متفرق مضامین

سیّدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں عائلی زندگی میں قول سدید کی اہمیت

(صابرہ احمد۔ جرمنی)

نکاح کا مقصد تقویٰ کا حصول

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام شادی کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ہمیں قرآن نے تو یہ تعلیم دی ہے کہ پرہیز گار رہنے کی غرض سے نکاح کرو۔اور اولاد صالح طلب کرنے کے لئے دعا کرو۔جیسا کہ وہ اپنی پاک کلام میں فرماتا ہے۔

مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ…(النساء:25)

یعنی چاہئے کہ تمہارا نکاح اس نیت سے ہو کہ تا تم تقویٰ اور پرہیزگاری کے قلعہ میں داخل ہو جاؤ …اور مُحْصِنِیْنَ کے لفظ سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جو شادی نہیں کرتا وہ نہ صرف روحانی آفات میں گرتا ہے بلکہ جسمانی آفات میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔ سو قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی کے تین فائدے ہیں۔ایک عفّت اور پرہیزگاری۔ دوسری حفظ صحت۔ تیسری اولاد۔‘‘

(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 22)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں:

’’…نکاح جو ایک بنیادی حکم ہے یہ صرف معاشرہ اور نسل کو چلانے کے لئے نہیں بلکہ بہت ساری برائیوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور ایک نیک نسل چلانے کے لئے ہے۔ پس نئے جوڑوں کواس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ شادیاں جو کسی مذہب کو ماننے والوں میں اور خاص طور پر اسلام کو ماننے والوں میں ہوتی ہیں، ایک مسلمان کے گھر میں جو شادی ہے یہ صرف دنیاوی سکون کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کی جائے، اس پر عمل کیا جائے اور آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہوئے نیک نسل پیدا ہونے کا آغاز کیا جائے۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل21؍ستمبر2012ء)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو۔ اور یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں۔ صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 46۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اسلامی نکاح ایک عہد

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’مرد و عورت جواللہ تعالیٰ کےحکم کے مطابق میاں اور بیوی کے رشتے میں پروئے جا رہے ہوتے ہیں،نکاح کے وقت یہ عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان ارشادات الٰہی پرعمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے سامنے پڑھے گئے ہیں۔ ان آیات قرآنی پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے جو ہمارے نکاح کے وقت اس لئے تلاوت کی گئیں تاکہ ہم ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں ۔اور ان میں سے سب سے پہلی نصیحت یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو، تقویٰ اختیار کرو، تونکاح کے وقت اس نصیحت کے تحت ایجاب و قبول کر رہے ہوتے ہیں، نکاح کی منظوری دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ان پر عمل کریں گے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں تمہارے اندر تمہارے اس ربّ کا، اس پیارے ربّ کا پیار اور خوف رہے گاجس نے پیدائش کے وقت سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے تمہاری تمام ضرورتوں کا خیال رکھا ہے، تمام ضرورتوں کو پورا کیا ہے تو تم ہمیشہ وہ کام کرو گے جو اس کی رضاکے کام ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر ان انعامات کے وارث ٹھہرو گے۔…پس مردوں، عورتوں دونوں کو ہمیشہ یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تقویٰ سے کام لینا ہے، رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے دعا کرنی ہے، ایک دوسرے کے عزیزوں اور رشتہ داروں کااحترام کرنا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)

قولِ سدید کی اہمیت

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نےاس حوالے سے فرمایا:

’’ایک اور مسئلہ جو آج کل عائلی مسئلہ رہتاہے اور روزانہ کوئی نہ کوئی اس بارہ میں توجہ دلائی جاتی ہے بچیوں کی طرف سے کہ سسرال یا خاوند کی طرف سے ظلم یا زیادتی برداشت کر رہی ہیں۔ بعض دفعہ لڑکی کو لڑکے کے حالات نہیں بتائے جاتے یا ایسے غیر واضح اور ڈھکے چھپے الفاظ میں بتایا جاتاہے کہ لڑکی یا لڑکی کے والدین اس کو معمولی چیز سمجھتے ہیں لیکن جب آپ بیچ میں جائیں تو ایسی بھیانک صورتحال ہوتی ہے کہ خوف آتاہے۔یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ بعض صورتوں میں جب اس قسم کی زیادتیاں ہوتی ہیں، جب لڑکی کے بحیثیت بہو اختیارات اس کے پاس آتے ہیں تو پھر وہ ساس پر بھی زیادتیاں کرجاتی ہے اور اس پر ظلم شروع کر دیتی ہے۔ اس طرح یہ ایک شیطانی چکر ہے جو ایسے خاندانوں میں جو تقویٰ سے کام نہیں لیتے جاری رہتاہے۔ حالانکہ نکاح کے وقت جب ایجاب وقبول ہوتاہے، تقویٰ اور قول سدید کے ذکر والی آیات پڑھ کر اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور ہمیں یہ بتایا جاتاہے کہ ایسا جنت نظیر معاشرہ قائم کرو اور ایسا ماحول پیدا کرو کہ غیر بھی تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں۔ لیکن گو چند مثالیں ہی ہوں گی جماعت میں لیکن بہرحال دکھ دہ اور تکلیف دہ مثالیں ہیں۔ جیساکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا :…کہ ہر بات سے پہلے، ہر کام سے پہلے سوچے کہ اس کا انجام کیا ہوگا اور جو کام تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ خیال ہوتاہے زیادتی کرنے والوں کاکہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا۔ ہم گھر میں بیٹھے کسی کی لڑکی پر جو مرضی ظلم کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے۔ تو پھر اگر یہ خیال دل میں رہے کہ اللہ تعالیٰ اگر دیکھ رہاہے اور اللہ کو اس کی خبر ہے تو حضور(حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ) فرماتے ہیں کہ ان برائیوں سے بچا جا سکتاہے۔‘‘

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18؍جولائی 2003ء)

شادی کے وقت تلخی کی ایک وجہ سچائی کا نہ ہونا

اس ضمن میں ایک موقع پر حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا

’’ اللہ تعالیٰ کے بندے اور الٰہی جماعتیں جو ہیں انہوں نے تو اونچائی کی طرف جانا ہے اور ان سے تو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ ان کے لئے ترقی کی منازل ہیں جو انہوں نے طے کرنی ہیں اور اوپر سے اوپر چلتے چلے جانا ہے۔ اُن میں اگر جھوٹ آ جائے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندے نہیں رہتے جن پر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے یا جن سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمانے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ پس احمدیوں کو اپنی گواہیوں میں بھی اور اپنے معاملات میں بھی جب پیش کرتے ہیں تو سو فیصد سچ سے کام لینا چاہئے۔ مثلاً عائلی معاملات ہیں۔ نکاح کے وقت اس گواہی کے ساتھ رشتہ جوڑنے کا عہد کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم قول سدید سے کام لیں گے۔ سچ سے کام لیں گے۔ ایسا سچ بولیں گے جس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔ جس سے کوئی اور مطلب بھی اخذ نہ کیا جا سکتا ہو۔ صاف ستھری بات ہو۔ لیکن شادی کے بعد لڑکی لڑکے سے غلط بیانی کرتی ہے اور لڑکا لڑکی سے غلط بیانی کرتا ہے۔ دونوں کے سسرال والے ایک دوسرے سے غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں اور یوں ان رشتوں میں پھر دراڑیں پڑتی چلی جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ یہ ختم ہو جاتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ25ستمبر2009ء ۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16اکتوبر 2009ء)

حضورِ انور نے مزید فرمایا:

’’بعض لڑکیاں والدین کے کہنے پر شادی کر لیتی ہیں۔ پہلے سچ بولنے اور حق کہنے کی جرأت نہیں ہوتی اور جب شادی ہو جاتی ہے تو پھر بعض ایسی حرکتیں کرتی ہیں جن سے میاں بیوی میں اعتماد کی کمی ہو جاتی ہے اور پھر لڑائیاں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں۔ بعض دفعہ پاکستان سے رشتے کر کے آ جاتی ہیں، جماعتی جائزے نہیں لئے جاتے، رپورٹیں نہیں لی جاتیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ جماعت نے ہماری مدد نہیں کی۔ یہاں سے بعض لڑکے لڑکیوں کو بلا لیتے ہیں، اُن سے زیادتیاں کرتے ہیں اور پھر طلاقیں ہو جاتی ہیں۔ تو دونوں طرف سے ایک ایسی خوفناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے جس کی جماعت کو فکر کرنی چاہئے۔

لڑکیاں بعض دفعہ شادی کے بعد بتاتی ہیں کہ ہمیں یہ رشتہ پسند نہیں ہے۔ ماں باپ نے کہا مجبوری تھی۔ بعض لڑکے بھی شادی کے بعد بتاتے ہیں۔ لڑکوں میں بھی اتنی جرأت نہیں ہے، یا پھر اُن کو پتہ چلتا ہے کہ وہ لڑکے یا لڑکی کہیں اور involve ہیں یا کسی دوسرے رشتہ کو پسند کرتے ہیں۔ وہ اپنی پسند کے رشتے شروع میں بتا دیں تو کم از کم دو گھروں کی زندگیاں تو برباد نہ ہوں اور پھر ایسے بھی معاملات ہیں جہاں ماں باپ کو پہلے پتہ ہوتا ہے اور اس خیال سے شادی کروا دیتے ہیں کہ بعد میں ٹھیک ہو جائے گا لیکن یہ ہوتا نہیں ہے۔ لڑکا ہو یا لڑکی، ٹھیک تو نہیں ہوتے البتہ دونوں میں سے کسی ایک کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔‘‘( الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل 2012ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک اور موقع پر فرمایا:

’’… نکاح کے وقت کی قرآنی نصائح کو پیش نظر رکھیں، تقویٰ سے کام لیں، قول سدید سے کام لیں تو یہ چیزیں کبھی پیدا نہیں ہوں گی۔ آپ جو ناجائز حق لے رہے ہیں وہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کے ساتھ شرک کے بھی مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔‘‘(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)

جھوٹ کی وجہ سےبےاعتمادی

میاں بیوی کے درمیان بے اعتمادی پیدا ہوجانے کی بہت بڑی وجہ کسی ایک فریق کا یا دونوں کا جھوٹ کی بدعادت میں مبتلا ہونا ہے۔ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’بہت سے جھگڑے خاوند بیوی کے اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ بے اعتمادی کا شکار ہوئے ہوتے ہیں۔ عورت کو شکوہ ہوتا ہے کہ مرد سچ نہیں بولتا۔ مرد کو شکوہ ہوتا ہے کہ عورت سچ نہیں بولتی اور اس کوسچ بولنے کی عادت ہی نہیں اور اکثر معاملات میں یہ ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہوتے ہیں کہ میرے سے غلط بیانی سے کام لیا یا مستقل ہر بات میں غلط بیانی کرتے ہیں یا کرتی ہے۔ پھر سچ پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے بچوں پر بھی اثر پڑتا ہے اور بچے بھی جھوٹ بولنے کی عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔‘‘

مزیدفرمایا :

’’پھر یہ بھی نصیحت ہے کہ اگر تم اس طرح سچ پر قائم رہو گے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرتے رہو گے تو خداتعالیٰ تمہاری ان کوششوں کے نتیجہ میں تمہاری اصلاح کرتا رہے گا۔ تمہیں نیکیوں پر چلنے کی توفیق دیتا رہے گا۔ تمہارے گناہوں سے، تمہاری غلطیوں سے، صَرفِ نظر کرتے ہوئے تمہارے گھروں کو جنت نظیر بنا دےگا۔سچ پر قائم رہنے کے بارے میں فرمایا ہے کہ سچ پر قائم رہ کر ہی ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہوتا ہے اور سچ پر قائم رہ کر ہی آپس کے تعلقات کو اچھی طرح ادا کر سکتے ہو اور سچ پر قائم ہوکر ہی اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کر سکتے ہو اور ان کو معاشرے کا ایک مفید وجود بنا سکتے ہو۔ ‘‘( الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2015ء)

حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اب میں گھر کی سطح پر، بعض رشتوں کی سطح پرمعاہدے کی مثال دینا چاہتاہوں۔ شادی بیاہ کا تعلق بھی مرد اور عورت میں ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتاہے۔ عورت کو حکم ہے کہ اس معاہدے کی رو سے تم پر یہ فرائض ادا ہوتے ہیں مثلا ًخاوند کی ضروریات کا خیال رکھنا، بچوں کی نگہداشت کرنا، گھر کے امور کی ادائیگی وغیرہ۔ اسی طرح مرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ بیوی بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس پرہے۔ ان کی متفرق ضروریات کی ذمہ داری اس پر ہے۔ اور دونوں میاں بیوی نے مل کر بچوں کی نیک تربیت کرنی ہے اس کی ذمہ داری ان پر ہے۔ تو جتنا زیادہ میاں بیوی آپس میں اس معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے اتنا ہی زیادہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا۔

لیکن بعض دفعہ افسوس ہوتاہے بعض واقعات سن کر اور دیکھ کر کہ یہاں یورپ میں، مغرب میں رہنے والی لڑکی کارشتہ اگر پاکستان یا ہندوستان وغیرہ میں کہیں ہوا۔ تو لڑکی نے سپانسر کر کے لڑکے کو بلوایا، شادی ہنسی خوشی چلتی رہی، بچے بھی ہوگئے۔ اور جب مرد کے کاغذات مکمل ہوگئے؟ اب مجھے یہاں سے کوئی نہیں نکال سکتا توغلط طریق سے لڑکیوں کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ تو اس طرح ایک پاکیزہ تعلق کو ایک معاہدے کو توڑنے والے بن گئے اور اکثر بنیاد، صرف بہانے ہوتے ہیں، جھوٹ پر مبنی باتیں ہوتی ہیں، اندر کچھ بھی نہیں ہوتا، الزامات لگا ئے جا رہے ہوتے ہیں۔ تو ایسے لوگ بھی منافقت کے زمرے میں ہی آتے ہیں اوراحمدیوں کو، ہم میں سے ہرایک کو اس بارہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 19؍ دسمبر2003ء)

سچائی سے اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے

حضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےسچ پر قائم رہنے کے بارے میں فرمایا: ’’…اس حد تک سچائی جس میں ذرا سا بھی جھول نہ ہو، اس کا خیال رکھو۔ یہ سچائی ہی ہے جو لڑکے اور لڑکی، خاوند اور بیوی کے تعلقات میں اعتماد کی فضا پیدا کرتی ہے اور یہ اعتماد ہی ہے جو پھر آگے امن کی اور پیار کی ضمانت بن جاتا ہے۔ پس نئے قائم ہونے والے رشتے ان باتوں کا خیال رکھیں… اللہ کرے یہ قائم ہونے والے رشتے ان باتوں کا خیال رکھنے والے ہوں اور کبھی بھی کسی بھی قسم کا جھول، جھوٹ یا سچائی میں کوئی غلط بیانی بھی آپس کے رشتوں میں پیدا نہ ہو اور ہمیشہ اعتماد کی فضا قائم رہے۔‘‘

(مطبوعہ ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل 30؍دسمبر 2011ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب احمدی گھرانے مرد ہو یا عورت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ان قیمتی نصائح پر عمل کرکے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئےایک حسین معاشرہ قائم کرنے والے بن جائیں،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button