متفرق

نا جائز مطالبے۔ عائلی زندگی میں مسائل کی ایک وجہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’افسوس ہے کہ خیر کامطالبہ تو ہوتاہے لیکن ایسا کوئی بھی نہیں کرتا۔ لیکن عملی صورت بعض جگہ اس طرح نظر آجاتی ہے کہ شادی کے وقت تو کچھ نہیں کہتے اور کوئی شرط نہیں لگاتے لیکن شادی کے بعد عملی رویّہ یہی ہو جاتا ہے، بعضوں کی شکایات آتی ہیں۔ لڑکی والوں سے غلط قسم کے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر مرضی کا جواب نہ ملے اور مطالبات پورے نہ ہوں تو پھر لڑائی جھگڑے اور فساد اور لڑکیوں کو طعنے وغیرہ ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھی عقل دے اور رحم کرے۔ پس ایک بے وقوف اور ظالم کے علاوہ جس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہوتا ہے، (کیونکہ انسانوں کی طرح اللہ تعالیٰ پر ظلم تو کوئی نہیں کر سکتا) ایسا شخص کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اپنی جان پر ظلم کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے علاوہ جس کو اپنے ربّ کی صفت ربوبیت کا کوئی فہم و ادراک نہیں ہے جس کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارے ربّ نے ہم پر کیا کیا احسان کئے ہوئے ہیں اور ہم پر احسان کرتے ہوئے جو احکامات دئیے ہیں ان پر عمل کرکے ہم ان دعاؤں سے فیض پا سکتے ہیں جو ہمارے ربّ نے ہمیں سکھائی ہیں، اس کے بغیرنہیں۔ توایک دعا جو سورۃالشعراء کی تین آیات ہیں اس میں یہ سکھائی ہے کہ

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ حُکۡمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ۔ وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ۔ وَ اجۡعَلۡنِیۡ مِنۡ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیۡمِ (الشعراء:84-86)

کہ اے میرے ربّ مجھے حکمت عطا کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کر اور میرے لئے بعد میں آنے والے لوگوں میں سچ کہنے والی زبان مقدر کردے اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا۔ پس ایسے لوگ جو اپنے ربّ کی پہچان نہیں رکھتے اور عقل سے عاری ہیں ان کی باتیں سن کر یہی دعا ہے جوہمارے لئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی تھی۔ پس ہمیں ہمیشہ اپنے ربّ سے عقل کی اور حکمت کی اور صحیح باتوں کو اختیار کرنے کی اور ان پر قائم رہنے کی دعا مانگنی چاہئے اور پھر اس کے ساتھ اعمال صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ رہنی چاہئے جس کی اللہ تعالیٰ نے بار ہا ہمیں تلقین فرمائی ہے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر2006ء بمقا م مسجد بیت الفتوح، لندن برطانیہ)

جلسہ سالانہ برطانیہ 2004ء کے موقع پرحضورانور نےخواتین سے خطاب فرماتے ہوئے سورۃالنساء کی آیت 20کی تلاوت فرمائی اور ترجمہ بیان کرنے کے بعد اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ عورتوں سے حسن سلوک کرو۔ جن کو تم دوسرے گھروں سے بیاہ کر لائے ہو ان کے عزیز رشتے داروں سے ماں باپ بہنوں بھائیوں سے جدا کیا ہے ان کو بلاوجہ تنگ نہ کرو، ان کے حقوق ادا کرو اور ان کے حقوق ادا نہ کرنے کے بہانے تلاش نہ کرو۔ الزام تراشیاں نہ کرو۔ اس کوشش میں نہ لگے رہو کہ کس طرح عورت کی دولت سے، اگر اس کے پاس دولت ہے، فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اب اس فائدہ اٹھانے کے بھی کئی طریقے ہیں۔ ایک تو ظاہری دولت ہے جونظر آرہی ہے۔ بعض مرد عورتوں کو اتنا تنگ کرتے ہیں کئی دفعہ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں کہ ان کو کوئی ایسی بیماری لگ جاتی ہے کہ جس سے انہیں کوئی ہوش ہی نہیں رہتا اور پھران عورتوں کی دولت سے مرد فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ میاں بیوی کی نہیں بنتی تو اس کوشش میں رہتے ہیں کہ عورت خلع لے لے تاکہ مرد کو طلاق نہ دینی پڑے اور حق مہر نہ دینا پڑے۔ تو یہ بھی مالی فائدہ اٹھانے کی ایک قسم ہے۔ پھر بیچاری عورتوں کو ایک لمبا عرصہ تنگ کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ حق مہر عورت کا حق ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حرکت کسی طور پر جائز نہیں۔ پھر بعض دفعہ زبردستی یا دھوکے سے عورت کی جائیداد لے لیتے ہیں مثلاً عورت کی رقم سے مکان خریدا اور کسی طرح بیوی کو قائل کر لیا کہ میرے نام کر دو یا کچھ حصہ میرے نام کر دو۔ آدھے حصے کے مالک بن گئے اور اس کے بعد جب ملکیت مل جاتی ہے تو پھر ظلم کرنے لگ جاتےہیں اور پھر یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ علیحدہ ہو کے مکان کا حصہ لے لیتے ہیں یا بعض لوگ جو ہیں گھر بیٹھے رہتے ہیں اور عورت کی کمائی پر گزارا کر رہے ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ یہ تمام جو اس قسم کے مرد ہیں ناجائز کام کرنے والے لوگ ہیں اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ خاوند فوت ہو جائے تو اس کے رشتے دار یا سسرال والے جا ئیداد پر قبضہ کر لیتے ہیں اور بیچاری عورت کو کچھ بھی نہیں ملتا اور اس کو دھکے دے کر ماں باپ کے گھروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ تو یہ سب ظالمانہ فعل ہیں، ناجائز ہیں۔ تو یہ اسلام ہے جو ہمیں بتا رہا ہے کہ عورت سے اس قسم کا سلوک نہ کرو۔ اب یہ بتائیں کہ اور کس مذہب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے اس گہرائی میں جا کرعورت کے حقوق کا اتناخیال رکھا ہو۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے عورت کو یہ حقوق دلوائے ہیں ‘‘۔

(جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

اسی حوالہ سے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’ہر شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کا نگران ہے، اس کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھے، مرد قوام بنایا گیا ہے، گھر کے اخراجات پورے کرنا، بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا، ان کی تمام تعلیمی ضروریات اور اخراجات پورے کرنا، یہ سب مرد کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت میں بھی بعض مرد ایسے ہیں جو گھر کے اخراجات مہیا کرنے تو ایک طرف، الٹا بیویوں سے اپنے لئے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے خرچ پورے کرو، حالانکہ بیوی کی کمائی پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر بیوی بعض اخراجات پورے کر دیتی ہے تو یہ اس کا مردوں پر احسان ہے‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ مارچ 2004ء بمقام بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍مارچ 2004ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button