ایشیا (رپورٹس)

طلباء و فارغ التحصیل مربیان جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کی امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے (آن لائن) ملاقات

31؍اکتوبر2020ءبوقت 7بجے شام ، بمقام بیت العافیت (لجنہ ہال)، بوگور، مغربی جاوا (انڈونیشیا)

جماعت احمدیہ انڈونیشیا اور خصوصاً جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کے لیے یہ بہت خوشی کی گھڑی تھی کہ اس دینی درسگاہ کے جملہ طلباء، اساتذہ اور امسال فارغ التحصیل ہونے والے مربیان کی اپنے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ آن لائن ملاقات ہوئی۔

ہم خدائے قادر و توانا کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اس وبائی دور میں جبکہ سماجی دوری اور مختلف پابندیوں کی وجہ سے ملنا جلنا بھی مشکل ہے خدائے ذوالعجائب نے اپنی پیشگوئیوں کے مطابق ایسے اسباب مہیا فرمائے ہیں کہ جدید مواصلاتی سہولتوں کے ذریعہ سے ہم نے 75منٹ تک پیارے آقا سےبراہِ راست قیمتی نصائح حاصل کرنے اور دعائے خاص طلب کرنے کی توفیق پائی۔

پس ہم کیسی خوش نصیب جماعت میں شامل ہیں کہ خلیفۂ وقت ہمیں ہریک راہ میں رشد اور ہدایت سے نوازتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنےوالا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والاہے۔‘‘

(برکاتِ خلافت )

یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت کی لاگو کردہ سماجی دوری کی پابندیوں کی وجہ سے جامعہ کے طلباءکئی ماہ سے صرف ہوسٹل اور مرکز جماعت انڈونیشیا کے احاطے میں ہی رہے۔ پھر چند ماہ بعد ’نئے نارمل‘ میں جب تدریسی کلاسز طبی حفاظتی اقدامات کو مد نظر رکھتے ہوئے شروع کروائی گئیں تو ماہ ستمبر میں مکرم معصوم احمد صاحب شاہد (پرنسپل جامعہ احمدیہ انڈونیشیا) نے مکرم عبد الباسط صاحب شاہد (امیر جماعت احمدیہ انڈونیشیا)سے رہ نمائی طلب کرکے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں خصوصی آن لائن کلاس کی درخواست کی جس کی حضور نے ازراہ شفقت منظوری عطا فرمائی۔

جب یہ پُر مسرت پیغام ہمیں پہنچا تو بے انتہا خوشی ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل دعاؤں اور استغفار میں مشغول رہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی فرمائے۔

موسم برسات کی وجہ سے ہم مرکزی مسجد یعنی مسجد نصر میں پروگرام نہیں کروا سکتے تھے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ یہ ملاقات لجنہ ہال میں ہوگی جو مسجد نصر سے پیدل دس منٹ کی دوری پر واقع ہے۔ یہ بہت ہی خوبصورت ،تین منزلہ بلڈنگ ہے جس کی مرمت و تزئین و آرائش کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت اس کا نام ’بیت العافیت‘ عطا فرمایا ہے۔

بیت العافیت میں ہمیں انٹرنیٹ کے کنکشنکا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ لہٰذا اس نہایت اہم کام کے لیے شعبہ آئی ٹی اور ایم ٹی اے نے بیت العافیت تک دو سو فٹ کی تار بچھانے کا انتظام کیا۔

31؍اکتوبر 2020ء وہ بابرکت دن تھا جس کا ہمیں لمبے عرصے سےانتظار تھا۔ مرکز سے اطلاع ملی کہ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمارے مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے تشریف لائیں گے۔ اس بابرکت پروگرام میں مکرم نیشنل امیر صاحب جماعت انڈونیشیا بھی شامل تھے۔ اس تاریخی دن کی مختصر رپورٹ کے بعد بعض تاثرات درج ذیل ہیں۔

شاملین کے تاثرات

مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ انڈونیشیالکھتے ہیں:

ملاقات سے پہلے مجھے بار بار یہی فکر ہورہی تھی کہ موسمِ برسات اور بجلی کے مسئلہ کی وجہ سے ملاقات میں کوئی مشکلات نہ پیش آئیں۔ دوسری فکر یہ تھی کہ جب طلباء جامعہ احمدیہ سوال پیش کریں گے تو ایسا نہ ہو کہ وہ اردو سے کم واقفیت کی وجہ سے حضور انور کو اپنی بات نہ سمجھاپائیں اور حضورِ انور کو تکلیف پہنچے۔ یہ فکر مزید دامنگیر ہوئی جب حضور انور تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ میں نے کس زبان میں بات کرنی ہے، انگریزی یا اردو؟ نیز فرمایا کہ انڈونیشین زبان تومجھے نہیں آتی۔ تو میں نے گزارش کی کہ اردو میں ہی فرمائیں کہ ہمیں انشا ءاللہ بہت حد تک سمجھ آجائے گی۔ پھر کلاس کے شروع میں ہی حضور انورنے آواز کی کچھ خرابی کے متعلق ذکرفرمایا تو میں اتنا گھبرا گیا کہ باوجود اس کے کہ ایم ٹی اے والوں نے بار بار اشارے سے مجھے توجہ دلائی کہ کیمرے ہی کی طرف نظر رکھنی ہے مگر پھر بھی میں سکرین کی طرف دیکھتا رہا۔ بہرحال ایک مبارک اور پُر شوکت وجود کے دربار میں حاضر ہونے کی وجہ سے دل میں رعب طاری تھا۔ تلاوت اور نظم اور تقریر کے بعد دل میں اس طرح سکون پہنچا کہ جب عزیزم فخر الرجال نے تقریر کی اور حضور انور نے تقریر کے متعلق دریافت فرمایا کہ کیا تقریر اردو میں لکھی ہوئی ہے یا انڈونیشین میں؟تو میں نے عرض کیا کہ جی حضور اردو میں لکھی ہوئی ہے۔اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پُر شفقت انداز میں فرمایا کہ اچھا ٹھیک ہے۔ تویہ جواب میرے لیے تسلی بخش تھا۔

ایسےبابرکت لمحات ہمیں یوں نظر آتے ہیں کہ گویا باپ اور بیٹے کا رشتہ ہے اور بچے براہ راست اپنے روحانی والد سے فیض حاصل کر رہے ہیں۔ چنانچہ جب ایک طالبِ علم نے سوال پیش کرنے کے لیے سلام کرکے ’پیارے حضور‘ کہا تو حضور نے فوراً جواب دیا: وعلیکم السلام پیارے بچو۔یہ کیسی خوشی کی گھڑی تھی! پیارے حضور جب ہمارے درمیان موجود تھے تو میرے دل میں فرمانِ خدا یعنی آیت استخلاف کا خیال آرہا تھا کہ کس طرح خدا نے خلافت کے ذریعہ ہماری خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا۔

پھر جب جگہ کے متعلق حضور انور نے دریافت فرمایا اور حضور کو ’بیت العافیت‘، لجنہ ہال کا نظارہ بذریعہ ویڈیو دکھایا گیا تو حضور نے نہ صرف عمارت بلکہ ہمارے ملک کی خوبصورتی کی بھی تعریف کی جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی اور مَیں نے بے ساختہ ہو کر حضور کو انڈونیشیا میں تشریف لانے کے لیے دعوت پیش کی۔

آخر میں حضورانور نے فارغ التحصیل مربیان کے متعلق دریافت فرمایا۔ میں نے عرض کیا کہ امسال 4شاہدین اور 6مبشرین فارغ التحصیل ہوئے ہیں جس پر حضور نے ان کے لیے خاص دعا کی اور تمام طلباء کے لیے بھی دعا کی جن کی کل تعداد 106 ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بہترین خادم سلسلہ بنائے جو اپنے روشن اخلاق سے دوسروں کے لیے نمونہ بنیں اور انڈونیشیا کے طول و عرض میں احمدیت کے پیغام کو احسن رنگ میں پھیلانے والے بنیں۔ آمین

فارغ التحصیل مربیان کے تاثرات

احمد سلام صاحب شاہد فارغ التحصیل مربی سلسلہ لکھتے ہیں:

جب میں جامعہ میں تھا تو میری یہی خواہش تھی کہ میری حضور انور کےساتھ ملاقات ہوجائے۔ اگر چہ یہ ناممکن سا نظر آرہا تھا مگر یہ خواہش ہمیشہ اپنی دعاؤں میں شامل کرتا رہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے 31؍اکتوبر 2020ءبوقت شام 7بجے خاکسار کی خواہش کو پورا فرمایا۔ حضور انور کا مبارک چہرہ دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسوبہ رہے تھے۔ پس اس ملاقات سے گویا فیوض و برکات کی بارشیں نازل ہوئیں۔ یہ خلافت کی برکات ہیں کہ اگر میں شاہد کلاس میں داخل نہ ہوتا تو شاید اس نعمت سے محروم رہ جاتا۔

عمار احمدصاحب شاہدفارغ التحصیل مربی سلسلہ لکھتے ہیں:

یہ حضور انور کے ساتھ خاکسار کی پہلی ملاقات ہے۔ ان مبارک لمحات کے دوران دل پر بہت گہرا اثر ہوا۔ پیارے حضور نے جب خاکسار کا نام لیا اور میں نے حضور انور کا نور سے بھرا روشن چہرہ دیکھا تو یہ میرے لیے بے انتہا خوشیوں کا موجب بنا۔ جو بھی نصائح حضور نے فرمائیں میرے لیے نہایت خوبصورت ہیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔

راہدیان احمد صاحب مبشر فارغ التحصیل مربی سلسلہ لکھتے ہیں:

مجھے بہت خوشی ہوئی اور دل پر بڑا اثر ہوا کہ خلیفہ وقت جامعہ احمدیہ انڈونیشیا سے براہ راست مخاطب تھے اور یہ جماعت انڈونیشیا کے تمام احمدیوں کے لیے گویا ایک اعلیٰ درجہ کا تحفہ ہے۔ حضور کی موجودگی میں میری یہ حالت تھی کہ محبت کی وجہ سے میری آنکھیں حضور کو براہ راست دیکھ نہیں پارہی تھیں اور اس وقت دل میں یہی خیال آیا تھا کہ آسمانی پانی میرے دل پر پڑا ہے۔ خدا تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ میں مسیح الزمان کے ادنیٰ مریدوں میں سے ایک مرید ہوں۔

جامعہ احمدیہ انڈونیشیا کے بعض طلباء کے تاثرات

محمد فخر الرجال صاحب طالب علم درجہ سادسہ لکھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے کلاس میں حضورِ انور کے سامنے برکات خلافت کے موضوع پر تقریر کرنے کی سعادت ملی۔ کلاس سے دو تین دن قبل میں شدید خوف اور گھبراہٹ میں مبتلا تھا اور میں اس وجہ سے سو نہیں پارہا تھا کہ میں کس طرح ایسے مقدس اور پُر نور وجود یعنی خلیفہ وقت کے سامنے تقریر پیش کروں گا۔ لہٰذا میں اکثر اوقات دعا اور استغفار میں مشغول رہا تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اطمینان بخشے نیز تقریر کرنے میں بھی آسانی حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریر کے دوران جب ایک دو الفاظ چھوٹ گئے تو فوراً اسی وقت مجھے یاد آگیا اور وہ عبارت دوبارہ پڑھی۔

علیم احمد حُسنیٰ صاحب طالب علم درجہ اولیٰ لکھتے ہیں:

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور ہماری سعادت ہے کہ جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی حضورِ انور کے ساتھ پہلی آن لائن ملاقات جامعہ احمدیہ کے طلبا ءکے ساتھ تھی۔اس بابرکت پروگرام میں خاکسار کو تیسرا سوال پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ الحمد للہ خاکسار کو پیارے حضور کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ جب پیارے حضور نے خاکسار کا نام لیا تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ خاکسار کے لیے یہ نہایت پُر مسرت لمحہ تھا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔

آدم عبد الواحد صاحب طالب علم درجہ ثانیہ لکھتے ہیں:

میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے جامعہ کے احاطہ میں حضور انور کے ساتھ باتیں کی ہیں مگر مجھے خواب میںحضور کی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی ۔ میں نے اپنی خواب کا اپنے استاد مکرم طٰہٰ صاحب سے ذکر بھی کیا تھا۔یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ملاقات کے دوران میرا یہ خواب پورا ہوا کہ خاکسار کو حضور انور کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع بھی ملا لہٰذا میں اس لمحہ کو اپنی زندگی میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ اللہ کرے کہ ہمیں حضورِ انور سے بالمشافہ ملاقات کرنی کی سعادت بھی مل جائے۔ آمین

مجیب الرحمان صاحب طالب علم درجہ اولیٰ لکھتے ہیں :

الحمد للہ مجھے براہ راست پیارے حضور کی خدمت میں سوال پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اگر چہ مجھے حضور انورکا جواب جو کہ اردو میں تھا اس وقت پوری طرح سمجھ میں نہیں آیا مگر یہ میرے لیے نہایت خوشی کا باعث بنا نیز اسی وقت مجھے پہلے سے بڑھ کر اردو زبان سیکھنے کا جوش اور ولولہ پیدا ہوا۔

عباد الرحمان صاحب طالب علم درجہ ثانیہ لکھتے ہیں:

حمد اور تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے کہ محض اسی کے فضل و احسان سے ہی خاکسار کو اس پہلی ملاقات میں حضور کے سامنے تلاوتِ قرآن کریم پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کے لیے یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ جب سے میں نے قرآن کی تلاوت شروع کی ہے میری یہی خواہش تھی کہ مجھے کبھی پیارے آقا کے سامنے تلاوت کرنے کی توفیق ملے۔

احمد حسن صاحب طالب علم درجہ سادسہ لکھتے ہیں:

پیارے حضور کے ساتھ ملاقات کرنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ اگرچہ یہ آن لائن ملاقات تھی مگر مجھے یونہی محسوس ہو رہا تھا کہ میں پیارے حضور کے سامنے ہی بیٹھا ہوا ہوں اور پیارے حضور مجھے براہ راست پیار و محبت سے دیکھ رہے ہیں۔ جب حضور کا مبارک چہرہ اسکرین پر نظر آیا تو دل کو اتنی خوشی ہوئی کہ الفاظ اس کو بیان نہیں کرسکتے۔

سلمان ذیشان عارف صاحب طالب علم درجہ اولیٰ لکھتے ہیں:

اس ملاقات کے دوران خوشی کی وجہ سے میرے آنسوبے ساختہ جاری ہو گئے۔ اور اس ملاقات میں شامل ہوکر میرے دل پر بہت گہرا اثر ہوا۔

محمد ذکیر بےصاحب طالب علم درجہ اولیٰ لکھتے ہیں:

مجھے ملاقات میں شامل ہوکر نہایت خوشی ہوئی ہے۔ اپنے پیارے آقا کا پر مسرت چہرہ دیکھ کر دل کو اطمینان حاصل ہوا۔ میرے لیے گویا یہ ایک قبولیت دعا کا منظر تھا۔

عارف عبد الحئ صاحب طالب علم درجہ ثانیہ لکھتے ہیں:

الحمدللہ مجھے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں سوال پیش کرنے کا موقع ملا ، یہ میرے لیے خدا کا بڑا فضل و احسان ہے کیونکہ میری خواہش تھی کہ میں حضور انور سے براہ راست بات کروں جو آج پوری ہوئی۔

غالب احمد صاحب طالب علم درجہ ثالثہ لکھتے ہیں:

الحمد للہ پہلی بار مجھےپیارے حضور کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بہت پُر کیف ماحول تھا مگر وقت بہت جلدی گزر گیا۔ دل یہی چاہتا تھا کہ حضور کے ساتھ مزید وقت گزاریں۔ اللہ کرے کہ آئندہ یہ موقع دو بارہ مل جائے۔آمین

الہام سید احمد صاحب طالب علم درجہ ثالثہ لکھتے ہیں:

یہ ملاقات میرے لیے تقویتِ ایمان کا موجب بنی ہے اور یہ خلیفۂ وقت سے پختہ تعلق پیدا کرنے کا نایاب موقع بھی تھا۔

رَڈین علمًا نافعًا طالب علم درجہ اولیٰ کہتے ہیں:

حضور انور کا سلام سن کر میرے دل کو نہایت خوشی ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد مجھ میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک نیا جو ش اور ہمت پیدا ہوئی ہے۔

جمال الدین صاحب طالب علم درجہ خامسہ لکھتے ہیں:

ملاقات سے پہلے میری یہ حالت تھی کہ گھبراہٹ طاری تھی مگر جب حضور ہمارے سامنے رونق افروز ہوئے اور ہمیں نصائح سے نوازا تو ایسا محسوس ہوا جیسے باپ اپنے بچوں کو نصائح کر رہا ہے۔

آگوس نورِرحمان صاحب طالب علم درجہ اولیٰ لکھتے ہیں:

حضور انورسے ملاقات کرکے دل خوش اور مطمئن ہوگیا۔ یوں لگ رہا تھا کہ گویا میری جان حضور انور کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔

محمد عارفین صاحب طالب علم درجہ رابعہ لکھتے ہیں:

حضور سے ملاقات کر کے مجھے نہایت خوشی ہوئی۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ حضور کے ساتھ میرا تعلق پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا ہے کیونکہ مجھے حضور انور سے براہ راست بات کرنے کا موقع ملا۔

یوسف احمد معظم شاہ صاحب طالب علم درجہ ثانیہ لکھتے ہیں:

اگر چہ مَیں نے سوال پیش نہیں کیا تھا مگر حضور انور نے مجھے میرے دل میں موجود سوالات کے جوابات عطا فرمادیے۔ حضورِ انور جامعہ کے طلباء کی طرف بہت توجہ فرماتے ہیں۔

آندی انور احمد صاحب طالب علم درجہ مبشر لکھتے ہیں:

خاکسار کو نہایت خوشی ہوئی کہ مجھے اس بابرکت موقع پرپیارے آقا کے حضور نظم پیش کرنے کی توفیق ملی۔ میری یہی خواہش ہے کہ پیارے آقا کو میری آواز سن کر خوشی محسوس ہو۔

بشیر الدین سَمبیرِنگ صاحب درجہ رابعہ لکھتے ہیں:

حضور کے ساتھ ملاقات کرکے خاکسار کو نہایت خوشی ہوئی۔ خاکسار کی یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیارے آقا کو صحت اور ہر کام میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین۔

محمد شیر علی خان صاحب درجہ خامسہ لکھتے ہیں:

ملاقات سے پہلے دل میں گھبراہٹ طاری ہوئی تھی لیکن جب پیارے حضور سکرین پر نظر آگئے تو میرےدل کی کیفیت یہ تھی کہ بس خوشی ہی خوشی تھی، ایسی کیفیت جو میں الفاظ میں بیا ن ہی نہیں کر سکتا۔یہ گویا ایک خواب ہی تھا کہ مجھےاپنے پیارے آقا کا دیدار نصیب ہوا۔

محمد دَہلان صاحب طالب علم درجہ خامسہ لکھتے ہیں:

جب مَیں نے پیارے آقا کو دیکھا تو میرا دل بہت خوش ہوا اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو گئے۔

آری احمد ظفر اللہ صاحب طالب علم درجہ مبشر لکھتے ہیں:

یہ ملاقات میرے لیے بطور یادگار ہے کیونکہ میری اس پہلی ملاقات کا دل پر نہایت گہرا اثر ہوا ہے۔ میرےدل میں یہ خواہش بہت دیر سے تھی کہ پیارے حضور کا دیدار نصیب ہو۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر فرمودہ خلیفہ ہمارے ملک میں بنفس نفیس تشریف لا کر اسے برکت بخشیں اور انڈونیشیا کے احمدی اپنے پیارے امام سے براہِ راست ملاقات کرنےاور فیض اٹھانے کی توفیق پائیں۔ آمین

(رپورٹ:فضلِ عمر فاروقی۔نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button