القرآن پر ایک کتاب بھی منسوب ہے۔

( هديۃ العارفين اسماء المؤلفين وآثار المصنفين طبعۃ دار احياء التراث العربی۔ جلد اوّل صفحہ 623)

امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف ‘‘الرسالۃ المستطرفۃ’’ میں ابن جریج کے بارے میں لکھتے ہیں :

‘‘مکہ میں سب سے پہلے احادیث و آثار صحابہ ابو محمد عبدالملک بن عبدالعزیزابن جریج نے مدوّن کئے۔ ’’

( الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 7۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993ء)

2.کتاب الآثار…حضرت نعمان ابن ثابت المعروف بہ امام ابو حنیفہ

(ولادت:80ھ۔ وفات150ھ)

آپ کا نام نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان تھا آپ کی پیدائش80ھ میں ہوئی۔ آپ کو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ تابعی تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ آپ کو ‘‘امام اعظم’’بھی کہا جاتا ہے۔ آپ فارسی الاصل تھے۔ آپ نے حضرت انس بن مالکؓ کو کئی بار دیکھا اور فیض اٹھایا۔

(تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرابو حنیفۃ الامام الاعظم، جلد اوّل، صفحہ 168، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

آپ نے حدیث کی تحصیل کوفہ، بصرہ اور حرمین شریفین سے کی۔ آپ کے تلامذہ میں کئی جلیل القدر احباب ہیں۔ اس سے حضرت امام کے عالی مقام کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ ان میں سے چیدہ چیدہ نام یہ ہیں۔ امام ابو یوسف، امام عبداللہ بن المبارک، امام وکیع بن جراح اور امام داؤد بن نصیر وغیرہ۔ آپ کی تصنیفات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد 27ہے۔ جن میں سے مشہور الفقہ الاکبر، الفقہ الابسط، العالم والمتعلم، وصیۃ الامام ابو حنیفۃ، کتاب الوصیۃ لابی یوسف وغیرہ۔ ہیںآپ کی ایک کتاب کتاب الآثار کے نام سے بھی موسوم ہےجس میں آپ کی روایات درج ہیں۔ ایک کتاب مسند امام ابو حنیفہ بھی ہے۔ یہاں مختصر طور پر (مضمون کی مناسبت سے) آپ کی حدیث پر مبنی کاوشوں کا ذکر کیا جائے گا۔

امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف ‘‘الرسالۃ المستطرفۃ’’ میں لکھتے ہیں :

‘‘امام ابو حنیفہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے علم شریعت پر قلم اٹھایا اور احادیث کی باقاعدہ تبویب کی۔ پھر امام مالک بن انس نے موطا ٔکی احادیث کی تبویب کی۔ اس معاملہ میں کوئی بھی امام ابو حنیفہ سے آگے نہیں گیا۔ ’’

(الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 9۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993)

آپ کی ایک کتاب‘‘کتاب الآثار’’ ہے۔ یہ کتاب آپ کی اپنی تصنیف ہے۔ کتاب الآثار کوامام ابو حنیفہ سے مختلف تلامذہ نے مختلف ادوار میں روایت کیا۔ مثلاًکتاب الآثار بروایت امام محمد، کتاب الآثار بروایت امام یوسف، کتاب الآثار بروایت حسن بن زیاد لؤلؤی، کتاب الآثار بروایت حماد بن امام ابی حنیفہ وغیرہ اس کتاب کی تبویب بلحاظ علم فقہ ہوئی ہے۔ اس کا آغاز کتاب الطہارۃ سے ہوتا ہے۔ اسی اصل پر امام ترمذی اور امام ابو داؤد نے اپنی شہرہ آفاق کتب تصنیف فرمائیں۔ یہ کتاب احناف کے مکتبہ فکر کی اساس ہے۔ اس کتاب کے تراجم و شروحات کثرت سے لکھی گئیں۔ یہ طبقہ اوّل کی کتاب ہے۔ اس میں مراسیل و مقطوعات اس لیے ہیں کہ اس دور میں یہی رواج تھا۔ اسی لیے الموطا امام مالک میں بھی یہی طرز ملتی ہے۔

آپ کی دوسری کتاب جس کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے اس کا نام ‘‘مسند امام ابو حنیفہ ’’ہے۔ حضرت امام کاعلمی جہاد زیادہ ترعلم فقہ کے گرد گھومتا ہے تاہم آپ نے بعض احادیث کی روایت بھی کی۔ جن کو آپ کے تلامذہ آپ سے روایت کردیتے تھے۔ ان میں امام ابویوسف، امام محمد، حماداور امام حسن بن زیاد وغیرہ ہیں۔ ان میں سب سے بہتر مجموعہ محدث جلیل موسیٰ بن زکریا حنفی کا ہے، اسے ہی مسندابی حنیفہ کہا جاتا ہے۔ صاحب کتاب ‘‘جامع الاحادیث’’بیان کرتے ہیں :

‘‘ان مسانید کو قریباً 25علماء نے مرتب کیا جن میں مسندالامام مرتب امام حماد بن ابی حنیفہ، مسندالامام مرتب امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم الانصاری، مسندالامام مرتب امام محمد بن حسن الشیبانی، مسندالامام مرتب امام حسن بن زیاد ثولوی، مسندالامام مرتب حافظ ابو محمد عبد اللہ بن یعقوب الحارث البخاری، مسندالامام مرتب حافظ ابوبکر احمدبن محمد بن خالد الکلاعی، مسندالامام مرتب حافظ ابوالحسن علی بن عمربن احمد الدارقطنی، مسندالامام مرتب حافظ ابوحفص عمر بن احمد المعروف بابن شاہین اور مسندالامام مرتب حافظ ابوالقاسم علی بن حسن المعروف بابن عساکر الدمشقی وغیرہم۔ امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف ‘‘الرسالۃ المستطرفۃ’’ میں لکھتے ہیں۔ ’’

(جامع الاحادیث جلد اول صفحہ 236، محمد حنیف خاں رضوی، رضا دارالاشاعت آنند وہار بریلی شریف)

‘‘ابو مؤید محمد بن محمود بن محمد الخوارزمی (المتوفیٰ:655ھ) نے امام کی 15مسانید کو اکٹھا کیا۔ اور اس کا نام ‘‘جامع المسانید’’ رکھا۔ اس کی ترتیب آپ نے فقہی لحاظ سے کی۔ ’’

(الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 16۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993)

3.سیرت ابن اسحٰق… ابن اسحاق مدنی

(ولادت:80ھ۔ وفات151ھ)

آپ کا نام محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار المدنی تھا۔ آپ کی پیدائش80ھ میں ہوئی۔ محمد بن اسحاق نے مدینہ میں پرورش پائی۔ ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی۔ آپ نے نبی کریمﷺ کے متعلق قصص و روایات جمع کرنے کی طرف خاص توجہ کی۔ اس سلسلہ میں آپ نے ابن شہاب زہری جیسے جلیل القدر اہل علم سے فیض اٹھایا۔ آپ ایک مستند اور ثقہ راوی ہیں۔ آپ قدیم ترین سیرت نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

(تہذیب التہذیب (زیر محمد بن اسحٰق)جلد 9 صفحہ 44، 45۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

آپ کی مصنفہ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ‘‘سیرت ابن اسحاق’’ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کتاب اب ناپید ہو چکی ہے مگر سیرت ابن ہشام کا بنیادی ماخذ ہے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا اس سیرت کے بارے میں لکھتا ہے۔

“Ibn Hishām, who died some 60 years after Ibn Isḥāq, made the revision through which it is known today…. Citations from the Sīrah also appear in the works of Arabic historians such as aṭ-Ṭabarī.”

(https://www.britannica.com/biography/Ibn-Ishaq)

یعنی ابن ہشام جو ابن اسحٰق کے60سال بعد فوت ہوئے۔ (ابن ہشام) انہوں نے اس کا جائزہ لیا اور اس کی وہ صورت آج ہمارے سامنے ہے۔ اس سیرت کے بعض حوالے (تاریخ) الطبری میں بھی کہیں کہیں ملتے ہیں۔

ابن حبان آپ کو امیر المومنین فی الحدیث قرار دیتے ہیں۔ آپ ثقہ ترین مورخین تاریخ اسلامی میں سے تھے۔ آپ نے تاریخ و سیرتِ اسلامی پرسب سے پہلے قلم اٹھایا۔

4.الموطا…محمد بن عبدالرحمن بن ابی ذئب

(ولادت:80ھ۔ وفات158ھ)

آپ کا نام محمد بن عبدالرحمٰن بن المغیرۃ تھا اور کنیت ابوالحارث تھی۔ آپ کی پیدائش سن 80ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکر ابن ابی ذئب الالم الثبت، جلد اوّل، صفحہ 191، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

آپ نے حدیث کا سماع عكرمۃ، شعبۃ بن دینار، سعید المقبری، شرحبیل بن سعد، زہری، نافع العمری وغیرہ سےکیا۔ آپ کے تلامذہ میں سے ابن المبارك یحیٰ بن قطان، ابو نعیم، اسد بن موسیٰ، احمد بن یونس اور علی بن جعد وغیرہ ہیں۔ امام دار قطنی کہتے ہیں، کہ ابن ابی ذئب (امام محمد بن عبدالرحمٰن) نے الموطأ لکھی۔

( سیر اعلام النبلاء، الطبقۃ السادسۃ، فی ذکر ابن ابی ذئب۔ الجزء السابع۔ صفحہ 140 المکتبۃ السلامیۃ)

امام ابن حجر عسقلانی نے اس بات کی نفی کی ہے کہ انہوں نے کوئی کتاب تصنیف کی۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکر ابن ابی ذئب الامام الثبت، جلد اوّل، صفحہ 192، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

امام ذہبی کے نزدیک اس کے علاوہ بھی آپ نے ایک بڑی کتاب السنن بھی تحریر فرمائی۔

( سیر اعلام النبلاء، الطبقۃ العاشرۃ فی ذکر ابن ابی ذئب۔ الجزء التاسع۔ صفحہ 513 المکتبۃ السلامیۃ۔ )

امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف ‘‘الرسالۃ المستطرفۃ’’ میں شیخ الاسلام زکریا الانصاری کی کتاب شرح الفیۃ الصطلح کے حوالے سے لکھتے ہیں :

‘‘امام مالک اور ابن ابی ذئب نے سب سے پہلے مدینہ میں احادیث کو اکٹھا کیا۔ ’’

(الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 8۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993ء)

آپ مزید لکھتے ہیں کہ

‘‘ابن ابی ذئب نے مدینہ میں موطأ امام مالک سے زیادہ بڑی موطا ٔلکھی۔ یہاں تک کہ حضرت امام مالک نے جب اپنی موطا ٔلکھی تو ان کو کہا گیا کہ (ابن ابی ذئب کی موطأ کے بعد )آپ کی تصنیف کا کیا فائدہ ہے؟اس پر انہوں نے فرمایا، جو اللہ کے لئے ہوتا ہے وہ باقی رہتا ہے۔ ’’

(الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 9۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993ء)

5.مسند الاوزاعی…امام عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی شامی

(ولادت:88ھ۔ وفات158ھ)

آپ کا نام عبدالرحمٰن بن عمروتھا۔ آپ تبع تابعین میں سے تھے۔ آپ کی پیدائش 88ھ میں بعلبکمیں ہوئی۔ آپ شہر دمشق کے محلوں میں سے ایک محلہ الاوزاع میں رہتے تھے اسی لیے اس محلہ سے منسوب تھے۔ آپ چھوٹی عمر ہی میں یتیم ہو گئے۔ پھر آپ کی والدہ آپ کو لے کر بيروت آ گئیں۔ جب آپ جوان ہوئے تو آپ کی ملاقات یحیٰ بن کثیر کے ساتھ یمامہ میں ہوئی۔ آپ ان سے بہت متاثر ہوئے اور امام یحیٰ کے ساتھ ہی ہو لئے۔ آپ سے بہت احادیث بھی نقل کیں۔ آپ حسن بصری سے ملاقات کے لیے بصرہ آئے تو آپ کو علم ہوا کہ ان کی وفات ہو چکی ہے۔ آپ محمد بن سیرین سے ملنے کے مشتاق ہوئے مگر وہ بھی اپنی مرض الموت میں تھے۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکر الاوزاعی شیخ الاسلام ابو عمرو، جلد اوّل، صفحہ 179، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

آپ نے امام سیرین سے ایک نسخہ (احادیث) کا روایت بھی کیا۔

( تہذیب التہذیب (عبدالرحمٰن بن عمرو)جلد 6 صفحہ 238۔ الطبعۃالاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

ان کے علاوہ آپ نےبصرہ کے علماء قتادۃ بن دعامۃ وغیرہ سے فیض حاصل کیا۔ آپ نے مکہ میں عطاء بن رباح سے ملاقات کی اور احادیث لیں۔ محمد باقر سے مدینہ منورہ میں ملے۔ ابن شہاب زہری اور مکحول شامی وغیرہ سے بھی ملے اور فیض اٹھایا۔ آپ کے اساتذہ میں سے عطاء بن رباح، محمد باقر، قتادۃ بن دعامہ، ابن شہاب زہری اور ابراہیم بن ابی عبلہ تھے اور آپ کے تلامذہ میں سے امام شعبۃ، سفیان ثوری، مالک بن انس اور عبداللہ بن مبارک وغیرہ تھے۔

( تہذیب التہذیب (عبدالرحمٰن بن عمرو)جلد 6صفحہ 238۔ الطبعۃالاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

آپ کے پاس یحیٰ بن کثیر اور امام زہری کے صحائف حدیث بھی تھے جن سے آپ آگے احادیث روایت کیا کرتے تھے۔

( تہذیب التہذیب (عبدالرحمٰن بن عمرو)جلد 6 صفحہ 240، 241۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

آپ کی ایک مسند ‘‘مسند الاوزاعی’’کا ذکر صاحب کتاب کشف الظنون اپنی کتاب میں بھی کرتے ہیں۔

(کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب المیم۔ مسند الاوزاعی۔ صفحہ 1682 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)

آپ کے پاس اپنی کتب کا ایک بڑا ذخیرہ تھا جو کہ آپ کی زندگی میں ہی 130ھ میں شام میںآنے والے ایک سخت زلزلہ کے نتیجے میںلگنیں والی آگ میں جل کر ضائع ہو گیا۔

( تہذیب التہذیب (عبدالرحمن بن عمرو)جلد 6 صفحہ 242۔ الطبعۃالاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف ‘‘الرسالۃ المستطرفۃ’’ میں آپ کی تدوین حدیث کی کاوشوں کے بارے میں لکھتے ہیں :

‘‘شام میں سب سے پہلے حدیث کی تدوین ابو عمرو عبدالرحمٰن بن عمرو الاوزاعی نزیل شام نے کی۔ ’’

( الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 7۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993)

آپ کی وفات بیروت میں سن 158ھ میں ہوئی۔

6.الموطأ…امام مالک مدنی

(ولادت:93ھ۔ وفات179ھ)

آپ کا نام مالک بن انس بن ابی عامرالاصبحی الحمیری ہے۔ آپ کی تاریخ ولادت93ھ ہے۔ آپ کے دادا ابوعامر آنحضرتﷺ کے جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ جنگ بدر کے علاوہ باقی تمام غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ تھے۔ امام ذہبی نے آپ کو امام الاعلام قرار دیا۔ (تہذیب التہذیب (مالک بن انس)جلد 9 صفحہ5۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)آپ مشہور چار فقہی مکاتب فکر میں سے ایک مالکیہ کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ آپ حضرت امام شافعی کے استاد تھے اور حضرت امام ابو حنیفہ کے ہم عصر تھے۔ آپ کا تعلق اہل حجاز کے طبقہ علماء میں سے تھا مگر آپ سارے عالم اسلام میں امام کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آپ نے تمام بڑے جلیل القدر ثقہ ترین رواۃ سے حدیث کا سماع کیا جن میں زہری، شعبۃ، ابن جریج، ابراہیم بن طہمان، لیث بن سعد اور ابن عیینۃ وغیرہ شامل ہیں۔

( تہذیب التہذیب (مالک بن انس)جلد 9 صفحہ6۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

آپ کی کتاب ‘‘الموطأ’’ حدیث کی (موجود) کتب میں سے قدیم ترین سمجھی جاتی ہے۔ اس لفظ کا معنیٰ یہ ہے، وہ راستہ جس پر لوگ اتنا چلے ہوں کہ اس کو چل چل کر ہموار کر دیا ہو۔ اس وقت کی رائج المؤطا یحییٰ بن یحییٰ مصمودی کی روایت سے ہے۔ جس سال امام مالک کی وفات ہوئی اسی سال یحییٰ بن یحیی نے موطا کو امام مالک سے حاصل کیا۔ اس کتاب کے نام المؤطا کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ امام مالک نے اس کتاب کو ستر فقیہوں پر پیش کیا سب نے اس پر موافقت کی۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکر مالک بن انس بن مالک، جلد اوّل، صفحہ 208، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

اس کتاب کے بارے میں حضرت امام شافعی نے فرمایا:

ماعلی ظھر الارض کتاب بعد کتاب اللّٰہ اصح من کتاب مالک

( تہذیب التہذیب (مالک بن انس)جلد 9 صفحہ6۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

کہ روئے زمین پر مؤطامام مالک سے زیادہ کوئی اور صحیح کتاب (کتاب اللہ کے بعد)نہیں۔

یہ بات صحیح بخاری کی تدوین سے قبل کی ہے۔

7.الجامع…سفیان ثوری کوفی

(ولادت:97ھ۔ وفات161ھ)

آپ کا نام سفیان بن سعید بن مسروق تھا اور کنیت ابوعبداللہ تھی۔ آپ کی ولادت 97یا 98ھ میں ہوئی۔ آپ نے علمی ماحول میں آنکھ کھولی۔ علمی گھرانہ سے تعلق تھا۔ آپ کے دو بھائی بھی اہل علم میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل جیسے عظیم اہل علم بھی رطب اللسان ہیں۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرسفیان بن سعید بن مسروق، جلد اوّل، صفحہ 206، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

آپ کو امیر المومنین فی الحدیث کہتے ہیں۔ آپ کواپنی تیس ہزار روایات زبانی یاد تھیں۔ ( تہذیب التہذیب (سفیان بن سعید بن مسروق)جلد 4 صفحہ115۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن) آپ کی تصنیفات میں الجامع الکبیر، الجامع الصغیر اور کتاب الفرائض ہیں۔

سن 160ھ میں امام سفیان ثوری نے الجامع لکھی۔ یہ کتاب ما قبل بخاری و مسلم علماء و محدثین میں حدیث کا ایک بنیادی ماخذ سمجھی جاتی تھی۔ امام بخاری نے بھی اس جامع کا سماع امام ابوحفص کبیر سے کیا تھا۔ امام ابو داؤد سجستانی صاحبِ سنن، اپنے ایک رسالہ ‘‘ رسالۃ ابی داؤد الیٰ اھل مکۃ فی وصف سننہ’’ میںفرماتے ہیں کہ

جَامِعُ سُفْیَانَ الثَّوْرِيِّ؛ فَإِنَّہُ أَحْسَنُ مَا وَضَعَ النَّاسُ فِي الْجَوَامِعِ

یعنی لوگوں نے اس موضوع پر جتنی کتابیں لکھی ہیں، سفیان ثوری کی ‘‘جامع’’ ان سب میں اچھی ہے۔

( رسالۃ ابی داؤد الیٰ اھل مکۃ فی وصف سننہ، صفحہ 28۔ المکتب الاسلامی۔ بیروت۔ 1405ھ)

امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف ‘‘الرسالۃ المستطرفۃ’’ میں آپ کی تدوین حدیث کی کاوشوں کے بارے میں لکھتے ہیں :

‘‘شام میں سب سے پہلے حدیث کی تدوین ابو عبداللہ سفیان بن الثوری نے کوفہ میں کی۔ ’’

( الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 7۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993)

8.کتب اسرائیل بن یونس سبیعی

(ولادت:100ھ۔ وفات160ھ)

آپ کا نام اسرائیل بن یونس تھا ۔آپ تابعی تھے۔ آپ کا تعلق کوفہ سے تھا۔ آپ کی پیدائش 100ھ کی ہے۔ آپ یونس بن ابی اسحاق کے بیٹے، عیسیٰ بن یونس کے بھائی اور ابو اسحاق سبیعیکے پوتے تھے۔ یہ تمام رواۃ حدیث تھے۔ آپ نے ان سب سے روایات سنیں اور آگے بیان کیں۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکراسرائیل بن یونس، جلد اوّل، صفحہ 213، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

آپ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے ساتھی تھے۔ آپ بڑے محدث، ثقہ راوی اور فقیہ تھے، امام اعظم و امام ابو یوسف سے حدیث کو سنا اور فقہ حاصل کی اور آپ سے وکیع بن جراح اور عبد الرحمٰن بن مہدی نے روایت کی۔ امام احمد بن حنبل اور یحیی بن معین نے آپ کی ثقابت کی شہادت دی۔ امام بخاری و مسلم نے آپ سے تخریج کی۔ آپ کے شیوخ میں سے ممتاز سماک بن حرب، منصور بن معتمر، ابراہیم بن مہاجر، سلیمان اعمش، زیاد بن علاقہ، زید بن جبیر، عاصم احوال اور ہشام بن عروہ وغیرہ ہیں۔ آپ سے اسناد روایت لینے والوں میں اسماعیل بن جعفر، وکیع بن جراح، عبد الرحمن بن مہدی، عبید اللہ بن موسی، ابو داؤد طیالسی، عبد الرزاق بن ہمام اور یحیی بن آدم وغیرہ ہیں۔

( تہذیب التہذیب (زیر اسرائیل بن یونس)جلد 1 صفحہ 262۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

آپ صاحب کتاب(حدیث ) تھے اور احادیث املاء کروایا کرتے تھے۔

( تہذیب التہذیب (زیر اسرائیل بن یونس) جلد 1 صفحہ 262۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

سیرت پر تصنیف کے علاوہ آپ کی ایک ‘‘السنن’’کا ذکر صاحب کتاب کشف الظنون اپنی کتاب میں بھی کرتے ہیں۔

(کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب السین۔ السنن الموجودۃ قبل الصحیحین۔ صفحہ 1008 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)

9.مصنف سفیان بن عیینہ

(ولادت:107ھ۔ وفات197ھ)

آپ کا نام سفیان بن عیینہ بن ابو عمران تھا اور کنیت ابو محمد تھی۔ آپ 107ھ میں پیدا ہوئے۔ صرف 7برس کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔ آپ کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ یہاں تک کہ آپ کا کہنا تھا کہ‘‘میں جس چیز کو ضبط تحریر میں لایا وہ مجھے یاد ہو گئی۔ ’’ کوفہ میں حضرت امام ابو حنیفہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ امام اعظم کے علاوہ بھی آپ نے تابعین سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ آپ اس لحاظ سے تبع تابعی تھے۔ مگر حضرت امام ابو حنیفہ کے ساتھ خاص محبانہ تعلق تھا جس کی بنا پر ایک بار آپ نے فرمایا:‘‘مجھے ابو حنیفہ نے محدث بنایا۔ ’’آپ نے سماع حدیث عمرو بن سعیداور ضمرہ بن سعید، زہری ابو اسحٰق سبیعی، محمد بن المنکدروغیرہ سے کی۔

(تہذیب التہذیب (زیرسفیان بن عیینہ)جلد 4صفحہ 117۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

آپ کے اساتذہ میں ایوب سیختیانی، شعبہ بن حجاج، زہری اور سفیان ثوری تھے اور آپ کے تلامذہ میں امام احمد بن حنبل، امام شافعی، یحیٰ بن معین اور ابن ابی شیبہ جیسے علماء تھے۔ آپ کی روایات بکثرت صحیحین اور کتب اربعہ میں ملتی ہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ‘‘ اگر آپ اور امام مالک نہ ہوتے تو حجاز سے علم چلا جاتا۔ ’’

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرسفیان بن عیینہ بن میمون، جلد اوّل، صفحہ 263، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

آپ کی ایک تصنیف جس میں آپ نے احادیث مرتب کیں اس کا نام ‘‘جزء سفیان بن عیینہ’’ہے۔ اس کو آپ سے آپ کے ایک شاگرد ابو يحيى زكريا بن يحيى بن اسد المروزي (المتوفى سنة 270 ھ) نے روایت کیا۔ اگر اس کتاب کو دیکھا جائے تو اس سے امام سفیان بن عیینہ کی ممتاز علمی شخصیت کا اندازا بخوبی ہوتا ہے۔ اس جزء میں صحیح احادیث کا ذخیرہ ہے جو کہ متفرق مواضیع پر مشتمل ہیں۔ اس میں مرفوع احادیث کے علاوہ آثار صحابہ بھی موجود ہیں۔ اس میں 50 روایات ہیں۔ اس جزء کا ذکرصاحب کتاب کشف الظنون نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے۔ ( کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلداوّل، باب الجیم۔ صفحہ 587 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان) یہ کتاب دار النشر والتوزیع کی جانب سے شائع شدہ ہے۔ آپ کی مرتب کردہ ایک تفسیر ‘‘تفسیر سفیان بن عیینہ’’بھی موجود ہے۔ جس کو تحقیق کے بعد احمد صالح محایری نے المکتب الاسلامی سے شائع کیا۔ آپ کی وفات 197ھ میں ہوئی۔

10.کتاب جریر بن عبدالحمید

(ولادت:110ھ۔ وفات188ھ)

آپ کا نام جرير بن عبد الحميد بن قُرط الضبی تھا۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ آپ کی ولادت110ھ میں ہوئی آپ ثقہ رواۃ حدیث میں سے ہیں۔ آپ کوفہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے حدیث کا سماع اعمش، عطاء بن السائب وغیرہ سے کیا۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرجریر بن عبدالحمید، جلد اوّل، صفحہ 271، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

آپ کے تلامذہ میں سے ابن المدينی، اسحٰق، قتیبۃ، احمد بن حنبل، سلیمان بن حرب، ابن المبارك تھے۔ آپ کے پاس احادیث کی کتب کا ذخیرہ تھا۔

( تہذیب التہذیب (جریر بن عبدالحمید)جلد 2 صفحہ75۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف‘‘الرسالۃ المستطرفۃ’’ میں شیخ الاسلام زکریا الانصاری کی کتاب شرح الفیۃ الصطلح کے حوالے سے لکھتے ہیں :

‘‘جریر بن عبدالحمید نے ری میں سب سے پہلے احادیث کو اکٹھا کیا۔ ’’

( الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 8۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993)

11۔ کتاب الزہد عبداللہ بن مبارک

(ولادت:118ھ۔ وفات181ھ)

آپ کا نام عبد اللہ بن مبارک تھا، ان کے والدترکی النسل تھے۔ آپ ابن مبارک کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ آپ کی ولادت سن 118ھ میں خراسان کے شہر مرو میں ہوئی۔ محدثین آپ کو امیر المومنین فی الحدیث کے لقب سے پکارتے ہیں۔ صحیح بخاری و مسلم میں ان کی روایت سے سینکڑوں حدیثیں مروی ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں سے حضرت امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری وغیرہ ہیں۔ امام ذہبی کے نزدیک آپ نے فقہ، مغازی، الزهدوالرقائق، الجهاد اور البر والصلۃ میں تصنیفات معروف ہیں۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرعبداللہ بن المبارک، جلد اوّل، صفحہ 275، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف ‘‘الرسالۃ المستطرفۃ’’ میں شیخ الاسلام زکریا الانصاری کی کتاب شرح الفیۃ الصطلح کے حوالے سے لکھتے ہیں :

‘‘ابن المبارک نے خراسان میں سب سے پہلے احادیث کو اکٹھا کیا۔ ’’

( الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 8۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993)

12۔ المصنف…عبدالرزاق بن ہمام صنعانی

(ولادت:126ھ۔ وفات211ھ)

آپ کا نام عبد الرزاق بن ہمام بن نافع تھا اور آپ کی کنیت ابو بكر تھی۔ آپ کی پیدائش 126ھ میں ہوئی۔ آپ حدیث کے بہت بڑے امام تھے۔ آپ کو محدث یمن بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے اساتذہ میں حضرت امام ابو حنیفہ، مالک بن انس، ابن جریج، سفیان ثوری اور عبدالرحمٰن اوزاعی وغیرہ تھے اور تلامذہ میں بڑے بڑے ائمہ حدیث مثلاً امام سفیان بن عیینہ، یحیٰ بن معین، علی بن المدینی، اسحٰق بن راہویہ اور امام احمد بن حنبل وغیرہ شامل ہیں۔ امام ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ شام کی جانب ایک تجارتی قافلہ میں گئے اور کبار محدثین سے ملاقات کی۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی عبدالرزاق الصنعانی، جلد اوّل، صفحہ 364، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

آپ کی کئی احادیث صحیحین اور کتب اربعہ میں آئیں۔ آپ کی معروف کتاب مصنف عبد الرزاق جو جامع الکبیر اور جامع عبد الرزاق کے نام سے بھی معروف ہے۔ مشہور کتب حدیث میں شامل ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب قدیم ترین کتب احادیث میں سے ہے۔

اس احادیث کے مجموعہ میں کل 19202 احادیث شامل ہیں۔ اس کتاب کا آغاز کتاب الطہارۃ سے ہوتا ہے۔ گویا یہ کتاب فقہی ترتیب پر ہے۔

( کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب المیم۔ صفحہ1212 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)

13.المبسوط، الجامع الکبیر، کتاب الصغیر، الزیادات، کتاب الحجۃ …امام محمدبن حسن بن عبداللہ

(ولادت:132ھ۔ وفات 189ھ)

آپ کا نام محمد بن حسن بن عبد اللہ طاؤس تھا۔ آپ کی نسبت شیبان کی طرف تھی کیونکہ آپ کے والد بنو شیبان کے غلام تھے۔ آپ کی پیدائش واسط میں ہوئی جبکہ ساری عمر کوفہ میں مقیم رہے۔ آپ کا سن ولادت 132ھ ہے۔ آپ حضرت امام ابو حنیفہ کے شاگر د رشید تھے۔ آپ کی بہت سی تصنیفات ہیں۔ مثلاً المبسوط، یہ کتاب ‘‘کتاب الاصل’’ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس کو ‘‘اصل’’اس لیے کہا جاتاہے کہ امام محمد نے سب سے پہلے اسی کو تصنیف کیا۔ اس میں آپ نے سینکڑوں مسائل سے متعلقہ امام اعظم ابوحنیفہ کے فتاویٰ جات جمع کیے ہیں۔ الجامع الکبیر بھی اصول الفقہ میں آپ کی ایک تصنیف ہے۔ ایسے ہی الجامع الصغیر کا پورا نام الجامع الصغیر فی الفروعہے۔ یہ امام محمد کی تصنیف ہے۔ اس میں وہ تمام مسائل ہیں جو انہوں نے امام ابو حنیفہ سے سیکھے اور روایت کیے۔ ایک اور تصنیف ہے جس کا نام الزیادات ہے اس کتاب میں آپ نے وہ مسائل بیان کیے جو الجامع الکبیر میں رہ گئے تھے۔ حدیث میں امام محمد کی کتاب مؤطا مشہور ہے (یہ امام مالک کی موطأ سے الگ ہے)۔ یہ کتاب آجکل اسلامی مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس موطا کے بارے میں امام محمد بن جعفر الکتانی اپنی تصنیف ‘‘الرسالۃ المستطرفۃ’’ میں لکھتے ہیں :

‘‘صاحب ابو حنیفہ، محمد بن الحسن شیبانی نے بھی ایک موطا لکھی، جس میں احادیث کثرت کے ساتھ ہیں اور ایسی روایات بھی ہیں جو امام ابو حنیفہ کے واسطہ کے علاوہ بھی روایت کی گئیں۔ ’’

(الرسالۃ المستطرفۃ صفحہ 14۔ الطبعۃ الخامسۃ۔ دار البشائر الاسلامیۃ۔ بیروت لبنان۔ 1993)

14۔ مسندابوداؤد طیالسی

(ولادت:133ھ۔ وفات204ھ)

آپ کا نام سليمان بن داؤد الطيالسی تھا۔ آپ کی پیدائش 133ھ میں بصرہ میں ہوئی۔ آپ فارسی الاصل تھے۔ آپ طیالسی کے نام سے مشہور ہیں جو ‘‘طیالسہ’’ سے ہے۔ طیالسہ وہ سبز چادر ہےجسے علماء جبہ کے طور پر لباس کے اوپر زیب تن کیا کرتے تھے۔ یہ امام ابو داؤد، صاحب سنن سے مختلف ہیں۔ امام ذہبی نے آپ کو الحافظ الکبیر کے لقب سے ملقب کیا۔ اس کو مسند اس لیے کہا گیا کہ یہ مسند کی ترتیب پر ہے، صحابہ کی مرویات الگ الگ درج کی گئی ہیں۔ آج کل کے نئے نسخے فقہی تبویب کے ساتھ بھی شائع ہو چکے ہیں۔ سلیمان بن داؤد الطیالسی کی اور تصنیفات بھی ہیں مگر علم حدیث میں یہ تصنیف سب سے زیادہ اہم ہے۔ ان کے بارے میں عمرو بن شبۃ کہتے ہیں کہ ان کو 40000 احادیث یاد تھیں جو کہ آپ کے تلامذہ نے آپ سے لکھیں۔ عامر بن ابراہیم کہتے ہیں کہ میں نے ابو داؤد سے سنا کہ میں نے ایک ہزار احادیث لکھیں۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرابو داؤد طیالسی الحافظ الکبیر، جلد اوّل، صفحہ 263، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

امام ابوداؤد کے شیوخ میں ایمن بن نابل، معروف بن خربوذ، طلحہ ابن عمرو، ہشام بن ابی عبد اللہ، شعبہ بن الحجاج، سفیان ثوری، بسطام بن مسلم، ابوخلدہ خالد بن دینار، قُرہ بن خالد، ابن ابی ذئب، عبدالرحمٰن بن ثابت ابن ثوبان، اسرائیل، ھمام بن یحییٰ، محمد بن ابی حُمَید، عبد اللہ ابن مبارک، امام ابن عینیہ، ابن عون وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ آپ کے تلامذہ میں حضرت امام بخاری، جریر بن عبدالحمیدامام احمد بن حنبل، محمد بن بشار، یعقوب الدورقی، محمد ابن سعد کاتب بغدادی وغیرہ شامل ہیں۔

صاحب کشف الظنون اپنی تصنیف میں اس مسند کے بارے میں لکھتے ہیں :

‘‘کہا جاتا ہے کہ یہ صنف مسانید میں سب سے پہلی مسند ہے جو کہ لکھی گئی۔ ’’

( کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب المیم۔ صفحہ 1679 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)

15۔ الرسالۃ، کتاب الامّ، مسند امام شافعی …حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی

(ولادت:150ھ۔ وفات208ھ)

آپ کا نام محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد یزید بن ہاشم تھا۔ آپ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ امام شافعی کی والدہ فاطمہ بنت عبد اللہ حضرت امام حسن بن علی بن ابی طالب کی پڑپوتی تھیں۔ آپ کی پیدائش150ھ میں غزّہ میں ہوئی۔ آپ کو امام شافعی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی شافعی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ نے اوّل اوّل حدیث کا سماع اپنے چچا سے کیا۔ سات سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ اور دس سال کی عمر میں موطا امام مالک بھی حفظ کر لی۔ ( تہذیب التہذیب (زیرمحمد بن ادریس) جلد 9صفحہ 27۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن) آپ کے شیوخ میں سے مالک بن انس، محمد بن حسن شیبانی، سفیان بن عیینہ، لیث بن سعد اور وکیع بن جراح وغیرہ ہیں۔ جبکہ آپ کے تلامذہ میں حضرت امام احمد بن حنبل، اسحٰق بن راھویہ، المزنی وغیرہ ہیں۔ (تہذیب التہذیب (زیرمحمد بن ادریس)جلد 9صفحہ 25۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن) آپ نے حدیث کی تحصیل مکہ معظمہ، یمن، عراق اور مصر وغیرہ سے کی۔

آپ عربی زبان کے ماہر شاعر بھی تھے۔ فقہ و حدیث سے پہلے آپ کی توجہ عربی شعر و نثر اور ایام العرب کی جانب تھی۔

( تذکرۃ الحفّاظ، فی ذکرالامام الشافعی محمد بن ادریس، جلد اوّل، صفحہ 360، 361، مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیۃ)

دائرۃ المعارف اسلامیہ میں ہے کہ

‘‘امام شافعی نے اپنی مختصر مدتِ حیات اور بالخصوص اواخر حیات میں بکثرت لکھا اور اِملا بھی کروایا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ ربیع بن سلیمان مرادی کی روایت کے مطابق امام شافعی نے مصر میں چار سال تک قیام کیا اور ڈیڑھ ہزار ورق یعنی (تین ہزار صفحات) اِملا کروائے۔ کتاب الاُم ہی دو ہزار ورق کی تھی، علاوہ ازیں کتاب السنن اور دیگر تصنیفات بھی ہیں۔ ’’

(دائرۃ المعارف الاسلامیۃ : جلد 11 صفحہ 579، مطبوعہ لاہور۔ پاکستان)

آپ کی تصانیف کی تعداد بقول ابن ندیم 104 ہے۔

( تہذیب التہذیب (زیرمحمد بن ادریس)جلد 9صفحہ 25۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

ابن حجر عسقلانی نے الجاحظ کا قول نقل کیا ہے کہ

‘‘میں نے شافعی کی کتابیں دیکھی ہیں، وہ پروئے ہوئے موتی ہیں اُن سے بہتر مصنف میں نے نہیں دیکھا۔ ’’

(تہذیب التہذیب (زیرمحمد بن ادریس)جلد 9صفحہ 29۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

ایک بار اسحٰق بن رَاہوَیہ سے پوچھا گیا کہ شافعی نے اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنی کتب کیسے لکھ لیں ؟ تو اسحٰق نے کہا، اللہ تعالیٰ نے قلت عمر کے باوجود عقل و فہم سے مالا مال کیا ہوا تھا۔

( تہذیب التہذیب (زیرمحمد بن ادریس)جلد 9صفحہ 29۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

آپ کی کتاب ‘‘کتاب الرسالہ’’ اُصول فقہ کی ایک اہم کتاب ہے۔ اس کتاب کو لکھنے کی وجہ امام ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں یہ لکھی ہے:

‘‘عبدالرحمٰن ابن مہدی نے حضرت امام شافعی کو خط لکھا(جبکہ امام ابھی نوجوان ہی تھے) کہ آپ میرے لئے قرآن کریم کے معانی، احادیث کی قبولیت کے معیار، اجماع کی حجیت اور ناسخ و منسوخ کے حوالہ سے کچھ لکھ بھیجیں، تو آپ نے ‘‘الرسالۃ’’ نامی کتاب لکھی۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نےکوئی نماز نہیں پڑھی کہ جس میں میں نے آپ کے لئے دعا نہ کی ہو۔ ’’

( تہذیب التہذیب (زیرمحمد بن ادریس)جلد 9صفحہ 27۔ الطبعۃ الاولیٰ۔ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف۔ حیدرآباد دکن)

یہاں مختصر طور پر مضمون کی مناسبت سے آپ کی حدیث پر مبنی کاوشوں کا ذکر کیا جائے گا۔ اور اس کتاب کا کچھ تعارف پیش کیا جائے گا۔

امام صاحب کی ایک کتاب الاُم بھی ہے۔ یہ کتاب مختلف رسائل کا مجموعہ ہے۔ کتاب الاُم مکالمہ کی صورت میں ہے، امام شافعی مخالفین کا رد کرتے ہوئے اُن کا نام نہیں لیتے۔ یہ تصنیف اُن کے شاگرد ربیع بن سلیمان مرادی کی روایت سے ہم تک پہنچی ہے۔

( کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب الکاف۔ صفحہ 1397 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)

یہ کتاب اپنے اسلوب، اور دقت تعبیر میں منفرد ہے۔ علمی مناظراتی انداز ہے جو تفہیم مسائل میں خاصا موثر ہے۔ اس کتاب کے سات اجزا ہیں۔ امام محترم نے جو دوسری کتب وقتاً فوقتاً لکھیں انہیں بھی اس کے ساتھ ملا دیا ہے جیسے جماع العلم، ابطال الاستحسان، اختلاف مالک والشافعی، الرد علی أہل المدینۃاور سیر الأوزاعی وغیرہ۔ آپ کی ایک کتاب مسند الشافعی ہے۔ نیشاپور کے شاگردوں نے آپ کی کتب میں مروی امام محترم کی روایات کو اس میں یک جا کرنے کی کوشش کی ہے۔ صاحب کشف الظنون اپنی تصنیف میں اس مسند کے بارے میں لکھتے ہیں :

‘‘اس کو سب سے پہلے امیر سنجر بن عبداللہ علم الدین الجاولی (المتوفیٰ 745ھ) نے شرح کے ساتھ ترتیب دیا۔ اس کے بعد اور کئی شروحات بھی لکھی گئیں۔ ’’

( کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون، جلد دوم، باب المیم۔ صفحہ 1683 دار احیاء التراث العربی، بیروت۔ لبنان)

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button