متفرق مضامین

خَیْرُ کُمْ خَیْرُکُمْ لِاَ ھلِہٖ وَ اَنَا خَیْرُ کُمْ لِاَ ھْلِیْ

انسانیت اپنے خالق ومالک کی تلاش میں سر گرداں تھی کہ ناگاہ ایک شیریں آواز نے صحرائے عرب کا سکوت توڑا ۔ اے عشقِ الٰہی کے متوالو !کہو!

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (آل عمران :32)

ترجمہ : تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو ۔اللہ تم سے محبت کرے گا ۔اور تمہارے گناہ بخش دے گا ۔اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے ۔

قرآن کریم کی سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے ۔

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَ سُولِ للّٰہِ اُسْوَ ۃٌ حَسَنَۃُ

مردوں اور عورتوں کے حقوق کا نزاع بہت پرانا ہے۔ بانیٔ اسلام حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نےنہ صرف اس پہلو سے کمال اعتدال اور انصاف پر مبنی تعلیم پیش فرمائی بلکہ عملی رنگ میں بھی اس کا بہترین نمونہ پیش کر کے دکھایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن شریف کی پاکیزہ تعلیم کے عین مطابق تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا بڑا مقصد ہی ان اعلیٰ اخلاق کا قیام تھا ۔ انسان فطرتاً چاہتا ہے کہ وہ لوگوں میں نیک اور اچھے اخلاق والا مشہور ہو ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے گھر سے باہر اچھے سلوک اور برتاؤ کی بجائے اہلِ خانہ کے ساتھ نیک سلوک کو نیکی کا معیار قرار دیا ہے ۔ہمارے آقا و متاع حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چھوٹے سے فقرے

خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُم لِاَ ھْلِہٖ وَ اَنَا خَیْرُ کُمْ لِاَ ھْلِی (مشکوٰۃ)

سے ایک تاکیدی حکم فرمایا ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سلوک میں بہتر ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والا ہوں ۔

اب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ جو سلوک تھا اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں ۔

ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم جو تقویٰ کے بلند اور روشن مینار پر فائز تھے بسا اوقات اس خیال سے کہ دل کے جذبوں اور طبعی میلان پر تو کوئی اختیار نہیں اس لئے اگر سب بیویوں کے برابر حقوق ادا کرنے کے بعد بھی میلان طبع کسی بیوی کی جانب ہو گیا تو کہیں میرا مولیٰ مجھ سے ناراض نہ ہوجائے۔ اتنے مخلصانہ عدل اور منصفانہ تقسیم کے بعد بھی آپ یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ تُو جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ انسانی حد تک جو برابر منصفانہ تقسیم ہو سکتی تھی وہ تو میں کرتا ہوں اور اپنے اختیار سے بری الذمہ ہوں ۔میرے مولیٰ اب دل پر تو میرا اختیار نہیں۔اگر قلبی میلان کسی کی خوبی اور جوہر قابل کی طرف ہے تو تُو مجھے معاف فرمانا ۔

(ابو داؤد کتاب النکاح باب فی القسم بین النساء)

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ کا اثر

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ ؓ ایک عظیم خاتون تھیں ۔ اور آپ کی فدائیت کا یہ عالم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال کی بے دریغ تقسیم پر کبھی کوئی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائیں ۔ آپؐ سے شکوہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں رطب اللسان ہی رہیں ۔ اور جب تک زندہ رہیں مکہ کے شدید دور ِ ابتلا میں آپؐ کی پناہ بن کر رہیں ۔

(السیرۃ النبویہ ابن ہشام جلد 1 صفحہ 204)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کی وفاؤں کے تذکرے کرتے تھکتے نہ تھے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی دوسری زندہ بیوی کے ساتھ اس قدر غیرت نہیں ہوئی جتنی حضرت خدیجہ ؓسے ہوئی۔ حالانکہ وہ میری شادی سےتین سال قبل وفات پا چکی تھیں ۔ ‘‘

(بخاری کتاب الادب باب حسن العہد من الایمان )

فرماتی تھیں کہ کبھی تو میں اُکتا کر کہہ دیتی یا رسول اللہؐ خدا نے آپ کو اس قدر اچھی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں اب اس بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ’’نہیں نہیں ۔خدیجہ ؓ اُس وقت میری ساتھی بنیں جب میں تنہا تھا ۔وہ اس وقت میری سپر بنیں جب میں بے یارو مدد گار تھا۔ وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پر فدا ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولاد بھی عطا کی ،انہوں نے اُس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا ۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ 118 مطبوعہ بیروت )

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ان کمال ذرہ نوازیوں کا نتیجہ تھا کہ آپؐ کی تمام بیویاں آپؐ پر جان چھڑکتی تھیں ۔ زمانہ قربِ وفات میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے فرمایا کہ ’’تم میں سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی مجھے سب سے پہلے دوسرے جہان میں آ ملے گی ۔‘‘ تو بیویوں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ عجب عالمِ شوق میں انہوں نے باہم ہاتھ ماپنے شروع کر دیے کہ وہ کون سی خوش نصیب بیوی ہے جو اِس دار فانی سے کوچ کر کے اُس دائمی گھر میں رہنے اپنے آقا کے قدموں میں سب سے پہلے پہنچتی ہے ۔ بیویوں کی آپؐ سے اس درجہ کی محبت اور عشق آپؐ کے حُسن و احسان پر گواہ ہے۔ ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کے ان جلووں نے بلا شبہ آپؐ کی عائلی زندگی کو جنت نظیر بنا دیا تھا تبھی تو دوسرے جہان کی جنت کے لیے بھی آپؐ کی بیویاں آپؐ سے ملنے کے لیے اتنی بے قرارنظر آتی ہیں ۔

(ماخوذ از اسوۂ انسانِ کامل صفحہ 504)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کرتے ’’اے اللہ میرے اہل کو دنیا میں قوت لا یموت ضرور عطا فرمانا ۔‘‘ یعنی کم از کم اتنی غذا ضرور دینا کہ فاقوں سےنہ مریں ۔

(مسند ابنِ حنبل جلد 2 صفحہ 232 ، بیروت)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواجِ مطہرات ؓ سے حسن سلوک کی چند مثالیں تحریر کرنے کے بعد اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفاءکے ارشادات یہاں بیان کرتا ہوں ۔

حضورؑفرماتے ہیں ’’جو شخص اپنی اہلیہ اور ان کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا ۔وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ۔‘‘

(کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 19 )

خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَ ھْلِہٖ

حدیث مبارکہ کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا:’’انسان دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی تب کرسکتا ہے ۔جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کر سکتا ہو ۔ اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو۔‘‘ پھر فرمایا کہ ’’بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہونا چاہیے ۔انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے سچے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد سوئم صفحہ 300)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں کہ ’’بیویوں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آؤ ۔بیوی بچوں کے جننے اور پالنے میں سخت تکلیف اٹھاتی ہے ۔مرد کو اس کا ہزارواں حصہ بھی اس بارے میں تکلیف نہیں ۔ان کے حقوق کی نگہداشت کرو۔

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ (البقرہ:229)

ان کے قصوروں سے چشم پوشی کرو ۔ اللہ تعالیٰ بہتر سے بہتر بدلہ دے گا ۔‘‘

(حقائق القرآن جلد 4 صفحہ 291)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں کہ ’’مرد یاد رکھیں کہ عورت ایک مظلوم ہستی ہے ۔اس کے ساتھ محبت اور شفقت کے سلوک سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَ ھلِہٖ

یعنی تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال سے بہتر سلوک کرتا ہے ۔ ‘‘(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول حصہ دوم صفحہ 160)

اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک نہایت اہم اور واضح ارشاد پیش ہے ۔آپ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مرد کے قویٰ کو جسمانی لحاظ سے مضبوط بنایا ہے ۔اس لیے اس کی ذمہ داریاں اور فرائض بھی عورت سے زیادہ ہیں ۔ اس سے ادائیگی حقوق کی زیادہ توقع کی جاتی ہے ۔ عبادت میں بھی اس کو عورت کی نسبت زیادہ مواقع مہیا کیے گئے ہیں ۔اور اس کو گھر کے سربراہ کی حیثیت بھی حاصل ہے ۔اور اسی وجہ سے اس پر بحیثیت خاوند بھی بعض اہم ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں ۔اور اسی وجہ سے بحیثیت باپ اس پر ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں ۔اور ان ذمہ داریوں کو نبھانے کا حکم دیا ۔کہ تم نیکیوں پر قائم ہو ۔ تقویٰ پر قائم ہو۔اور اپنے گھر والوں کو ، اپنی بیویوں کو اپنی اولاد کو تقویٰ پر قائم رکھنے کے لیے نمونہ بنو ۔اور اس کے لیے اپنے ربّ سے مدد مانگو ۔اس کے آگے روؤ ۔ گڑگڑاؤ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو ۔ کہ اے اللہ ان راستوں پر چلاتا رہ ۔جو تیری رضا کے راستے ہیں ۔کبھی ایسا وقت نہ آئے ۔کہ ہم بحیثیت گھر کے سربراہ کے،ایک خاوند کے اور ایک باپ کے اپنے حقوق ادا نہ کر سکیں ۔اور اس وجہ سے تیری ناراضگی کا موجب بنیں ۔ تو جب انسان سچے دل سے یہ دعا مانگے ۔اور اپنے عمل سے بھی اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ نہ ایسے گھروں کو برباد کرتا ہے ۔نہ ایسے خاوندوں کی بیویاں ان کے لیے دُکھ کا باعث بنتی ہیں ۔ اور نہ اس کی اولاد ان کی بدنامی کا موجب بنتی ہیں ۔اور اس طرح گھر جنت کا نظارہ پیش کررہا ہوتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جولائی 2004ء ، بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 16تا 22 جولائی 2004)

آخر پر عرض کرتا ہوں کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ایک مرد اپنے گھر والوں پر حاکم نہیں بلکہ نگران ہے ۔ وہ افسر یا استاد نہیں بلکہ بیوی کا خاوند اور بچوں کا باپ ہے ۔ وہ ایک شفیق، مہربان ،محسن اور متوازن شخصیت کا حامل ایک ذمہ دار محافظ ہونا چاہیے ۔اور اُسے ہر قدم پر برداشت اور حوصلے سے کام لینا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تاکیدی ارشاد پر کما حقہُ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گھر سکون و محبت کا گہوارہ بن جائیں ۔ آمین ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button