حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضور انور کے ساتھ جامعہ احمدیہ یوکے سے فارغ التحصیل طلباء کی خصوصی نشست

(آصف محمود باسط)

کورونا وائرس کیا آیا، دنیا بھر کا نظام اِدھر سے اُدھر ہو کر رہ گیا۔ ساری دنیا بے یقینی اور خوف و ہراس کی لپیٹ میں آکر رہ گئی۔ جماعت احمدیہ پر اللہ کا فضل ایسا ہوا کہ کوئی بھی کام رکنے نہیں پایا۔ کسی نہ کسی رنگ میں جاری ہی رہا۔ بلکہ بعض کاموں میں تو بہتری کی صورت نکل آئی۔ یہ ایک ایسا مضمون ہے جو بجائے خود تفصیل کا متقاضی ہے۔

آج صرف ایک پہلو پر بات کرتے ہیں۔

ہر سال جامعہ احمدیہ یوکے سے فارغ التحصیل کلاس پاکستان، سپین اور افریقہ کے ممالک میں جاتی ہے۔ یوں انہیں چند ماہ میں تبلیغی میدانِ عمل اورجماعتی انتظامی امور سے تعارف ہوجاتا ہے۔

لیکن اس سال فارغ التحصیل ہونے والی کلاس کے تو ابھی امتحان ہوئے ہی تھے کہ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو آلیا۔ ملکی قانون اور دیگر احتیاطوں کے پیشِ نظر جامعہ کی تدریسی سرگرمیوں میں تو توقف آیا، لیکن بڑی کلاسوں کے طلباء متفرق ڈیوٹیوں کی ادائیگی کے لیے جامعہ ہی میں رکے۔ ان ڈیوٹیوں میں سے ایک حفاظتِ مرکز یعنی اسلام آباد کی حفاظتی ڈیوٹی بھی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ اہم ذمہ داری فارغ التحصیل کلاس کے حصہ میں آگئی۔

اس خطرناک اور مہلک وائرس کی حفاظتی تدابیر میں سے ایک یہ بھی تھی کہ یہ سب اسلام آباد میں ہی سکونت اختیار کریں تا کہ بیرونی دنیا سے رابطہ کم سے کم ہو۔ یوں ان نوجوانوں پر مشتمل کلاس کا عارضی گھر ایوانِ مسرور، اسلام آباد ٹھہرا۔

یہ اس کلاس کی غیر معمولی خوش نصیبی کا نقطہ ٔآغاز تھا۔ ابھی تو ان پر اللہ نے بہت فضل فرمانے تھے۔

ڈیوٹیوں کا آغاز ہو گیا۔ جامعہ کی دیگر کلاسیں بھی ساتھ ڈیوٹیاں دیتی رہیں مگر پھر موسمِ گرما کی تعطیلات کا وقت آگیا اور دیگر کلاسیں تعطیلات پر چلی گئیں۔ اب یہ فارغ التحصیل طلباء(جنہیں آگے ’’شاہدین‘‘ کہا جائے گا) اسلام آباد کی مختلف ڈیوٹیوں پر مامور ہو گئے۔ بڑے پھاٹک کی ڈیوٹی، چاروں اطراف میں پھیلی دیگر چوکیوں پر پہرہ، کھانے کی تقسیم، ایوانِ مسرور میں شب بسری کا انتظام سب ان کے سپردہوا۔

یہ کورونا وائرس کی وبا کے ابتدائی مہینوں کی بات ہے۔ پہلے پہل تو حضورصیغہ جات کے نمائندوں کو بذریعہ ٹیلی فون دفتری ملاقات کا شرف عطا فرماتے رہے۔ پھر ایک روز دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے فون آیا کہ حضور نے خاکسار کی درخواست پر تحریر فرمایا ہے کہ ’’کورونا وائریس کا ٹیسٹ کرواکر دفتر میں ‘‘۔

اس خوشی میں کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے حضور نے شفقت فرمائی ہے، میں نے عبدالقدوس عارف صاحب (صدرمجلس خدام الاحمدیہ یوکے) سے فی الفور رابطہ کیا اور ٹیسٹ کا انتظام کروانے کی درخواست کی۔ انہوں نےانتظام کرواکر اطلاع دی کہ ان شاہدین میں سے عزیزم اظہر احمد صاحب اسلام آباد کے بڑے پھاٹک پر ٹیسٹ کریں گے۔

جب حاضر ہوا تو اظہر صاحب نے اپنی خوش قسمتی کی داستان سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ حضور نے تمام شاہدین کو اسلام آباد کے مختلف دفاتر میں باری باری وقفِ عارضی کی طرز پر کام کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ایک شعبہ میں دو طلباء جاتے ہیں اور پھر دو ہفتے بعد وہ کسی اور شعبہ میں چلے جاتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے دو طلباء وہاں آجاتے ہیں۔ یوں تمام طلباء تمام دفاتر میں خدمت کرنے اورتجربہ حاصل کرنے کی توفیق پا رہے ہیں۔

میری پہلی یا دوسری ملاقات میں حضور نے فرمایا کہ ہر دو ہفتے بعد ٹیسٹ کروالیا کرو۔ یوں عزیزم اظہر صاحب سے مزیدملنے کا موقع بہم ہوگیا۔ میں ان سے ہر بار پوچھتا کہ ڈیوٹی کیسی چل رہی ہے اور وہ ہربار مجھے بہت سی قابلِ رشک باتیں بتاتے۔ میں حضور کی شفقتوں اور محبتوں کی داستان سنتا اوران خوش نصیب طلباء پررشک کرتا۔

ایک روز انہوں نے بتایا کہ حضور ہفتے میں دو مرتبہ باقاعدہ کلاس کی شکل میں انہیں شرفِ ملاقات عطا فرماتے ہیں۔ اور اس کلاس میں حضور انہیں ’’حقیقۃالوحی‘‘ سبقاً پڑھا رہے ہیں۔

خاکسار کومتعدد مرتبہ مختلف مواقع پر حضور سے ’’حقیقۃ الوحی‘‘ پڑھنے کی تلقین سننے کو ملی ہے۔ کبھی براہِ راست، کبھی اپنے بیٹے سے، کبھی جامعہ کی کلاس میں، کبھی وقفِ نو کی کلاسوں میں۔ مگریوں حضور خود کسی کو یہ عظیم الشان تصنیف پڑھائیں، یہ بہت ہی قابلِ رشک بات ہے۔

ایک ملاقات کے دوران اِس کلاس کا ذکر تھا۔ خاکسار نے عرض کی کہ شاہدین تو بہت ہی خوش ہیں۔ اور بہت فخر محسوس کررہے ہیں کہ حضور خود ذاتی توجہ سے انہیں پڑھا بھی رہے ہیں اور ان کی دیگر ضروریات میں بھی ذاتی دلچسپی لیتے ہیں۔ کیا کھاتے ہیں، کب کھاتے ہیں، صحت اچھی ہے، رات کو سونے کی جگہ کیسی ہے وغیرہ۔ بالخصوص حضور کی کلاس کا تو بہت ہی محبت سے ذکر کرتے ہیں۔ اتنی محبت سے کہ رشک آتاہے۔

میرے رشک میں میری خواہش بھی چھپی تھی مگر اس خواہش کے اظہار میں ایک روک یہ تھی کہ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ جب پہلی کلاس ہوئی تو حضور نے کسی اور کو وہاں رکنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ صرف یہ شاہدین تھے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ۔

مگر حضور نے میرے رشک کی لاج رکھتے ہوئے مجھے آئندہ کلاس میں حاضر ہو جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ کیا ہی خوبصورت اور خوش بخت لمحہ تھا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تصنیفِ لطیف کے معانی حضرت خلیفۃ المسیح سے سمجھنے کا موقع۔

میری یہ ملاقات جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ہفتہ کی صبح تھی۔ کلاس پیر اور منگل کی شام کوہونا تھی۔ ہفتہ کا اور اتوار کا پورا دن اور پیرکی ساری صبح انتظار کی طویل مدتیں محسوس ہوئیں۔ بالآخر پیر کی شام آئی، اور میں اس بابرکت مجلس میں شمولیت کے لیے مسجد مبارک، اسلام آباد پہنچا۔

کلاس کے تمام طلباء احتیاطی فاصلے پر محراب کی طرف رخ کیے بیٹھے تھے۔ حضور کی نشست محراب کے سامنے رکھی تھی۔ چند ہی لمحوں بعد حضورتشریف لائے اور کلاس کا آغاز ہوا۔ اس روز صفحہ 430سے آگے صفحہ 500 تک پڑھا جانا تھا۔ حضور نے ایک طالب علم کا نام لے کراسے مخاطب فرمایا اور صفحہ 430پر بیان فرمودہ مضامین کا خلاصہ بتانے کا ارشاد فرمایا۔ حضور سنتے اور جہاں کوئی ضروری بات بیان ہوجانے سے رہ جاتی، اسے بیان فرما دیتے۔ یا طالبِ علم کو کہتے کہ اصل متن سے پڑھے تا کہ وہ بات بیان ہوجائے۔

جو حصہ اس روز پڑھا جارہا تھا، وہ تتمہ حقیقۃ الوحی میں سے ہے۔ یہاں حضورعلیہ السلام نے اپنی صداقت کے لیے ظاہر ہونے والےنشانات بیان فرمائے ہیں، بالخصوص پیشگوئیوں کے مطابق ظاہر ہونے والے واقعات۔

سعداللہ لدھیانوی کے ذکر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اطلاع دی تھی کہ

اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرُ۔

یعنی وہ نامراد مرے گا۔ مگر جب وہ اس پیشگوئی کے مطابق وفات پاگیا، تواس پر اخبار اہلحدیث کے منتظم و مدیر مولوی ثنا اللہ امرتسری نے لکھا کہ اسے ابتر اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا ایک بیٹا تب بھی تھا اور اب بھی ہے۔

یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لفظ ابترپر تفصیل سے لغوی بحث کے بعد ثابت کیا کہ اس کے لیے بیٹے کاہونا یا نہ ہونا ضروری نہیں اور یوں بھی اس سعداللہ لدھیانوی نے اس پیشگوئی کے ڈر سے اپنے بیٹے کی شادی کرنے کی کوشش کی تا کہ اس کی اولاد ہوجائے اور وہ اس پیشگوئی کو جھوٹا کہہ سکے۔ مگرشادی عین وقت پر منسوخ ہوگئی اور اس کا لڑکا اس کی وفات کے بعد بھی کئی سال تک بن بیاہا ہی رہا۔

طالبِ علم نے یہاں تک پڑھ لیا تو حضور نے فرمایا:

’’سورۃ الکوثر تب نازل ہوئی تھی جب ابوجہل اور اس کے ساتھی آنحضورﷺ کو نرینہ اولاد نہ ہونے کے باعث طعن کیا کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرا دشمن ہی ابتر رہے گا۔ اب اس دشمن کی تو نرینہ اولاد تھی۔ عکرمہ ابوجہل ہی کا بیٹا تھا۔ مگر بعد میں ایمان لے آیا۔ یوں اس کا بیٹا ایمان لا کر اسلام میں شامل ہوگیا مگر اس کا باپ ابتر ہو کر رہ گیا۔

’’حدیث میں آتا ہے کہ عکرمہ کے ایمان لے آنے کے بعد اسے بعض لوگوں نے ابوجہل کا بیٹا ہونے کا طعنہ دیا۔ آنحضورﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایااور ایسا کہنے والوں کو روک دیا۔ تو دیکھو۔ ابوجہل کا بیٹا تھا، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس کے ابتر ہونے کی خبر دے دی۔ بعد میں یہ بیٹا ایمان لاکر جب مسلمان ہوگیا، تو ابو جہل کی نسل ہی گویامنقطع ہو گئی اور وہ ابتر ہوگیا۔‘‘

اس کے بعد حضور نے ایک اَور طالبِ علم کا نام لے کر اسے مخاطب کیا اور اسے آگے پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔ ابھی وہ پڑھنے لگا ہی تھا کہ فرمایا:

’’آج صبح تمہارا درس تھا؟‘‘

اس نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمایا:

’’دو تین منٹ میں تم نے درس ختم کردیا۔ درس تسلی سے دیا کرو۔ کم از کم سات منٹ تو درس دو۔‘‘

ایک مقام پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اس نشان کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ سعداللہ لدھیانوی نے حضور علیہ السلام کے حوالہ سے یہ پیشگوئی کی تھی کہ حضورؑ کا سلسلہ جلد ختم ہوجائے گا اور کوئی بھی اس میں شامل نہیں ہوگا۔ اس پر حضور علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ میرے سلسلہ میں تو لوگ جوق در جوق داخل ہوئے ہیں۔

اس پر حضورنے فرمایا:

’’اب دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا‘‘

اور فرمایا کہ ’’شعر پورا کرو۔ اگلامصرع کیا ہے؟‘‘

اس پر ایک طالبِ علم عزیزم شہزاد احمد نے مصرع پڑھاکہ

’’اک مرجعِ خواص یہی قادیاں ہوا‘‘۔

پھر یہی مضمون جاری رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ دور دور سے لوگ میرے پاس آئیں گے۔ اتنی کثرت سے کہ راستوں میں گڑھے پڑ جائیں گے۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ’’تجھے چاہیے کہ ان کی کثرت کی وجہ سے تو تھک نہ جائے اور ان سے بد اخلاقی نہ کرے…‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں اپنا یہ الہام بھی درج کیا کہ

’’وَلَاتُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِنَ النَّاسِ ‘‘۔

جب یہ حصہ پڑھا گیا تو حضور نے فرمایا:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابیؓ نے اس بات کو بڑی سادگی سے پنجابی میں یوں بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود نوں فرمایا اے کہ توں تھکیں ناں، تے توں اَکیں ناں ‘‘۔

اس کے ساتھ ہی حضور نے یہ بھی فرمایا کہ ’’مجھے ان کا یہ سادہ اظہار بہت اچھا لگتا ہے‘‘۔

پڑھتے پڑھتے ایک مقام آیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہےکہ کثرت سے نشان ظاہر ہو چکے ہیں، لیکن انہیں دیکھ کر بھی جو ایمان نہ لائے وہ خود بدقسمت ہے۔

اس پر حضور نے فرمایا:

’’صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں‘‘

اور فرمایا کہ شعر مکمل کرو۔ اس پر ایک طالبِ علم نے مصرع پڑھا، اور پھر حضور نے خود بھی فرمایا:

’’اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوفِ کردگار‘‘۔

یوں جہاں جہاں ایک گہرے اور طویل مضمون کو حضرت مسیح موعودؑ کے ایک شعر میں بیان کیا جاسکتا، حضور وہ شعر نہ صرف پڑھ دیتے بلکہ طلباء کو یہ اشارہ بھی دیتے جاتے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے اشعار حافظے میں محفوظ ہونےچاہئیں۔

ایک مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زائرین کی کثرت اور ان کی مہمان نوازی پر اٹھنے والے خرچ نیز سلسلہ کے دیگر کاموں مثلاً تصنیف و اشاعت اور ڈاک وغیرہ پر اٹھنے والے اخراجات کا ذکر فرمایا ہے۔

جب یہ حصہ پڑھا گیا تو حضور نے طلباء کو بتایا کہ یہ خرچ موجودہ دورمیں روپوں میں اتنا بنتاہے اور اگر بہتر سمجھنا ہے تو اس رقم کو یوں ضرب اور تقسیم کرو تو پاؤنڈز میں یہ رقم 45,000 بنتی ہے۔ سب کی خاموشی اور حیرت کو دیکھ کر فرمایا:

’’ایک مربی کو اس طرح جلدی سے حساب کرنا بھی آنا چاہیے‘‘۔

جوں جوں طلبا پڑھتے جاتے، حضور ساتھ فرماتے جاتے کہ مثلاًاب صفحہ 436سے آگے فلاں پڑھے، اور اب 452 سے آگے فلاں پڑھے۔ میں نے نظریں اٹھا کردیکھا تو حضور کے پاس کتاب نہ تھی۔ یا کم از کم مجھے نظر نہیں آئی۔ البتہ اس بات میں وہ محبت ضرور نظر آئی جو حضور کوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے ہے۔ بالخصوص حقیقۃالوحی سےجس محبت کا اندازہ تھا، آج اس کا بین ثبوت دیکھنے کو مل رہا تھا۔ ہر مضمون حضور کو مستحضر تھا۔

پھر فرمایا کہ ’’صفحہ 465 پر پہنچ گئے ہوگے۔ اب یہاں رک جاؤ۔ باقی کل انشا اللہ۔ ‘‘

اس کے بعد طلباء نے سوالات پوچھنے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے جوابات پانے کا شرف حاصل کیا۔

سوال: حدیث میں یہ جو آیا ہے کہ مومن کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی کہ اس کے گناہ جھڑجاتے ہیں۔ تو کیا یہ صرف جسمانی تکلیف ہے یا ہر طرح کی تکلیف مراد ہوسکتی ہے؟

فرمایا:

’’تکلیف تو جیسی بھی ہو، تکلیف ہی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے لیے تو پہلے حقیقی مومن بننا ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ منہ سے کہہ دیا کہ میں ایمان لے آیا اور اسی کو کافی سمجھ لیا۔ یہاں مسلمان سے مراد حقیقی مسلمان اور مومن ہے۔ جو آدمی نماز بھی نہیں پڑھتا، لوگوں کے ساتھ بدزبانی کرتا ہے، دل آزاری کرتا ہے، دوسروں کو تکلیف دیتاہے، وہ کہے کہ مجھے پہنچنے والی ہر تکلیف میرے گناہ جھاڑ رہی ہے، تو ایسا نہیں ہوتا۔

پھر یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ تکلیف کے بدلے میں اللہ تعالیٰ حقیقی مومن سے کیا سلوک کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر حقیقی مومن انبیاءہوتے ہیں۔ ان کو پہنچنے والی تکالیف ان کے لیے قربِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ان کی کامیابی۔ ان کے پیغام کی اشاعت اور قبولیت کا ذریعہ۔

جو انبیاءکے سچے پیرو ہوتے ہیں، ان کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ اپنے پیار کا سلوک فرماتا ہے۔ اس پیار کا اظہار اس دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے۔ اپنے پیار کے اظہار کے لیے اسباب پیدا فرمادیتا ہے۔ تو جو مومن اللہ کی راہ میں تکلیف برداشت کرتاہے، جسمانی یا جیسی بھی، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اپنے پیار کا اظہار کرتا ہے۔‘‘

ایک اَور طالبِ علم نے سوال کیا کہ:’’حضور نے فرمایا ہے کہ Black Lives Matter جیسی تحریکات میں جو احتجاج کیے جاتے ہیں، ان میں سڑکوں پر نکل کر توڑ پھوڑ کرنے کی بجائے اربابِ اختیار سے رابطہ کیا جائے۔ اگر اربابِ اختیار ہی منصف مزاج نہ ہوں توکیا کیا جائے؟‘‘

فرمایا:

’’میں تو black lives matterکی بات ہی نہیں کرتا۔ میں تو کہتاہوں innocent lives matter۔ اور میں تو supremacy of justiceکا قائل ہوں۔ انہی دو باتوں میں ایسے تمام مسائل کا حل ہے۔ جب یہ دونوں سامنے رکھو گے تو ہر طرح کے مظاہرے اسی میں آجائیں گے اور جب انصاف کی بالادستی ہوگی، تو مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ جہاں تک protestکرنے کی بات ہے، تو وہ بھی امن کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ہوں توکوئی حرج نہیں۔

انصاف قائم کرنے والے ادارے انصاف پسند ہوں گے توتبھی انصاف قائم رہے گا اور معاشرے کا امن بھی۔ پھر ایسے مظاہروں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اور انصاف قائم کرنے والے اداروں کو لاتا کون ہے؟ عوام ہی لاتے ہیں۔ عوام کو اللہ تعالیٰ کی واضح ہدایت ہے کہ

تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا(النساء:59)

یعنی ووٹ وہ اس کو دیں جس کو اس کا حقیقی اہل سمجھتے ہوں۔ آج کل تو عوام بھی ووٹ سیاسی پارٹی کو دیتے ہیں۔ جو شخص اس پارٹی سے کھڑاہےاسے نہیں دیکھتے کہ صحیح معنوں میں اس امانت کا اہل بھی ہے یا نہیں۔ تو نہ ووٹ دینے والا انصاف کررہا ہے، نہ ووٹ لے کر اختیار میں آنے والا انصاف کا حق ادا کررہا ہے۔

باقی رہی بات black lives matterجیسی تحریکات کی، تو زندگی ہر انسان کی قیمتی ہے۔ اس کی حفاظت بھی کرنی چاہیے اور جہاں ایسا نہ کیا جارہا ہو، وہاں آواز بھی اٹھانی چاہیے۔‘‘

سوال: ’’جو دہریہ ہیں یا لامذہب ہیں، ان کو تبلیغ کریں تو وہ بات ہی سننے پر رضامند نہیں ہوتے۔ ایسے میں کیا کیا جائے؟‘‘

فرمایا:

’’جو نہیں بات سنتا، اس کو زبردستی تو بات نہیں سنانی۔ جہاں تک ایمان کی بات ہے، وہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان دینا میرا کام ہے۔ تو ایسے لوگوں سے کہو کہ اگر دلیل سے بات کرنی ہے تو کرلیتے ہیں۔

یہ جوThe God Delusionکامصنف Richard Dawkinsہے، اس کو میں نے پڑھنے کے لیے بہت سا مواد بھجوایا۔ Five Volume Commentary بھیجی، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی کتاب Revelation, Rationality, Knowledge and Truth بھیجی کہ یہ پڑھو پھر بات کرتے ہیں۔ پہلے تو جواب ہی نہیں دیا۔ دوبارہ لکھا تو اتنا جواب دیا کہ میں نہیں پڑھنا چاہتا۔

تو ان لامذہب لوگوں میں سے بے شمار تو بات ہی نہیں کرنا چاہتے۔ ان کو اپنے کام پر لگا رہنے دو تم اپنا کام کرو۔

شیطان نے آغاز ہی میں اللہ تعالیٰ کو کہہ دیا تھا کہ میں تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے روکا تو نہیں۔ بلکہ فرمایا کہ ٹھیک ہے، تم اپنا کام کرتے رہو۔ جو تمہارے پیچھے چلیں گے وہ جہنم کو بھرتے جائیں گے۔ تو شیطان تو ہمیشہ سے ہی ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی استغفار اور

اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ

کی دعا بھی ہمیشہ کے لیے ہے۔ تو یہ سلسلہ تو چلتا ہی رہے گا۔

ایسے لوگوں پر اپنا potentialضائع نہ کرو۔ عمومی تبلیغ کرتے رہو۔ ’’چَھٹّا‘‘پھینکو۔ جس طرح گندم کے بیج لاکھوں کی تعداد میں پھینکے جاتے ہیں۔ سب کے سب تو germinateنہیں کرجاتے۔ لاکھوں بیجوں میں سے ایک تھوڑی سی تعداد ہے جو germinateکرتی ہے۔ تو یہ یاد رکھو کہ

ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج

(اس کے بعد طلبا سے کہا کہ اگلا مصرع بتائیں اور شعر کو مکمل کریں )

جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

پھر یہ بھی کرسکتے ہو کہ ایسے لوگوں کو دعا کا چیلنج دو۔ کہ کسی معاملے میں دعا کر کے دیکھ لیتے ہیں اور اس پر فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے تمہیں خود بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا پڑے گا۔

مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ جیسے بزرگوں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کیا اور پھر اس تعلق کو لوگوں میں ایمان پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کسی گاؤں میں لوگوں نے انہیں کہا کہ آپ کو دعویٰ ہے کہ آپ مسیح موعودؑ پرایمان لائے ہیں۔ مسیح تومُردوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔ آپ کے مسیح موعودؑ تو اب نہیں رہے، لیکن یہاں ایک شخص ہے جو اس قدر بیمار ہے کہ موت کے قریب ہے۔ آپ اپنے مسیح موعودؑ پر ایمان کے ذریعہ اسے موت سے بچالیں تو ہم مان جائیں گے۔

راجیکی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ اس پر میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی شروع کی۔ اور دعا کے آغاز میں ہی مجھ پر ایک خاص کیفیت رقت کی طاری ہوگئی۔ دیکھتے دیکھتے اس مریض کی حالت بہتر ہونا شروع ہوگئی اور بیماری کے آثار جاتے رہے۔ اس پر گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ ہم مان گئے۔

تو’’حیاتِ قدسی‘‘ صرف پڑھنے اور مزے لینے کے لیے نہیں ہے۔ اسے پڑھ کر یہ سمجھنا چاہیے کہ انسان چاہے تو کوشش کر کے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرسکتا ہے۔‘‘

اس کے ساتھ ہی پیر19؍اکتوبر کی یہ کلاس اپنے اختتام کو پہنچی۔

اگلے روز یعنی 20؍اکتوبر بروز منگل شام کو خاکسار پھر اس بابرکت مجلس میں شمولیت کےلیے حاضر ہوا۔

حضور تشریف لائے اور ایک طالبِ علم کو ارشاد فرمایا: ’’جہاں کل چھوڑا تھا وہاں سے پڑھو۔‘‘

یوں صفحہ 465سے آگے طلباء نے باری باری پڑھا۔

آج حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بیان فرمودہ مضامین میں جہاں جہاں بھی آنحضرتﷺ کا ذکرِ خیرآیا، حضورنے ضرور دریافت فرمایا: ’’سمجھ آگئی ہے ناں؟‘‘ اور بعض باتوں کو سمجھانے کی غرض سے بیان بھی فرمایا۔

مثلاً جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئیوں کے ذکر میں فرمایا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بارہ میں بھی پیشگوئیاں تھیں، تب بھی لوگ ایمان نہ لائے۔ اس پر فرمایا:

’’یہ یاد رکھنا چاہیے۔ اگر پیشگوئیاں one plus one equals twoکی طرح واضح اور صاف بیان ہو جائیں، تو ایمان کا تو مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بارہ میں بھی فرمایا ہے کہ پیشگوئیاں مخفی رنگ رکھتی ہیں تا کہ لوگ تلاش کریں، دعا کریں اور ایمان لائیں۔ ‘‘

آگے چل کر جہاد بالسیف کے تعطل کا ذکر تھا۔ اس پر حضور نے اس مرتبہ دوسرا مصرع پڑھا کہ

دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال

اور فرمایا: ’’اس کا پہلا مصرع لگاؤ اورشعر پورا کرو‘‘۔

طلباء نے مصرع لگایا، پھر حضور نے دوبارہ یہ اشعار خود پڑھے کہ

’’اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال

دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال

یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا‘‘

آگے چل کر دین میں جبر نہ ہونے کا مضمون بیان ہوا۔ فرمایا:

’’یہ بات بھی سمجھنے والی ہے۔ کہ دین میں جبر نہ ہونے کا کیا مطلب ہے۔ بعض احمدی مجھے لکھ دیتے ہیں کہ جب دین میں جبر نہیں تو ہمیں کیوں کہاجاتا ہے کہ نمازیں پڑھو، پردہ کرو، چندےادا کرو؟ میں انہیں بتاتا ہوں کہ دین میں جبر نہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام پر ایمان لانے میں کوئی جبر نہیں۔ یاجماعت میں شامل ہونے پر کوئی جبر نہیں۔ ہاں جب ایمان لے آئے اور اپنی مرضی سے شامل ہو گئے، تو پھر جو تعلیمات ہیں، ان کے مطابق زندگی گزارنا پڑےگی۔

دنیا میں بھی دیکھ لو۔ کسی کلب، یا کسی کمپنی، یا کسی تنظیم میں شامل ہونے پر تو جبر نہیں ہوتا۔ لوگ عام طور پر اپنی مرضی سے شامل ہوتے ہیں۔ لیکن جب شامل ہو جاتے ہیں تو پھر اس تنظیم یا کمپنی کے اصول کے ماتحت چلنا پڑتا ہے۔

تو جو احمدیت میں شامل ہواہے، اس نے اپنی مرضی سے زمانے کے حکم و عدل کو قبول کیا ہے۔ اب اس حکم و عدل کی تعلیم کے مطابق چلنا ہوگا۔ کوئی سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح ساتھ نہیں چل سکتا، وہ چھوڑکرجانے کے لیے بھی آزاد ہے۔ وہ کہہ دے کہ اس طرح زندگی گزارنا میرے بس میں نہیں، اور چھوڑ دے۔ نہ ہم زبردستی شامل کرتے ہیں، نہ زبردستی روکتے ہیں۔

بعض لوگ جو جماعت کو چھوڑ جاتے ہیں، ان کے رشتہ دار بعض اوقات مجھے لکھ کر پوچھتے ہیں کہ ہمارے خاندان میں کوئی شادی ہے یا کوئی تقریب ہے، تو ہم اسے بلالیں جو جماعت کو چھوڑ چکا ہے؟ میں اجازت دے دیتا ہوں کہ بلانا ہے تو بلا لو، لیکن اس سے اتنا میل جول نہ رکھو کہ اپنا ایمان خطرے میں ڈال لو۔ اور پھر دین کے لیے غیرت بھی ہونی چاہیے۔ اس کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔

تو یہ باتیں تمہیں پتہ ہونی چاہئیں۔ کوئی پوچھ لے تو جواب دینا آنا چاہیے‘‘۔

آگے پڑھنا شروع کیا گیا تو ایک مقام پر ’’کِرم‘‘ کا لفظ آیا۔ اس پر طلباء سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ پھر فرمایا:

’’غیر احمدی اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے لیے ’’کِرمِ خاکی‘‘ کا لفظ استعمال کیاہے۔ یعنی مٹی کا کیڑا۔ خود کو ’’بشر کی جائے نفرت‘‘ کہا ہے، ’’انسانوں کی عار‘‘ کہا ہے۔ تو اعتراض کرتے ہیں کہ جو آدمی خود کو یہ سمجھتا ہو، وہ اللہ کا نبی کیسے ہوگیا؟ حضرت مسیح موعودؑ نے تو یہ الفاظ اپنی عاجزی میں استعمال کیے۔ لیکن بعد میں گندی ذہنیت والوں نے گندے اعتراضات بنا لیے۔ لیکن یہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ ایسے اعتراضات بھی سننے پڑیں گے۔ تمہیں جواب آتے ہوں۔‘‘

ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دشمنوں کی کوششوں کے ذکر میں فرمایا ہے کہ انہوں نے ’’ناخنوں تک زور لگا لیا…‘‘۔ اس پر حضور نے طلباء کو مخاطب کر کے فرمایا:

’’ناخنوں تک زور لگانا کیا ہوتا ہے؟‘‘

ایک طالبِ علم نے جواب دیا کہ اپنی ساری قوت لگا لینا۔ فرمایا:

’’ہاں۔ میں نے اس لیے پوچھ لیا ہے تا کہ اردو محاورہ سے بھی تمہیں واقفیت ہوجائے۔ کہیں literalہی نہ سمجھ لو۔ کچھ عرصہ پہلے ہماری ایک کتاب کا انگریزی ترجمہ میرے پاس آیا۔ اردو میں لکھا تھا ’مشکلات کافور ہوگئیں ‘۔ ترجمہ کرنے والے نےمحاورہ سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سےلفظی ترجمہ کیا اور لکھ دیا کہ problems became camphor۔ تو محاورہ کا پتہ ہونا بھی ضروری ہے۔ ‘‘

جب اس روز کے صفحات مکمل ہو گئے تو حضور نے سوالات پوچھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

ایک طالبِ علم نے پوچھا کہ ’’دہریے اعتراض کرتے ہیں کہ مذہب انسان کو لاچار اور دہشت گرد بنا دیتا ہے۔ اس پر ہمیں کیا کہنا چاہیے؟‘‘

فرمایا:

’’سب سے پہلے اپنی مثال دو۔ کہ میں مذہب کو مانتا ہوں۔ میں نہ لاچار ہوں نہ دہشت گرد۔ یہ تو ایسے ہی بودا سا اعتراض ہے۔ صرف اسلام کو بدنام کرنے کے لیے۔ بات کو گھما پھرا کر اسلام پر ختم کرنا ہوتا ہے انہوں نے۔

انہیں بتاؤ کہ دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں۔ ان میں سے چند ہزار ہوں گے جو عملاً دہشت گرد ہیں۔ اور ہزاروں نہیں تو کچھ لاکھ ہوں گےجو ان دہشت گردوں کی تائید میں ہوں گے۔ تو سب مسلمانوں پر یہ اعتراض بودا ہے۔

اور پھر جو دہشت گرد مسلمان کہلانے والے ہیں بھی، وہ بھی مذہبی مقاصد کے لیے دہشت گرد نہیں بنے۔ ان کے اپنے سیاسی مقاصد ہیں۔ دنیا میں طاقت حاصل کرنے کے لیے دہشت گردی کا سہارا لیا ہوا ہے۔

پھر اسلام کسی کو لاچار بھی کیسے کر سکتا ہے؟اسلام تو حکم دیتا ہے کہ تحقیق کرو۔ جنہیں لاچار کر کے بٹھانا ہو، اُنہیں تحقیق کر کے فیصلہ کرنے کا حکم تو نہیں دیا جاتا۔ جس معاشرے میں حق کی بات کہنے پراتنا زور دیا گیاہوکہ گواہی دینی پڑےتو اپنے عزیز اور اپنے خلاف بھی گواہی دو۔ ایسا معاشرہ جو انصاف کے قیام پر اتنا زور دے رہا ہو، وہ لاچارکرنے والا تو نہیں ہو سکتا۔ جو مذہب سچی گواہی پر اتنا زور دیتا ہے کہ اگر اپنے خلاف بھی گواہی دینا پڑے تو دو۔ Richard Dawkinsنےتو خود یہ اعتراف کیا ہے، اگرچہ کہتا اعتراض کے رنگ میں ہی ہے، کہ مذہبی لوگ دوسروں کی نسبت کم جرائم کرتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا خدا کے خوف سے کرتے ہیں۔ تو جرم سے اجتناب کو بھی جرم بنا دیا۔ یا دہشت گرد کہہ لو، یا جرائم سے اجتناب کرنے والا کہہ لو۔ ایک بات تو کرو۔

کچھ دیر ہوئی ایک رپورٹ آئی تھی کہ سب سے زیادہ charityدینے والے بھی مذہبی لوگ ہیں۔ اوّل نمبر پر مسلمان، دوسرے پر عیسائی اور دہریے سب سےآخر پر تھے۔

اللہ تعالیٰ تو لاچارنہیں کرتا۔ محنت کا حکم دیتا ہے۔ دن کے دوران دنیوی ضرورتوں کے لیے محنت کرو، رات کو دین کے لیے محنت کرو۔

فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ

بھی تواللہ تعالیٰ ہی فرما رہا ہے۔ کہ جب تم فارغ ہو تو خدا سے ملنے کی کوشش میں لگ جاؤ۔ یعنی دنیا کےلیے بھی انسان مصروف رہے اور فراغت کے جو بھی لمحات ملیں، اُن میں خدا سے ملنے کی کوشش میں لگ جائے۔ اس لیے اسلام تو یہ کہہ رہا ہے کہ لاچار اور فارغ نہیں بیٹھنا۔ دن کی مصروفیات کا سفر طے ہوجائے، تو رات کو عبادات کا سفر طے کرو۔ تو اسلام تو محنت ہی کی تعلیم دیتاہے۔

اسلام کی اسی تعلیم پر عمل کر کے مسلمانوں میں سائنسدان اور موجد پیدا ہوئے۔ ساری اہم ایجادات مسلمانوں ہی نے کیں۔ میں نے UNESCO میں بھی تو یہی بتایا تھا۔ مسلمان اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کریں تو یہ ان کی بدنصیبی ہے۔ ورنہ اسلام کی تعلیم تو نہ بے کار بناتی ہے اور نہ دہشت گرد۔‘‘

اس پر حضور نے عزیزم صہیب احمد کو کہا ’’تمہیں کوئی شعر یاد ہیں تو سنا دو‘‘۔

اس پر انہوں نے ’’تجھے حمدوثنا زیبا ہے پیارے…‘‘کے دو اشعار ترنم سے سنائے۔

ایک طالبِ علم نے سوال کیا کہ ’’آنحضورﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حالتِ وحی کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں۔ حضور کا اس سلسلہ میں کیسا تجربہ ہے؟‘‘

فرمایا:

’’پہلے تو یہ یاد رکھو کہ نبی اور خلیفہ کے مقام میں فرق ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی بھی خلیفہ آپؑ کے تمام خواص کا جامع نہیں تھا۔ ہر زمانے کے حساب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعو علیہ السلام کے خواص اس دور کے خلیفہ میں اجاگر فرمادیے۔

نبی کو اللہ تعالیٰ ایک بہت comprehensive agenda دے کر بھیجتا ہے۔ پھر ہر دور کے خلیفہ کے دل میں اس دور کی ضرورت کے حساب سے خیالات ڈال دیتا ہے۔

وحی کی حالت بھی نبی کی اَور طرح کی ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ خلیفہ کو بھی وہی حالت حاصل ہو۔ وحی کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے۔ آنحضورﷺ کی وحی بہت ہی اعلیٰ سطح کی وحی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ رؤیا اور کشوف کے ذریعے سے بھی باتیں دل میں ڈالتا ہے۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کاکلام کرنے کا ہی ایک طریق ہے۔

جو قرآن کریم کی وحی کے وقت حالت ہوتی تھی، وہ اور تھی۔ جو باتیں حدیثِ قدسی میں بیان فرمائیں، وہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہی دل میں ڈالی تھیں۔ ان کے ساتھ اَور معاملہ تھا۔

تو خلفاءکی بھی اللہ تعالیٰ رہ نمائی فرماتا ہے۔ خواب کے ذریعے سے بھی۔ نماز کے دوران میرے دل میں ڈال دیتا ہے کہ اس کام کو اس طرح کرلو۔ تو نماز کے دوران جو خیالات میرے دل میں آتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات زبان پر کوئی آیت جاری ہو جاتی ہے۔ یہ میرے ساتھ کئی دفعہ ہوا ہے۔ خلافت سے پہلے بھی۔

حضرت مصلح موعودؓ کا مقام اور تھا۔ آپؓ نے خود فرمایا ہے کہ’ مَیں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں۔ مَیں مامور نہیں مگر میری آواز خدا تعالیٰ کی آواز ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی۔ گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے‘۔ اسی لیے تم نے دیکھا ہوگا کہ حضرت مصلح موعودؓ کےجتنے رؤیا و کشوف ہیں اتنے کسی بھی اور خلیفہ کے نہیں ہیں۔

پھر یہ بھی ہے کہ جو باتیں جماعتی مفاد کے حوالے سے ہوں، ان کے بارہ میں دل میں کوئی خیال آجانا اور اس کا زور سے دل میں گَڑ جانا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ عام آدمی کو بھی سچے خواب آجاتے ہیں۔ مگر ان کا معاملہ اَور ہے۔ کسی جماعت کے امیر کو یا عہدیدار کو بھی خواب آجانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہی چیز جماعت کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ مگر جماعت کے مفاد کے حوالہ سے جو بات اللہ تعالیٰ خلیفہ کے دل میں ڈالتاہے، وہی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ ‘‘

اس کے ساتھ ہی اس روز کی یہ مجلس اپنے اختتام کو پہنچی۔

حضور کی شفقت اور محبت سے خاکسار بطور زائر اِن دونوں کلاسوں میں شامل ہوا۔ میں نے جو دیکھا اور محسوس کیا، وہ بھی قارئین کی خدمت میں عرض کردیتا ہوں کہ یہ سب ایک امانت ہیں۔ ان نصائح سے ہم سب فائدہ اٹھا سکتے ہیں بالخصوص وہ نوجوان جو مربی بن رہے ہیں یا بن چکے ہیں۔ اور وہ بھی جو تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ایک مقام پر حضور نے ایک طالبِ علم کو سوال کیا تو اس نے بہت آہستہ اور دبی دبی آواز میں جواب دیا۔ فرمایا:

’’جواب اعتماد سے دیا کرو۔ confidence سے بولا کرو‘‘۔

جہاں لگا کہ کسی کو کوئی بات سمجھ نہیں آئی، بہت محبت اور پیار سے اسے دوبارہ بات سمجھا دی۔ کبھی یہ بھی لگا کہ کوئی بہت اچھی طرح تیاری کر کے نہیں آیا تو بہت محبت سے اسے بہتر تیاری کرنے کی تلقین فرمائی۔ عام مدرس تو زچ بھی ہوجاتاہے۔ مگرایسی کوئی کیفیت حضور پر نظر نہ آئی۔ شفقت اور محبت سے طلباء کو مخاطب کرتے رہے۔ ہر دفعہ ساتھ یہ یاددہانی کرواتے رہے کہ تم مربی بن رہے ہو۔ تمہیں ایسا ہونا چاہیے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

حضور کو تمام طلباء کے نام یاد ہیں۔ حضور ان میں سے سبھی کو ان کے ناموں سے مخاطب فرماتے ہیں۔ اور یہ صرف اس طرح نہیں کہ انہیں سامنے دیکھ کر نام ذہن میں آگئے ہوں۔ ایک روز ملاقات کے دوران اس کلاس کا کچھ ذکر تھا۔ حضور نے نام بہ نام ہر طالبِ علم کا ذکر فرمایا۔ یہ بھی مستحضر تھا کہ فلاں بیلجیم سے ہے اور فلاں ناروے سے۔

منگل کے روز جب متعلقہ صفحات مکمل ہوگئے، تو ایک طالبِ علم کو مخاطب کر کے فرمایا:

’’کل تم شاید کچھ کہنا چاہتے تھے۔ کیا بات تھی؟‘‘

یعنی کسی طالبِ علم نے سوال نہیں بھی کیا، مگر کرنا چاہتا تھا تو بھی حضور کو معلوم تھااور پھر اسے موقع عنایت فرمایا کہ وہ جو پوچھنا چاہتا ہے، پوچھ لے۔

شاید اس خیال سے کہ یہ طلباء یورپ میں پلے بڑھے ہیں، حقیقۃ الوحی کے مطالعہ کے دوران جہاں بھی کوئی بات آئی جو جنوبی ایشیا کے ماحول سے خاص تھی، تو اسے بھی بیان فرمایا تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ مثلاً بہار کا ذکر ہے تو تفصیل سے سمجھایا کہ ہندوستان پاکستان میں بہارسال کے کس حصے میں آتی ہے اور کب تک رہتی ہے۔

آخر پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان شاہدین کی کلاس میں خاکسار کو ڈیڑھ سال حاضر ہونے اور تبادلۂ خیالات کا موقع ملا ہے۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس بابرکت مجلس میں مجھے یہ سب تبدیل شدہ لوگ لگے۔ جنہیں میں جانتاتھا، یہ وہ نہیں تھے۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک لگے۔ کیا پڑھنا، کیا خلاصہ بیان کرنا، کیا ان کے جوابات اور یہاں تک کہ جو سوالات انہوں نے پوچھے۔ سب میں ایک خاص تبدیلی نظرآئی۔

مضامین کا اختتام نتیجے اخذ کرنے سے کیا جاتا ہے۔ مجھے یہاں کوئی نتیجہ اخذکرنے کی ضرورت نہیں۔ بس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اس چنیدہ وجود کی قوتِ قدسی سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کی ایک نظر زندگی بدل کر رکھ دیتی ہے۔

(بشکریہ اخبار ہفت روزہ الحکم )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button