حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نمازوں کی پابندی اور تہجد میں شغف

نمازوں کی پابندی اور تہجد میں شغف

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

پھرنمازوں کی پابندی اور تہجد کی ادائیگی کے بارہ میں بھی شرائط بیعت میں حکم آتاہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’ مَیں دیکھتاہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے۔ اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہوگیاہے ۔ مَیں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں ۔ناپاک دل کے لوگ ان کوکافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں‘‘۔

(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 315۔ حاشیہ)

یہاں پھر میں گھانا کی ایک مثال دیتاہوں جہاں لوگوں نے ایسی تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کی ہیں جو خود میرے تجربے میں آئیں کہ لمبا سفر کرکے آئے ہیں اور رات کو لیٹ پہنچے، بارہ بجے کے قریب سونے کا موقعہ ملا ۔ رات کو جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ڈیڑھ دو بجے کا وقت ہوگا ۔مسجد میں بیٹھے ہیں اور سجدہ ریزہیں۔

ایک روایت آتی ہے حضرت منشی محمد اسمٰعیلؓ فرماتے تھے کہ مجھے صرف ایک نماز یاد ہے جو میں باجماعت نہیں پڑھ سکا (سوائے مجبوری کے) وہ بھی مسجد سے ضروری حاجت کے لئے واپس آنا پڑا تھا۔

(اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ 196۔ مطبوعہ 1951ء)

حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرکے اپنے شہرسیالکوٹ واپس گئے تو یکدم لوگوں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنی سابقہ لغوعادات یعنی تاش کھیلنا اور بازار میں بیٹھ کر گپیں ہانکنا سب چھوڑ دیاہے اور نماز تہجد باقاعدہ شروع کردی ہے ۔ان کے حالات میں اس قدر غیر معمولی تغیر دیکھ کر سب بہت حیران ہوئے ۔

(تلخیص از اصحاب احمد جلداول صفحہ 200۔ مطبوعہ 1951ء)

قادیان میں نمازوں اور تہجد کے ا لتزام کے بارہ میں حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں قادیان میں سورج گرہن کے دن نماز میں موجود تھا۔مولوی محمد احسن صاحب امروہوی نے نماز پڑھائی اور نماز میں شریک ہونے والے بے حد رو رہے تھے ۔اس رمضان میں یہ حالت تھی کہ صبح دو بجے سے چوک احمدیہ میں چہل پہل ہو جاتی ۔ اکثر گھروں میں اور بعض مسجد مبارک میں آ موجود ہوتے جہاں تہجد کی نماز ہوتی، سحری کھائی جاتی اور اوّل وقت صبح کی نماز ہوتی اس کے بعد کچھ عرصہ تلاوت قرآن شریف ہوتی اور کوئی آٹھ بجے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیر کے لئے تشریف لے جاتے ۔سب خدام ساتھ ہوتے ۔ یہ سلسلہ کوئی گیارہ بارہ بجے ختم ہوتا۔ اس کے بعد ظہر کی اذان ہوتی اور ایک بجے سے پہلے نماز ظہر ختم ہوجاتی اور پھر نمازعصر بھی اول وقت میں پڑھی جاتی ۔ بس عصر اور مغرب کے درمیان فرصت کاوقت ملتا تھا۔ مغرب کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر آٹھ ساڑھے آٹھ بجے نماز عشاء ختم ہوجاتی اور ایساہُو کا عالم ہوتاکہ گویا کوئی آباد نہیں مگر دوبجے سب بیدار ہوتے اور چہل پہل ہوتی‘‘۔(اصحاب احمد جلد 2صفحہ 77۔ مطبوعہ 1952ء)

پھر نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک روایت لکھی ہے کہ ’’نماز کے عاشق تھے ۔ خصوصاً نماز باجماعت کے قیام کے لئے آ پ کا جذبہ اور جدوجہد امتیازی شان کے حامل تھے ۔ بڑی باقاعدگی سے پانچ وقت مسجد میں جانے والے ۔ جب دل کی بیماری سے صاحب فراش ہوگئے تو اذان کی آواز کو ہی اس محبت سے سنتے تھے جیسے محبت کرنے والے اپنی محبوب آواز کو ۔ جب ذرا چلنے پھر نے کی سکت پیدا ہوئی تو بسا اوقات گھر کے لڑکوں میں سے ہی کسی کو پکڑ کر آگے کھڑا کر دیتے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے جذبہ کی تسکین کرلیتے ۔ یا رتن باغ میں نماز والے کمرہ کے قریب ہی کرسی سرکا کر باجماعت نماز میں شامل ہوجایا کرتے۔ جب ماڈل ٹائون والی کوٹھی لی تووہیں پنجوقتہ باجماعت نماز کا اہتمام کرکے گویا گھر کو ایک قسم کی مسجد بنا لیا ۔پانچ وقت اذان دلواتے ۔موسم کی مناسبت سے کبھی باہرگھاس کے میدان میں ، کبھی کمرے کے اندر چٹائیاں بچھوانے کا ا ہتمام کرتے اور بسا اوقات پہلے نماز ی ہوتے جو مسجد میں پہنچ کردوسرے نمازیوں کا انتظار کیا کرتے۔ مختلف الانواع لوگوں کیلئے اپنی رہائش گاہ کو پانچ وقت کے آنے جانے کی جگہ بنا دینا کوئی معمولی نیکی نہیں۔ خصوصاً ایسی حالت میں اس نیکی کی قیمت اَور بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ صاحبِ خانہ کا رہن سہن کا معیار خاصا بلند ہو (اور) معاشرتی تعلقات کا دائرہ بہت وسیع ہو‘‘۔

(اصحاب احمد جلد 12صفحہ152-153۔ مطبوعہ 1965ء)

پنجگانہ نماز کے التزام کے بارہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام شیخ حامد علی صاحب ؓکے بارہ میں فرماتے ہیں: ’’حبی فی اللہ شیخ حامد علی۔یہ جوان صالح اور ایک صالح خاندان کا ہے اور قریباًسات آٹھ سال سے میری خدمت میں ہے اورمَیں یقیناً جانتاہوں کہ مجھ سے اخلاص اور محبت رکھتاہے۔ اگرچہ دقائق تقویٰ تک پہنچنابڑے عرفاء اور صلحاء کاکام ہے ۔ مگر جہاںتک سمجھ ہے اتباع سنت اور رعایت تقویٰ میں مصروف ہے۔ مَیں نے اس کو دیکھاہے کہ ایسی بیماری میں جونہایت شدید اور مرض الموت معلوم ہوتی تھی اور ضعف اور لاغری سے میّت کی طرح ہو گیاتھا ۔التزام ادائے نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھاکہ اس بیہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتا تھا۔ مَیں جانتاہوں کہ انسان کی خدا ترسی کا ا ندازہ کرنے کے لئے اس کے التزام نماز کو دیکھناکافی ہے کہ کس قدر ہے اورمجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نمازادا کرتاہے اورخوف اور بیماری اورفتنہ کی حالتیں اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بے شک خداتعالیٰ پرایک سچا ایمان رکھتاہے۔ مگر یہ ایما ن غریبوں کو دیا گیا۔ دولتمند اس نعمت کو پانے والے بہت ہی تھوڑے ہیں‘‘۔

(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3۔ صفحہ 540)

پھر یہ جو شرط ہے کہ’ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول ادا کرتا رہے گا‘۔ اس کے بارہ میں ایک بزرگ مولوی فضل الٰہی صاحب بیان کرتے ہیںکہ حضرت مرزاایوب بیگ صاحب رضی اللہ عنہ کاکیا نمونہ تھا۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب ؓسے بڑی محبت تھی۔ ایک دن مَیں نے مغرب کی نماز مرزا ایوب بیگ صاحب کے ڈیرے پر پڑھی ۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھی وہیں تھے۔ مرزا ایوب بیگ صاحب کی نماز اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ کا رنگ رکھتی تھی۔ وہ جب نماز پڑھتے تھے تو دنیا کے خیالات سے لاپرواہ ہوتے اور ان کی آنکھوں سے آنسو گرا کرتے تھے۔ اس دن انہوں نے غیر معمولی طورپر نماز لمبی پڑھی۔ نمازکے بعد سب لوگ بیٹھ گئے تو مرزا صاحب سے پوچھا گیا کہ آج نماز تو آپ نے بہت لمبی پڑھی ہے اس کی کیا وجہ ہے پہلے تو آ پ نے نہ بتلایا مگر اصرار ہونے پرکہاکہ جب مَیں درُود پڑھنے لگا تو مجھے کشف ہوا کہ آنحضرتﷺایک پلیٹ فارم پرٹہل رہے ہیں اور دعا مانگ رہے ہیں۔مرزا صاحب نے عربی الفاظ بھی بتلائے اوردعا کا ترجمہ بھی بتلایا۔ اس کا مطلب یہ تھاکہ اے خدا ! میری امّت کو ضلالت سے بچا اور اس کی کشتی کو پار لگا۔ مَیں اس دعا کے ساتھ آمین کہتارہا۔پھر مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے خدا! محمد رسول اللہﷺ کی دعائیں قبول فرما اور آپؐ کی امّت کو گردابِ ضلالت سے بچا ۔ پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا ختم کی تو مَیں نے بھی نماز ختم کردی‘‘۔

(اصحاب احمدجلد 1 صفحہ 194-195۔ مطبوعہ 1997ء)

تو یہ انقلاب ہے کہ جاگتے میں بھی دیدار ہو رہاہے ۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button