ایڈیٹر کے نام خطوط

مدیر کے نام خط

عالمی یوم اطفال کے موقع پر کمسن بچے کا ذہن پراگندہ کر کے مذہبی انتشار پھیلانے کی کوشش

عالمی یوم اطفال ہر سال 20؍نومبر کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد بچوں کی پرورش، صحت، فلاح وبہبود، ان کے حقوق، ان کی حوصلہ افزائی وغیرہ ہیں۔ پاکستان جیسے پس ماندہ ملک میں جہاں ان شقوں پر بہت مساعی کی ضرورت ہے وہیں شدت پسند ذہنیت کے حامل افراد معصوم بچوں کا ذہن مذہب کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے پراگندہ یعنی برین واش کر کے فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں۔

امسال عالمی یوم اطفال کے موقع پر ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ ایک کم عمر لڑکے نے 31 سالہ احمدی ڈاکٹر کو دن دہاڑے گولیوں کا نشانہ بنایا اور ان کے والد سمیت دیگر 2 افراد کو فائرنگ کر کے زخمی بھی کیا۔ اس سے قبل ماہ جولائی میں بھی ایک کم عمر لڑکے نے پشاور میں توہین مذہب کے ملزم طاہر نسیم کو بھری عدالت میں جج کے سامنے ہی گولی مار دی تھی۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اتنی کم عمر میں مذہبی شدت پسندی از خود پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہتھیاروں کا استعمال خداداد صلاحیت ہے بلکہ ان معصوم بچوں اور نوجوانوں کو باقاعدہ مذہب کے نام پر برین واش کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا، عوامی اجتماعات اور دیگر ذرائع بعض مذہبی گروہوں کے خلاف منافرت پیدا کرنے میں ’اہم‘ کردار ادا کرتے ہیں۔

امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بارہا مختلف پلیٹ فارمز پر اس نکتہ کو بیان فرمایا۔ آپ اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:

’’گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اسلام کی طرف ایک غلط قسم کے جہاد کے تصور کو منسوب کرنے کا ذکر کیا تھا جس نے اسلام کی بہت ہی پیاری محبت سے بھری ہوئی حسین تعلیم کو بعض مفاد پرستوں کے ذاتی مفاد نے انتہائی خوفناک اور بھیانک شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیاہے۔اور پھر ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی ان کی اصلاح کی کوشش کرے توکہتے ہیں کہ یہ اسلام دشمن ہیں اور فلاں کے ایجنٹ ہیں اور فلاں کے ایجنٹ ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اس عمل سے اسلام کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو بھی برباد کر رہے ہیں۔ ماؤں کی گودوں سے ان کے بچے چھین رہے ہیں،بہنوں سے ان کے بھائی جدا کر رہے ہیں اور باپوں سے ان کے بڑھاپے کے سہارے جدا کر کے ان کو دَردَر کی ٹھوکریں کھلانے کا باعث بن رہے ہیں۔کیونکہ چھوٹی عمر کے بچوں اور کم عمر کے نوجوانوں کو پہلے یہ دینی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں، مدرسوں میں داخل کرتے ہیں۔ پھر اللہ کی رضا اور ہمیشہ کی جنتوں کا وارث ہونے کا لالچ دے کر مکمل طورپر برین واش (Brain Wash)کر کے اپنے مقاصد میں استعمال کیا جاتاہے ان بچوں کو۔ اور جتنے اس قسم کے لیڈر ہیں کبھی نہیں دیکھیں گے کہ اپنے بچوں کو ایسے کاموں کے لئے بھیجیں۔کچھ خوفِ خدا نہیں۔

لیکن اس کے مقابل پر ایک اَور قسم کا گروہ ہے جواسلام کی حقیقی اور حسین تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرتاہے۔جو آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ میں مسیح موعود ؑکی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے یہ کہتاہے کہ

اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال

دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال

قتال اور تلوار کے جہاد کو حرا م قرار دے کر کہتاہے کہ اس سے بڑے جہاد کی طرف آؤ اور اسلام کے محاسن کو دنیا پر ظاہر کرو۔ قرآن کریم کے دلائل دنیا کے سامنے پیش کرو۔ دلائل سے دنیا کا منہ بند کرو۔ محبت سے اور دلائل سے دنیا کے دل جیتو۔ اور یہ صرف منہ کی باتیں نہیں ہیں بلکہ دنیا پر ثابت کر دیاہے کہ اس وقت اسلام کی بقا اور ترقی اسی مسیح محمدی ؑکے ساتھ وابستہ ہے جس نے دلائل سے لوگوں کے دل جیت کر اپنے زیر نگین کیا اور یہ اعلان کیا کہ

’’سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے‘‘

پس آج اس مسیح موعود کو ماننے والی ماؤں اور باپوں نے خلیفۂ وقت کی تحریک پر انبیاء اور ابرار کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مسیح موعود کی فوج میں داخل کرنے کے لئے اپنے بچوں کو پیدائش سے پہلے پیش کیا اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ’جیسے حضرت مریم کی والدہ نے یہ التجا کی خدا سے

رَبِّ اِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ۔اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ

۔کہ اے میرے رب جوکچھ بھی میرے پیٹ میں ہے مَیں تیرے لئے پیش کر رہی ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کیا چیز ہے۔لڑکی ہے کہ لڑکاہے۔ اچھا ہے یا براہے۔ مگر جو کچھ ہے مَیں تمہیں دے رہی ہوں

فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ

مجھ سے قبول فرما۔

اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ

تُوبہت ہی سننے والا اور جاننے والاہے …… یہ دعا خدا تعالیٰ کو ایسی پسند آئی کہ اسے قرآن کریم میں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اپنی اولاد کے متعلق اور دوسرے انبیاء کی دعائیں اپنی اولاد کے متعلق، یہ ساری قرآن کریم میں محفوظ ہیں۔ بعض جگہ آپ کو ظاہر طورپر وقف کا مضمون نظرآئے گا اور بعض جگہ نہیں آئے گا جیسا کہ یہاں آیا مُحَرَّرًا اے خدا ! مَیں تیری پناہ میں اس بچے کو وقف کرتی ہوں۔ لیکن بسا اوقات آ پ کو یہ دعا نظر آئے گی کہ اے خدا !جو نعمت تُونے مجھے دی ہے،وہ میری اولاد کو بھی دے اور ان میں بھی انعام جاری فرما۔ …پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو چلّہ کشی کی تھی وہ بھی اسی مضمون کے تحت آتی ہے۔ آپ چالیس دن یہ گریہ وزاری کرتے رہے دن رات کہ اے خدا! مجھے اولاد دے اور وہ دے جو تیری غلام ہو جائے، میری طرف سے ایک تحفہ ہوتیرے حضور، تو یہ ہے سنت انبیاء،سنت ابرار۔‘

اور اس زمانہ میں اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ ہے احمدی ماؤں اور باپوں کاعمل، خوبصورت عمل، جو اپنے بچوں کو قربان کرنے کے لئے پیش کررہے ہیں۔ جہاد میں حصہ لے رہے ہیں لیکن علمی اور قلمی جہاد میں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی فوج میں داخل ہو کر۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہی لوگ فتح یاب ہوں گے جن میں خلافت اور نظام قائم ہے ا س کے علاوہ اور کوئی دوسرا طریق کامیاب ہونے والا نہیں۔

(خطبہ جمعہ 27؍ جون 2003ء بمقام مسجد فضل لندن۔برطانیہ)

سانحہ لاہور 2010ء میں دو مساجد پر حملہ میں کم عمر نوجوان کو برین واش کر کے استعمال کیا گیا۔ اس بارہ میںرد عمل دیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں:

’’یہ بیچارے لوگ جو نوجوان دہشت گرد ہیں، چھوٹی عمر کے، اٹھارہ انیس سال کے، یا بیس بائیس سال کے لڑکے تھے، یہ بیچارے غریب تو غریبوں کے بچے ہیں۔ بچپن میں غربت کی وجہ سے ظالم ٹولے کے ہاتھ آجاتے ہیں جو مذہبی تعلیم کے بہانے انہیں دہشت گردی سکھاتے ہیں اور پھر ایسا brain washکرتے ہیں کہ ان کو جنت کی خوشخبریاں صرف ان خودکش حملوں کی صورت میں دکھاتے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بننے والی موت ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنے سے اب یہ لوگ قاصر ہو چکے ہیں۔ ان دہشت گردوں کے سرغنوں کو کبھی کسی نے سامنے آتے نہیں دیکھا، کبھی اپنے بچوں کو قربان کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر قربانیاں دیتے ہیں تو غریبوں کے بچے، جن کے برین واش کئے جاتے ہیں۔ بہرحال ایسے دو دہشت گرد جو پکڑے گئے، ہمارے اپنے لڑکوں نے ہی پکڑے۔

یہ فرشتوں کا اترنا اور تسکین دینا جہاں ان زخمیوں پر ہمیں نظر آتا ہے وہاں پیچھے رہنے والے بھی اللہ تعالیٰ کے اس خاص فضل کی وجہ سے تسکین پا رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر رکھا ہوا ہے۔ اس ایمان کی وجہ سے جو زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے ہم میں پیدا ہوا یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ جاوٴ اور میرے بندوں کے دلوں کی تسکین کا باعث بنو۔ ان دعائیں کرنے والوں کے لئے تسلی اور صبر کے سامان کرو۔ اور جیسا کہ میں نے کہا، ہر گھر میں مجھے یہی نظارے نظر آئے ہیں۔ ایسے ایسے عجیب نظارے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوعطا فرمائے ہوئے ہیں۔ ہر ایک

اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (یوسف: 87)

کہ میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ تعالیٰ کے حضور کرتا ہوں کی تصویر نظر آتا ہے۔ اور یہی ایک مومن کا طرہ امتیاز ہے۔ مومنوں کو غم کی حالت میں صبر کی یہ تلقین خدا تعالیٰ نے کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ (البقرة: 154)

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔ صبر اور صلوٰة کے ساتھ اللہ سے مدد مانگو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

پس ایک بندہ تو خدا تعالیٰ کے آگے ہی اپنا سب کچھ پیش کرتا ہے، جو اللہ کا حقیقی بندہ ہے، عبدِ رحمان ہے، جزع فزع کی بجائے، شور شرابے اور جلوس کی بجائے، قانون کوہاتھ میں لینے کی بجائے، جب صبر اور دعاوٴں میں اپنے جذبات کو ڈھالتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ مومنوں کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی آزمائشوں کے متعلق بتا دیا تھا۔ یہ فرما دیا تھا کہ آزمائشیں آئیں گی۔ فرماتا ہے۔

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ (البقرة: 156)

اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے سے آزمائیں گے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔

پس صبر اور دعائیں کرنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ نے خوشیوں کی خبریں سنائی ہیں۔‘‘

پھر فرمایا:

’’اور قاتل کا تعلق تحفظِ ختم نبوت سے ہے۔ ایک طرف تحفظِ ختمِ نبوت والے اعلان کر رہے ہیں کہ بہت برا ہوا۔ دوسری طرف اپنے لوگوں کو اُکسا رہے ہیں کہ جاوٴ اور احمدیوں کو شہید کرو اور جنت کے وارث بن جاوٴ۔ وہ پکڑا گیا ہے اور اس نے اقرار کیا ہے کہ سانحہ لاہور کے پسِ منظر میں مجھے بھی کیونکہ ہمارے علماء نے یہی کہا ہے اس لئے میں شہید کرنے کے اس نیک کام کے لئے ثواب حاصل کرنے کے لئے آیا تھا۔ اور پھر پکڑے جانے کے بعد یہ بھی کہہ دیا کہ یہاں ہم کسی بھی احمدی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ تو یہ تو ان کے حال ہیں۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں بدنام کیا جاتا ہے۔ دنیا میں توخود تم اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔ بہت دعائیں کریں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ مریضوں کے لئے بھی بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں شفائے کاملہ و عاجلہ عطافرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 4؍ جون 2010ء۔ الفضل انٹرنیشنل 25 جون 2010ء)

(ابوالفارس محمود)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button