یادِ رفتگاں

مکرمہ امۃ الحفیظ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر ملک بشیر احمد ناصر صاحب(درویش قادیان)

(بشریٰ صادقہ۔ کینیڈا)

آج میں اپنی پیاری امی کی یادیں لکھنے بیٹھی ہوں تو دماغ میں ایک فلم چل رہی ہے۔ اور آنکھوں کی برسات قلم کا لکھا مٹا دیتی ہے۔

میری امی امۃ الحفیظ صاحبہ1926ء میں محترم خواجہ عبدالواحد صاحب مہاجر ابن حضرت عمرو صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر پیدا ہوئیں۔ نومبر1953ء میں میرے والد صاحب ڈاکٹر ملک بشیر احمد ناصر صاحب درویش قادیان سے شادی ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی دعاؤں کا اثر تھا کہ خدا نے قادیان کے لیے 313کے بابرکت عدد میں بےانتہا برکت ڈال دی۔ یہ تمام درویش پاک روحیں تھیں۔ پھر خدا نےایسے جیون ساتھی عطا کیےجنہوں نے قادیان کے ماحول کو مزیدخوبصورت بنایا۔ بڑا ہی حسین ماحول تھا۔ سب لوگ انتہائی محبت کرنے والے، ایک خاندان کی طرح تھے۔ ایک دوسرے کی خوشی میں خوب خوش ہوتے اور دکھ میں ایک دوسرے کے لیے تڑپ جاتے۔ اس خوبصورت ماحول میں بڑا کردار ان درویشنیوں کا تھا۔ یہ اطاعت و وفا کی پتلیاں تھیں۔ اللہ کا احسان ہے کہ اُن مبارک جوڑوں میں سے ایک جوڑا میرے والدین کا بھی تھا۔ اپنے پیارے ماں باپ کی دعاؤں کی لوریاں آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں اور ان کے دعا کرتے ہوئے لب آج بھی میری آنکھوں میں پھرتے ہیں۔

میری والدہ 1953ء میں شادی کے بعد پاکستان سے قادیان آئیں۔اس وقت میرے ابا کو پانچ روپے ماہانہ الاؤنس ملتا تھا۔ ابتدائی درویشی کے زمانہ میں مالی مشکلات اور تنگی کا پہلو نمایاں نظر آتا تھا۔ والدہ بتایا کرتی تھیں کہ روٹی کے ساتھ اکثر کھانے کو سوائے نمک مرچ کے کچھ نہ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ دال کھانے کو بہت دل چاہتا تھا لیکن ایک آنہ(چھ پیسے) بھی نہ تھے کہ دال خرید سکیں۔ امی میں بہت زیادہ قناعت اور شکر کی عادت تھی اور کفایت شعار ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد سلیقہ شعار بھی تھیں۔ چار بیٹیوں تک کپڑے ہاتھ سے سی کر پہناتی رہیں۔ اس کے بعد ایک used sewing machineخرید کر بہت خوش ہوئیں۔ بازار سے کپڑے کے چھوٹے pieces(جو کم قیمت میں مل جاتے تھے) خرید کر بہترین ڈیزائن بنا کر بچوں کو پہناتیں۔ knittingبھی بہترین کرتی تھیں۔ راتوں کو بیٹھ کر اُون سلائیوں سے بُن کر سویٹر، پاجامہ اور ٹوپی کے سیٹ بنا کر بچوں کو پہناتیں۔ اگر کوئی ڈیزائن ایک دفعہ دیکھ لیتیں تو اس کو ویسے ہی نقل کر لیتیں۔

ہمارے ابا جی باوجود تنگ دست ہونے کے اپنے والد صاحب اور خاندان کی بھی مالی مددکرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔ اپنے خاوند کی مدد کے لیے امی نے نصرت گرلز اسکول میں ملازمت شروع کر دی۔ جب ابا جی کو میڈیکل سکول آف آپتھلمولوجی (Opthalmology)میں ایڈمیشن مل گیا تو فیس دینے کے لیے آپ کے پاس کچھ نہ تھا۔ امی نے چُپ چاپ جا کر اپنا کچھ زیور بیچا اور فیس کے لیے ابا جی کو رقم دیتے ہوئے کہا کہ آپ جا کر اپنی تعلیم مکمل کریں۔ میری اور بچوں کی فکر نہ کریں۔

ابا جی کے جانے کے بعد اسکول میں پڑھاتی بھی رہیں اور تین بچوں کو بہلانے اور کھلانے کے لیے ایک لڑکی کو ملازمہ کے طور پربھی رکھ لیا اور یوں بڑے وقار کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔ اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا اور ابا جی تین سال بعد گولڈ میڈل لے کر واپس آئے اورآنے کے بعد پرائیویٹ پریکٹس شروع کر دی۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت دی۔ الحمدللہ۔

امی اپنے خاوند کی بہترین مشیر اور ان کی ہر چیز کی امین تھیں۔ ان کی ہر چیز کا بغیر بتائے ان کو پتہ ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ ابا جی کے کلینک کی صفائی اور کلینک کی ہر ضرورت کا خیال رکھتیں۔ ابا جی نے آنکھوں کے بے شمار آپریشن کیے۔ ابا جی اپنے مریضوں کے لیے بڑے خلوص اور درد دل کے ساتھ دعائیں کیا کرتے تھے۔ امی اس ضمن میں بھی دعاؤں کے ذریعہ ابا جی کی ہم نوا تھیں۔

اللہ تعالیٰ پر غیر متزلزل توکل تھا۔ ابا جی اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ اس معاشرے میں نرینہ اولاد نہ ہونے پر عورت جس امتحان میں سے گزرا کرتی تھی، ہماری امی اس امتحان میں سے بھی گزریں۔ تین بیٹیوں کے بعد چوتھے حمل سے گزر رہی تھیں کہ ایک دن ایک ہندو سادھو کے ذریعہ ایک دوائی ملی اور اس نے کہا کہ میرا بڑا تجربہ ہے اگر اسے پانی میں ملا کر پیا جائے تو ضرور بیٹا پیدا ہوگا۔جب وہ دوائی میری امی تک پہنچی تو انہوں نے کہا کہ مجھے ایسا بیٹا نہیں چاہیے جو میرا ایمان ضائع کر دے۔ اس سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے نیک اور صالح بیٹی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے چوتھی بیٹی عقیلہ عفت عطا فرمائی جس کو خدا کے فضل سے خدمت دین کی بھی توفیق ملی اور ماں باپ کی خدمت کی بھی بہت توفیق ملی۔ بھارت کی لجنہ کی جنرل سیکرٹری اور پھر کینیڈا کی نیشنل سیکرٹری تعلیم اور نائب صدر کی حیثیت سے خدمت کا موقع ملا۔

اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹیوں سے نوازا۔ پانچوں کو ایسے پالا کہ ہر ایک سمجھتی تھی کہ جیسے وہی سب سے زیادہ پیاری ہے۔ سب کو قرآن کریم باترجمہ پڑھایا۔ جہاں تک ہوسکا دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کیا اور اس کے ساتھ ان کے لیے دعاؤں کے خزانے بھی جمع کیے۔ الحمدللہ۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو اپنی رضا کی جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

میری امی بے حد دعا گو، تہجد گزار، بہترین ماں اور بہترین استاد تھیں۔ دوسروں میں اچھی عادتیں اور اچھی باتیں دیکھ کر نہ صرف خوش ہوتیں بلکہ ان کو اپنانا آپ کے کردار کی خصوصیت تھی۔ بچوں کی تربیت کا بھی اپنا ہی انداز تھا۔ آٹا گوندھتے وقت یا برتن دھوتے وقت اکثر درود شریف کا ورد کر رہی ہوتی تھیں۔ بچوں کی موجودگی میں ذرا اونچی آواز سے درود شریف پڑھتیں اور انہیں متوجہ کر کے کہتیں کہ ہاتھ تو کام کر رہے ہیں منہ بالکل فارغ ہے اس لیے درود شریف پڑھنے یا کوئی اور دعا پڑھنے میں مصروف رکھنا چاہیے۔

رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے بہت رقّت سے یہ دعا کیا کرتی تھیں کہ اے اللہ مجھے روزے رکھنے اور عبادت کی توفیق دے۔ شوگر کی مریضہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی بے قراری کی دعائیں سنتا اور روزوں کی بھی توفیق دیتا۔ کئی بار اعتکاف بیٹھنے کی توفیق بھی ملی۔

قادیان میں لجنہ اماء اللہ کے تحت نائب سیکرٹری مال کا کام 18سال تک کرتی رہیں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے تعلیم القرآن کی تحریک کی تو ہمارا گھر عصر کی نماز کے بعد اسکول کی شکل اختیار کر جاتا۔ بہت سی عورتوں کو قرآن مجید ناظرہ پڑھاتیں اور بہت سی عورتوں کو ترجمہ پڑھاتیں۔ خدمت خلق اور دوسروں کی مدد کا جذبہ بہت زیادہ تھا۔ کوئی بیمار ہوتا تو تیمار داری کے لیے ہر وقت تیار رہتیں۔ کسی کے بچہ پیدا ہوتا تو ماں کے لیے یخنی یا پنجیری اور بچے کے لیے کپڑے اور بچھونیاں وغیرہ بنا کر لے جاتیں۔ سب عورتیں آپس میں ایک دوسرے کو آپا کہتیں۔ ان سب کے دل میں ایک دوسرے کے لیے محبت کا ایک سمندر تھا۔ ہمسایوں اور محلہ میں سب ایک گھر کی طرح رہتے تھے۔ امی سب محلے کی لڑکیوں کو اکٹھا کر کے وقار عمل کرواتیں اور یوں ہم اپنی گلی کی نالیاں کھیل کھیل میں ہی صاف کر لیتے۔

احسان اور اِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی کی جھلک ان کی ہر ادا میں تھی۔ ان کی خواہش ہوتی کہ ضرورت مند کو کوئی ہنر سکھا دوں تاکہ وہ محتاج نہ رہے۔ سلائی میں تربیت یافتہ ٹیچر تھیں اور بہترین سلائی اور کڑھائی کرتی تھیں۔ بہت سی عورتوں اور لڑکیوں کوسلائی اورپھر برقعہ اور کوٹ سینا سکھایا۔ اکثر گھر میں سلائی سیکھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ غریب عورتوں کو گاہے بہ گاہے کچھ سامان خرید کر دیتیں۔

خدا کے فضل سے بہت آسودہ حال تھیں۔ طبیعت میں نرمی اور رحم تھا۔ گھر میں ہر ملازمہ کو بیٹی کی طرح رکھا۔ اس کو گھر میں پڑھا لکھا کر اس قابل کرنے کی کوشش کرتیں کہ وہ خط لکھنا اور پڑھنا سیکھ لے اور ساتھ ہی سلائی بھی سکھاتیں۔ یہ لڑکیاں جو اَن پڑھ ماحول سے آئی ہوئی تھیں اور ٹھیٹھ پنجابی بولتی تھیں انہیں اردو بولنا سکھایا تاکہ بچوں کے ساتھ اردو میں بات کر سکیں۔ گھر کے کام کاج میں ان کا باقاعدہ ہاتھ بٹاتیں اور ان کی عزتِ نفس کا بہت خیال رکھتیں۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر جب ہم بہنوں میں سے کوئی بھی قادیان جاتا ہے تو اَب تک وہ لڑکیاں جو اب اپنے گھروں والی ہیں بڑی محبت سے ہمیں ملنے آتی ہیں اور امی کو ہمیشہ ماں کی طرح یاد کرتی ہیں۔ ایک بار امی کی ایک ملازمہ ملنے آئی تو امی کا ذکر کرتے ہوئے انگلی کے پورے سے آنسو پونچھتی جاتی تھی اور بتاتی تھی کہ مجھے بہن جی(امی کو بہن جی کہتی تھی) نے پڑھنا لکھنا سکھایا۔ میں نو یا دس سال کی آئی تھی۔ ایک بار میرے سر میں جوئیں پڑگئیں تو اپنے ہاتھ سے میرا سر صاف کیا۔ شادی کی عمر کو پہنچی تو ماں کی طرح میرے لیے بستر، کپڑے اور برتن محبت سے بنائے۔ چھ لڑکیاں امی کے پاس مختلف وقتوں میں ملازم رہیں۔ سب کو لکھایا، پڑھایا اور شادی پر بہت کچھ دے کر رخصت کیا۔ شادی کے بعد جب وہ ملنے آتیں تو ان کا ایسے ہی خیال رکھتیں جیسےکہ وہ میکے آئی ہوئی ہیں۔ ان کی مہربانیاں گھر کی ملازمہ تک محدود نہ تھیں بلکہ جب کبھی بھی کوئی مزدور گھر کی مرمت وغیرہ کا کام کرنے آتا تو ان کے لیے اچھا کھانا اور چائے کا اہتمام ضرور کرتیں۔

امی کی دینی اور دنیوی skillsکا دائرہ کافی وسیع تھا۔ حساب کے سوال بہت آسانی سے اوربہترین انداز میں حل کر لیتی تھیں۔ نویں اور دسویں کلاس تک مشکل سوالوں میں ہماری مدد کیا کرتی تھیں۔ تارریخ اورجغرافیہ میں اتنا عبور تھا کہ اپنے بچوں کو ان مضامین میں بھی بھرپور مدد دیتیں اور بہت اچھی طرح ہاتھ سے نقشہ کھینچ کر مختلف براعظموں اور ملکوں کی نشاندہی کرتیں۔

تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ ہندو اور سکھ عورتیں آتیں تو ان سے بڑے اچھے انداز میں بات کرتیں۔ہندو عورتوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کرتی تھیں کہ کرشن جی کو ہم بھی نبی مانتے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہتیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے میں کرشن جی کی پیشگوئی کے مطابق تمہارے لیے کرشن بن کر آئےہیں۔ایک دن اپنی ایک سکھ دوست سے بات کرتے ہوئے انہیں بتا رہی تھیں کہ گورو نانک جی نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ بٹالہ کی جو میں ایک بہت بڑی ہستی پیدا ہونے والی ہے۔ جب ان کے مریدوں نے پوچھا کہ کیا آپ سے بھی بڑی ہستی؟ تو گورو جی نے فرمایا’’ہاں ‘‘۔ ایک مرید نے کہا کہ پھر آپ کو کون پوچھے گا؟ اس پر گورو جی نے فرمایا کہ ’’وہ میری شان بڑھائے گا‘‘۔ پھر اپنی دوست کو سمجھایا کہ دیکھو گورو جی کی بات کیسے پوری ہوئی۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے دلوں میں گورو نانک جی کے لیے محبت اور عقیدت بھر دی ہے۔

مہمان نوازی کا بھی انوکھا انداز تھا۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میں انڈیا کے مختلف صوبوں سے مہمان آیا کرتے تھے۔ قادیان کے خوشبودار باسمتی چاولوں کو بہت پسند کرتے اور سوغات کے طور پر واپس گھروں کو لے جانے کے خواہش مند ہوتے۔ جو مہمان بھی امی سے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتا،امی اس کے لیے تکیے کا غلاف سیتیں اور اس میں باسمتی چاول بھر کر اچھی طرح سی کر تحفۃًدے دیتیں۔ کئی بار جلسہ کے دنوں میں بعض مہمانوں کو لنگر کی روٹی موافق نہ آتی اور پیٹ خراب ہونے کی شکایت ہوتی تو صبح صبح بہشتی مقبرہ کی سیر سے واپس آتے ہوئے عورتوں کو اپنے گھر لے آتیں اور انہیں گھر کی روٹی، پراٹھے کھلاتیں۔ مہمانوں کی خدمت کر کے چہرہ خوشی سے چمکنے لگتا۔ اس بات پر بہت خوش ہوتیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کا موقع مل رہا ہے۔ ان کی شخصیت میں عجیب کشش تھی۔ جو ایک دفعہ ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہوجاتا۔

جلسہ سالانہ کے ایام میں اکثر امی کی ڈیوٹی زنانہ جلسہ گاہ کے داخلی دروازے پر مردم شماری کی ہوا کرتی تھی۔

اُن دنوں ناصرات کے تینوں گروپس میں سے جو بچیاں امتیازی پوزیشن حاصل کرتی تھیں ان میں سے ایک یا دو کو جلسہ پروگرام کمیٹی تقریر کرنے کے لیے چن لیتی تھی۔ ان میں اکثر میری بہن عزیزہ تقریر کے لیے چن لی جاتی تھی۔ غالباً اس کی عمر سات، آٹھ سال کی ہوگی جب اس نے پہلی بار جلسہ سالانہ پر تقریر کی۔ جلسہ کی صدارت محترم سیٹھ محمد صدیق بانی صاحب آف کلکتہ کی بیگم کر رہی تھیں۔ حاضرین جلسہ مکمل خاموشی کے ساتھ سٹیج کی طرف متوجہ تھے۔ تقریر ختم ہونے پر جب عزیزہ مائیکروفون سے ہٹ کر پیچھے مڑی تو صدرِ جلسہ نے اپنی بازو پھیلا کر آغوش میں لے لیا اور پیار سے چوما اور سٹیج پر موجود کسی عورت سے پوچھا کہ ’’یہ کِس کی بیٹی ہے؟‘‘ پھر ہنس کر کہا کہ ’’اس کو تو مردوں کے جلسہ میں بھی تقریر کے لیے بھیجنا چاہیے۔‘‘جلسہ کے اختتام پر صدر صاحبہ(جلسہ سالانہ قادیان) امی سے ملیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی بچیوں کے ہوتے ہوئے آپ بیٹا نہ ہونے پر کیوں پریشان ہوتی ہیں ؟

شکرگزاری کا وصف ان کی زندگی میں نمایاں نظر آتا تھا۔ ہر لمحہ شکریہ ادا کیا کرتی تھیں کہ خدا نے مجھے درویش خاوند عطا کیا اور قادیان دارالامان جیسی پرسکون جگہ میرے لیے چُنی۔ اپنے بچوں میں بھی یہ صفت دیکھنا چاہتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن جبکہ ہم چار بہنیں (تین سے آٹھ سال کی عمر تک کی) صحن میں کھیل رہی تھیں کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ ایک شخص اپنے کھیت کے خربوزے تحفۃً دے کر چلا گیا۔ امی نے ہم سب کو بلا کر چارپائی پر بٹھایا اور بتایاکہ یہ خربوزے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجے ہیں۔اللہ میاں کا شکر ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو اَور زیادہ دیتا ہے۔یہ بتا کر ہمیں خربوزے کی قاشیں کاٹ کاٹ کر دینے لگیں۔ہم بھی اپنی عمر کے مطابق کہتے جاتے کہ اللہ میاں ! تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں میٹھے میٹھے خربوزے کھانے کو دیے۔ابھی کھا کر اُٹھے بھی نہ تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اور کوئی دروازے پر آم چھوڑ کر چلا گیا۔ امی نے کہا دیکھا، اللہ تعالیٰ نے تمہارے شکر کرنے کی وجہ سے اَور نعمت بھیج دی پھر اس کے بعد یکے بعد دیگرے تیسرا اور چوتھا نعمتوں کا تحفہ آتا رہا۔ اور یہ اللہ کی بندی اپنے بچوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا سکھاتی رہی۔ یوں لگتا تھا کہ آسمان کا خدا اپنی بندی کی کوشش میں شریک ہوگیا تھا جبکہ وہ اپنی بچیوں کو اللہ کا شکر کرنے کا سبق سکھا رہی تھی۔

امی نے بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے ہر جائز وسیلہ اختیار کیا۔ میری بہن عزیزہ کو بی اے کے بعد انگلش میں M.Aکرنے کے لیے جالندھر میں پڑھنے کے لیے بھیجا۔ امی کے تعاون کے بغیر عزیزہ کے لیے ان مشکل حالات میں تعلیم مکمل کرنا ممکن نہ تھا۔ ہماری کامیابیوں پر امی کی آنکھوں سے جو محبت، خوشی اور خدا کی شکرگذاری چھلکتی تھی اسے دیکھ کر ہم یوں خوش ہوتے گویا ہمیں جنت مل گئی ہے۔ وہ واقعی ہماری جنت تھیں !

شوگر کی مریضہ ہونے کی وجہ سے امی کے گردےٹھیک نہ رہےاور صحت بگڑتی گئی یہاں تک کہ یہ بہت ہی پیارا اور ہر وقت دعائیں کرنے والا وجود 9 اور 10؍اگست 1987ء کی درمیانی رات کو اپنے مولائے حقیقی سے جا ملا۔

اِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آخری وقت میں مَیں امی کے پاس بیٹھی تھی مجھے کہا کہ درود شریف پڑھو اور میرے اوپر پھونکو۔ یہ کہہ کر آنکھیں بند کرلیں۔ اے میرے پیارے اللہ! میرے پیارے ماں باپ پر بے شمار رحمتیں نازل فرما اور ہر آن ان کے درجات بلند کرتا جا۔ آمین ثم آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button