متفرق مضامین

فقر کی تعریف اور اس کی اہمیت (قسط دوم۔ آخری)

(ڈاکٹر کاشف علی۔ مربی سلسلہ)

مسیح موعود و مہدی معہودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے ارشادات کی روشنی میں فقر کی تعریف اور اس کی اہمیت

روحانیت میں ترقی آہستہ آہستہ اور مجاہدے اور کوشش کے ساتھ ہوتی ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

‘‘ایک فعل انسان کا ہوتا ہے اس پر نتیجہ مرتب کرنا ایک دوسرا فعل ہوتا ہے جو اﷲ تعالیٰ کا فعل ہے۔ سعی کرنا، مجاہدہ کرنا یہ تو انسان کا اپنا فعل ہے۔ اس پر پاک کرنا، استقامت بخشنا یہ الله تعالیٰ کا فعل ہے۔ بھلا جو شخص جلدی کرے گا کیا اس طریق پر وہ جلد کامیاب ہو جائے گا؟ یہ جلد بازی انسان کو خراب کرتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کے کاموں میں بھی اتنی جلدی کوئی امر نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ آخر اس پر کوئی وقت اور میعاد گذرتی ہے۔ زمیندار بیج بو کر ایک عرصہ تک صبر کے ساتھ اس کا انتظار کرتا ہے۔ بچہ بھی نو مہینے کے بعد پیدا ہوتا ہے اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ پہلی ہی خلوت کے بعد بچہ پیدا ہو جاوے تو لوگ اسے بیوقوف کہیں گے یا نہیں ؟ پھر جب دنیوی امور میں قانون قدرت کو اس طرح دیکھتے ہو تو یہ کیسی غلطی اور نادانی ہے کہ دینی امور میں انسان بلا محنت و مشقت کے کامیاب ہو جاوے۔ جس قدر اولیا، ابدال، مرسل ہوئے ہیں انہوں نے کبھی گھبراہٹ اور بزدلی اور بے صبری ظاہر نہیں کی۔ وہ جس طریق پر چلے ہیں اسی راہ کو اختیار کرو اگر کچھ پانا ہے بغیر اس راہ کے تو کچھ مل نہیں سکتا۔ اور میں یقیناً کہتا ہوں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کو اطمینان جب نصیب ہوا ہے تو اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن : 61) پر عمل کرنے سے ہی ہوا ہے۔ مجاہدات عجیب اکسیر ہیں سید عبدالقادر رضی اﷲ عنہ نے کیسے کیسے مجاہدات کئے۔ ہندوستان میں جو اکابر گذرے ہیں جیسے معین الدین چشتی اور فریدالدین رحمہم اﷲ تعالیٰ اُن کے حالات پڑھو تو معلوم ہوکہ کیسے کیسے مجاہدات ان کو کرنے پڑے ہیں۔ مجاہدہ کے بغیر حقیقت کھلتی نہیں۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فقیر کے پاس گئے اور اس نے توجہ کی تو قلب جاری ہو گیا۔ یہ کچھ بات نہیں۔ ایسے ہندو فقراء کے پاس بھی جاری ہوتے ہیں۔ توجہ کچھ چیز نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ساتھ تزکیۂ نفس کی کوئی شرط نہیں ہے۔ نہ اس میں کفر واسلام کا کوئی امتیاز ہے۔ انگریزوں نے اس فن میں آجکل وہ کمال کیا ہے کہ کوئی دوسرا کیا کرے گا۔ میرے نزدیک یہ بدعات اور محدثات ہیں۔

شریعت کی اصل غرض تزکیۂ نفس ہوتی ہے اور انبیاء علیہم السلام اسی مقصد کو لے کر آتے ہیں۔ اور وہ اپنے نمونہ اور اُسوہ سے اس راہ کا پتہ دیتے ہیں جو تزکیہ کی حقیقی راہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا ہو اور شرح صدر حاصل ہو۔ میں بھی اسی منہاج نبوت پر آیا ہوں۔ پس اگر کوئی یہ چاہتاہے کہ میں کسی ٹوٹکے سے قلب جاری کر سکتاہوں تو یہ غلط ہے۔ میں تو اپنی جماعت کو اسی راہ پر لے جانا چاہتا ہوں جو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام کی راہ ہے جو خدا تعالیٰ کی وحی کے ماتحت تیار ہوئی ہے۔ پس اور راہ وغیرہ کا ذکر ہماری کتابوں میں آپ نہ پائیں گے اور نہ اس کی ہم تعلیم دیتے ہیں اور نہ ضرورت سمجھتے ہیں۔ ہم تو یہی بتاتے ہیں کہ نمازیں سنوار سنوار کر پڑھو اور دعائوں میں لگے رہو۔ ’’

(ملفوظات جلد 4صفحہ 242، ایڈیشن1988ء)

آج کل کے فقیر اور ان کی بیہودہ حرکات

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

‘‘یقیناً یاد رکھو کہ اسلام میں اﷲ تعالیٰ نے ایسی سادگی رکھی ہے کہ ا گر دوسری قوموں کو اس کی حقیقت پر اطلاع ہو تو وہ اس کی سادگی پر رشک کریں۔ ایک سچے مسلمان کے لیے کچھ ضرور نہیں کہ ہزار دانہ کی تسبیح اس کے ہاتھ میں ہو۔ اور اس کے کپڑے بھگوے یا سبز یا اور کسی قسم کے رنگین ہوں اور وہ خد ارسی کے لئے دم کشی کرے یا اور اسی قسم کے حیلے حوالے کرے۔ اس کے لیے ان امور کی ہرگز ہرگز ضرورت نہیں اس لیے کہ یہ سب امور زائدہ ہیں اور اسلام میں کوئی امر زائد نہیں ہوتا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ اسلام چاہتا ہے کہ تم اندرونی طور پر بڑی بڑی ترقیاں کرو اورا پنے اندر خصوصیتیں پید اکرو۔ بیرونی خصوصیتیں نری ریاکاریاں ہیں اور ان کی غرض بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ لوگوں پر ظاہر کیا جاوےکہ ہم ایسے ہیں اور وہ رجوع کریں۔

امام غزالی رحمۃاﷲ علیہ نے اپنے زمانہ کے پیر زادوں اور فقیروں کے عجیب عجیب حالات لکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افسوس ہے بڑی ابتری پھیل گئی ہے کیونکہ یہ فقیر جو اس زمانہ میں پائے جاتے ہیں وہ فقیر اﷲ نہیں ہیں بلکہ فقیر الخلق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہر حرکت و سکون، لباس خورد و نوش اور کلام میں حکمت پر عمل کرتے ہیں۔ مثلاً کپڑوں کے لیے وہ دیکھتے ہیں کہ اگر ہم عام غریبوں کی طرح گزی گاڑھے کے کپڑے پہنیں تو وہ عزت نہ ہوگی جو امراء سے توقع کی جاتی ہے وہ ہم کو کم حیثیت اور ادنیٰ درجہ کے لوگ سمجھیں گے۔ لیکن اگر اعلیٰ درجہ کے کپڑے پہنتے ہیں تو پھر وہ ہم کو کامل دنیا دار سمجھ کر توجہ نہ کریں گے اور دنیا دار ہی قرار دیں گے اس لیے اس میں یہ حکمت نکال لی کہ کپڑے تو اعلیٰ درجہ کے اور قیمتی اور باریک لے لیے لیکن ان کو رنگ دے لیا جو فقیری کے لباس کا امتیازہو گئے۔

اسی طرح حرکات بھی عجیب ہوتی ہیں۔ مثلاً جب بیٹھتے ہیں تو آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں اوراس حالت میں لب ہل رہے ہیں گویا اس عالم ہی میں نہیں ہیں حالانکہ طبیعت فاسد ہوتی ہے۔ نمازوں کا یہ حال ہے کہ بڑے آدمیوں سے ملیں تو بہت ہی لمبی لمبی پڑھتے ہیں اور بطور خود سرے سے ہی نہ پڑھیں۔ ایسا ہی روزوں میں عجیب عجیب حالات پیش آتے ہیں مثلاً یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ نفلی روزے ہم رکھتے ہیں وہ یہ طریق اختیار کرتے ہیں کہ جب کسی امیرکے ہاں گئے اور وہاں کھانے کا وقت آگیا اور کھانا رکھا گیا تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ کھایئے مجھ کچھ عذر ہے، اس کے معنے دوسرے الفاظ میں یہ ہوئے کہ مجھے روزہ ہے۔ اس طرح پر وہ گویا اپنے روزوں کو چھپاتے ہیں اور دراصل اس طرح پر ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ظاہر کریں کہ ہم نفلی روزے رکھتے ہیں۔

غرض انہوں نے اپنے زمانہ کے فقراء کے اس قسم کے بہت سے گند لکھے ہیں۔ اور صاف طور لکھاہے کہ ان میں تکلفات بہت ہی زیادہ ہیں۔ ایسی حالت اس زمانہ میں بھی قریب قریب واقع ہو گئی ہے۔ جو لوگ ان پیروں اور پیرزادوں کے حالات سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ قسم قسم کے تکلفات اور ریاکاریوں سے کام لیتے ہیں …’’

(ملفوظات جلد 4صفحہ418تا419، ایڈیشن1988ء)

حقیقی فقر

پھر حضور علیہ السلام حقیقی فقر کے حوالے سے مزید فرماتے ہیں :

‘‘مگر اصل بات یہ ہے کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اسی سے امید رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو اﷲتعالیٰ کے لیے درست کرتا ہے اور اس طرح پر درست کرتا ہے جس طرح پر اﷲتعالیٰ چاہتا ہے اور ہدایت کرتا ہے لیکن جو شخص مخلوق سے ڈرتا اور مخلوق سے امید رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو مخلوق کے لیے درست کرتا ہے۔ خدا والوں کو مخلوق کی پروا نہیں ہوتی بلکہ وہ اسے مرے ہوئےکیڑے سے بھی کمتر سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ ان بلائوں میں نہیں پھنستے اور دراصل وہ ان کو کیا کرے۔ اﷲتعالیٰ خود اس کے ساتھ ہوتاہے اور وہی اس کی تائید اور نصرت فرماتا ہے۔ وہ اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اور جانتاہے کہ وہ خد ااپنی مخلوق کو خود اس کے ساتھ کر دے گا۔ یہی سر ہے کہ انبیاء علیہم السلام خلوت کو پسند کرتے ہیں اور میں یقیناً اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ وہ ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتے کہ باہر نکلیں، لیکن اﷲتعالیٰ ان کو مجبور کرتا ہے اور پکڑ کر باہر نکالتا ہے۔

دیکھو موسیٰ علیہ السلام کو جب اﷲ تعالیٰ نے مامور کرنا چاہا اور فرعون کی طرف ہدایت اور تبلیغ کی خاطر بھیجنے کی بشارت دی تو انہوں نے عذر شروع کر دیا کہ میں نے اُن کا ایک خون کیا ہوا ہے بھائی کو بھیج دیا جاوے۔ یہ کیا بات تھی؟یہ ایک قسم کا استغناء اور اہل عالم سے الگ رہنے کی زندگی کو پسند کرنا تھا۔ یہی استغناء ہر مامور اور مرسل کو ہوتا ہے اور وہ اس تنہائی کی زندگی کو بہت پسند کرتا ہے اور یہی ان کے اخلاص کا نشان ہوتاہے اور اسی لیے اﷲتعالیٰ ان کو اپنے لیے منتخب کرتا ہے کیونکہ وہ ان کے دل پر نظر کر کے خوب دیکھ لیتاہے کہ اس میں غیر کی طرف قطعاً توجہ نہیں ہوتی اور وہ اﷲتعالیٰ کی رضا اور تعمیل امر ہی کو اپنی زندگی اور حیات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ’’

(ملفوظات جلد 4صفحہ419، ایڈیشن1988ء)

فقر ایک تلخ زندگی کا نام ہے

پھر ایک اور موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

‘‘مَیں تعجب کرتاہوں کہ آج کل بہت لوگ فقیر بنتے ہیں مگر سوائے نفس پرستی کے اَور کوئی غرض اپنے اندر نہیں رکھتے۔ اصل دین سے بالکل الگ ہیں جس دُنیا کے پیچھے عوام لگے ہوئے ہیں اسی دُنیا کے پیچھے وہ بھی خراب ہو رہے ہیں۔ توجہ اور دم کشی اور منتر جنتر اور دیگر ایسے امو رکو اپنی عبادت میں شامل کرتے ہیں جن کا عبادت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ صرف دُنیا پرستی کی باتیں ہیں اور ایک ہندو کافر اور ایک مشرک عیسائی بھی ان ریاضتوں اور ان کی مشق میں ان کے ساتھ شامل ہو سکتابلکہ اُن سے بڑھ سکتا ہے اصلی فقیر تو وہ ہے جو دنیا کی اغراض فاسدہ سے بالکل الگ ہو جائے اور اپنے واسطے ایک تلخ زندگی قبول کرے تب اس کو حالتِ عرفان حاصل ہوتی ہے اور وہ ایک قوتِ ایمانی کو پاتا ہے۔ آج کل کے پیرزادے اور سجادہ نشین نماز جو اعلیٰ عبادت ہے اس کی تو پروانہیں کرتے یا ایسی جلدی جلدی ادا کرتے ہیں جیسے کہ کوئی بیگار کاٹنی ہوتی ہے اور اپنے اوقات کو خود تراشیدہ عبادتوں میں لگاتے ہیں جو خدا اور رسول نے نہیں فرمائیں۔ ایک ذکر ارّہ بنایا ہوا ہے جس سے انسان کے پھیپھڑے کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ بعض آدمی ایسی مشقوں سے دیوانے ہو جاتے ہیں۔ ان کو جاہل لوگ ولی سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ خدا تعالیٰ نے اپنی رضا مندی کی جو راہیں خود ہی مقرر فرما دی ہیں وہ کچھ کم نہیں۔ خدا تعالیٰ ان باتوں سے راضی ہوتاہے کہ انسان عفت اور پرہیز گاری اختیار کرے۔ صدق و صفا کے ساتھ اپنے خدا کی طرف جھکے۔ دنیوی کدورتوں سے الگ ہو کر تبتل الیٰ اللہ اختیار کرے۔ خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر اختیار حاصل ہے۔ خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے۔ نماز انسان کو منزہ بنا دیتی ہے۔ نماز کے علاوہ اُٹھتے بیٹھتے اپنا دھیان خدا تعالیٰ کی طرف رکھے یہی اصل مدعا ہے جس کو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی تعریف میں فرمایا ہے کہ وہ اُٹھتے بیٹھتے خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اور اس کی قدرتوں میں فکر کرتے ہیں ۔ ذکر اور فکر ہر دو عبادت میں شامل ہیں۔ فکر کے ساتھ شکرگذاری کا مادہ بڑھتا ہے۔ انسان سوچے اور غور کرے کہ زمین اور آسمان، ہوااور بادل، سورج اور چاند، ستارے اور سیارے۔ سب انسان کے فائدے کے واسطے خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ فکر معرفت کو بڑھاتا ہے۔

غرض ہر وقت خدا کی یاد میں اس کے نیک بندے مصروف رہتے ہیں۔ آج کل کے لوگوں میں صبر نہیں۔ جو اس طرف جھکتے ہیں وہ بھی ایسے مستعجل ہوتے ہیں کہ چاہتے ہیں کہ پھونک مار کر ایک دم میں سب کچھ بنا دیا جائے اور قرآن شریف کی طرف دھیان نہیں کرتے کہ اس میں لکھا ہے کہ کوشش اور محنت کرنے والوں کو ہدایت کا راستہ ملتاہے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تمام تعلق مجاہدہ پر موقوف ہے۔ جب انسان پوری توجہ کےسا تھ دُعا میں مصروف ہوتاہے تو اس کے دل میں رقت پید اہوتی ہے۔ اور وہ آستانہ الٰہی پر آگے سے آگے بڑھتا ہے تب وہ فرشتوں کے ساتھ مصافحہ کرتاہے۔

ہمارے فقراء نے بہت سی بدعتیں اپنے اندر داخل کر لی ہیں۔ بعض نے ہندوئوں کے منتر بھی یاد کئے ہوئے ہیں اور ان کو بھی مقدس خیال کیا جاتاہے۔ ’’

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 245 تا 246، ایڈیشن 1988ء)

فقر کے حوالے سے آپ علیہ السلام کا طریق

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنا طریق یوں بیان فرماتے ہیں کہ

‘‘ہمارا طریق بعینہٖ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا تھا۔ آج کل فقراء نے کئی بدعتیں نکال لی ہیں ۔ یہ چلّےاور وِرد وظائف جو انہوں نے رائج کر لیے ہیں ہمیں نا پسند ہیں ۔ اصل طریق اسلام قرآن مجید کو تد بر سے پڑھنا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرنا اور نماز توجہ کے ساتھ پڑھنا اور دعائیں توجہ اور انابت الی اللہ سے کرتے رہنا۔ بس نماز ہی ایسی چیز ہے جو معراج کے مراتب تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ ہے تو سب کچھ ہے۔ ’’

(ملفوظات جلد 5صفحہ432، ایڈیشن1988ء)

فقر کے بارے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی منظوم کلام میں سے چند نمونے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بعثت سے قبل کے منظوم کلام میں فرماتے ہیں کہ

آنچه در فقر واجب الناس است

حفظ اوقات و پاس انفاس است

ترجمہ: وہ چیز جو فقر میں لوگوں پر واجب ہے وہ اوقات کا خیال رکھنا اور انفاس کی حرمت ہے

ای تنعّم من از تو بیزارم

و ای الم با تو کارها دارم

اے ناز و نعمت! مَیں تجھ سے بیزار ہوں اور اے دکھ! تجھ سے مجھےبہت کام ہیں

اے برادر دو روزہ این دنیا است

در مزابل قرار نتوان کرد

اے میرے بھائی یہ دنیا دو روزہ ہے کوڑے کرکٹ میں ٹھہرا نہیں جاسکتا ہے

عشق آنجا کہ کارفرماید

صبر و ہوش و قرار برباید

جہاں کہیں بھی عشق کارفرما ہوتا ہے وہ صبر اور ہوش و قرار چھین لیتا ہے

مے کشاید زبان برو صد کس

نہ ز پیشش خبر بود نہ ز پس

اس پر سو زبانیں دراز ہوتی ہیں اس کو نہ گزشتہ کی خبر ہوتی ہے نہ آئندہ کی

صد بلا بر وجودِ خود آرد

دلِ معشوق را نیازارد

وہ اپنے آپ پر سو مصیبتیں وارد کرتا ہے مگر اپنے محبوب کی دل آزاری نہیں کرتا

آنکہ معشوق او یکے باشد

ترکِ جان پیشش اندکے باشد

جبکہ اس کا معشوق ایک ہی ہوتا ہے اس کے لیے جان قربان کرنا معمولی بات ہوتی ہے

در دلِ عاشقان قرار کجا

توبہ کردن ز روئے یار کجا

عاشقوں کے دل میں چین کہاں۔ محبوب سے بے رخی کرنا کیسے ممکن ہے

پاک گشتم ز لافِ ہستی خویش

رستم از بندِ خود پرستیٔ خویش

میں اپنی ہستی کو مٹا کر پاک ہوگیا ہوں اور خود پرستی کی قید سے آزاد ہوگیا ہوں

یارِ من ہست در تن و جانم

سر برآورد از گریبانم

میرے جسم اور جان میں میرا دوست ہے اور وہ میرے گریبان سے بھی ظاہر ہے

تا بنامِ خدا قدم زدہ ایم

برسر نامِ خود قلم زدہ ایم

جب سے میں نے خدا کی تلاش میں قدم اٹھایا ہے میں نے اپنے نام کو مٹا دیا ہے۔

تا نگردی برون ز هستی خویش

پاک از کبر و عجب و مستئ خویش

جب تک تو اپنی ہستی سے باہر نہ نکلے اور اپنے غرور خودبینی اور مستی سے پاک نہ ہو

ندهندت بکوی جانان راه

باز مانی همی بحالِ تباه

تجھ کو محبوب کی گلی میں راستہ نہ دیں گے اور تباہ حال باقی رہو گے

هیچ دانی ز فقر حاصل چیست

این سفر را اخیر منزل چیست

تمہیں کچھ پتہ ہے کہ فقر سے کیا حاصل ہوتا ہے اور اس سفر کی آخری منزل کیا ہے

العبودیّته العبودیّته

توبه از نخوت و انانیت

خالص بندگی ہی اصل عبادت ہے یعنی تکبر اور سرکشی سے توبہ

بندگی آن دمی بیاید راست

که نخواهی هر آنچه حقِ خدا است

صحیح بندگی اس وقت ملتی ہے کہ جب تم وہ نہ چاہو جو خدا کا حق ہے

منکه رو تافتم ز خلق و جهان

همه هست از برای آن جانان

میں نے دنیا اور لوگوں سے منہ پھیر لیا ہے میرا سب کچھ صرف اس محبوب کے لیے ہے

کار فقر است کارِ جان دادن

نه بدست اوفتد ز نان دادن

جان دینا فقراء کا کام ہے۔ اور نان دینے سے وہ ہاتھ نہیں آتا

جان درین راه نثار باید کرد

در سرِکار یار باید کرد

اس راہ میں چاہیے جان نثار کریں۔ اور یار کے کام میں لگے رہیں

تاتوانی دلِ سلیم بدار

عجب و کبر و ریا بدل مگذار

جہاں تک ہو سکتا ہے تم دل کو سلیم رکھو۔ غرور و تکبر اور دکھاوا دل میں نہ رکھو

گر ز وقتم شهان خبر یابند

از حسد سوی من عنان تابند

اگر میرے وقت سے بادشاہوں کو خبر ہو۔ تو حسد سے وہ میری طرف لڑنے کو بھاگے آئیں

هرکه آمد به شهر فقر درون

رخت افگند زین جهان بیرون

جو فقر کے شہر میں داخل ہو گیا۔ اُس نے اس جہاں سے منہ موڑ لیا

هرزه گویی مکن بفقر قیاس

فربهی نیست این که هست اماس

بے ہودہ بات کو اہل اﷲ کا کلام نہ سمجھو۔ یہ موٹاپا نہیں بلکہ ورم ہے

ترک دنیا بمردم آموزند

خویشتن سیم و غلّه اندوزند

لوگوں کو ترکِ دنیا کی تعلیم دیتے ہیں۔ اور خود غلّہ اور سونا چاندی جمع کرتے ہیں

عجز و فقر و شکستگی باید

تا مگر یار بر تو بخشاید

عاجزی، فقر اور مسکینی کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ تجھے بخشش عطا فرمائے

(درِّ مکنون)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button