متفرق مضامین

عہد نامہ قدیم و جدید کے انبیاء کا صبر و استقامت (قسط اوّل)

(عمر احمد یحییٰ۔ مربی سلسلہ)

فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ(الاحقاف:36)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بنی نوع انسان کے پاس جب بھی کوئی رسول آیا تو اس کو جھٹلایا گیا اور اس کی شدید مخالفت کی گئی اور اس کا استہزا ء کیا گیا۔ فرمایا:

اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ۚ فَفَرِیۡقًا کَذَّبۡتُمۡ ۫ وَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ۔ (البقرة:88)

پس کىا جب بھى تمہارے پاس کوئى رسول اىسى باتىں لے کر آئے گا جو تمہىں پسند نہىں تو تم استکبار کروگے اور ان مىں سے بعض کو تم جھٹلا دو گے اور بعض کو تم قتل کروگے۔

وَ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ نَّبِیٍّ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ (الزخرف:8)

اور کوئى نبى ان کے پاس نہىں آتا تھا مگر وہ اس کے ساتھ تمسخر کىا کرتے تھے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے جنت میں داخل ہونے کے لیے آ زمائشوں سے گزرنے کی شرط بیان کرتے ہوئے گذ شتہ زمانے کے انبیا ء اور مومنین پر آنے والے مصا ئب کا تذکرہ ان الفا ظ میں فرمایا ہے:

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ (البقرة:215)

کىا تم گمان کرتے ہو کہ تم جنت مىں داخل ہو جاؤ گے جبکہ ابھى تک تم پر اُن لوگوں جىسے حالات نہىں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہىں انہىں سختىاں اور تکلىفىں پہنچىں اور وہ ہلا کر رکھ دىئے گئے ىہاں تک کہ رسول اور وہ جو اس کے ساتھ اىمان لائے تھے پکار اٹھے کہ اللہ کى مدد کب آئے گى۔ سنو! ىقىناً اللہ کى مدد قرىب ہے۔

اسی طرح آنحضرتﷺ نے بھی گذشتہ زمانے میں مومنین کو پیش آنے والے ابتلاؤں کی شدت کا بیان فرمایا:

قَدْ كَانَ مَنْ قَبْلَكُمْ يُؤْخَذُ الرَّجُلُ فَيُحْفَرُ لَهُ فِيْ الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيْهَا، فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُجْعَلُ نِصْفَيْنِ، وَيُمَشَّطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيْدِ مَا دُوْنَ لَحْمِهِ وَعَظْمِهِ، فَمَا يَصُدُّهُ ذَالِكَ عَنْ دِينِهِ… ‏۔

(بخاری کتاب الاکراہ باب مَنِ اخْتَارَ الضَّرْبَ وَالْقَتْلَ وَالْهَوَانَ عَلَى الْكُفْرِ)

تم سے پہلے بہت سے نبیوں اور ان پر ایمان لانے والوں کا حال یہ ہوا کہ ان میں سے کسی ایک کو پکڑ لیا جاتا اور گڑھا کھود کر اس میں انہیں ڈال دیا جاتا پھر آرا لایا جاتا اور ان کے سر پر رکھ کر دو ٹکڑے کر دیے جاتے اور لوہے کے کنگھے ان کے گوشت اور ہڈیوں میں دھنسا دیے جاتے لیکن یہ آزمائشیں بھی انہیں اپنے دین سے نہیں روک سکتی تھیں۔

بائبل میں بھی خد اکی خاطر دکھ اٹھا نے اور صبر و استقامت کی جزا کے طور پر خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے وارث قرار دیے جانےکا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔ مثلاً یسعیاہ کی کتاب میں لکھا ہے:

’’لیکن خداوند کا انتظار کرنے والے ازسر نو زور حاصل کریں گے۔ وہ عقابوں کی مانند بال و پر سے اڑیں گے وہ دوڑیں گے اور نہ تھکیں گے۔ وہ چلیں گے اورماندہ نہ ہوں گے۔ ‘‘

(یسعیاہ باب40آیت31)

اسی طرح حضر ت مسیحؑ نے فرمایا کہ

’’مُبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔‘‘

(متی باب5آیت10)

ایک اور موقعے پر فرمایا:

’’جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا۔‘‘

(متی باب24آیت13)

نیز انبیا ئےکرام کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں دکھ اٹھا نے اور صبر کرنے کے نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے:

’’اَے بھائِیو!جن نبیوں نے خُداوند کے نام سے کلام کیا اُن کو دُکھ اُٹھانے اور صبر کرنے کا نمونہ سمجھو۔ دیکھو صبر کرنے والوں کو ہم مُبارک کہتے ہیں۔ ‘‘

(یعقوب کا عام خط باب5آیت10تا11)

عہد نامہ قدیم و جدیدکے انبیا ء کے صبر و استقامت کے چند واقعات درج ہیں :

عہد نامہ قدیم کی پہلی کتاب پیدائش میں آغاز میں حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام کا ذکر اور ان کے کسی قدر حا لات بیان کیے گئے ہیں۔ ان انبیا ء کے ایمان کی پختگی اور مشکلات کے باوجود خدا تعا لیٰ کی رضا پر راضی رہنے اور استقامت کے ساتھ منصب نبوت کے فرائض ادا کرنے کے پہلو کو اجاگر نہیں کیا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں :

’’قرآن کا طرز ہے کہ جس بات کی تفصیل عہد عتیق و جدید میں نہ ہو اس کی تفصیل کرتا ہے۔ اور جس کا بیان وہاں مفصل ہو اس کی طرف مجمل اشارہ کرتا ہے‘‘

(فصل الخطاب صفحہ207)

چنا نچہ قرآن کریم نے تفصیل سے ذکر کیا کہ حضرت نوحؑ قوم کے جھٹلانے کے با وجود مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کا پیغا م پہنچاتے رہے اور جب خدا تعا لیٰ نے آپ کی قوم پر عذاب نازل کرنے کی خبر دی تو آپ کو ایک کشتی بنا نے کا حکم دیا۔ سیلاب کے قرائن کی عدم موجودگی کے باعث قوم نے آپ کو تمسخر کا نشانہ بنایا لیکن آپ حکم خداوندی کی اطا عت میں لگے رہے۔

اسی طرح حضرت ابراہیمؑ کی قوم نے بھی حق کا انکار کیا اور اپنے بتوں کی تائید کرنے کا یہ طریق نکالا کہ آپ کو جلا دیا جائے۔ اس قدر شدید مخالفت کے حا لات میں بھی آپ کے صبر و استقامت اور خدا تعالیٰ کی طرف کامل جھکاؤ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حنیف کا لقب دیا اور آپ کی صفت یہ بیان فرمائی کہ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰی۔ یعنی ابراہیمؑ جس نے اپنے عہد کو پورا کیا۔

حضرت یعقوبؑ کے متعلق فرما یا کہ آپ نے اپنے عزیز ترین بیٹے کے بھیڑیے کے ہا تھوں قتل کیے جانے کی اطلاع ملنے پر خدا تعالیٰ سے مدد ما نگتے ہوئے صبر کی راہ اختیار کی اور کہا:

اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (يوسف: 87)

یعنی مىں تو اپنے رنج واَلَم کى صرف اللہ کے حضور فرىاد کرتا ہوں۔ اسی طرح حضرت یوسفؑ کو کنویں میں ڈالا گیا اور بعد میں بیچ دیا گیا۔ مصر میں آپ پر ایک جھوٹا الزام لگا کر نہ صرف آپ کی کردار کُشی کی گئی بلکہ آپ کو قید بھی کر دیا گیالیکن ان حالات نے آپ کے ایمان کو متزلزل نہ کیا۔ اور کسی قسم کا شکوہ کرنے کی بجائے آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہی کہا کہ

اَنۡتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ(يوسف :102)

یعنی دنیا و آخرت میں تو ہی میرا دوست ہے۔

حضرت موسیٰؑ

تورات کی کتب خروج، احبار، گنتی اور استثنا ء حضرت موسیٰؑ کی تعلیمات اور آپ کے حالات زندگی پر مشتمل ہیں۔ آپ جس وقت پیدا ہوئے اس وقت بنی اسرائیل شدید مصائب کا شکار تھے۔ فرعون آپ کی قوم پر مظالم ڈھا رہا تھا اور یہاں تک حکم تھا کہ عبرانی عورتوں کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو اسے قتل کر دیا جائے۔ لیکن آپ کی پرورش خدا تعا لیٰ کی تقدیر کے ذریعہ فرعون کے دربار میں ہوئی۔ جب آپ بڑے ہوئے تو آپ سے ایک قبطی شخص کا قتل ہو گیا۔ جب فرعون نے یہ سنا تو آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن آپ نے بھاگ کر مدیان میں پناہ لی۔

(خروج باب2آیت11تا15)

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو منصب نبوت پر سرفراز فرما یا تو باوجود اس کے کہ فرعون آپ کے ہاتھوں ہونے والے قتل کی سزا میں آپ کو قتل کروانا چاہتا تھا آپ حکم الٰہی کی اطا عت میں وا پس مصر کو روانہ ہو گئے اور فرعون کے دربار میں جا کر اس کو پیغا م حق پہنچا یا۔ فرعون کے انکار کرنے پر اللہ تعا لیٰ نے آپ کو معجزات دکھانے کا حکم دیا۔ اس پر بھی جب فرعون نے بنی اسرائیل کو جانے کی اجا زت نہ دی تو مصر پر مختلف قسم کے عذابوں کے ذریعہ مزید نشان دکھائے گئے۔ آخر بنی اسرائیل ایک رات حضرت موسیٰؑ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ فرعون نے اپنے لشکر کے ہم راہ بحیرہ قلزم کے کنا رے بنی اسرائیل کو جا لیا۔ جب بنی اسرائیل نے فرعون اور اس کے لشکر کو قریب آتا دیکھا تو کہا:

’’کیا مصر میں قبریں نہ تھیں جو تُو ہم کو وہاں سے مرنے کے لیے بیا بان میں لے آیا ہے، تُو نے ہم سے یہ کیا کیا کہ ہم کو مصر سے نکال لایا۔ کیا ہم تجھ سے مصر میں یہ بات نہ کہتے تھے کہ ہم کو رہنے دے کہ ہم مصریوں کی خدمت کریں؟کیونکہ ہمارے لیے مصریوں کی خدمت کرنا بیابان میں مرنے سے بہتر ہو تا۔ تب موسیٰ نے لوگوں سے کہا ڈرو مت چُپ چاپ کھٹرے ہو کر خداوند کی نجات کے کام کو دیکھو ‘‘۔

(خروج باب14آیت11تا13)

حضرت موسیٰؑ سا ری قوم کے اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی بجائے موت کو یقینی خیال کر کے آپ کو ذمہ دار ٹھہرانے اور فرعون کے لشکر کے سر پر آ جانے کے با وجود اللہ تعا لیٰ کی ہدایت کے مطابق سمندر کے خشک حصہ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے قوم کو لے کر چلتے رہےاور فرعون کا لشکر غرقاب ہوا۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰؑ پر صرف اسی موقع پر تنقید نہیں کی بلکہ جب بھی کوئی مشکل آئی آپ کی قوم آپ کو ذمہ دار ٹھہراتی رہی۔

بیابان میں مارے کے مقام پر کڑوے پانی کے میسر ہونےپر ردّ عمل کچھ اس طرح مذکور ہے:

’’تب وہ لوگ مُوسیٰ پر بڑبڑا کر کہنے لگے کہ ہم کیا پئیں؟‘‘(خروج باب15آیت24)

کھانے کی قلت پیش آنے پر بھی قوم کا رویہ یہی تھا:

’’اُس بیابان میں ساری جماعت مُوسیٰ اور ہارُون پر بڑ بڑانے لگی۔ اور بنی اسرائیل کہنے لگےکا ش کہ ہم خداوند کے ساتھ سے ملک مصر میں جب ہی مار دیے جاتے ہم گوشت کی ہانڈیوں کے پاس بیٹھ کر دل بھر کر روٹی کھاتے تھے کیونکہ تُم تو ہم کو اس بیابان میں اس لیے لے آئے ہو کہ سارے مجمع کو بھوکا مارو۔‘‘

(خروج باب16آیت2تا3)

اگلی منزل رفیدیم پر پانی کی عدم دستیابی کے باعث ایک مرتبہ پھر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰؑ کو اپنی مشکلا ت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس واقعہ کاذکر اس طرح ہے:

’’پھر بنی اسرائیل کی ساری جماعت سین کے بیابان سے چلی اورخداوند کے حکم کےمطابق سفرکرتی ہو ئی رفیدیم میں آکر ڈیرا کیا۔ وہاں اُن لوگوں کے پینے کو پانی نہ مِلا۔ وہاں وہ لوگ موسیٰ سے جھگڑا کر کے کہنے لگے کہ ہم کو پینے کو پانی دے۔ موسیٰ نے اُن سے کہا تُم مجھ سے کیوں جھگڑتے ہو اور خداوند کو کیوں آزماتے ہو ؟ وہاں اُن لوگوں کو بڑی پیاس لگی۔ سو وہ لوگ موسیٰ پر بڑبڑانے لگے اور کہا کہ تو ہم لوگوںکو اور ہمارے بچوں اور چوپا یوں کو پیاسا مارنے کے لیے کیوں ملک مصر سے نکال لایا ؟‘‘

(خروج باب17آیت1تا3)

شریعت کے نزول کے وقت بھی بنی اسرائیل نےآئندہ اللہ تعالیٰ کا جلوہ دیکھنے سے انکار کیا:

’’سب لوگوں نے بادل گرجتے اور بجلی چمکتے اور قرناکی آواز ہوتے اور پہاڑ سے دھواں اُٹھتے دیکھا اور جب لوگوں نے دیکھا تو کانپ اُٹھے اور دور کھڑے ہوگئے۔ اور مُوسیٰ سے کہنے لگے تُو ہی ہم سے باتیں کیا کر اور ہم سن لیا کریں گے لیکن خُدا ہم سے باتیں نہ کرے تانہ ہو کہ ہم مر جائیں۔‘‘

(خروج باب20آیت18تا19)

اس قدر نشانا ت اور تائیدات الٰہی کے نظاروں کا مشاہدہ کرنے کے با وجود بنی اسرائیل توحید پر قائم نہ رہ سکے اور حضرت مو سیٰؑ کی غیر حاضری میں بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ایک اور مو قع پر حضرت مو سیٰؑ کی قوم کا مطالبہ یہ تھا کہ مصر جیسی غذائیں مہیا کی جائیں۔ اس کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:

’’جو ملی جلی بھیڑ ان لوگوں میں تھی وہ طرح طرح کی حرص کرنے لگی اور بنی اسرائیل بھی پھر رونے اور کہنے لگے کہ ہم کو کو ن گوشت کھانے کو دے گا؟ ہم کو وہ مچھلی یاد آتی ہے جو ہم مصر میں کھاتے تھے اور ہائے وہ کھیرے اور وہ خربوزے اور وہ گندنے اور پیاز او ر لہسن لیکن اب تو ہماری جان خشک ہو گئی ہے یہاں کو ئی چیز میسر نہیں …۔ ‘‘

(گنتی باب11آیت4تا6)

اسی طرح جب کنعان میں جاسوس بھجوائے گئے تو ان میں سے دو کے علاوہ سب نے یہ بیان کیا کہ اس ملک میں انتہائی زور آور اور سخت جنگجو افراد رہتے ہیں اور ان کے شہر فصیل دار ہیں جن کو فتح کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ جاسوسوں نے حضرت موسی ٰؑ کے پاس اپنے تأثرات بیان کرنے کے علاوہ ساری قوم میں بھی یہ خبریں پھیلا دیں اور قوم نے ایک مرتبہ پھر نہ صرف یہ کہ جنگ سے انکار کیا بلکہ حضرت موسیٰؑ کو شدید اعترا ضات کا نشانہ بنا یا۔ اس واقعہ کا حسب ذیل تذکرہ گنتی کی کتاب میں شامل ہے:

’’تب ساری جماعت زور زور سے چیخنے لگی اور وہ لوگ اس را ت روتے ہی رہےاور کُل بنی اسرائیل موسیٰ اور ہارون کی شکایت کرنے لگے اور ساری جماعت ان سے کہنے لگی ہائے کاش! ہم مصر ہی میں مر جاتے ! یا کاش اس بیابا ن ہی میں مر جاتےخداوند کیوں ہمیں اس ملک میں لے جا کر تلوار سے قتل کروانا چاہتا ہے پھر تو ہماری بیویاں اور بچے لوٹ کا مال ٹھہریں گے کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہو گا کہ ہم مصر کو واپس چلے جائیں۔ پھر وہ آپس میں کہنے لگے آؤ ہم کسی کو اپنا سردار بنا لیں اور مصر کو لوٹ چلیں ‘‘۔

(گنتی باب14آیت1تا4)

ایک اَور موقعے پر بنی اسرائیل کے سرکردہ افرا دنے آپ کی قیادت کے خلا ف بغا وت کر دی جس کا ذکر اس طرح ملتا ہے:

’’اور قورح بن اضہار بن قہات بن لاوی نے بنی روبن میں سے الیاب کے بیٹوں داتن اور ابیرام اور پلت کے بیٹے اون کےساتھ مل کر اور آدمیوں کو ساتھ لیا اور وہ بنی اسرائیل میں سے اڑھائی سو اَور اشخاص جو جماعت کے سردار اور چیدہ اور مشہور آدمی تھے موسیٰ کے مقابلہ میں اٹھے اور موسیٰ اور ہارون کے خلاف اکٹھے ہوکر ان سے کہنے لگے تمہارے تو بڑے دعوے ہو چلے کیونکہ جماعت کا ایک ایک آدمی مقدس ہے سو تم اپنے آ پ کو خداوند کی جماعت سے بڑا کیوں ٹھہراتے ہو؟‘‘

(گنتی باب16آیت1تا3)

قوم کی جانب سے اس قدر نا شکری اور بار بار آپ کو مورد الزام ٹھہرانے کے با وجود آپ نے صبر کا دامن نہ چھوڑا اور استقامت کے ساتھ اللہ تعا لیٰ کے احکام کی پیروی میں بنی اسرائیل کی ہدایت اور رہ نما ئی کے سا تھ ساتھ اپنی قوم کے لیے دعا ؤں میں لگے رہے۔ آپ کی ایک دعا ان الفاظ میں محفوظ ہے:

’’خداوند کی قدرت کی عظمت تیرے ہی قول کے مطابق ظاہرہوکہ خداوند قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے۔ وہ گناہ اور خطا کو بخش دیتا ہے …سو تو اپنی رحمت کی فراوانی سے اس امت کا گناہ جیسے تو مصر سے لے کر یہا ں تک ان لوگوںکو معاف کرتا رہا ہے اب بھی معاف کردے ۔‘‘

(گنتی باب14آیت17تا19)

حضرت داؤدؑ

بنی اسرائیل نے جب یہ مطالبہ کیا کہ ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کیا جائے تو اس زمانہ کے نبی سموئیلؑ کے ذریعہ ساؤل کو بادشاہ مقرر کیا گیا۔ قدیم زمانہ میں یہ دستور تھا کہ جب کسی شخص کو کسی اہم کام کے لیے منتخب کیا جا تا تو اس پر تیل چھڑکا یا انڈیلا جاتا۔ یہ اس بات کی علامت کے طور پر تھا کہ اس انتخاب میں خدا تعا لیٰ کی ر ضا شامل ہے۔ چنا نچہ سموئیلؑ کے ساؤل کو بادشاہ منتخب کرنے کا ذکر اس طرح ملتا ہے:

’’پھرسموئیلؔ نے تیل کی کپی لی اور اُس کے سر پر اُنڈیلی اور اُسے چُوما اور کہا کہ کیا یہی بات نہیں کہ خُداوند نے تجھے مسح کیا تا کہ تو اُس کی میرا ث کا پیشوا ہو؟ ‘‘

(سموئیل1باب10آیت1)

کچھ عرصہ بعد جب حضرت داؤدؑ نے جو ساؤل کے سلاح بردار اور بربط بجانے والے کے طور پر مقرر تھے ایک جنگ میں جولیت کو مار ڈالا۔ یہی وہ فلستی پہلوان تھا جو چالیس روز سے بنی اسرائیل کو مقابلہ کے لیے للکار رہا تھا لیکن کسی نے اس سے مقابلہ کی ہمت نہ کی تھی۔ جولیت کو قتل کرنے کی وجہ سے حضرت داؤدؑ کی مقبولیت بڑھ گئی اور ساؤل کو آپ سے حسد پیدا ہو گیا۔ چنانچہ ساؤل نے آ پ کے قتل کی متعدد کوششیں کیں جن کاذکر سموئیل کی پہلی کتاب میں ملتا ہے:

’’داؤد روز کی طرح اپنے ہاتھ سے بجا رہا تھا اور سؔاؤل اپنے ہاتھ میں اپنا بھالا لئے تھا۔ تب سؔاؤل نے بھالا چلایا کیونکہ اُس نے کہا کہ مَیں داؔؤد کو دیوار کے ساتھ چھیددوں گا۔ اور داؔؤد اُس کے سامنے سے دوبار ہٹ گیا۔ سو سؔاؤل داؔؤد سے ڈرا کرتا تھا کیونکہ خُداوند اُس کے ساتھ تھا اور سؔاؤل سے جدا ہوگیا تھا۔ ‘‘

(سموئیل1باب18آیت10تا12)

’’اور سؔاؤل نے اپنے بیٹے یُونؔتن اور اپنے سب خادِموں سے کہا کہ داؔؤد کو مار ڈالو۔ ‘‘

(سموئیل1باب19آیت1)

’’داؔؤد ہاتھ سے بربط بجا رہا تھا۔ اور ساؔؤل نے چاہا کہ داؔؤد کو دِیوار کے ساتھ بھالے سےچھید دےپر وہ سؔاؤل کے آگے سے ہٹ گیا اور بھالا دیوار میں جا گھسا اور داؔؤد بھاگا اور اُس رات بچ گیا۔ اور ساؔؤل نے داؤد کے گھر پر قاصِد بھیجے کہ اس کی تاک میں رہیں اور صُبح کو اُسے مار ڈالیں۔ سو داؔؤد کی بیوی مؔیکل نے اُس سے کہا اگر آج کی رات تُو اپنی جان نہ بچائے تو کل مارا جائےگا۔ اور مؔیکل نے داؔؤد کو کھڑکی سے اُتار دیا۔ سو وہ چل دیا اور بھاگ کر بچ گیا۔‘‘

(1سموئیل باب19آیت9تا12)

ان تمام واقعات پر نہ صرف یہ کہ آپؑ مسلسل صبر کرتے رہے بلکہ آپؑ کے دل میں کسی قسم کے انتقام کے جذبات بھی پیدا نہ ہوئے۔ چنانچہ جب آپ کو ایک غار میں ساؤل اکیلا اور نہتا ملا تو یہ ایسا موقع تھا کہ چاہتے تو ساؤل کو قتل کر ڈا لتے لیکن آپ نےمحض اس وجہ سے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا کہ اس کو خدا تعا لیٰ کی رضاسے بادشاہ مقرر کیا گیا تھا۔ آپؑ نے فرمایا:

’’خُداوند نہ کرے کہ مَیں اپنے مالک سے جو خُداوند کا ممُسوح ہے اَیسا کام کروں کہ اپنا ہاتھ اُس پر چلاؤں اِس لیے کہ خداوند کا ممسوح ہے۔ سو داؔؤد نے اپنے لوگوں کو یہ باتیں کہہ کر روکا اور اُن کو ساؔؤل پر حملہ کرنے نہ دیا اور ساؔؤل اُٹھ کر غار سے نکلا اور اپنی راہ لی۔‘‘

(سموئیل1باب24آیت6تا7)

اس کے بعد بھی ساؤل نے آپ کے قتل کا ارادہ ترک نہ کیا اور دوبارہ تین ہزار جوانوں کے ہم راہ جنگل میں آپ کا تعاقب کیا۔ رات کو حضرت داؤدؑ ان کی خیمہ گا ہ میں داخل ہو ئے۔ ساؤل اور اس کے محا فظ غافل پڑے سو رہے تھے۔ حضرت داؤدؑ کے ساتھی نے ساؤل کے قتل کی اجازت طلب کی تو آپ نے جوا باً فرمایا:

’’داؔؤد نے ابِیشؔےسے کہا اُسے قتل نہ کر کیونکہ کون ہے جو خُداوند کے ممسوح پر ہاتھ اُٹھائے اور بے گُناہ ٹھہرے؟ اور داؔؤد نے یہ بھی کہا کہ خداوند کی حیات کی قسم خداوند آپ اُس کو مارےگا یا اُس کی موت کا دِن آئےگا یا وہ جنگ میں جا کر مر جائےگا۔ لیکن خُداوند نہ کرے کہ مَیں خُداوند کے ممسوح پر ہاتھ چلاؤں ۔‘‘

(سموئیل1باب26آیت9تا11)

ان واقعات کے بعدجب ساؤل نے فلستیوں کے ساتھ ایک جنگ میں پکڑے جانے کے خوف سے خود کشی کر لی تو حضرت داؤدؑ بادشاہ مقرر ہوئے۔

حضرت ایلیاہؑ

جانی دشمن اور ظالم بادشاہ کو پیغام حق پہنچانے اور صبرواستقامت کے ساتھ احکام الٰہی کی پابندی کرتے رہنےکی ایک مثال ایلیاہ نبی کی ہے۔ آپ کے زما نہ میں اسرائیل کا بادشاہ اخی آب تھا جو توحید کو ترک کر کے بعل کی پرستش کرتا تھا نیز اس کی بیوی نے خدا ئےواحد کی طرف بلانے والوں کا قتل کرنے کا حکم جاری کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ایلیاہ نے مشرک بادشاہ کو اس کی بد اعمالیوں کی طرف توجہ دلائی اور قحط کی وعید دی۔ اس پر بادشاہ آپ کی جان کے در پے ہو گیا اور ہر طرف آپ کی تلاش کی گئی۔ ان حالا ت میں آپ نے ایک برساتی نالے کے قریب ویرانے میں بسیرا کیا اور تین برس تک اسی حال میں رہے۔ تین سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوبارہ بادشاہ کے پاس جانے کا حکم دیا تو آپ اس ظالم اور آپ کی جان کے خواہاں بادشاہ کے پاس ایک مرتبہ پھر تشریف لے گئے اور بعل کے پجاریوں سے مقابلہ کیا۔ اس مقابلہ میں جب بعل کے پجا ریوں کو شکست ہوئی تو بنی اسرائیل نے ان کو قتل کر دیا۔ اس پربادشاہ کی مشرکہ بیوی نے ایک مرتبہ پھر آپ کے قتل کا مصمّم ارادہ کر لیا اور آپ کو جان بچا کر نکلنا پڑا۔ چند برس بعد آپ ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت اخی آب کو عذاب کی خبر دینے کے لیے تشریف لائے۔ اس مرتبہ بادشاہ نے توبہ کر لی اور اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کا طلب گار ہوا۔

(ماخوذ از سلاطین1ابواب17تا19)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button