تاریخ احمدیت

نومبر 1955ء: تقسیم ہندوستان کے بعد مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا پاکستان میں پہلا سالانہ اجتماع

مجلس انصار اللہ مرکزیہ تقسیم ملک کےبعد انتہائی خطرناک حد تک جمود اور تعطل کا شکار ہوگئی تھی۔ 7؍نومبر 1954ء کو حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے حکم پر اس کی قیادت سنبھالی جس کے بعد چند ماہ کے اندر ہی اس میں زندگی کے نمایاں آثار پیدا ہو گئے اور اس سال کے آخر میں اپنے پہلے کامیاب سالانہ اجتماع کے نتیجہ میں ایک زندہ اور فعال مرکزی تنظیم شمار ہونے لگی۔

افتتاحی خطاب و پہلا روز

مجلس انصار اللہ مرکزیہ کایہ پہلا سالانہ اجتماع 18، 19؍ نومبر 1955ء کو تعلیم الاسلام کالج کے فضلِ عمر ہاسٹل میں منعقد ہوا۔ حضرت امام عالی مقام کی (انصار و خدام کے مشترکہ اجلاس میں) افتتاحی تقریر ہو چکی تو انصار اللہ مرکزیہ کے اس پہلے سالانہ اجتماع کی بقیہ کارروائی کا آغاز مولانا قمر الدین صاحب نائب قائد تعلیم و تربیت کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ جس کے بعد حضرت حافظ صاحبزادہ مرزاناصر احمد صاحب نائب صدر مجلس انصار اللہ نے تقریر فرمائی۔

آپ نے انصار سے اپیل کی کہ وہ جلد سے جلد اپنا دفتر قائم کریں تا اگلے سال اپنا سالانہ اجتماع اپنے دفتر کی عمارت میں کرنے کے قابل ہو سکیں۔ نیز فرمایا: چالیس سال کی عمر ہی ایسی ہوتی ہے جبکہ انسان کے جسمانی، ذہنی اور روحانی قویٰ پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ کوئی نبی ایسا مبعوث نہیں ہوا جسے چالیس سال کی عمر سے پہلے نبوت کے فرائض اللہ تعالیٰ نے تفویض کئے ہوں۔ پس انصار اللہ جوانوں کی جماعت ہے۔ انصار کو چاہیئے کہ وہ جوانوں کی طرح ہی کام کریں اور ایسا کام کریں کہ فاستبقوا لخیراتکے آسمانی حکم کے تحت نیک کاموں میں خدام الاحمدیہ سے بھی سبقت لے جائیں۔ دنیا اس وقت جہاں مذہبی صداقت کی محتاج ہے وہاں دنیوی صداقت کی بھی متلاشی ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور اس کے غیر معمولی نشانوں کے نظارے دیکھے ہیں۔ اس لیے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم دنیا کو اسلام کی دعوت دیں اور وہ اخلاق ہم دنیا میں پھر پیدا کریں جو دنیا سے ناپیدہوچکے ہیں۔

اس روح پرور خطاب کے بعدمندرجہ ذیل بزرگوں نے تقاریر فرمائیں:

حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؔ ایم اے قائد عمومی : ’’انصار اللہ کا مطلب‘‘

مولانا ظہور حسین مبلغ بخارا نائب قائد مال: ’’درس حدیث‘‘

حضرت ابو البرکات مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ: ’’محبت الٰہی‘‘

مجلس شوریٰ کا انعقاد

ان تقاریر کے بعد یہ اجلاس نماز مغرب و عشاء اور کھانے کے لیے ملتوی ہو گیا اور پھر مجلس شوریٰ کا انعقاد ہوا جس کی بقیہ کارروائی اگلے روز بھی ہوئی۔ یہ شوریٰ قریباً چار گھنٹے تک جاری رہی جس میں مجلس کے لائحہ عمل، اس کی تنظیم اور پروگرام سے متعلق نہایت دور رس اور اہم فیصلے کئے گئے۔ مثلاً مجلس انصار اللہ کا سالانہ اجتماع دس اکتوبر کے بعد کسی جمعہ اور ہفتہ کو منعقد کیا جائے اور یہ تاریخیں مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے ایام میں نہ ہوں۔

انصار اللہ کا ضلع وار نظام قائم کیا جائے۔

انصار اللہ کے لئے بھی کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ششماہی امتحان کا انتظام کیا جائے۔

دفتر انصار اللہ کی تعمیر کے لئے تین سال میں بیس ہزار روپیہ بطور چندہ اس طریق سے جمع کیا جائے کہ ہر رکن کم از کم ایک روپیہ سالانہ چندہ دے۔ ہر مجلس کے ذمہ اس کی تعداد کے لحاظ سے ایک رقم مقرر کر دی جائے جسے پورا کرنے کی وہ ذمہ دار ہو۔

شوریٰ میں مجلس کے قواعد و ضوابط اور لائحہ عمل پر نظر ثانی کرنے کےلئے ایک بورڈ بھی مقرر کیا گیا۔

اجتماع کا دوسرا روز

اگلے دن 19؍نومبر کو اجتماع کی کارروائی حسبِ معمول تلاوت ِقرآن مجید سے شروع ہوئی جس کے بعد مندرجہ ذیل بزرگوں نے اجتماع سے خطاب فرمایا:

مکرم مولانا ابو العطاء صاحب فاضل پرنسپل جامعۃ المبشرین۔ (قائد تبلیغ)

مکرم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائل پوری پرنسپل جامعہ احمدیہ

مکرم مولانا عبد الرحیم صاحب دردؔ ایم اے (قائد عمومی)

مکرم مولانا قمر الدین صاحب (نائب قائد تعلیم و تربیت)

حضرت زین العابدین سید ولی اللہ شاہ صاحب (قائد مال)

حضرت مولانا غلام احمد صاحب بدو ملہی (زعیم مجلس لالیاں)

مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال (رکن خصوصی مجلس انصار اللہ مرکزیہ)

آخری اجلاس

سالانہ اجتماع کا اخری اجلاس دو بجے دوپہر حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ رکن خصوصی انصار اللہ مرکزیہ و ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔ جس میں تلاوت قرآن مجید کے بعد تقاریر کا انعامی مقابلہ ہوا جس میں مکرم مولانا عبد الغفور صاحب مبلغ سلسلہ اول۔ حاجی محمد فاضل صاحب ربوہ دوم اور قریشی محمد حنیف صاحب قمرؔ سوم آئے۔

ساڑھے تین بجے کے قریب سیدنا حضرت مصلح موعودؓباوجود علالتِ طبع کے تشریف رکھنے سے قبل مجلس مرکزیہ کے عہدیداروں، بیرونی اور مقامی نمائندگان اور آخر میں بیرونی و مقامی زائرین کو مصافحہ کا شرف بخشا۔ حضورؓ کی طبیعت ناساز تھی اس لیے حضور ؓشرفِ مصافحہ عطا کرنے بعد واپس تشریف لے گئے۔ جس کے بعد حضرت صاحبزادہ حافظ مرز ناصر احمد صاحب نے بعض علمی اور انتظامی سوالات کے جوابات دیے اور پھر اختتامی تقریر میں فرمایا کہ اب ہمارا یہ پہلا سالانہ اجتماع ختم ہو رہا ہے اس میں شامل ہونے والے دوستوں نے بہت سے سبق حاصل کئے ہوں گے۔ سب سے پہلا اور نمایاں بنیادی سبق وہی ہے جس کی خاطر انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے یعنی محبت الٰہی کا سبق۔ درحقیقت باقی سب چیزیں محبت الٰہی کے اس بنیادی سبق کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس بنیادی سبق پر اثر انگیز پیرائے میں روشنی ڈالی۔ اور بالآخر انصار اللہ کو تزکیہ روح کی تحریک کرنے کے بعد اجتماعی دعا کرائی۔

عمومی کوائف اجتماع

انصار اللہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا تھا کہ انصار اللہ نے یہ ایام غیر معمولی طور پر دعاؤں اور عبادت میں گزارے جن کی غیر معمولی قبولیت کا ذکر خود حضرت مصلح موعودؓ نے 20؍نومبرکو خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔

اجتماع میں پہلے دن نمازِ مغرب و عشاء حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوریؓ نے پڑھائی اور دوسرے دن نمازِ ظہر و عصر میں امامت کے فرائض حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم اے نے ادا کیے۔

مختلف اجلاسوں میں تلاوت قرآن مجید کی سعادت مکرم مولوی تاج الدین صاحب، مولوی احمد خان صاحب نسیمؔ (نائب قائد تبلیغ) اور مکرم مولوی قمر الدین صاحب (نائب قائد تعلیم و تربیت ) کے حصہ میں آئی۔

قرآن مجید، احادیثِ نبویہ اور درسِ کتب حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ قرآنی حقائق و معارف اسلام کی برتری اور آنحضرت ﷺ کا عدیم المثال مقام نمایاں طور پر سامنے آجاتا اور روح پر سچ مچ وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ تقاریر کے موضوع بھی زیادہ تر ایسے مقرر کئے گئے تھےجن سے نفس کی اصلاح اور قلوب کا تزکیہ ہو۔ دورانِ اجتماع سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کا جب اردو اور فارسی منظور کلام پڑھا جاتا تو قلوب و اذہان کے اندر ایک نئی روحانی تبدیلی پیدا ہو جاتی۔ اجتماع کے پہلے اجلاس میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد مبارک کے تحت نمازِ تہجد پڑھنے اور کثرت سے دعائیں اور استخارہ کرنے والے انصار کے اعداد وشمار جمع کئے گئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے شاملِ اجتماع ہونے والے انصار کی نمایاں اکثریت ان امور کی پابند اور التزام کرنے والی پائی گئی۔

الغرض مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے اس تاریخی پہلے سالانہ اجتماع کے پروگرام میں تزکیہ نفس اور تربیتِ نفس کے پہلوؤں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا تھا اور پر سوز دعاؤں اور عبادتوں کا ایک خاص روحانی ماحول اجتماع میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اجتماع میں اول سے آخر تک ایک پُر کیف رُوحانی فضا چھائی رہی اور انصار یہ عزم لےکر اٹھے کہ وہ مجلس میں ایک نئی روح پیدا کرکے دم لیں گے اور حضرت مصلح موعودؓ جس بلند روحانی مقام پر انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔خدا کی دی ہوئی توفیق سے وہاں تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

فٹ نوٹ: یہ اجتماع سادگی اور حسنِ انتظام کا بھی عمدہ نمونہ تھا۔ انصار اللہ مرکزیہ کے ریکارڈکے مطابق اس کے کُل اخراجات پانچ سو پچہتر روپے دس آنے چھ پائی تھے۔ جس میں سے دو سو چھیالیس روپے چھ آنے چھ پائی کھانے اور بقیہ رقم سائبان وغیرہ پر خرچ ہوئی۔

(ملخص از الفضل ربوہ 24،23،22، نومبر 1955ء)

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد17صفحہ 147-149)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button