حضرت مصلح موعود ؓسیرت النبی ﷺ

رسولِ کریمﷺ ایک ملہم کی حیثیت میں (قسط اول)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

یہ ایک حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہر حیثیت میں سب سے بلندوبالا ہے۔ 25؍ اکتوبر 1930ء کے الفضل قادیان میں شائع ہونے والے اس مضمون میں حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے کہ آنحضرتﷺایک ملہم ہونے کی حیثیت میں بھی سب انبیاء سے افضل ہیں۔ ملہم کی حیثیت کا اندازہ اس کلام سے ہوتا ہے جو اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺکو جو کلام دیا گیا یعنی قرآن مجید وہ ایک عظیم معجزہ ہے۔ دوسرے مذاہب کی کتب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ نہ ان کی حفاظت کا کوئی وعدہ تھا اور نہ وہ عملاً محفوظ رہیں۔ لیکن قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا اور وہ اب تک اسی طرح محفوظ ہے جس صورت میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ دشمنوں کو بھی اس کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں۔ (ادارہ)

مامُورین کی دو حیثیتیں

ہر انسان جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اس کی کئی حیثیتیں ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک نبی کی، ایک رسول کی، ایک ملہم کی، ایک مامور کی، ایک آمر کی، ایک معلم کی اور ایک مربی کی۔ ہر ایک حیثیت اپنی ذات میں ایک قیمتی جوہر اور دلفریب چیز ہوتی ہے۔ جسے دیکھ کر انسان بےاختیار ہو جاتا ہے اور اس کا دل اس اقرار پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کے تمام افعال کسی زبردست طاقت کے تصرف کے ماتحت ہیں۔ میں اس وقت رسول کریمﷺ کے ملہم ہونے کی حیثیت کو لیتا ہوں کہ اس میں بھی آپؐ نہ صرف دوسری دنیا سے بلکہ سب نبیوں سے بڑھے ہوئے تھے۔

آنحضرت صلعم پر نازل ہونیوالے کلام کی حیثیت

ملہم ہونے کی حیثیت میں جس چیز کو ہمیں دیکھنا چاہئے وہ نبی پر نازل ہونے والا کلام ہے۔ اس کلام کی حیثیت کے مطابق ہم نبی کی شان کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کیونکہ کلام اسی قدر طاقتیں اپنے ساتھ لے کر آتا ہے جس قدر کام کی اس سے امید کی جاتی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ نبی کا ہتھیار اس کا کلام ہوتا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ضرورت کے مطابق ہی ہتھیار اسے دیا جائے گا۔ اگر بڑے دشمن کا مقابلہ ہے اور بہت بڑی فتوحات اس کے ذمہ لگائی گئی ہیں تو یقیناً بہت کاری ہتھیار اسے دینا ہوگا تا کہ وہ اپنا کام کر سکے۔ لیکن تعجب ہے کہ دنیا نے اس صاف اور سیدھی صداقت کو نہیں سمجھا اور کئی بے وقوف کہہ دیا کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کو سوائے قرآن کریم کے کوئی معجزہ نہیں ملا اور اس سے انہیں یہ بتانا مطلوب ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے بھلا کیا معجزہ ہونا تھا۔ پس اگر اس کے سوا کوئی معجزہ نہیں ملا تو گویا کوئی معجزہ ہی نہیں ملا۔ لیکن یہ خیال ان لوگوں کا محض ناسمجھی یا حماقت پر مبنی ہے۔ اول تو یہ درست نہیں کہ قرآن کریم کے سوا رسول کریمﷺ کو کوئی اَور نشان نہیں ملا۔ آپؐ کی زندگی کا تو ہر پہلو ایک معجزہ تھا۔ اور آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر معجزات دیئے کہ سب انبیاء کو مجموعی طور پر بھی اس قدر معجزات نہ ملے ہوں گے۔ لیکن اگر ہم فرض کر لیں کہ اور کوئی معجزہ آپ کو نہیں ملا، تب بھی قرآن کریم کا معجزہ سب معجزات سے بڑھ کر ہے۔ اور وہ ایک ہی آپؐ کے سب نبیوں پر برتر ہونے کا ثبوت ہے۔

سر ولیم میور کے ایک اعتراض کی لغویت

چونکہ بعض لوگوں کو یہ خیال ہے کہ جب قرآن کریم کو معجزہ قرار دیا جاتا ہے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اس کی زبان بہت فصیح ہے۔ اس وجہ سے یہ لوگ قرآن کریم کے مختلف عیوب بیان کرتے رہتے ہیں اور اس کوشش میں ایسی ایسی احمقانہ حرکات کر بیٹھتے ہیں کہ ہنسی آ جاتی ہے۔

چنانچہ سرولیم میور اپنی کتاب ’سوانح محمد‘ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں لکھتے ہیں کہ پانچویں سال سے دسویں سال قبل ہجرت میں رسول کریمﷺ نے قرآن کریم میں یہودی کتب کے مضامین بیان کرنے شروع کئے اور اس وجہ سے قرآن کریم کا وہ پہلا اندازبیان نہ رہا اور بڑی مشکل سے یہودی روایات کو عربی زبان میں داخل کرنے کے آپؐ قابل ہوئے اور چونکہ دن کو تو آپؐ کو فرصت نہیں ہوتی تھی۔ اس وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ راتوں کو جاگ جاگ کر آپؐ محنت سے وہ ٹکڑے تیار کرتے ہوں گے۔

پھر وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ﴿۲﴾ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾ نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۴﴾ اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۵﴾ اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا ﴿۶﴾ اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا ؕ﴿۷﴾ اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا ؕ﴿۸﴾ وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا ؕ﴿۹﴾ (المزمل:2-9)

غالباً اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

سرمیور محقق تو بہت ہیں لیکن تعجب ہے کہ انہیں اس قدر بھی خیال نہیں آیا کہ یہ آیات مسلمہ طور پر پہلے سال نبوت کی ہیں اور سورت مزمل جس کا وہ حصہ ہیں نہایت ابتدائی سورتوں میں سے ہے بلکہ بعض محققین تو اس سورت کو ابتدائی سورتوں میں سے سمجھتے ہیں۔ پس جو سورت کہ ابتدائی زمانہ میں اتری ہے۔ اس میں اس محنت کا ذکرجو پانچویں یا دسویں سال میں بقول ان کے رسول کریمﷺ کو کرنی پڑی خود ایک معجزہ ہے۔ کیونکہ کون شخص پانچ چھ سال بعد کی ایسی بات بنا سکتا ہے جو اس کے اختیار میں نہ ہو۔

خلاصہ یہ کہ دشمنان اسلام اس معجزہ کو ہلکا کر کے دکھانے کے لئے اس قدر کوشش کرتے رہتے ہیں کہ خود وہ کوشش ہی اس امر کا ثبوت ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے اس معجزہ کو وہ دل میں تسلیم کرتے ہیں۔ ورنہ اس قدر گھبراہٹ اور تشویش کی کیا ضرورت تھی؟

قرآنِ کریم کی خصوصیت

اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی کتاب اپنی ذات میں معجزہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کے نزول سے پہلے وہ بے شک اپنے زمانے کے لوگوں کے لئے معجزہ ہوں گی لیکن اس سورج کے طلوع کے بعد وہ ستاروں کی طرح مدہم پڑ گئیں۔ اب حال یہ ہے کہ جو قصے ان کتب میں پائے جاتے ہیں، ان کے ذریعہ سے تو وہ اسلام کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔ کیونکہ قصوں میں جس قدر کوئی چاہے جھوٹ اور مبالغہ آمیزی سے کام لے لے۔ اگر رسول کریمﷺ کے ذریعہ سے کسی شفاء کا ذکر کیا جائے تو اس کے مقابلہ میں ایک مسیحی دس قصے سنا دے گا اور اگر اس پر استعجاب کا اظہار کیا جائے تو جھٹ کہہ دے گا کہ اگر تمہاری روایت قابل تسلیم ہے تو میری کیوں نہیں ؟ لیکن اگر اس سے یہ کہا جائے کہ رسول کریمﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے اور یہ زندہ معجزہ ہے۔ اس کی بنیاد روایتوں پر نہیں بلکہ حقیقت پر ہے۔ تو اس کے جواب میں سوائے خاموشی کے اَور ان کے پاس کچھ نہیں رہتا۔ وہ اپنی کتابوں کو پیش نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کتب محرف و مبدل ہیں اور اگر بعض ضدی اسے تسلیم نہیں کرتے تو کم سے کم تاریخی ثبوت اس قدر زبردست موجود ہیں کہ ان کاانکار نہیں کیا جا سکتا۔

دیگر مذاہب کی کتب کی حیثیت

وید کے نسخوں میں اس قدر اختلاف ہے کہ مختلف نسخے مل کر کئی نئے وید بن جاتے ہیں۔ آخر کانٹ چھانٹ کر ایک نسخہ تیار کیا گیا ہے۔ توریت کا یہ حال ہے کہ اس میں یہاں تک لکھا موجود ہے کہ پھر موسیٰؑ مر گیا اور آج تک اس جیسا کوئی نبی پیدا نہیں ہوا۔ حالانکہ اس کتاب کی نسبت کہا جاتا ہے کہ خود موسیٰؑ پر نازل ہوئی تھی۔ دوسری کتب بائبل کی ایسی ہیں کہ اختلافات کی وجہ سے ایک حصہ کی دوسرے حصہ سے شکل نہیں پہچانی جاتی۔ انجیل میں خود مسیحی آئے دن تغیر و تبدل کرتے رہتے ہیں۔ اور کبھی کسی آیت کو صحیح قرار دے کر اس میں داخل کر لیتے ہیں۔ دوسرے وقت میں اسے ردی قرار دے کر پھینک دیتے ہیں۔ اور اب تو بعض بابوں تک کی صفائی ہونے لگی ہے۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ یہ الحاقی باب ہیں۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر انجیل کسی معتبر ذریعہ سے پہنچی تھی تو الحاق کا زمانہ انیس سو سال تک کس طرح لمبا ہو گیا؟ معنوں کے فرق کو تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پچھلوں نے معنی نہیں سمجھے ہم نے سمجھ لئے ہیں۔ لیکن ظاہر الفاظ کے متعلق ہم کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں کہ پچھلوں نے ان کو داخل کر دیا اور اب موجودہ نسلوں نے انیس سو سال بعد حقیقت کو معلوم کر لیا۔ جو لوگ ان بابوں اور آیتوں پر عمل کرتے رہے ان کی زندگیاں تو برباد گئیں اور ان کا عرفان تو تباہ ہوا۔ وہ کتاب آسمانی جس میں دو ہزار سال تک زائد ابواب اور زائد آیات شامل رہیں۔ اس پر بنی نوع انسان کیا یقین کر سکتے ہیں ؟ اور آئندہ کے لئے کیا اعتبار ہو سکتا ہے کہ کچھ اور ابواب خارج نہ کر دیئے جائیں ؟ ممکن ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے کہ جس طرح بعض محققین کا خیال ہے کہ ساری انجیل میں صرف ’ایلی ایلی لما سبقتانی‘ یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ کا ایک فقرہ ہے جسے مسیح کے منہ سے نکلا ہوا کہا جا سکتا ہے۔ اس فقرہ کو انجیل قرار دے کر سب حصوں کو اڑا دیا جائے۔ مگر یہ ‘’چھوڑ دیا‘ والا فقرہ ملانے کا موجب کب ہو سکتا ہے؟

کلام کا معجزہ اور دوسرے معجزہ میں فرق

غرض دوسرے سب مذاہب کی الہامی کتب ایسی مخدوش حالت میں ہیں کہ اس مقابلہ کی طرف آنے سے ان کے مبلغوں کی روح کانپتی ہے۔ اور یہی حال دوسری کلام کی خوبیوں کا ہے۔ اس وجہ سے کلام کے معجزہ کی طرف یہ لوگ کبھی نہیں آتے۔ حالانکہ کلام کا معجزہ دوسرے معجزوں سے زبردست ہوتا ہے کیونکہ اس کا ثبوت ہر وقت پیش کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ دوسرے معجزات ایسے ہیں کہ روایات کے غبار میں غائب ہو جاتے ہیں۔ اور جب تک دوسرے شواہد ساتھ نہ ہوں سچے اور جھوٹے میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button