حلت و حرمت

جانوروں کی وجہِ حلت وحرمت

سوال: ۔ ایک دوست نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں استفسار کیا کہ اسلام میں مختلف جانوروں کا گوشت کس بنا پر حلال اور حرام قرار دیا جاتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 11؍اپریل 2016ء میں اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: ۔ کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کے بارہ میں دین اسلام کااصول یہ ہے کہ ہر وہ امر جس سے شریعت منع نہ کرے، جائز ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اصل اشیاء میں حلت ہے حرمت جب تک نص قطعی سے ثابت نہ ہو تب تک نہیں ہوتی۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 474)

قرآن کریم نے مردار، بہتا ہوا خون، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور حرام قرار دیا ہے۔

(سورۃ الانعام: 146)

قرآن کریم کی بیان کردہ ان چار اشیاء کو حرام کہا جاتا ہے۔ جبکہ بعض اشیاء کے کھانے سے آنحضرتﷺ نے منع فرمایا ہے ان کو ممنوع کہا جاتا ہے۔ جیسے جو جانور شکاری ہے وہ ممنوع ہے۔ اس میں درندے، شکاری پرندے وغیرہ سب داخل ہیں۔ ان اشیاء کی ممانعت احادیث پر مبنی ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے:

نَهَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنْ الطَّيْرِ۔

(صحیح مسلم کتَاب الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ وَمَا يُؤْكَلُ مِنْ الْحَيَوَانِ باب تَحْرِيمِ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ…)

یعنی رسول اللہﷺ نے ہر کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے کاکھانا ممنوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے:

عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غَزْوَةِ خَيْبَرَ)

یعنی حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے غزوۂ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔

حرام اور ممنوع کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ میں جن اشیاء کے کھانے سے منع کیا گیاہے وہ دو قسم کی ہیں۔ اول حرام، دوم ممنوع۔ لغۃً توحرام کا لفظ دونوں قسموں پر حاوی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اس آیت (یعنی بقرہ: 174) میں صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ یعنی مردار، خون، سؤر کا گوشت اور وہ تمام چیزیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے نام سے نامزد کر دیاگیا ہو۔ ان کے سوا بھی شریعت میں بعض اور چیزوں کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ لیکن وہ چیزیں اشیاء ممنوعہ کی فہرست میں تو آئیں گی، قرآنی اصطلاح کے مطابق حرام نہیں ہوںگی…۔

یہ احکام اس آیت یا دوسری آیات کے مضمون کے مخالف نہیں ہیں۔ کیونکہ جس طرح اوامر کئی قسم کے ہیں بعض فرض ہیں، بعض واجب ہیں اور بعض سنت ہیں۔ اسی طرح نہی بھی کئی اقسام کی ہے۔ ایک نہی محرمہ ہے اور ایک نہی مانعہ ہے اور ایک نہی تنزیہی ہے۔ پس حرام چار اشیاء ہیں باقی ممنوع ہیں اور ان سے بھی زیادہ وہ ہیں جن کے متعلق نہی تنزیہی ہے یعنی بہتر ہے کہ انسان ان سے بچے۔ حرام اور ممنوع میں وہی نسبت ہے جو فرض اور واجب میں ہے۔ پس جن اشیاء کو قرآن کریم نے حرام کہا ہے ان کی حرمت زیادہ سخت ہے اور جن سے آنحضرتﷺ نے منع کیا ہے وہ حرمت میں ان سے نسبتاً کم ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے احکام میں ان کی مثال فرض اور واجب اور سنت کی سی ہے حرام تو بمنزلہ فرض کے ہے اور منع بمنزلہ واجب کے۔ جس طرح فرض اور واجب میں فرق ان کی سزاؤں کے لحاظ سے کیا جاتا ہے اسی طرح جن اشیاء کی حرمت قرآن کریم میں آئی ہے اگر انسان اُن کو استعمال کرے گا تو اس کی سزا زیادہ سخت ہو گی۔ اور جن سے آنحضرتﷺ نے منع فرمایا ہے ان کے استعمال سے اس سے کم درجہ کی سزا ملے گی لیکن بہر حال دونوں جرم قابل گرفت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوں گے۔ حرام فعل کا ارتکاب کرنے سے انسان کے ایمان پر اثر پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ لازماً بدی ہوتی ہے۔ لیکن دوسری چیزوں کے استعمال کا نتیجہ لازماً بدی اور بےایمانی کے رنگ میں نہیں نکلتا۔ چنانچہ دیکھ لو۔ مسلمانوں میں سے بعض ایسے فرقے جو ان اشیاء کو مختلف تاویلات کے ذریعے جائز سمجھتے اور انہیں کھالیتے ہیں جیسے مالکی، ان کا اثر ان کے ایمان پر نہیں پڑتا۔ اور ان میں بے ایمانی اور بدی پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ گذشتہ دور میں تو ان میں اولیاء اللہ بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ لیکن خنزیر کا گوشت یا مردار کھانے والا کوئی شخص ولی اللہ نظر نہیں آئے گا۔ پس حرمت کے بھی مدارج ہیں اور ان چاروں حرام چیزوں کے سوا باقی تمام ممنوعات ہیں جن کو عام اصطلاح میں حرام کہا جاتا ہے ورنہ قرآنی اصطلاح میں وہ حرام نہیں ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ340)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ حلال و حرام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’قرآن میں آیا ہے۔

لَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَذَا حَلَالٌ وَهَذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ۔

یہ خد اپر افتراء باندھنا ہے کہ یہ حلا ل ہے یا حرام۔ خد ا نے فرمایا ہے

حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّٰهِ۔

حدیث شریف میں رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ کہ جو جانور شکاری ہے وہ حرام ہے۔ اس میں درندے، شکاری پرند وغیرہ سب داخل ہیں۔ اب اس سے زیادہ کوئی مجاز نہیں کہ کسی کو حلا ل اور حرام کہے۔ مگردنیا میں چونکہ ہزار ہا جانور ہیں پھریہ دقت ہوئی کہ اب کسے کھاویں اور کسے نہ کھاویں۔ اس مشکل کو اللہ تعالیٰ نے نہایت آسانی سے حل کردیا ہے۔

فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ۔

یعنی حلا ل طیب کھاؤ۔ اب گویا یہ بتادیا کہ جو چیز طیب ہو وہ کھاؤ چنانچہ ہر جگہ ہر قوم میں جو چیزیں عمدہ اور پاک ہوں اور شرفاء اور مہذب لوگ کھاتے ہوں وہ کھا لو۔ اس میں وہ استثناء جو پہلے بیان ہوچکے ان کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ طوطا کھا لینے میں کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا ہے۔ مگر میں نہیں کھایا کرتا کیونکہ ہمارے ملک کے شرفاء نہیں کھاتے ایک دفعہ ایک صاحب میرے سامنے گو (ضب) پکا کر لائے کہ کھائیے میں نے کہا آپ بڑی خوشی سے میرے دستر خوان پر کھائیے مگر میں نہ کھاؤں گا کیونکہ شرفاء اسے نہیں کھاتے۔ ‘‘

(اخبار بدر نمبر 19 جلد 10 مؤرخہ 09 مارچ 1911ء صفحہ 1)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button