کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

قرآن شریف ایک عظیم الشان حربہ

یاد رکھنا چاہیے کہ ہم تو قرآن شریف پیش کرتے ہیں جس سے جادوبھاگتا ہے اس کے بالمقابل کوئی باطل اور سحر نہیں ٹھہر سکتا۔ ہمارے مخالفوں کے ہاتھ میں کیا ہے جس کو وہ لیے پھرتے ہیں۔ یقیناً یاد رکھو کہ قرآن شریف وہ عظیم الشان حربہ ہے کہ اُس کے سامنے کسی باطل کو قائم رہنے کی ہمت ہی نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی باطل پرست ہمارے سامنے اور ہماری جماعت کے سامنے نہیں ٹھہرتا اور گفتگو سے انکار کر دیتا ہے۔ یہ آسمانی ہتھیار ہے جو کبھی کُند نہیں ہوسکتا۔ ہمارے اندرونی مخالف اُس کو چھوڑ کر الگ ہوگئے ہیں ورنہ اگر قرآن شریف کی رُو سے یہ فیصلہ کرنا چاہتے تو ان کو اس قدر مصیبتیں پیش نہ آتیں۔ ہم خدا تعالیٰ کا پیارا اور یقینی کلام قرآن شریف پیش کرتے ہیں اور وہ اس کے جواب میں قرآن شریف سے استدلال نہیں کرتے۔ ہمارا مذہب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو مقدم کرو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ جو قرآن شریف کے خلاف ہو ہم نہیں مان سکتے خواہ وہ کسی کا کلام ہو۔ اللہ تعالیٰ کے کلام پر ہم کسی کی بات کوتر جیح کس طرح دیں۔ ہم احادیث کی عزت کرتے ہیں اور اپنے مخالفوں سے بھی بڑھ کر احادیث کو واجب العمل سمجھتے ہیں لیکن یہ سچ ہے کہ ہم دیکھیں گے کہ وہ حدیث قرآن شریف کے کسی بیان کے متعارض یا متخالف نہ ہو۔ اور محدثین کے اپنے وضع کردہ اُصولوں کی بناء پر اگر کوئی حدیث موضوع بھی ٹھہرتی ہو لیکن قرآن شریف کے مخالف نہ ہو بلکہ اس سے قرآن شریف کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ تب بھی ہم اس کو واجب العمل سمجھتے ہیں اور اس امر کا پاس کریں گے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے۔ لیکن اگر کوئی حدیث ایسی پیش کی جاوے جو قرآن شریف کے مخالف ہو تو ہم کوشش کریں گے کہ اُس کی تاویل کرکے اس مخالفت کو دور کریں لیکن اگر وہ مخالفت دور نہیں ہوسکتی تو پھر ہم کو وہ حدیث بہرحال چھوڑنی پڑے گی کیونکہ ہم اس پر قرآن کو چھوڑ نہیں سکتے۔ اس پر بھی ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ وہ تمام احادیث جو اس معیار پر صحیح ہیں وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ بخاری اور مسلم میرے د عویٰ کی تائید اور تصدیق کرتے ہیں جیسے قرآن شریف نے فرمایا کہ مسیح مر گئے اسی طرح بخاری اور مسلم نے تصدیق کی اور

اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ (اٰل عمران:56)

کے معنے مُـمِیْتُکَ کیے۔ جیسے قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتاہے کہ بنی اسماعیل کو اسی طرح شرف عطاہوا جیسے بنی اسرائیل کوبزرگی دی تھی ویسے ہی احادیث سے یہ پایا جاتا ہے۔

ان لوگوں پر جو انکار کرتے ہیں افسوس ہے۔ ان کو رسم اور عادت نے خراب کردیا ہے ورنہ یہ میرا معاملہ ایسا مشکل اور پیچیدہ نہ تھا جو سمجھ میں نہ آتا۔ قرآن شریف سے ثابت، احادیث سے ثابت، دلائل عقلیہ سے ثابت اور پھر تائیداتِ سماویہ اس کی مصدق، اور ضرورت زمانہ اس کی مؤیّد۔ باوجود اس کے بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ حق پر نہیں۔

غور کرکے دیکھو کہ جب یہ لوگ خلافِ قرآن وسُنّت کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں تو پادریوں کونکتہ چینی کا موقع ملتا ہے اور وہ جھٹ پٹ کہہ اُٹھتے ہیں کہ تمہارا پیغمبر مرگیا اور معاذ اللہ وہ زمینی ہے۔ حضرت عیسیٰؑ زندہ اور آسمانی ہے اور اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین کرکے کہتے ہیں کہ وہ مُردہ ہے۔ سوچ کر بتائو کہ وہ پیغمبر جو افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہے ایسا اعتقاد کرکے اس کی فضیلت اور خاتمیت کویہ لوگ بٹہ نہیں لگاتے؟ ضرور لگاتے ہیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ پادریوں سے جس قدر تو ہین ان لوگوں نے اسلام کی کرائی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومُردہ کہلایا ہے۔ اسی کی سزا میں یہ نکبت اور بد بختی ان کے شاملِ حال ہورہی ہے۔ ایک طرف تو منہ سے کہتے ہیں کہ وہ افضل الانبیاء ہیں اور دوسری طرف اقرار کر لیتے ہیں کہ 63 سال کے بعد مَرگئے اور مسیح اب تک زندہ ہے اور نہیں مرا حالانکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے

وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا (النساء:114)

پھر کیا یہ ارشادِ الٰہی غلط ہے؟ نہیں یہ بالکل درست اور صحیح ہے وہ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مُردہ ہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی کلمہ توہین کانہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی فضیلت ہے جوکسی نبی میں نہیں ہے۔ میں اس کو عزیزرکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کو جو شخص بیان نہیں کرتا وہ میرے نزدیک کافر ہے۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس نبی کی اُمّت کہلاتے ہیں اسی کو معاذ اللہ مُردہ کہتے ہیں اور اس نبی کو جس کی اُمّت کا خاتمہ

ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ(البقرۃ:62)

پر ہوا ہے اسے زندہ کہا جاتا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی قوم یہودی تھی اور اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ

ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ(البقرۃ:62)۔

اب قیامت تک ان کو عزت نہ ملے گی۔ اب اگر حضرت عیسیٰ پھر آگئے تو پھر گویا ان کی کھوئی عزت بحال ہوگئی۔ اور قرآن شریف کا یہ حکم باطل ہوگیا جس پہلو اور حیثیت سے دیکھو جو کچھ وہ مانتے ہیں اس پہلو سے قرآن شریف کا ابطال اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین لازم آتی ہے۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 27۔29ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button