خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍ نومبر 2020ء

تحریکِ جدید کے چھیاسیویں سال کے دوران افرادِ جماعت کی طرف سے پیش کی جانے والی مالی قربانیوں کا تذکرہ اور ستّاسیویں سال کے آغاز کا اعلان

ہم نے یہی کوشش کرنی ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لائیں یہی تحریکِ جدید کا بھی مقصد ہے

اس سال مالی قربانی کرنے میں جرمنی سرِفہرست رہا۔ پھر برطانیہ،امریکہ،کینیڈا،پھر مشرقِ وسطیٰ کی ایک ریاست،بھارت، آسٹریلیا،انڈونیشیا،گھانا اور پھر مشرقِ وسطیٰ کی ایک اَور ریاست شامل ہیں

موجودہ حالات میں عالَمِ اسلام اور مسلمانوں کے لیے دعا کی تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍ نومبر 2020ء بمطابق 06؍ نبوت 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 06؍ نومبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطا ءالرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ،سورة الفاتحہ اور سورة البقرہ کی آیت 275کی تلاوت و ترجمہ پیش کرنےکے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ قرآنِ کریم میں خداتعالیٰ نے مومنوں کو متعددجگہ مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس آیت میں مومنوں کی اس خصوصیت کا ذکر ہے کہ مومن رات اور دن کے اوقات میں مخفی اور ظاہر ہردو طریق سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں دوسری جگہ آتاہے کہ مومن اللہ کی رضا کے حصول کےلیے خرچ کرتے ہیں۔پس حقیقی مومن کی یہ نشانی ہے کہ وہ اپنے پاکیزہ مال میں سے خداتعالیٰ کی راہ میں خالص طور پر اُس کی رضاکےلیے خرچ کرے۔ مسابقت کی روح اچھی چیز ہے لیکن اگر دکھاوے یا فخر یا جتلانے یا کسی قسم کی تعریف کی خاطر مالی قربانی کر رہے ہوں تو ایسی قربانیاں خداتعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ نہیں پاتیں۔

اللہ تعالیٰ اپنی رضا حاصل کرنے والے کو عزت بھی عطا کرتا ہے لیکن یہ عزت اسے عاجزی و انکساری میں بڑھانے والی ہوتی ہے۔ ایسے مومنوں میں اگر خلیفۂ وقت کی نظر میں آنے کی خواہش ہوتی ہے تو صرف اس لیے کہ خلیفۂ وقت کی دعاؤں کے وارث بن سکیں۔ اگر خلافتِ حقّہ پر ایمان ہے تو ایسی خواہش میں کوئی حرج نہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر خالص ہوکر میری رضاکی خاطر خرچ کروگےتومَیں تمہارے خوف اور غم دور کروں گا اور تمہارےلیے سکینتِ قلب کے سامان کروں گا۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کرنے والے گروہ کی یہ سوچ ہے ۔ اسی سوچ کے تحت وہ مالی قربانی کرتے ہیں اوریقیناً خداتعالیٰ ایسی قربانیوں کو بغیرپھل لگائے نہیں چھوڑتا۔ جماعتِ احمدیہ میں اس روح سے قربانی کرنے والوں کی بےشمار مثالیں ہیں۔

حضورِانورنے فرمایا کہ مالی قربانی کرنے والوں کو یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ ان کےبیوی بچوں کے بھی ان پر حقوق ہیں۔یہ حقوق ادا کرنا بھی ایک مومن کا فرض ہے۔ اپنے گھروالوں کو قناعت کی اہمیت بتاتے ہوئے مالی قربانی کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔ اس طریق سے قربانی کرنے والوں کی اولادیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی ایسے ایسے ذریعے سے وارث بنتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتاہے۔ اس وقت مَیں ایسے ہی قربانیاں کرنے والوں میں سے بعض کے واقعات بیان کروں گا ۔ ان واقعات کے سننے سے دوسروں کو بھی تحریک ہوتی ہے ۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں قرآن کہتا ہے کہ تم ایسا مت کرو کہ اپنے سارے کام لوگوں سے چھپاؤ بلکہ حسبِ مصلحت بعض نیک اعمال پوشیدہ طور پربجالاؤ اور بعض اعمال دکھلاکر بھی کرو۔ ہرایک جگہ قول اثر نہیں کرتا بلکہ اکثر جگہ نمونے کا بہت اثر ہوتا ہے۔

پس خداکرے کہ یہ واقعات قربانی کرنےوالوں کےلیے دہرے ثواب کا باعث بنیں ایک ثواب تو یہ کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی اور ایک یہ کہ ان کے نمونوں اور واقعات سے دوسروں کوبھی مالی قربانی کی تحریک پیدا ہوگی۔

اس کے بعد حضورِانور نے البانیا،ارجنٹائن،انڈونیشیا، مالی، فرانس، کینیڈا، سیرالیون، مارشل آئی لینڈز، گیمبیا، فلپائن، کبابیر، جرمنی، قازقستان، تنزانیہ، بھارت اور گھانا وغیرہ ممالک سے مرد وخواتین، بوڑھوں ،بچوں، امراء اور غرباء غرض مختلف طبقات، صنف اور قوم سے تعلق رکھنے والے مخلصین کی مالی قربانیوں کے ایمان افروز واقعات بیان فرمائے۔کورونا وائرس کی حالیہ وبا کے سبب دنیا بھر میں جاری معاشی بحران کے باوجود احبابِ جماعت کی مالی قربانیوں کی پُراثر مثالیں بیان کرنےکے بعد حضورِانور نے فرمایا کہ ایسے بےشمار واقعات میرے پاس تھے جن میں سے یہ چند مَیں نے بیان کیے ہیں ۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ تحریکِ جدید کے چھیاسیویں سال کے اختتام پر جماعت ہائے احمدیہ عالَم گیر کو دورانِ سال اس تحریک میں ایک کروڑ چوّن لاکھ پاؤنڈ مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ یہ وصولی گذشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ لاکھ بیاسی ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ پاکستان نےاپنے مخدوش معاشی اور سیاسی حالات کے باوجودمالی قربانی میں، اپنی مقامی کرنسی کےحساب سے بہت زیادہ ترقی کی ہے۔

اس سال دنیا بھر کی جماعتوں میں جرمنی سرِفہرست رہا۔ پھر برطانیہ،امریکہ،کینیڈا،پھر مشرقِ وسطیٰ کا ایک ملک،بھارت، آسٹریلیا،انڈونیشیا،گھانا اور پھر مشرقِ وسطیٰ کی ایک اَور ریاست شامل ہیں۔ گھانا کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ گھانا اب افریقی ممالک سے نکل کر امریکہ اور یورپ وغیرہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے پر مالی قربانی میں شامل ہوگیا ہے۔

فی کَس ادائیگی کے لحاظ سے سوئٹزرلینڈ پہلے نمبر پر پھر امریکہ اور سنگاپور ہیں۔ افریقی ممالک میں پہلے نمبر پر گھانا،پھر نائیجیریا، بورکینا فاسو، تنزانیہ، گیمبیا، سیرالیون اور پھر بینن ہے۔ تحریکِ جدید میں کل شاملین کی تعداد سولہ لاکھ آٹھ سو ہے۔ شاملین میں اضافہ کرنے کے لحاظ سے افریقی ممالک میں گھانا اور پھر بورکینافاسو ہے۔ بنگلہ دیش،جرمنی،کینیڈا،بھارت،آسٹریلیا اور برطانیہ میں بھی شاملین کی تعدا د میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

دفتر اوّل کے کھاتے پانچ ہزار نَوسَو ستائیس افراد کےہیں جن میں سے تینتیس حیات ہیں اور اپنا چندہ خود ادا کررہے ہیں۔ حضورِانور نے ازراہِ شفقت جرمنی، برطانیہ، پاکستان، امریکہ، کینیڈا، بھارت اور آسٹریلیا کی نمایاں قربانی پیش کرنے والی جماعتوں کا بھی ذکر فرمایا۔

حضورِ انور نے تمام قربانی پیش کرنے والوں کے لیے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے اور قربانیوں کو قبول فرمائے۔ اس کے ساتھ ہی حضورِانور نے تحریکِ جدید کے ستّاسیویں سال کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ یکم نومبرسے ستّاسیواں سال شروع ہوچکا ہے۔

خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانورنے عالَمِ اسلام اور مسلمانوں کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کل مسلمانوں کے خلاف غیرمسلم دنیا کے بعض لیڈر بڑےبغض اور کینہ کے جذبات رکھتے ہیں۔ اس جمہوری دَورمیں دنیاوی لیڈر عوام کو خدا سمجھ کر ان کی خواہشات کے مطابق بیان دیتے ہیں اور ان ہی کے مطابق پالیسیاں بناتے ہیں۔ اکثر و بیشتر لپٹے لپٹائے اور گول مول الفاظ میں اسلام اور مسلمانو ں کےخلاف عناد کا اظہار تو ہوتا ہی رہتا ہے تاہم گذشتہ دنوں فرانس کے صدر نے کھل کر اسلام کو بحران کا شکار مذہب قرار دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بحران کا شکار ان کا اپنا مذہب ہے۔ اسلام تو زندہ اور پھلنےپھولنےوالا مذہب ہے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعے اس کی تبلیغ دنیا میں چاروں طرف پھیل رہی ہے۔

حضورِانور نے کینیڈا کے وزیرِاعظم کے بیان کا تعریفی رنگ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے فرانس کے صدر کے بیان پر بڑا اچھا بیان دیا ہے کہ یہ سب کچھ غلط ہے اور یہ نہیں ہونا چاہیے۔ تمام لوگوں کے مذہبی جذبات اور مذہبی لیڈروں کا خیال رکھنا چاہیے۔

فرمایا: یہ اسلام مخالف قوتیں اس قسم کی حرکتیں اس لیے کرتی ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں ایکا نہیں ہے۔ ہر ایک ملک فرقہ واریت کا شکار بن کر ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ اگر دنیا کو پتہ ہو کہ مسلمان ایک ہیں اور ایک خدا اور ایک رسول کے ماننے والے ،اسلام کی خاطر قربانیاں دینے والے ہیں تو غیرمسلم دنیا کی طرف سے کبھی ایسی حرکتیں نہ ہوں۔ کبھی کسی اخبار کو آنحضرتﷺ کے خاکے چھاپنے کی جرأت نہ ہو۔ چند سال پہلے بھی جب ڈنمارک اور فرانس میں اس قسم کی مذموم حرکتیں ہوئی تھیں تو مسلمان وقتی شور کرکے، ان ممالک کی اشیاء کے بائیکاٹ کے اعلان کرکے خاموش بیٹھ گئے تھے۔ اس کے برعکس جماعت احمدیہ نے بالکل درست ردِّعمل دکھایا تھا کہ آنحضرتﷺ کی دل کَش سیرت دنیا کے سامنے پیش کی تھی۔ جماعتِ احمدیہ کی اس کاوش کو پڑھے لکھے طبقے اورعوام الناس نے بھی پسند کیا تھا۔ یہی کام ہم آج بھی کر رہے ہیں۔کسی ملک کے صدر کا یہ کام نہیں کہ کسی فرد کے غلط عمل کو اسلام کی تعلیم سے مدغم کرکے اپنے لوگوں کو مزید بھڑکائے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف اُکسائے۔ اُس شخص کو بھڑکانے والے بھی یہ خود ہی تھے۔

حضورِانور نے فرمایا: مَیں نے پہلے بھی بیان دیا تھا کہ آنحضرتﷺ کی توہین کسی بھی غیرت مند مسلمان کو برداشت نہیں۔ اگر ایسی جذبات کو انگیخت کرنے والی حرکات ہوں اور اس وجہ سے کوئی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے تو پھر اس کے ذمہ دار یہ غیر مسلم لوگ ، حکومتیں اور نام نہاد آزادیٔ اظہارِ رائے ہے۔ جب پہلے بھی یہ مسئلہ اٹھا تھا تب بھی مَیں نے خطبات کے ایک سلسلے میں درست ردِّعمل کی وضاحت کی تھی۔ اسی طرح جب ہالینڈ کے سیاست دان نے ایک بیان دیاتھا تب بھی مَیں نے ہالینڈ میں ہی ایک خطبہ دیا تھا۔ اس سیاست دان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا تھا جس پراُس نے ہالینڈ کی حکومت کو درخواست دےدی تھی کہ اس نے مجھے موت کی دھمکی دی ہے۔

ہم قانون کے دائرے میں رہ کر جہاں تک ہوسکتا ہے آنحضرتﷺ کے مقام کے خلاف ہونے والی ہر حرکت کا جواب دیتے ہیں۔ان حالات میں ہمیں پہلے سے بڑھ کرآنحضرتﷺ پر درود بھیجنا چاہیے۔ ایک یادو آدمیوں کا قتل وقتی جوش تو دبا سکتا ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں۔ کورونا وائرس کے ایام میں چند ماہ پہلے مَیں نے فرانس کے صدر سمیت چند سربراہانِ حکومت کوخدا کے عذاب سے متنبہ کرتےہوئے خطوط لکھےتھے۔ دنیا کو بھی سوچنا چاہیے کہ یہ باتیں خداسے دُور کرتے ہوئے ان کی تباہی کا سبب بننے والی ہیں۔ پس دنیا کے عمومی حالات اور امتِ مسلمہ کے لیے بھی دعا کریں۔ ہم نے یہی کوشش کرنی ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لائیں یہی تحریکِ جدید کا بھی مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button