خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍ دسمبر 2020ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ راشد حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ اپنی تنگ دستی اور غربت کے باوجود زہد وقناعت کا نمونہ دکھایا کرتے تھے

پاکستان کے احمدیوں کے ناگزیر مخالفانہ حالات کے پیش نظر خصوصی دعا کی تحریک

چار مرحومین مکرم کمانڈر چودھری محمد اسلم صاحب آف کینیڈا، محترمہ شاہینہ قمر صاحبہ اہلیہ قمر احمد شفیق صاحب ڈرائیور نظارت علیا اور ان کے بیٹے عزیزم ثمر احمد، اور مکرمہ سعیدہ افضل کھوکھر صاحبہ اہلیہ محمد افضل کھوکھر صاحب شہید کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍ دسمبر 2020ء بمطابق 04؍ فتح 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 04؍ دسمبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطاء الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

گذشتہ خطبےمیںحضرت علیؓ کاذکر چل رہاتھا۔ آج بھی اسی سلسلے میں بیان کروں گا۔ حضرت علیؓ کی مؤاخات کے متعلق روایت میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک مرتبہ مکّے میں مہاجرین کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی پھر ہجرتِ مدینہ کےبعد آنحضورﷺ نےمہاجرین اور انصار کےدرمیان مؤاخات قائم فرمائی، ان دونوں مواقع پر حضورﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنا بھائی قرار دیا۔ حضرت علیؓ غزوۂ بدر سمیت، سوائے غزوۂ تبوک کے تمام غزوات میں آنحضرتﷺ کے ساتھ شامل ہوئے۔ غزوۂ تبوک میں رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو اہل و عیال کی نگہداشت کےلیے مقرر فرمایا تھا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ رسول اللہﷺ کی طرف سے عَلَم بردار ہوتے تھے مگر جب لڑائی کا وقت آتا تو حضرت علیؓ جھنڈا لے لیتے۔

غزوۂ عشیرہ، جمادی الاوّل دو ہجری کے موقعے پر حضرت عمّار بن یاسرؓ اور حضرت علیؓ ایک جگہ مٹی پر لیٹ کر سوئے ہوئے تھے کہ آنحضرتﷺ نے آپ دونوں کو اپنے پاؤں کے مَس سے جگایا ۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ کیا مَیں تمہیں دو بدبخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں۔ پہلا شخص قومِ ثمود کا اوحیمر تھا جس نے صالحؑ کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں جبکہ دوسرا وہ شخص ہے جو اےعلیؓ! تمہارے سر پر وار کرے گا یہاں تک کہ خون سے داڑھی تر ہوجائے گی۔

غزوۂ سفوان،جسے بدرالاولیٰ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ غزوہ جمادی الآخر2ہجری میں پیش آیا اس موقعے پر آپؐ نے حضرت علیؓ کو سفید جھنڈا عطا فرمایا تھا۔

غزوۂ بدر 2 ہجری کے موقعے پر آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ،حضرت زبیرؓ،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت بسبس بن عمروؓ کومشرکین کی خبر دریافت کرنےکےلیے بدر کے چشمے پر بھیجاتھا۔ اسی طرح جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے اور کفّار کی جانب سے مبارزت طلب کی گئی تو کئی انصاری نوجوانوں نے اس کا جواب دیا۔ آنحضورﷺ نے پہلی مڈھ بھیڑ میں انصار کو شمولیت سے روکا اور یہ پسند فرمایا کہ آپؐ کے چچاکی اولاد اور آپؐ کی قوم سے یہ شوکت ظاہر ہو۔ پس حضورﷺ نے فرمایا کہ اے بنو ہاشم! اٹھو اور اپنے حق کے لیے لڑو۔ چنانچہ حضرت حمزہؓ،حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہ بن حارثؓ کھڑے ہوئے۔ حضرت علیؓ نے اپنے مدمقابل ولید اور حضرت حمزہ ؓنے عتبہ کو قتل کردیا جبکہ حضرت عبیدہ بن حارثؓ کے مقابل شیبہ نے حملہ کرکے آپؓ کی ٹانگ زخمی کردی لیکن اسے بھی حضرت علیؓ اور حمزہؓ نے قتل کرڈالا۔

حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ جنگِ بدر کے ذکر میں حضرت علیؓ کا یہ بیان نقل فرماتے ہیں کہ مجھے لڑتے ہوئے آنحضرتﷺ کا خیال آتا تو مَیں آپؐ کے سائبان کی طرف بھاگ جاتا۔ لیکن جب بھی گیا مَیں نے آپؐ کو سجدے میں گڑگڑاتے ہوئے پایا۔

حضرت فاطمہؓ،آنحضرتﷺ کو اپنی اولاد میں سب سے زیادہ عزیز تھیں۔ جب ان کی عمر کم و بیش پندرہ سال ہوئی تو شادی کے پیغامات آنا شروع ہوگئے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے بھی درخواست کی مگر آنحضرتﷺ نے عذر کردیا۔ جس پر ان دونوں بزرگوں نے یہ سمجھ کر کہ آنحضرتﷺ کا ارادہ حضرت علیؓ کے متعلق معلوم ہوتا ہے، حضرت علیؓ کو تحریک کی۔ جب حضرت علیؓ نے آنحضورﷺ سے درخواست کی تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مجھے تو اس سے متعلق خدائی اشارہ ہوچکا ہے چنانچہ حضرت فاطمہؓ کی مرضی معلوم کرنےکےبعد حضرت علیؓ کی شادی حضرت فاطمہؓ سے ذوالحجّہ 2ہجری میں ہوئی۔ آپؐ نے حضرت علیؓ سے مہر کی ادائیگی کے متعلق دریافت فرمایا اور جنگِ بدرکی مغانم میں ملنے والی زرہ فروخت کرکے اس کے انتظام کی ہدایت فرمائی۔

حضورِانورنے حق مہر کےذکر پرفرمایا کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ فوری حق ہے۔ اس کا طلاق یا خلع سے کوئی تعلق نہیں، اگر عورتیں مطالبہ کردیتی ہیں تو یہ ان کا حق ہے،اسی وقت دینا چاہیے۔

حضرت فاطمہؓ کے جہیز میں ایک بیل دار چادر،ایک چمڑےکا گدیلا،ایک مشکیزہ اور ایک روایت کے مطابق جہیز میں ایک چکّی بھی شامل تھی۔ آنحضورﷺ کے ارشاد پر حضرت علیؓ نے عارضی طور پر ایک مکان کا انتظام کیا اور اسی مکان میں حضرت فاطمہؓ کا رخصتانہ ہوگیا۔

حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ اپنی تنگ دستی اور غربت کے باوجود زہد وقناعت کا نمونہ دکھایا کرتے تھے۔ چکّی چلانے کی وجہ سے حضرت فاطمہؓ کے ہاتھوں میں تکلیف ہوگئی تھی، ان ہی دنوں آنحضورﷺکےپاس کچھ قیدی آئےتھے چنانچہ حضرت فاطمہؓ نے آپؐ سے اپنی تکلیف کا اظہار فرمایا۔ آنحضورﷺ نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ کیا مَیں تم دونوں کو جو تم نے مانگا ہے اس سے بہتر بات نہ بتاؤں ۔ جب تم دونوں اپنے بستروں پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر،تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس دفعہ الحمدللہ کہا کرو۔ یہ تم دونوں کے لیے خادم سے زیادہ بہتر ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ اس واقعے کےمتعلق فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ اموال کی تقسیم میں ایسے محتاط تھے۔ اگر آپؐ چاہتے تو حضرت فاطمہؓ کو خادم دے سکتے تھےلیکن آپؐ نے احتیاط سے کام لیا اور نہ چاہا کہ ان اموال سے اپنے رشتےداروں کو دیں۔ کیونکہ ممکن تھا کہ آئندہ لوگ اس سے کچھ کا کچھ نتیجہ نکالتے اور بادشاہ اپنے لیے اموال الناس کو جائز سمجھ لیتے۔

رسول اللہﷺ ایک رات حضرت علیؓ اور اپنی بیٹی فاطمہؓ کے پاس تشریف لائے اور تہجد کی نماز کی نسبت استفسار فرمایا کہ کیا تم دونوں نماز نہیں پڑھتے۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں جب وہ چاہے کہ ہمیں اٹھائے تو ہمیں اٹھاتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تہجد پڑھاکرو اور اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور راستے میں باربار قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے جاتے

وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا۔

یعنی انسان اکثر اپنی غلطی تسلیم کرنے سے گھبراتا اور مختلف قسم کی دلیلیں دے کر اپنے قصور پر پردہ ڈالتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اللہ اللہ! کس لطیف طرز سے حضرت علیؓ کوآپؐ نے سمجھایا کہ آپؓ کو یہ جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔ کوئی اَور ہوتا تو بحث شروع کردیتا کہ میری پوزیشن اور رتبہ دیکھو۔ پھر اپنے جواب کو دیکھو کیا تمہیں یہ حق پہنچتا تھا کہ اس طرح میری بات کو ردّ کردو۔ یہ نہیں تو کم سے کم بحث شروع کردیتا کہ تمہارا یہ دعویٰ غلط ہے کہ انسان مجبورہے اور اس کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کےقبضےمیں ہیں۔ جبر کا مسئلہ قرآن شریف کے خلاف ہے۔ لیکن آپؐ نے ان دونوں طریقوں سے کوئی بھی اختیار نہ کیا۔ اس حدیث سے آنحضرتﷺ کے اخلاق کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ اوّل تو یہ کہ آنحضرتﷺ کو دین داری کا کتنا خیال تھا کہ رات کے وقت پِھر کر اپنے قریبیوں کا خیال رکھتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ رات میں پوشیدہ وقت پر اپنی بیٹی اور داماد کو اِس تعلیم کی نصیحت کر نابتاتا ہے کہ آپؐ کو اُس تعلیم پر کامل یقین تھا جو آپ دنیا کے سامنے پیش کر رہے تھے۔

حضورِانور نےحضرت علیؓ کاذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد پاکستان کےحالات میں مزید سختی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض حکومتی افسران مولویوں کے پیچھے چل کر ، ان کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے جس حد تک نقصان پہنچاسکتے ہیں، پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس لیے خاص طور پر دعا کریں ۔ ربوہ میں رہنے والے احمدی ہوں یا پاکستان کے دوسرے شہروں میں بسنے والے احمدی، ہر جگہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ شریروں کے شر سے محفوظ رکھے اور ان کے منصوبے جو نہایت بھیانک اور خطرناک منصوبے ہیں ان سے بچا کے رکھے اور ان لوگوں کی پکڑ کے اب جلد سامان فرمائے۔ آمین

خطبےکے آخر میں حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چار مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

پہلا ذکر مکرم کمانڈر چوہدری محمد اسلم صاحب کاتھا جو2؍نومبرکو کینیڈا میں وفات پاگئے تھے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

مرحوم 1929ءمیں پیدا ہوئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے آپ نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی زیرِ سرپرستی فزکس میں ایم ایس سی کی تھی۔ مرحوم کو پاکستان بحریہ سے وابستہ ہوکر کلیدی عہدوں پر خدمت کی توفیق ملی۔1993ءمیں وقف بعداز ریٹائرمنٹ کی درخواست دی اور متعدد خدمات کی توفیق پائی۔پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹے شامل ہیں۔

دوسرا جنازہ محترمہ شاہینہ قمر صاحبہ اہلیہ قمر احمد شفیق صاحب ڈرائیور نظارت علیاکا تھا۔ مرحومہ اپنے بیٹے عزیز ثمر احمد قمر کے ہمراہ 12؍نومبر کو ایک حادثے میں وفات پاگئی تھیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

بوقتِ وفات مرحومہ کی عمر 38برس اور عزیز ثمر احمد قمر کی عمر17 برس تھی اور عزیز موصوف فرسٹ ایئر کے طالبِ عِلْم تھے۔ مرحومہ کو جماعتی کاموں سے خاص لگاؤ تھا۔ اسی طرح عزیز ثمر احمد بھی خدام الاحمدیہ کے کاموں میں بہت فعال تھے۔

اگلا جنازہ مکرمہ سعیدہ افضل کھوکھر صاحبہ اہلیہ محمد افضل کھوکھر صاحب شہید کا تھا جو 12؍ستمبر کو کینیڈا میں وفات پاگئیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

مرحومہ کے بیٹے اشرف کھوکھر صاحب بھی شہید ہوئےتھے۔ مرحومہ نہایت صابرہ، مہمان نواز، غریب پرور خاتون تھیں۔ پسماندگان میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button