حضرت مصلح موعود ؓ

تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد (قسط ششم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

ہماری جماعت کو یہ امر بھی کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ مقدر کر رکھا ہے کہ ہم اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر غالب کریں مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچانے کے لئے دنیا کے تمام ممالک میں اپنے مبلّغین پھیلانے کی کوشش کریں۔ میں ایک لمبے غورکے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگرہم صحیح طور پر تبلیغ کرنا چاہیں تو فی مرکز ہمیں کم از کم چھ مبلّغ رکھنے چاہئیں۔ یہ تعداد اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور ایک وسیع علاقہ میں چھ مبلّغین کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن پھر بھی اگر بیج کے طور پر ہم اپنی تبلیغ کو دنیا میں پھیلانا چاہیں تو اس سے کم میں ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ یہ چھ مبلّغ جو ایک علاقہ کے لئے تجویز کئے گئے ہیں اس سے مراد کوئی چھوٹا علاقہ نہیں بلکہ سرِدست ہمارے مد نظر یہ ہے کہ اگر ہم یونائٹیڈسٹیٹس امریکہ جیسے وسیع مُلک میں اپنا مرکز قائم کریں تو وہاں بھی اپنے چھ مبلغ رکھیں حالانکہ وہاں کی آبادی بارہ کروڑ ہے اور وہ ہندوستان سے دو گنامُلک ہے۔ اسی طرح ہم یہ چھ مبلغ آسٹریلیا کے لئے تجویز کر رہے ہیں حالانکہ وہ ہندوستان سے تگنا علاقہ ہے لیکن بظاہر یہ تعداد خواہ کس قدر ناکافی ہو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم جو بھی مشن قائم کریں اُس کو کامیاب طور پر چلانے کے لئے ایک علاقہ میں ابتدائی طور پر چھ مبلغ رکھیں۔ ان چھ مبلّغین میں سے ایک تو ایسا ہوگا جس کا کام یہ ہوگا کہ وہ مرکز میں بیٹھ کر رات دن کام کرے جو لوگ ملنے کے لئے آئیں ان سے تبادلۂ خیالات کر ے۔ انہیں سلسلہ کے حالات بتائے۔ مکان اور مسجد وغیرہ دکھائے اور ان کے شبہات کا ازالہ کرے گویا وہ مرکزی انچارج ہو گا۔

دوسرے مبلغ کا یہ کام ہو گا کہ وہ علمی طبقہ سے اپنے تعلقات رکھے اور انہیں احمدیت کی خصوصیات وغیرہ سے آگاہ کرتا رہے۔ مثلاً جو لوگ عربی یا فارسی جاننے والے ہوں یااسلامی اصول سے دلچسپی رکھتے ہوں یا مثلاً پادری وغیرہ جو مذہبی آدمی سمجھے جاتے ہیں ایسے تمام لوگوں سے اس کے تعلقات ہوں۔ اسی طرح علمی اداروں میں اس کی آمدورفت ہواور وہ مُلک کے تعلیم یا فتہ طبقہ سے اچھے تعلقات رکھنے والا ہوتا کہ علمی حلقہ میں احمدیت کو مقبولیت حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں میں جووساوس پائے جاتے ہیں اُن کا ازالہ ہو۔

تیسرا مبلّغ ایسا ہو گا جس کا کام یہ ہوگا کہ بڑے بڑے اور بااثر لوگوں سے اپنے تعلقات رکھے اور مُلک کے اندر جو ان کی پارٹیاں پائی جاتی ہوں ان کے خیالات کو درست رکھنے کی کوشش کرے۔ یہ کام اپنی ذات میں نہایت اہم اور جماعت کی ترقی کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھنے والا ہے۔ اس مبلّغ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ بڑے بڑے لوگوں سے اپنے تعلقات رکھے تاکہ مُلک کے ہر طبقہ میں اس کے دوست موجود ہوں اور جب بھی کوئی بات احمدیت کے خلاف ہو یا گورنمنٹ کسی غلط فہمی کی بنا پر کوئی ناجائز قدم اُٹھانے لگے تو خود مُلک کے سربرآوردہ لوگ اس کے شبہات کا ازالہ کرنے کے لئے آگے بڑھیں اور وہ لوگوںکو بتا سکیں کہ احمدیت کیا چیز ہے اور وہ دنیا میں کیا تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے۔

چوتھے آدمی کا یہ کام ہوگاکہ وہ مُلک بھر کی یونیورسٹیوں سے اپنے تعلقات بڑھائے۔ درحقیقت یونیورسٹیاں مُلک میں خیالات پھیلانے کا گڑھ ہوتی ہیں اور وہی مبلغ کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے یونیورسٹیوں سے اپنے تعلقات زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں۔ ہر طالب علم جو کسی سکول یا کالج میں تعلیم پاتا ہے اُسے چونکہ نئے نئے علوم پڑھائے جاتے ہیں اور نئی سے نئی باتیں اُس کے کانوں میں پڑتی ہیں اس لئے اُس کے قلب میں ترقی کا غیرمعمولی جذبہ ہوتا ہے اور وہ خیال کرتاہے کہ پہلوں نے کیا ترقی کی ہے مَیں ایسے ایسے علوم پھیلاؤں گا اور ایسی ایسی ایجادات کروں گا کہ دنیا محو حیرت ہو جائے گی۔ ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ دنیا میں ایسے گزرے ہیں جو مرے تو ایسی حالت میں کہ ایک کلرک سے زیادہ ان کی حیثیت نہیں تھی مگر طالب علمی کے زمانہ میں وہ سمجھتے تھے کہ ہم بادشاہ نہ بنے تو وزیر بننا تو کوئی بات ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ طلباء کے قلوب میں ایک غیر معمولی اُمنگ ہوتی ہے، ان کے خیالات میں بلندی ہوتی ہے اور نئی نئی باتیں سننے اور پھر اُن باتوںکے سیکھنے کا انہیں بے حد شوق ہوتا ہے۔ خود حضرت مسیح موعودؑ پر بھی ابتداء میں زیادہ تر طالب علم ایمان لائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ابتداء میں زیادہ تر وہی لوگ ایمان لائے جو نوجوان تھے۔ بڑی عمر والے حضرت ابوبکرؓ ہی تھے مگر حضرت ابو بکرؓ جب سَوا دو سال کی خلافت کے بعدفوت ہوئے تب وہ اُس تریسٹھ سال کی عمر تک پہنچے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی گویا وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں اڑھائی سال کے قریب چھوٹے تھے۔پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے اور انہوں نے ساڑھے دس سال خلافت کرنے کے بعد ۶۳سال کی عمر میں انتقال کیا۔حضرت ابوبکرؓ کے خلافت کے سَوا دو سال اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ساڑھے دس سال جمع ہو جائیں تو یہ تیرہ سال کا عرصہ بنتا ہے اور چونکہ وہ نبوت کے چھٹے سال ایمان لائے تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ عہدِ نبوت میں سے چھ سال نکال دئیے جائیں تو سترہ سال رہ جاتے ہیں۔ سترہ سال یہ اور تیرہ سال وہ گویا تیس سال انہوں نے اسلام کی خدمات سرانجام دیں اور چونکہ ان کی وفات تریسٹھ سال میں ہوئی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اسلام لانے کے وقت ان کی عمر ۳۳ سال تھی۔ اسی طرح حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ سترہ سترہ سال کے تھے جب ایمان لائے اور حضرت علیؓ گیارہ سال کے تھے جب انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نصیب ہوا گویا اسلام کی جڑ اور ستون سب ایسے لوگ ہی ثابت ہوئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے وقت نوجوان تھے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ اُمنگوں کا زمانہ ہوتا ہے اور انسانی خیالات کی پرواز بہت بلند ہوتی ہے اگر نوجوانوں کو کسی سچائی کا پتہ لگ جائے تو پھر وہ کسی مصیبت اور تکلیف کی پروا نہیں کرتے وہ کہتے ہیں ہم مر جائیں گے مگر سچائی کو قبول کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔پس نوجوان طبقہ تک ہمارا اپنی آواز کو پہنچانا نہایت ضروری ہے جس کا طریق یہی ہے کہ ایک مبلغ ایسا ہو جس کا یونیورسٹیوں سے تعلق ہواور وہ نوجوان طبقہ کو احمدیت کی طرف متوجہ کرتا رہے۔

پانچواں مبلّغ ایسا ہو گا جس کا تجارت سے تعلق ہو گا اور اُس کا فرض ہو گا کہ وہ سلسلہ کے تبلیغی اخراجات کو زیادہ سے زیادہ تجارت کی آمدسے پورا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ کام اپنی ذات میں نہایت اہم ہے اور اس کو وسیع طور پر پھیلا کر نہ صرف سلسلہ کے اخراجات کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے بلکہ سلسلہ کے لئے نئی آمد بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کام پر جو مبلغ مقر ہو گا اس کا صرف یہی کام نہیں ہو گا کہ وہ اپنے علاقہ میں تجارت کرے بلکہ اس کایہ کام بھی ہوگا کہ وہ دوسرے ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کرے۔ مثلاًانگلستان کا مبلغ کوشش کرے کہ وہ ایران میں اشیاء بھجوائے یا عرب میں ان کی کھپت کا انتظام کرے اور ایران والا کوشش کرے کہ وہ انگلستان میں چیزیں پہنچائے اس طرح تجارت کو وسیع کرنا، ایک مُلک کے دوسرے مُلک سے تجارتی تعلقات قائم کرنا اور سلسلہ کے اخراجات کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنے کی کوشش کرنا اس کا کام ہوگا۔

چھٹا مبلغ پراپیگنڈا کے لئے وقف ہو گا اور اس کا فرض ہو گا کہ وہ اخباروں سے تعلقات رکھے جو Journalismکا امتحان پاس کرے،پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرے اور اپنے تعلقات اور دوستیوں کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کی کوشش کرے۔ ہم نے دیکھا ہے اَور تو اَور یورپ جیسے ممالک میں جہاں ایک ایک اخبار کی اشاعت دس دس لاکھ تک ہوتی ہے منہ دیکھے کا لحاظ ہوتا ہے اور چائے کی ایک پیالی اتنا کام کرجاتی ہے جتنا کام بیسیوں روپوں سے نہیں ہوسکتا۔ غرض ایک مبلغ اشاعت کے لئے وقف ہونا چاہئے اور اُس کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ مصنّفین سے تعلقات رکھے۔ اخبارات اور رسالوں کے مالکوں اور ان کے ایڈیٹروں وغیرہ سے میل جول رکھے اور اس طرح احمدیت کا اثر ان پر قائم کرنے کی کوشش کرے۔ جب تک کسی مرکز میںاس قسم کے چھ مبلغین نہ رکھے جائیں اور بیک وقت الگ دائرہ میں اپنا کام شروع نہ کریں اُس وقت تک صحیح معنوں میں اشاعتِ اسلام نہیں ہو سکتی۔ گو حقیقت یہ ہے کہ کسی مُلک میں چھ مبلغین کا موجود ہونا بھی تبلیغی نقطۂ نگاہ سے کسی طرح کافی نہیں سمجھا جاسکتا۔لاہور جیسے شہر میں بھی اگر چھ مبلغ رکھے جائیں تو وہ سب لوگوں کو پوری طرح تبلیغ نہیں کر سکتے۔ مگر ہم نے بعض علاقوں میں صرف ایک مبلغ رکھا ہوا ہے اور جب وہ لوگ کسی اَور مبلغ کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے تجھے ایک مبلغ دیا ہوا ہے حالانکہ واقعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی ہرگز صحیح طور پر تبلیغ نہیں کرسکتا مگر مرکز اس قسم کا جواب دینے پر مجبورہوتا ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button