سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحبؒ

(حصہ سوم)

اعلان احمدیت

(گذشتہ سے پیوستہ) حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی یہی سعادت ونجابت تھی کہ حضرت مصلح موعودؓ ان کے لئے دعائیں کرتے رہے۔ چنانچہ جون 1924ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کے بیٹے صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب کا خطبہ نکاح پڑھا تو ایجاب و قبول کے بعد ارشاد فرمایا:

’’ان کے خاندان میں اب ایک ہی وجود ایسا ہے جس نے ابھی تک اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لائے۔ ان کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے… جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں برابر ان کے لئے دعا کرتا رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے میں سنتا رہتا ہوں وہ احمدیت کو ہدایت کی راہ ہی خیال کرتے ہیں مگر کوئی روک ہے جس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس روک کو ہٹا دے۔ آمین‘‘

( الفضل 6؍ جون 1924ء ص 9 جلد 11نمبر95، تاریخ احمدیت جلد پنجم ص 93)

اس مسیحا نفس کی دعاؤں کوآخرقبولیت کاشرف بخشا گیا۔ اور آخر اکتوبر 1928ء کے پہلے ہفتہ میں حضرت مرزا سلطان احمد نے اعلان احمدیت کر دیا اور اس سلسلے میں مندرجہ ذیل بیان الفضل میں شائع کرایا۔

’’تمام احباب کی اطلاع کے لئے میں یہ چند سطور شائع کرتا ہوں کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے سب دعووںپر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے دعوےمیں صادق اور راستباز تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے جیسا کہ میرے ان مضامین سے آپ لوگوں پر ظاہر ہو چکا ہو گا جو سلسلہ احمدیہ کی خدمات کے متعلق میں شائع کرتا رہا ہوں مگر اس وقت تک بوجہ بیماری اور ضعف کے میں ان مسائل کے متعلق پورا غور نہیں کر سکا۔ جن کے بارہ میں قادیان اور لاہوری احمدیوں میں اختلاف ہے اور اسی وجہ سے اب تک اپنی احمدیت کا اعلان نہیں کر سکا۔ مگر اب میں نے سوچا ہے کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اسلئے میں اس امر کا سردست اعلان کر دوں کہ میں دل سے احمدی ہوں جب مجھے اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو میں اختلافی مسائل پر غور کر کے اس امر کا بھی فیصلہ کر سکوں گا کہ میں دونوں جماعتوں میں سے کس کو حق پر سمجھتا ہوں۔ پس سرِدست اپنے احمدی ہونے کا اعلان ان چند سطور کے ذریعہ سے کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے دوسرے سوال کے متعلق بھی اپنے فضل سے ہدایت فرمائے اور وہ راہ دکھائے جو اس کے نزدیک درست ہو۔آمین‘‘

( الفضل 2؍ اکتوبر 1928ء صفحہ 1 جلد 16 نمبر27)

آپ نے اس اعلان کے علاوہ ایک ٹریکٹ ’’الصلح خیر‘‘ نامی شائع کیا جس میں تحریر فرمایا:

’’میری عقیدت حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ نہ صرف اس وقت سے ہے جبکہ حضرت مسیح موعودؑ نے مسیحیت کا دعویٰ کیا بلکہ ان ایام سے میں عقیدت رکھتا ہوں کہ جبکہ میری عمر بارہ تیرہ برس کی تھی۔ میں تصدیق کرتا ہوں اور صدق دل سے مانتا ہوں کہ میرے والد صاحب مرحوم کی ہستی ایسی عظیم الشان تھی جو اسلام کے واسطے ایک قدرتی انعام تھا…میں اپنے والد صاحب مرحوم مرزا غلام احمد صاحب کو ایک سچا انسان اور پکامسلمان الموسوم مسیح موعود سمجھتا ہوں۔ اور ان کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اپنے آپ کو اس رنگ میں ایک احمدی سمجھتا ہوں۔ آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیوں حضرت مولوی نور الدین صاحب یا میاں محمود احمد صاحب یا مولوی محمد علی صاحب کی بیعت نہیں کی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے کبھی اپنی زندگی میں باوجود اس کے کہ میرے والد صاحب مرحوم میری بعض کمزوریوں کی وجہ سے میرے فائدہ کے لئے مجھ پر ناراض بھی تھے اور میں اب صدق دل سے یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ ان کی ناراضگی واجبی اور حق تھی۔ باوجود انکی ناراضگی کے بھی میں نے کبھی اخیر تک بھی ان کے دعاوی اور ان کی صداقت اور سچائی کی نسبت کبھی کوئی مخالفانہ حصہ نہیں لیا۔ جس کو میرے احمدی اور غیر احمدی دوست بخوبی جانتے ہیں جو قریباً 30 سال سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا میری صداقت ہو گی اور بایں حالات کون کہہ سکتا ہے کہ میں ان کا مخالف یاا ن کے دعاوی کا منکر ہوں۔ جب یہ حالت ہے تو مجھے کوئی یہ الزام نہیں دے سکتا کہ میں ان کا منکر تھا یا ہوں …بیعت کیا چیز ہے ایک یقین اور صداقت کے ساتھ ایک مقدس انسان کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اور اس کے ساتھ ہی صدق دل سے خدا کو اس امرپر شاہد کرنا۔ پس میں اب تک اپنے والد صاحب مرحوم کو سچا مسیح موعود مانتا ہوں اور میرا خدا اس پر شاہد ہے میں اعلان اور اظہار کو بیعت یقین کرتا ہوں۔(ٹریکٹ ’الصلح خیر‘ صفحہ 2-3)‘‘

( روزنامہ الفضل جلد 58-93 نمبر 135 مورخہ 16 جون 2008ء صفحہ4)

دستی بیعت

آپ نے 25 دسمبر 1930ء کو بیعت کی۔ اس بیعت کے بارے میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ مرزا سلطان احمد صاحب اپنی لمبی بیماری کے دوران جو انہیں پنشن کے کچھ عرصہ بعد لاحق ہو گئی تھی پہلے لاہور تشریف فرما تھے۔ پھر آپ قادیان آ گئے اوریہاں علاج معالجہ کا سلسلہ شروع ہو گیا اس لمبی اور آخری بیماری کے دوران خاکسار کوبہت کچھ طبی خدمت کاموقع ملتا رہا۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’میں نے کبھی مرزا صاحب کو مغموم نہ پایا۔ اکثر لطائف کے رنگ میں بات کرتے تھے۔‘‘ ایک روز خاکسار نے مندرجہ ذیل رؤیا مرزا صاحب کو سنایا:

’’خاکسار نے 12 رمضان 1930ء کو جب کہ میں نماز فجر کے بعد لیٹ گیا تھا رؤیا میں دیکھا کہ قادیان میں شور بپا ہے اور اعلان سا ہو رہا ہے کہ حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (دوبارہ دنیا میں) آ رہے ہیں اور لوگ حضور کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں۔پھر دیکھا کہ حضرت…… خلیفۃ المسیح ثانی جن کے ہمراہ اس وقت صرف یہ ناچیز راقم ہے حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے استقبال کے لئے چوک مسجد مبارک سے ریلوے اسٹیشن سے آنے والے راستہ کی طرف بڑھے ہیں اور ابھی تھوڑا سا آگے بڑھے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سامنے سے تشریف لاتے ہوئے اس مقام پر نظر آئے ہیں جو کہ حکیم مولوی قطب الدین صاحب کے مطب کے سامنے ہے۔ اس وقت حضور نے نہایت سفید نقاب پہنا ہوا ہے جس کو حضور نے جب اتارا تو حضور کا چہر ہ مبارک ایسا منور نظر آیا جس کی مثال بیان نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت تھوڑے توقف کے بعد پہلے حضرت خلیفة المسیح نے مصافحہ کیا اور اس کے بعد خاکسار راقم نے۔ حضور پُرنور نے خاکسار کے ہاتھ کو کچھ زیادہ دیر تک اپنے ہاتھ میں تھامے رکھا ابھی میرا ہاتھ حضور کے ہاتھ میں ہی تھا کہ ایک طرف تو حضور کی شکل میں کچھ تبدیلی نظر آئی اور حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی شبیہ سے کچھ مشابہ ہو گئی اور دوسری طرف میرے دل میں بھی یہ خیال آنے لگا کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب لاہور میں بیمار تھے وہ تندرست ہو کر آئے ہیں۔ مگر یہ خیال زیادہ غالب نہ آیا تھا کہ آنکھ کھل گئی۔ اس وقت جب میں نے یہ خواب دیکھا تو میرا بدن خوشی کے اثر سے جو رؤیا کی حالت میں پہنچی تھی چارپائی پر تھرتھرا رہا تھا۔…جب میں نے یہ رؤیا حضرت مرزا صاحب مرحوم کو سنایا تو آپ اسے سن کر بہت مغموم ہو گئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور رقت قلب کے ساتھ خاکسار سے مخاطب ہوئے کہ ’’ڈاکٹر صاحب میرے لئے دعا کریں کہ میں بھی انسانوں میں داخل ہو جاؤں۔ یہ الفاظ کچھ ایسے رنگ میں کہے تھے کہ میرے دل پر ان کا بہت گہرا اثر ہوا۔ علاج معالجہ کا سلسلہ جاری رہا اور میں ان کی خدمت میں وقتاً فوقتاً حاضر رہتا اور کبھی سلسلہ احمدیہ کا تذکرہ بھی ہو جاتا۔ آخر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ دن لے آیا کہ مرزا صاحب مرحوم اپنے اہل بیت کی تحریک پر بیعت کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے اور مرزاصاحب کےاہل بیت کی طرف سےخاکسار کو بلایا گیا کہ میں حضرت صاحب (حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی)کی خدمت میں عرض کرکے حضور کو بلا لاؤں تاکہ حضور مرزا صاحب مرحوم کی بیعت لے لیں۔ اس وقت مجھے بے حد خوشی پہنچی اور خدا کی قدرت کا نظارہ سامنے آ گیا کہ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر خدا کی راہ میں بکنے لگا ہے۔ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں حضرت مرزا صاحب کے ہاں تشریف لے جانے اور بیعت لینے کے لئے عرض کیا۔ حضور اسی وقت میرے ہمراہ حضرت مرزا صاحب کے مکان پر تشریف لے آئے اور اس کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں مرزا صاحب بستر علالت پر تھے۔ مرزا صاحب کی طبیعت اس وقت اچھی تھی۔ کوئی بخار وغیرہ یا کسی قسم کا عارضہ نہ تھا بجز اس تدریجی کمزوری کے جو لاتوں میں پیدا ہو گئی تھی اور شدید قبض کی شکایت تھی۔ آپ اس حالت میں لاتوں کی کمزوری کی وجہ سے لیٹے رہنے پر تو مجبور تھے مگر آپ کے علمی مشاغل جاری تھے مثلاً اخبار کا پڑھنا وغیرہ۔ جب حضرت خلیفة المسیح ثانی مرزا صاحب مرحوم کی چارپائی کے قریب کرسی پر بیٹھ گئے۔ تو میں نے دیکھا کہ دونو بھائیوں پر خاموشی طاری ہے۔ … کچھ توقف کے بعد مرزا صاحب مرحوم کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ جیسا کہ آپ خواہش ظاہر کر چکے ہیں آپ اب ہاتھ بڑھائیں اور بیعت کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے برضا و رغبت ہاتھ بڑھایا اور حضرت خلیفۃ المسیح نے ان کے ہاتھ کو اپنےہاتھ میں لے لیا تاکہ اس دیر سے بچھڑے ہوئے بھائی کو اپنے عالی مقام والا شان خدا کے جری کے آغوش شفقت میں داخل کر لیں۔ بیعت شروع ہوئی۔ حضرت خلیفة المسیح دھیمی آواز سے بیعت کے الفاظ منہ سے نکالتے اور مرزا صاحب مرحوم ان کو دہراتے تھے۔ جس وقت یہ الفاظ بولے گئے۔کہ آج میں محمود کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر کے احمدی جماعت میں داخل ہوتا ہوں۔ تو اس وقت میرے قلب کی عجیب کیفیت ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عجیب نظارہ آنکھوں کے سامنے آ گیا کہ ایک چھوٹے بھائی کو جو بڑے بھائی سے عمر میں بہت چھوٹا ہے بلکہ اس کی اولاد کے برابر ہے خدا تعالیٰ نے وہ مرتبہ دیا کہ وہ آج اپنے بڑے بھائی سے یہ الفاظ کہلوا رہا ہے کہ میں آج اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر کے جن میں میں گرفتار تھا سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں۔ پھر اس کے بعد یہ الفاظ بھی دہرائے گئے کہ آئندہ بھی میں ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کروں گا۔ شرک نہیں کروں گا۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اور جو آپ نیک کام بتائیں گے ان میں آپ کی فرمانبرداری کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام دعووں پر ایمان رکھوں گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ان الفاظ کے خاتمہ پر حسبِ معمول حضور نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور مرزا صاحب مرحوم اور دیگر حاضرین نے بھی ہاتھ اٹھا کر دعا میں شمولیت اختیار کی دعا کے کچھ دیر بعد حضرت خلیفة المسیح ثانی اپنے مکان پرواپس تشریف لے گئے اوریہ ناچیزراقم خوشی سے لبریز دل کے ساتھ اپنے کام پر چلا گیا۔

اس وقت کئی ذوقی باتیں میرے دل میں آئی تھیں ایک خیال یہ بھی آیا کہ حضرت مرزا صاحب مرحوم نے جومیرے رؤیا بیان کرتے وقت مجھ سے برقت قلب کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انسانوں میں داخل کر لے۔ کچھ ایسے رنگ میں یہ الفاظ منہ سے نکلے تھے کہ خداتعالیٰ کے حضور قبولیت پکڑ گئے اور حضرت مرزا صاحب مرحوم کو سلسلہ میں داخل ہونا اور مقبرہ بہشتی میں اپنے عالی شان والد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے قدموں میں سونا نصیب ہوا۔

(الفضل مورخہ 11 دسمبر 1940ء جلد 28 نمبر281 صفحہ 3)

حضرت مرزاسلطان احمد صاحب نے 25 دسمبر 1930ء کو بیعت کی تھی اور 2 جولائی 1931ء کو وفات پائی۔ آپ کی بیعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی جو موعود فرزند کے بارے میں تھی کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا پوری ہوئی اور آپ کا بیعت کرنا ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوا۔

وفات

حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحب طویل علالت کے دوران نمونیا کا حملہ ہونے کی وجہ سے 2 جولائی 1931ء بروز جمعرات صبح کے وقت انتقال فرما گئے… پونے پانچ بجے کے قریب جنازہ اٹھایا گیا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے ایک بہت بڑے مجمع کے ساتھ باغ میں نماز جنازہ پڑھائی اور لمبی دعا کی۔ نماز جنازہ کے بعد تمام حاضرین کو ان کے چہرہ کی زیارت کرائی گئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جنازہ کو کندھا دیا اور جسدمبارک اٹھا کر قبر میں رکھوایا اور اس وقت جبکہ قبر میں مٹی ڈالی جا رہی تھی حضورؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی قبر پر دعا کی۔ بالآخر حضرت مرزا صاحب مرحوم کی قبر پردعا کر کے واپس تشریف لائے۔

(ماخوذاز الفضل قادیان 4جولائی 1931ءص1)

اوریوں آپؒ کاخاتمہ بالخیراس رنگ میں ہواکہ اس قبرستان میں کہ جس میں دفن ہونے والوں کوخدانے بہشتی قراردیااس مقبرہ بہشتی کے اس احاطہ خاص میں دفن ہونے کی سعادت پائی۔ اوریوں خداکی خبراس رنگ میں بھی پوری ہوئی کہ ’’پاس ہوجاوے گا‘‘۔زندگی بھرکے امتحانوں میں پاس ہوتے ہوتے زندگی کے اس آخری امتحان میں بھی پاس ہوگئے۔

عالمی عدالت انصاف کے صدر اورپاکستان کے اولین وزیرخارجہ،حضرت اقدس ؑ کے صحابی حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ نے 4 جولائی 1931ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں تعزیت کرتے ہوئے لکھا:

’’آج الفضل میں جناب میرزا سلطان احمد صاحب کی وفات کی خبر پڑھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مجھے جب کبھی مرحوم کی بیماری کے آخری ایام میں مرحوم کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا تو مرحوم کو دیکھ کر یہ مصرعہ میری زبان پر جاری ہو جایا کرتا تھا ؂دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے‘‘

(تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ نمبر 287)

نوٹ: حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کے متعلق بہت سا مواد عزیزم مکرم میرانجم پرویزصاحب کے ان مضامین سے اخذ کیا گیاہے جوروزنامہ الفضل میں مورخہ 14جون تا 27جون 2008ءنو اقساط میں شائع ہوئے۔ اوربعدمیں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button