کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

مسلمانوں کی حالت اور سلسلہ میں داخل ہونے کی ضرورت

… حیران ہوتا ہوں کہ کیوں یہ لوگ جو میرا انکار کرتے ہیں ان ضرورتوں پر نظر نہیں کرتے جو اس وقت ایک مصلح کے وجود کی داعی ہیں۔ وہ دیکھیں کہ روئے زمین پر مسلمانوں کی کیا حالت ہے۔ کیا کسی پہلو سے بھی کوئی قابلِ اطمینان صورت دکھائی دیتی ہے۔ شان وشوکت کی حالت تو سلطنت کی صورت میں نظر آسکتی ہے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی سلطنت اس وقت روم کی سلطنت ہے لیکن اس کی حالت کو دیکھ لو وہ بتیس دانتوں میں زبان ہورہی ہے اور آئے دن کسی نہ کسی خرخشہ اور مخمصہ میں مبتلا رہتی ہے۔ علمی حالت کے لحاظ سے سب رو رہے ہیں کہ مسلمان پیچھے رہے ہوئے ہیں اور نِت نئی مجلسیں اور کمیٹیاں قائم ہوتی ہیں کہ مسلمانوںکی علمی حالت کی اصلاح کی جاوے۔ دُنیوی لحاظ سے تو یہ حالت اور دینی پہلو کے لحاظ سے تو بہت ہی گری ہوئی حالت ہے۔ کوئی بدعت اور فعل شنیع نہیں ہے جس کے مرتکب مسلمان نہ پائے جاتے ہوں۔ اعمالِ صالحہ کی بجائے چند رسوم باقی رہ گئی ہیں۔ جیل خانوں میں جاکر دیکھو تو زیادہ مجرم مسلمان دکھائی دیں گے۔ کس کس بات کا ذکر کیا جاوے مسلمانوں کی حالت اس وقت بہت ہی گری ہوئی ہے اور ان پر آفات پر آفات نازل ہورہی ہیں۔

مگر کیا مسلمان ابھی چاہتے ہیں کہ وہ اَور پیسے جاویں۔ اس سے بڑھ کر ان کی ذلیل حالت کیا ہوگی کہ وہ پاک دین جو بے نظیر دولت ان کے پاس تھی اور ایمان جیسی نعمت وہ کھو بیٹھے ہیں۔ اورمسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والے عیسائی ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے اور اسلام کا مضحکہ اُڑاتے ہیں اور یا اگرکھلے طورپر عیسائی نہیں ہوئے تو عیسائیوں کے علوم فلسفہ و طبیعیات سے متأثر ہوکر مذہب کو ایک بےضرورت اور بےفائدہ شے سمجھنے لگ گئے ہیں۔

یہ آفتیں ہیں جو اسلام پر آرہی ہیں۔ اور میں نہایت درداور افسوس سے سنتا ہوں کہ اس پر بھی کہا جاتا ہے کہ کسی مصلح کی ضرورت نہیں حالانکہ زمانہ خود پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اس وقت ضرورت ہے کہ کوئی شخص آوے اور وہ اصلاح کرے۔

میں نہیں سمجھ سکتا کہ خدا تعالیٰ اس وقت کیوں خاموش رہتا جبکہ اُس نے

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ( الحجر: 10)

خود فرمایا ہے۔ اسلام پر ایساخطرناک صدمہ پہنچا ہے کہ ایک ہزار سال قبل تک اس کا نمونہ اور نظیر موجود نہیں ہے۔ یہ شیطان کا آخری حملہ ہے اور وہ اس وقت ساری طاقت اور زور کے ساتھ اسلام کو نابود کرنا چاہتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پورا کیا ہے اور مجھے بھیجا ہے تا میں ہمیشہ کے لیے اس کا سر کُچل دوں۔

سلسلہ میں داخل ہونے کی ضرورت

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ حاجت نہیں ہے ہم نماز روزہ کرتے ہیں وہ جاہل ہیں انہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ سب اعمال ان کے مردہ ہیں اُن میں روح اور جان نہیں اور وہ آنہیں سکتی جب تک وہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کے ساتھ پیوند نہ کریں اور اس سے وہ سیراب کرنے والا پانی حاصل نہ کریں۔ تقویٰ اس وقت کہاں ہے؟ رسم وعادت کے طور پر مومن کہلانا کچھ فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ خدا کو دیکھانہ جائے اور خدا کو دیکھنے کے لیے اَور کوئی راہ نہیں ہے۔

(اس سفر میں حضرت حجۃاللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو کھانسی اور نزلہ کی شکایت تھی۔ یہاں تک پہنچ کر پھر کھانسی کی شکایت ہوئی تواس پر آپ نے فرمایا کہ)

میں چاہتا تھا کہ لوگوں کو کچھ سنائوں مگر کھانسی کی وجہ سے روک ہوتی ہے۔

غرض اس قدر ضرورتیں داعی ہیں کہ ان کے بیان کرنے کے لیے بہت بڑا وقت چاہیے اور پھر اس قدر نشانات ظاہر ہوئے ہیں کہ ان کی بھی ایک بہت بڑی ضخیم کتاب تیار ہوتی ہے میں نے ایک شعر میں ان دونوں باتوں کو جمع کرکے کہا ہے۔

آسماں بارد نشاں الوقت مے گوید زمیں

ایں دوشاہد از پئے تصدیقِ من ایستادہ اند

سلسلہ کی مخالفت

خان عجب خاں صاحب۔ ایک بار میں پادریوں کے اعتراضوں سے بہت ہی تنگ ہوگیا وہ میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ اس وقت میں نے دعا کی کہ اے اللہ! اسلام کو غالب کر۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ وقت اب آگیا ہےمگر مجھے افسوس ہے کہ اس نصرت کے وقت لوگ مخالفت کرتے ہیں۔

حضرت اقدسؑ ۔ یہ بالکل سچ ہے۔ عیسائیوں نے اسلام کو نیست ونابود کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ جس جس طرح سے ان کا قابو چلا انہوں نے اسلام کے شجر پر تبر چلایا ہے، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ آپ اس کا محافظ اور ناصر تھا۔ اس لیے وہ اپنے ارادوں میں مایوس اور نامراد ہوئے۔ اور یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت (جب ایسی حالت ہورہی تھی اور اسلام کی اس قدر مخالفت کی جاتی تھی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے یہ سلسلہ عظمتِ اسلام کو قائم کرنے کے واسطے کھڑا کیا اور اس کی تائید اور نصرت ہر ایک پہلو سے کی ) وہ بجائے اس کے کہ اس سلسلہ کی قدر کرتے اور اس پیاسے کی طرح جس کو ٹھنڈے اور برفاب پانی کا پیالہ مل جاوے شکر کرتے، انہوں نے مخالفت شروع کی اور اسی طریق پر جو ہمیشہ سنّت اللہ چلی آتی ہے ہنسی اور استہزاء سے کام لیا۔ خدا تعالیٰ کے نشانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور ان سے منہ پھیر لیا۔ مجھے ان لوگوں کی حالت پر رحم اور افسوس آتاہے کہ یہ کیوں غور نہیں کرتے اور منہاجِ نبوت پر اس سلسلہ کی سچائی کو نہیں سمجھتے۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 15۔18 ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button