متفرق مضامین

قرآن کریم کا عظیم اعلان …دنیا کے ہر خطے اور ہر قوم میں نبی آئے ہیں (قسط دوم۔ آخری)

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

بہت سے نبی تاریخ کی گرد میں گم ہو گئے یا دیو مالائی کہانیوں کا حصہ بن گئے

عرب وعجم، ہند، ایران، چین، جاپان، یورپ، افریقہ، امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ میں نورانی وجودوں کا تذکرہ

بائبل سے رہ نمائی

عہد نامہ قدیم جس کو عام لوگ تورات بھی کہتے ہیں اس میں 68؍ایسے افراد کا ذکر ہے جن کو واضح طور پر خدا کی طرف سے نبی کہا گیا ہے۔ 15؍ایسے ہیں جن کو ان کے کارناموں کی وجہ سے نبی قرار دیا گیا ہے17؍کا تعارف بزرگان کےطور پر کرایا گیا ہے (وکی پیڈیا )بائبل میں ایک وقت میں 400؍ نبیوں کا بغیر نام کے ذکر ملتا ہے۔ قرآن سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں کثرت سے نبی آئے

وَ قَفَّیۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ(البقرۃ:88)

نبیوں کی پہچان کے اصول

حضرت مسیح موعودؑ نے قرآن کریم سے استنباط کر کے ایسے اصول بیان فرمائے ہیں جس سے ہم مزید نبیوں کو پہچان سکتے ہیں۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :

’’خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دنیا میں جس قدر نبیوں کی معرفت مذہب پھیل گئے ہیں اور استحکام پکڑ گئے ہیں اور ایک حصہ دنیا پر محیط ہوگئے ہیں اور ایک عمر پاگئے ہیں اور ایک زمانہ ان پر گزر گیا ہے ان میں سے کوئی مذہب بھی اب اپنی اصلیت کے رو سے جھوٹا نہیں اور نہ ان نبیوں میں سے کوئی نبی جھوٹا ہے۔ کیونکہ خدا کی سنت ابتداء سے اسی طرح پر واقع ہے کہ وہ ایسے نبی کے مذہب کو جو خدا پر افتراء کرتا ہے اور خدا کی طرف سے نہیں آیا بلکہ دلیری سے اپنی طرف سے باتیں بناتا ہے کبھی سرسبز ہونے نہیں دیتا اور ایسا شخص جو کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں۔ حالانکہ خدا خوب جانتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے نہیں ہے۔ خدا اس بے باک کو ہلاک کرتا ہے اور اس کا تمام کاروبار درہم برہم کیا جاتا ہے۔ اور اس کی تمام جماعت متفرق کی جاتی ہے۔ اور اس کا پچھلا حال پہلے سے بدتر ہوتا ہے ۔کیونکہ اس نے خدا پر جھوٹ بولا۔ اور دلیری سے خدا پر افتراء کیا۔ پس خدا اس کو وہ عظمت نہیں دیتا جو راستبازوں کو دی جاتی ہے اور نہ وہ قبولیت اور استحکام بخشتا ہے جو صادق نبیوں کیلئے مقرر ہے۔‘‘

(تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد12صفحہ256تا257)

اس اصول کے نتائج کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں :

’’یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑ ہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی ۔اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔ ‘‘

(تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد12صفحہ259)

قرآن نبی کو پہچاننے کا یہ اصول بھی بیان فرماتا ہے کہ مصفیٰ غیب پر صرف رسولوں کو اطلاع دی جاتی ہے۔ چنانچہ فرمایا:

فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ (الجن:27تا28)

پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا۔ بجز اپنے برگزیدہ رسول کے۔

اس لیے وہ پیشوایان مذاہب جن کی پیشگوئیاں صفائی کے ساتھ ایک لمبے عرصہ بعد پوری ہو گئیں خصوصاً رسول کریمﷺ اور آپؐ کے غلام کامل مسیح موعودؑ کے متعلق تو وہ لازماً خدا کےرسول تھے کیونکہ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیا٫نے اپنی قوموں کو رسول اللہ کی بعثت کی خبر دی اور ایمان لانے کی تلقین کی تو یقیناًکچھ علامات بھی بیان فرمائی ہوں گی ۔مثلاً بائبل میں کثرت سے رسول اللہﷺ اور مسیح موعودؑ کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں۔ ہندو مذہب میں آخری زمانہ کے متعلق خصوصا ًکسوف وخسوف اور قادیان کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں۔ بدھ مذہب میں مسیحؑ کی ہندوستان میں آمد اور رسول اللہﷺ کے متعلق متعدد پیشگوئیاں ہیں۔ حضرت زرتشتؑ کی رسول کریمﷺ اور مسیح موعودؑ اور مصلح موعود کے متعلق پیشگوئیاں ہیں۔

قرآن کریم نبی کی تعلیم اور کردار کو بھی اس کی صداقت کے طور پر پیش کرتا ہے کیونکہ سب نبیوں کی اصولی تعلیم برائے توحید اور اخلاق ہمیشہ سے ایک ہی ہے اور ان پر گزرنے والے حالات بھی مشترک ہیں جس کو منہاج نبوت کہتے ہیں۔

انہی اصولوں کے ماتحت چین کے حضرت کنفیوشسؑ، ایران کے حضرت زرتشتؑ، ہندوستان کے حضرت کرشنؑ، حضرت رام چندرؑ اور حضرت بدھؑ کو نبی کہا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کرشنؑ اور رام چندرؑ کے متعلق فرماتے ہیں :

’’حضرت کرشن بھی …انبیا٫ میں سے ایک تھے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر خلق اللہ کی ہدایت اور توحید قائم کرنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد9صفحہ459تا460، ایڈیشن1988ء)’’خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے کہ راجہ رام چندر اور کرشن جی وغیرہ بھی خدا کے راستباز بندے تھے ‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 163، ایڈیشن 1988ء)’’ہر ایک فرقہ میں نذیر آیا ہے جیسا کہ قرآن شریف سے ثابت ہے اس لئے رام چندر اور کرشن وغیرہ اپنے زمانہ کے نبی ہوں گے ‘‘۔(ملفوظات جلد 3 صفحہ 142)

حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت حمورابی کو نبی قرار دیا ہے فرمایا :

’’سموری قوم سب سے قدیم قوم ہے ان کی حکومت سب سے پہلے تھی پھر سامی قوم ہوئی جن میں حمورابی سب سے مشہور آدمی گزرا ہے جس کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی تھا یہ مسیحؑ سے دو ہزار سال قبل اور حضرت موسیٰؑ سے چھ سو سال قبل تھا بائیبل سے اس کی تعلیم اس قدر ملتی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بائیبل کی تعلیم اس سے چرائی گئی ہے ‘‘۔

(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ203)

مشہور محقق ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں کہ حمورابی کا قانون ہم تک تحریری صورت میں پہنچا ہے۔ ایرا ن میں سوس نامی مقام پر کچھ عرصہ قبل کھدائیوں میں ایک سیاہ رنگ کا پتھر ملا جس پر دو آدمیوں کی شکلیں بنی ہوئی تھیں جن میں سے ایک خدا ہے اور دوسرا حکمران حمورابی جو خدا سے احکام وصول کر رہا ہے۔ یہ پتھر ستون کی شکل میں ہے جس پر قانون میخی رسم الخط میں کند ہ کیا گیا ہے اسے مغربی ماہرین نے اب پڑھ لیا ہے اور اس کے ترجمے بھی دنیا کی اکثر بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں یہ قدیم ترین قانون ہونے کی وجہ سے قابل ذکر ہے۔

(خطبات بہاولپور صفحہ 96)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی تحقیق

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی شہرہ آفاق تصنیفRevelation, Rationality, Knowledge and Truth میں حضرت مسیح موعودؑ کے اس اصول کی روشنی میں تحقیق کو آگے بڑھایا گیا ہے اور تاریخی اور عقلی دلائل سے ثابت کیا گیاہے کہ دنیا کے تمام مذاہب کی ابتداتوحید سے ہوئی تھی ان کے بانیوں اور بزرگوں پر دہریت یا الوہیت یا محض فلسفیت کا کوئی داغ نہیں اوروہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔ اس سلسلہ میں حضورؒ نے ناقدین کو مسکت جواب دیے ہیں۔ ذیل میں حضورؒ کے چند اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔

حضرت سقراط(500 ق م)

’’سقراط کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح ہے۔ اس لحاظ سے وہ حضرت بدھ علیہ السلام کا ہمعصر تھا۔‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ85)

’’سقراط چھوٹے سے چھوٹے پہلو کے لحاظ سے بھی قرآن کریم اور دیگر صحف مقدسہ میں مذکور انبیا٫جیسا ہی ہے۔

(الہام عقل، علم اور سچائی، صفحہ84)

’’وہ فلسفیوں کے درمیان ایک پیغمبر اور پیغمبروں کے درمیان ایک فلسفی نظر آتا ہے۔ ‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ154)

’’سقراط کہتا ہے کہ صرف وہی الہام الٰہی سے سرفراز نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے بھی ایسے عظیم انسان گزرے ہیں جنہیں الہام الٰہی سے نوازا گیا تاکہ وہ نیکی اور بھلائی کے کام سر انجام دے سکیں۔ ‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ65)

’’سقراط کا یہاں خدا تعالیٰ کی ہستی کے ساتھ ایک بہت گہرا اور ذاتی تعلق نظر آتا ہے۔ اس کی شخصیت کی تعمیر ہی انبیا٫ کی طرز پر ہوئی ہے۔ سقراط کے شاگردوں کی پہلی نسل میں بڑی حد تک سقراط کی روح موجود ہے اور افلاطون اس کی پہلی نسل کا نمائندہ ہے…‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ68)

حضرت کرشنؑ(1458 ق م)

’’مذہب کی معلوم تاریخ میں سلسلۂ انبیا٫میں سے حضرت کرشن علیہ السلام کی بحیثیت ایک نبی کے شناخت چنداں مشکل نہیں ہے۔

حضرت کرشن علیہ السلام کی مستند سوانح سے پتہ چلتا ہے کہ وہ 1458قبل مسیح میں عام بچوں کی طرح …پیدا ہوئے‘‘۔

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ94)

’’’رشی ‘ایک ہندو اصطلاح ہے اس سےایسے مذہبی بزرگ مراد ہوتے ہیں جو دنیا سے قطع تعلق کر لیں اور کلیۃً خدائی منشا٫کے تابع ہو جائیں۔ ‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ94)

پروفیسر جے ورمن کے حوالہ سےحضور فرماتے ہیں کہ وہ اپنی کتاب The Vedasمیں لکھتے ہیں کہ چاروں بزرگ رشی اہل نظر یعنی اگنی، وایو، سوریا، اور انگیرا درحقیقت اعلیٰ ترین دانشور اور ممتاز روحانی شان کے حامل تھے۔

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ98)

حضرت بدھؑ(563۔ 483 ق م )

’’بدھ کی زندگی کے بغور مطالعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا طرز زندگی مختلف علاقوں اور زمانوں میں مبعوث ہونے والے دیگر انبیا٫سے مختلف نہیں تھا۔ تمام انبیا٫کے کردار میں ایک ہمہ گیر مشابہت پائی جاتی ہے جو ہمیں بدھ کی زندگی میں بھی نظر آتی ہے۔ ‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ117)

عظیم بادشاہ اشوکا کو حضرت بدھؑ کی تعلیم اور طرز زندگی کے بارہ میں مستند حیثیت حاصل ہے اور اس نے حضرت بدھؑ کو خدا کے ایسے نبی کے طور پر پیش کیا جن کی تعلیم وحی الٰہی پر مبنی ہے۔

حضرت فوشی نبی(3322۔ ق م) اورحضرت کنفیوشس (550۔ 478 ق م)

چین کی تاریخ میں قدیم زمانہ میں ایک بہت عظیم نبی کی آمد کا ذکر ملتا ہے۔ جس کا نام فوشی (Fushi)نبی (3322ق م)تھا۔ فوشی نبی کو اللہ کی طرف سے الہاماً و کشفاً تعلیمات دی گئیں۔ پھر ایک اور نبی یو(Yu)کاذکر ملتا ہے جس کا زمانہ2140ق م کا ہے۔ یہ تعلیمات ہی بعد میں آنے والے مذاہب کی تعلیمات کی بنیاد بنیں۔ چنانچہ کنفیوشس از م اور تاؤ ازم کی تعلیمات کی بنیاد فوشی نبی کی بتائی ہوئی تعلیم ہے۔ گو کہ یہ تعلیمات کنفیوشس کی طرف منسوب ہو گئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :

’’کنفیوشن ازم گہری حکمت اور دانائی کا خزانہ ہے۔‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ135)

’’چینی بزرگوں کو قرآن یا بائیبل میں مذکور انبیا٫کے برابر سمجھا جا سکتا ہے یعنی وہ لوگ جو خدا کے نمائندے یا پیامبر ہیں۔ ‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ141)

’’عظیم درویش نبی فُوشی (Fu Hsi)کے مذہبی اور روحانی تجربات ہی تمام چینی مذاہب کا سر چشمہ ہیں۔ ‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ147)

’’کنفیوشن ازم اور تاؤ ازم کی تاریخ کا آغاز فُوشی…کے زمانہ سے ہوتا ہے جو ایک بادشاہ ہونے کے علاوہ ایک عظیم عالم بھی تھا۔ ایک مرتبہ اس نے رؤیا میں ایک گھوڑا نما جانور Yellow Riverسے نمودار ہوتے دیکھا جس کی پیٹھ پر ایک خاکہ بنا ہوا تھا۔ چینی تاریخ میں کسی نبی کا رؤیا کے ذریعہ علم حاصل کرنے کا یہ منفرد واقعہ نہیں ہے۔

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ137)

’’یُو Yu…نامی نبی کا بھی الہام الٰہی سے مستفیض ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ ‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ137)

’’من شی عس Mencius…ایک چینی فلسفی، مفکر اور ماہر تعلیم تھا۔ …اس نےچینی فلسفہ پربھی بہت گہرا اثر چھوڑا یہاں تک کہ بعض اسے نبی خیال کرتے ہیں۔‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ138)

چینی بادشاہ Wanکے اقتباسات کے متعلق حضورؒ نے فرمایا کہ وہ ’’بائیبل میں مذکور حضرت داؤدؑ کی یاد دلاتے ہیں جو نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی۔ جس طرح حضرت داؤدؑ کواپنے ان دشمنوں پر حملہ کی اجازت دی گئی جو سچائی کو نیست ونابود کرنے کے خواہاں تھے اسی طرح بادشاہ Wanکو بھی اجازت دی گئی۔ تاریخِ مذاہب کے مطالعہ سےWanاور حضرت داؤدؑ کے حالات میں پائی جانے والی اور بھی مشابہتوں کا علم ہوتا ہے…‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ144)

’’در اصل فوشی کے عظیم کشف پر ہی تاؤ ازم کی بنیاد ہے۔ ‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ149)

حضرت لاؤتزے(600 ق م)

اس مذہب کے بانی Lao tze لاؤ تزے کی کنفیوشس سے ملاقات کا ذکر بھی ہے اور توحید کا واضح تصور ملتا ہے حضورؒ نے اس کتاب میں ان کا الگ نام نہیں لیا مگر چینی بزرگوں کے الفاظ میں اشارہ کر دیا ہے۔ ان کی بہت سی مشابہتیں حضرت مسیحؑ سے بھی بیان کی جا تی ہیں۔ مثلا ًکنواری کے بطن سے پیدا ہونا اور آسمان پر چلے جانا (تفصیلی مضمون میں 10مشابہتوں کے ذکر کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل 10؍جولائی 2020ء)۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے دنیا میں اپنی آمد ثانی کا ذکر کیا ہے۔

Tzu :a study in Chinese philosophy, page 19 by T. Watters MA, printed at the china Mall office 1870. Lao.

بعض محققین ان کو حضرت یسعیاہؑ کے برابر مقام دیتے ہیں۔

حضرت زرتشتؑ(600 ق م)

’’حضرت زرتشتؑ ( Zoroaster)…ایران کے عظیم نبی تھے …‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ151)

’’زرتشتی مذہب اپنے تمام تر خدو خال میں یہودیت اور اسلام سے قریب تر ہے۔‘‘

(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ153)

آسٹریلیا کے قدیم باشندے

حضورؒ نے اس کتاب میں آسٹریلیا کے قدیم باشندوں میں خدا تعالیٰ کے تصور پر بھی بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ ان کے قبائل ہزاروں سال پرانے ہیں اور آپس میں سینکڑوں میل کی دوری اور رابطوں کے فقدان کے باوجود ان کے ہاں ایک خدا کا عقیدہ واضح ہے جو انسانوں سے تعلق رکھتا ہے اور خوابوں کے ذریعہ ہم کلام ہوتا ہے۔ یہ تصور یقینا ًنبوت کی دین ہے۔

(ماخوذ ازالہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ189تا 204)

احمدیت کی امتیازی شان

عالمی نبیوں کی پہچان اور ان کے عزت و احترام کے قیام میں حضرت مسیح موعودؑ اور جماعت احمدیہ کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے گو کہ احمدیت سے پہلے کے بعض بزرگوں نے بھی ہندوستان میں آنے والے نبیوں کا ذکر کیا ہے مگر جس شان سے احمدیت نے یہ جھنڈا بلندکیا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پہلے قدیم بزرگوں کے اقوال ملاحظہ ہوں۔

حضرت ابن عربیؒ نے اپنی ایک کتاب میں حدیث کان فی الھند نبی اسود اللّون اسمہ کاھنا کا ذکر کیا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 5صفحہ459، ایڈیشن1988ء)

’’حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں بعض قبریں ایسی ہیں جن کو میں پہچانتا ہوں کہ نبیوں کی قبریں ہیں ‘‘

(بحوالہ ملفوظات جلد 5صفحہ459، ایڈیشن1988ء)

ہندوستان کے دار الحکومت دہلی سے 260کلو میٹر اور مجدد الف ثانی کے علاقہ سرہند سے 20کلو میٹر دور ایک گاؤں براس نامی ہے جس میں مبینہ طور پر 9؍انبیا٫کی قبریں ہیں جو کئی سو سال پرانی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کو مجدد الف ثانی نے دریافت کیاتھا۔

حضرت مسیح موعودؑ کے علاوہ کئی دیگر علما٫نے بھی یہی نظریہ اپنایا ہے۔ مثلاً مشہور مسلمان سیرت نگار اور مؤرخ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

’’قرآن مجید کی آیت

وَ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ

کو پیش نظر رکھ کر مہاتما گوتم بدھ کا نظریہ ایک حد تک مانوس ہو جاتا ہے ‘‘

(رسالہ المعارف جنوری 1922ء ایڈیٹر سید سلیمان ندوی)

مولوی حشمت اللہ خان لکھنوی نے لکھا ہےکہ کتب تواریخ میں لکھا ہے کہ سکیا منی (بدھ) ہندوستان کے انبیا٫میں تھے۔

(تاریخ جموں وریاست مفتوحہ گلاب سنگھ حصہ سوم صفحہ 258)

اقبال کی تصنیف جاوید نامہ میں بدھ اور زرتشت کو عظیم بزرگوں کے طور پر دکھایا گیا ہے۔

جماعت احمدیہ اس قرآنی سچائی کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے کوشاں ہے اور باقاعدہ یوم پیشوایان مذاہب منا کر دنیا میں امن و آشتی کو فروغ دیتی ہے۔ 1928ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ ہائے سیرت النبی ؐمنانے کی تحریک فرمائی اور پھر 1930ء میں جلسہ پیشوایان مذہب کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’تحریک یہ ہے کہ ایک دن ایسا مقرر کیا جائے جو پرافٹ ڈے (PROPHET DAY) نہ ہو بلکہ پرافٹس ڈے (PROPHETS DAY) ہو۔ یعنی رسول کریمﷺ کی ذات کے لئے ہی جلسے نہ منعقد کئے جائیں بلکہ تمام انبیاء کی شان کے اظہار کے لئے اس دن جلسے کئے جائیں۔ ایسے جلسوں میں ایک مسلمان کھڑا ہوجو رسول کریمﷺ کی شان کے اظہار کی بجائے کسی دوسرے مذہب کے بانی کی خوبیاں بیان کرے۔ اسی طرح ایک عیسائی کھڑا ہوکر بجائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے حضرت بدھ علیہ السلام یا حضرت کرشن علیہ السلام کی خوبیاں بیان کرے۔ ایک ہندو کھڑا ہوکر بجائے حضرت کرشن اور رام چندر جی کے حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خوبیاں پیش کرے۔ ایک زرتشتی کھڑا ہو کر بجائے زرتشت کی خوبیاں بیان کرنے کے رسول کریمﷺ کی خوبیاں بیان کرے‘‘۔

(عرفان الٰہی اور محبت با للہ کا وہ عالی مرتبہ جس پر رسول کریمؐ دنیا کو قائم کرنا چاہتے تھے، انوار العلوم جلد 11صفحہ 218)

چنانچہ 3؍دسمبر1939ءکو قادیان میں پہلاجلسہ پیشوایان مذاہب منایا گیااوراب ساری دنیا میں جماعتی پروگراموں کا حصہ بن چکا ہے۔

احمدی محققین کے لیے

جغرافیائی لحاظ سے دیکھیں تو 3 بّر اعظموں میں تو نبیوں کا واضح ذکر ملتا ہے یعنی ایشیا ، یورپ اور افریقہ۔

ایشیامیں عرب، فلسطین، عراق، شام، کاعلاقہ خصوصیت سے انبیا٫ کا مرکز رہا ہے۔ قرآن کریم اور بائبل میں مذکور اکثر انبیا ٫کا تعلق اسی خطہ سے ہے۔ ہندوستان میں کرشن، رامچندر اور بدھ کا ذکرہے کہ ہجرت کے بعد حضرت آدمؑ بھی ہند میں آئے تھے (تفسیر در منثور جلد 1 صفحہ 135 زیر آیت البقرۃ 36) اور حضرت مسیحؑ فلسطین سے ہجرت کر کےشام، ایران، افغانستان وغیرہ کئی ممالک میں یہودی قبائل کو اپنا پیغام دیتے ہوئے ہند میں آئے اور کشمیر میں قیام فرمایا۔ ایران میں زرتشت، چین میں کنفیوشس اور ان کے ساتھی انبیا٫کا ذکر ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام جس علاقہ میں مبعوث ہوئے وہ علاقہ جغرافیائی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ کشتی نوح جس پہاڑ پر ٹھہری اسے قرآن کریم نے ’’جودی ‘‘ قرار دیا ہے جبکہ تورات میں اس پہاڑ کا نام ’’اراراط‘‘بیان ہوا ہے۔ محققین کے نزدیک یہ پہاڑی سلسلہ آرمینیا میں واقع ہے۔ آرمینیا کا یہ علاقہ نہ صرف ایشیا اور یورپ کا سنگم ہے بلکہ فارس اور ترکی کی سرحدوں پر واقع ہے۔ بائبل کی تفاصیل اور قرآن کریم کی تفاسیر میں جہاں یاجوج ماجوج کو حضرت نوحؑ کی اولاد میں سے قرارد یا گیا ہے۔ بعض جگہ نوح کے بیٹوں کے نام ترک اور بعض جگہ روس کا ذکر ملتا ہے۔ ان اشارو ں سے مترشح ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا مقام بعثت روس، ترکی، ایران کی سرحدوں پر واقع آرمینیا کا علاقہ ہے۔ تواریخ عالم کا مطالعہ کریں تو طوفان نوح سے ملتے جلتے واقعات اور کہانیاں ہر ملک وقوم میں پائی جاتی ہیں۔ ہندوستان سے لے کر چین اور آسٹریلیا سے لے کر جاپان اور کوریا تک کی لوک کہا نیوں میں ایسے طوفان کا ذکرملتا ہے جو طوفانِ نوح سے مشابہ معلوم ہوتا ہے۔ مذہب کے بارہ میں جاپانیوں کی معلومات عموماً بہت کم ہوتی ہیں لیکن طوفان نوح کی کہانی صدیوں سے جاپان میں بھی موجود ہے۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’عجیب بات ہے کہ نوح کے واقعہ سے ملتے جلتے واقعات پر مبنی روایات دنیا کے قریباً ہر براعظم میں ملتی ہیں۔ (دیکھو انسائیکلوپیڈیا ببلیکا)یونان کی قدیم روایات میں بھی ایک ایسے انسان اور اس کے وقت میں طوفان کا ذکر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ بھی اس قسم کے کسی تاریخی واقعہ سے واقف تھا۔ شمالی امریکہ کے قدیم باشندوں میں بھی ایسی روایات پائی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض جگہ ناموں کی مشارکت بھی ہے۔ بابل کی قدیم روایات میں طوفان کے ہیرو کا نام ہسیس اندرا دیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ وہ دسواں بادشاہ تھا۔ بائیبل بھی آدم کی نسل سے نوح کو دسواں قرار دیتی ہے۔ شمالی امریکہ کی روایتوں میں اس شخص کا نام کنیان بتایا ہے۔ جس کے معنی عقلمند کے ہیں۔ اور یہ نام معنوں کے لحاظ سے ہسیس اندرا کے نام سے جو بابل کی روایتوں میں آتا ہے ملتا ہے۔ پالینیشیا۔ ایران، کنعان مصر اور ہندوستان میں بھی اس قسم کی روایات پائی جاتی ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک سخت طوفان آیا تھا۔ اور ایک خاص نیک بندے کے ذریعہ سے کچھ لوگ ایک کشتی میں بچے تھے۔ چنانچہ بابل کی روایات اور ہندوستان کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے وقت کی ایک شخص کو قبل از وقت خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع دی گئی تھی بابل کی روایات میں لکھا ہے کہ خواب کے ذریعہ سے اطلاع ملی اور ہندوستان کی روایات میں لکھا ہے کہ دیوتاؤں نے اسے بتایا۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد3صفحہ199تا200)

ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ نوحؑ کی قوم کے لوگ جہا ں جہاں پھیلے اپنی روایات اور واقعات ساتھ لے گئے اور ان کے غلبہ کے بعد وہ واقعات مقامی روایات کا حصہ بن گئے اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ بعد میں آنے والے انبیا٫کو خدا نے ان واقعات سے مطلع فرمایا جیسا کہ قرآن اور بائبل میں ذکر ہے وہ نبی اور ان کی اصل تعلیم تو غائب ہو گئی مگر یہ واقعات مختلف شکلیں بدل کر آج بھی زندہ ہیں۔

یورپ میں یونان میں سقراط اور افلاطون اور ہرمس کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

افریقہ میں شمالی افریقہ کے ملک مصر میں حضرت یوسفؑ، یعقوبؑ، حضرت موسیٰؑ حضرت ہارونؑ کا ذکر ہے۔ سوڈان میں حضرت لقمانؑ کا ذکر ہے۔ بربر قوم کے نبی اور ایک عبد حبشی کے نبی ہونے کا ذکر بھی ہے۔

بائبل، حدیث اور تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے 70؍ہزار بنی اسرائیل کے ہم راہ کعبہ کا حج کیا۔ حدیث میں ہے اس وادی الروحا٫میں مجھ سے پہلے 70؍ انبیا ٫نے نماز پڑھی۔ حضرت موسیٰؑ بھی یہاں سے گزرے 70؍ ہزار بنی اسرائیل کے ہم راہ انہوں نے اس بیت عتیق کا حج کیا۔ (اخبار مکہ ازرقی حصہ اول صفحہ35)اسی کتاب میں حضرت یونسؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے حج کا ذکر ہے۔ ( صفحہ37۔ 38) تفصیلی مضمون اور حوالوں کے لیے ملاحظہ ہو الفضل 15؍فروری 1970ءاور28؍جنوری2004ء۔

براعظم امریکہ میں کسی نبی کا کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ اس براعظم میں مذہب کی تاریخ بہت ہی مختصر ہے۔ اگر ہم امریکہ کے قدیم باسیوں یعنی ریڈ انڈینز اور میکسیکو کی معدوم اقوام کے طرز معاشرت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ بھی عبادات کیا کرتے تھے۔ گو یہ مشرکانہ آثار ہیں لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں بھی ابتداءً توحید کا پیغام بذریعہ انبیاء پھیلا مگر بعد ازاں دوسروں کی طرح یہ بھی اپنی اصل سے دور ہو گئے۔ جنوبی امریکہ کیIncaتہذیب میں ایسی دعائیں ملتی ہیں جن کو زبور کی مناجات سے مماثل سمجھا جاتا ہے۔ بعض محققین تو کہتے ہیں کہ ان کی طرزقرآنی دعاؤں سےزیادہ دور نہیں ہے وہ ایک ایسے معبود پر ایمان لاتے ہیں جس نے کائنات کو پیدا کیا۔

(Religion in Latin America Civilization Page 16 )

میکسیکو میں عروج پانے والی تہذیبAzeticکے حامل روحانی اور نورانی وجودوں کے قائل تھے جو دنیا میں نور پھیلانے پر مامور تھے

(مذکورہ بالا دونوں تہذیبوں کا ذکر مکرم طارق حیات صاحب کے تحقیقی مقالہ مختصر تاریخ مذاہب عالم سے لیا گیا ہے )

آسٹریلیا کے باسیوں میں خدا کا عقیدہ نیز خوابوں اور الہامات کا ذکر گزر چکا ہے مگر قرآنی سچائی ابھی ہم سے مزید محنت اور تلاش مانگتی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ نبوت کے مضمون میں بھی ارتقاہوا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں اپنے کمال کو پہنچا ہے۔ اس کی بےشمار شاخیں، مقاصد اور مراتب ہیں۔ اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سچی خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ چنانچہ فرمایا:

الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ مِنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِيْنَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ۔

(التعبیر باب رؤیا الصالحین حدیث نمبر 6893 )

عہد نامہ قدیم میں ہے کہ آخری زمانہ میں بچے نبوت کریں گے، لکھا ہے:

’’اس کے بعد میں ہر فرد بشر پر اپنی روح نازل کروں گا اور تمہارے بیٹے بیٹیاں نبوت کریں گے تمہارے بوڑھے خواب اورجوان رؤیا دیکھیں گے ‘‘۔

(یوئیل باب2آیت 28)

عہد نامہ جدید یعنی انجیل میں اسے دہرایا گیا ہے (رسولوں کے اعمال باب 2آیت 17)اس میں بھی سچی پیشگوئیوں اور سچے خوابوں کو نبوت کہا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار ہا فرمایا ہے کہ لغت میں نبوت سے مراد خدا سے علم غیب پانا اور کثرت مکالمہ اور مخاطبہ ہے۔ اسی طرح ہر نبی کے بعد خلفا ءکا سلسلہ ہو گاپھر ان کے تابع صالحین ہوں گے۔

پس تاریخ کی گرد چھانتے ہوئے اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیےکہ وہ تمام لوگ جن کی زندگیاں پاکیزہ ہوں جو خدا یا کسی بالا طاقت پر ایمان رکھتے ہوں جو وحی، الہام، سچے خواب اور علم غیب پانے کا اعلان کریں، سچی پیشگوئیاں کریں، نیکی اور اخلاق کی تعلیم دیں، برے کاموں سے بہادری سے روکیں، قوم کو انذار کریں، ان کے انذار کو خاطر میں نہ لا کر قومیں برباد ہو جائیں وہ سب خدا کے مامور ہو سکتے ہیں کیونکہ قرآن نے ان کی یہی علامات بیان فرمائی ہیں۔

یہ زمانہ جو موعود اقوام عالم کا زمانہ ہے جسے جری اللہ فی حلل الانبیا٫کا خطاب دیا گیا ہے اور

وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتۡ

کی صدا سنائی دے رہی ہے اور

اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ

اور

اِذَا الۡقُبُوۡرُ بُعۡثِرَتۡ

کانظارہ دکھائی دے رہا ہے اور

اِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ

کا منظر ہے احمدی محققین اور ماہرین آثار قدیمہ کو دعوت دے رہا ہے کہ وہ ان قوموں کے نبیوں کو تلاش کریں جو وقت کی گرد اور دیو مالائی قصوں میں چھپ گئے ہیں اس طرح قرآن کریم کی ایک سچائی نئے رنگ میں ثابت ہو کر دنیا کے سامنے آئے گی اور تمام دنیا کی قومیں ہمارے لافانی رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں خدا کے حضور حاضر ہو جائیں گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button