تاریخ احمدیت

1928ء: سیرت النبیﷺ کے بابرکت جلسوں کا انعقاد۔ (قسط دوم۔ آخری)

حضرت مصلح موعودؓ کا مہتم بالشان کارنامہ: منفرد، بین الاقوامی اور بین المذاہب جلسہ سیرت النبیﷺ کی بنیاد

یہ ایسا روح پرور نظارہ تھا جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اور جس کی یاد دیکھنے والوں کے ذہن میں آج بھی تازہ ہے

سیرت النبیﷺ کے موضوع پرکامیاب جلسوں کا روح پرور نظارہ

لیکن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس عظیم الشان مہم کے پیچھے کام کر رہی تھی اس لئے یہ تمام کوششیں اکارت گئیں اور ہندوستان کے عرض و طول میں 17؍جون کو نہایت تزک و احتشام سے یوم سیرت النبیؐ منایا گیا۔ اور نہایت شاندار جلسے منعقد کئے گئے۔ اور ایک ہی سٹیج پر ہر فرقہ کے مسلمانون نے سیرت رسولﷺ پر اپنے دلی جذبات عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے تقریریں کیں۔ چنانچہ متعدد مقامی احمدیوں نے لیکچر دئیے مرکز سے قریباً پچاس کے قریب لیکچرار ملک کے مختلف جلسوں میں شامل ہوئے۔ بعض ممتاز احمدی مقررین کے نام یہ ہیں : حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ، مولوی ابو العطاء صاحب جالندھریؓ۔ مولوی محمد یار صاحب عارفؓ، چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ، حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ، شیخ محمود احمد صاحب عرفانیؓ، قریشی محمد نذیر صاحب ملتانیؓ۔ ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحبؓ نیر۔ حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحبؓ، پروفیسر عبدالقادر صاحب ایم۔ اے اسلامیہ کالج کلکتہ۔ شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور۔ حضرت میر قاسم علی صاحبؓ ایڈیٹر ‘‘فاروق’’ قادیان۔ مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر گورداسپور، مولوی محمد صادق صاحب۔ مولوی کرم داد صاحب دو المیال۔ مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل۔ مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی- قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری، حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ۔ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحبؓ شاہجہانپوری۔ مولوی ابوالبشارت عبدالغفور صاحب مولوی فاضل۔ ڈاکٹر شفیع احمد ایڈیٹر اخبار ‘‘زلزلہ’’ دہلی۔ حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی۔ مولوی ظہور حسین صاحب۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ۔ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم۔ مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر۔ قریشی محمد حنیف صاحب اڑیسہ۔

دوسرے مسلمانوں میں سے تقریر کرنے والوں یا نظم پڑھنے والوں یا صدارت کرنے والوں میں کئی نمایاں شخصیتیں شامل تھیں۔ مثلاً ابوالاثر حفیظ صاحب جالندھری، مولوی مرزا احمد علی صاحب امرت سری، مولوی عبدالمجید صاحب قرشی اسسٹنٹ ایڈیٹر ‘‘تنظیم’’ امرت سر۔ مولوی صبغت اللہ صاحب فرنگی محلی لکھنؤ۔ شاہ سلیمان صاحب پھلواری۔ شمس العلماء سید سبط حسن صاحب۔ سید حبیب صاحب مدیر ‘‘سیاست’’ لاہور۔ مولوی محمد بخش صاحب مسلم بی۔ اے لاہور۔ سید معین الدین صاحب صدر الصدور امور مذہبی سرکار آصفیہ حیدر آباد دکن۔ شیخ عبدالقادر صاحب ایم۔ اے۔ خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی۔ نواب ذوالقدر جنگ بہادر ہوم سیکرٹری ریاست حیدر آباد دکن۔ خان بہادر مخدوم سید صدر الدین صاحب ملتان۔ نواب سر عمر حیات خاں صاحب ٹوانہ۔ نواب صدر یار جنگ ناظم امور مذہبیہ ریاست حیدر آباد۔ خواجہ سجاد حسین صاحب بی۔ اے (خلف شمس العلماء مولوی الطاف حسین صاحب حالی) مسٹر محمود سہروردی صاحب ممبر کونسل آف اسٹیٹ دہلی۔

مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ، عیسائی، جینی اصحاب نے بھی آنحضرتﷺ کی پاکیزہ سیرت، بیش بہا قربانیوں اور عدیم النظیر احسانات کا ذکر کیا۔ اور نہ صرف ان جلسوں میں بخوشی شامل ہوئے بلکہ کئی مقامات پر انہوں نے ان کے انعقاد میں بڑی مدد بھی دی۔ جلسہ گاہ کے لئے اپنے مکانات دئیے، ضروری سامان مہیا کیا، سامعین کی شربت وغیرہ سے خدمت کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑے بڑے معزز اور مشہور لیڈروں نے جلسوں میں شامل ہو کر تقریریں کیں چنانچہ لاہور کے جلسہ میں لالہ بہاری لال صاحب انند ایم اے پروفیسر دیال سنگھ کالج اور لالہ امر ناتھ صاحب چوپڑہ بی۔ اے ایل ایل۔ بی نے دہلی کے جلسہ میں رائے بہادر لالہ پارس داس آنریری مجسٹریٹ اور لالہ گردھاری لال صاحب نے انبالہ میں مشہور کانگریسی لیڈر لالہ دنی چند صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل۔ بی نے تقاریر کیں مسٹر ایس کے بھٹہ چارجی نے سیدپور(بنگال) کے جلسہ کی اور مشہور لیڈر مسٹر ایس جے ہر دیال ناگ نے چاند پور کے جلسوں کی صدارت کی۔ بابو بنکا چندر سین صاحب بابو مکیتار سینا بھوش صاحب، بابو للت موہن صاحبان برہمن بڑیہ کے جلسہ میں شریک ہوئے۔ بنگال کے معزز لیڈر سر پی سی رائے صاحب کلکتہ کے جلسہ کے صدر تھے۔ اور ڈاکٹر ایچ ڈبلیو بی مانرو (یامورنیو)صاحب اینگلو انڈین کمیونٹی کے مشہور لیڈر، بنگال کے لیڈر بابو بپن چندر پال صاحب۔ مشہور بنگالی مقرر مسز نیرا بھردبھا چکراورتی صاحب نے کلکتہ کے جلسہ میں بہت دلچسپ تقریریں کیں۔ رنگپور کے جلسہ میں بدہن رانجھن لاہری ایم۔ اے۔ بی ایل صاحب (مشہور بنگالی لیکچرار) نے ایک فصیح تقریر کی۔ مدراس میں وہاں کے مشہور اخبار جسٹس کے قابل ایڈیٹر صاحب نے جلسہ کی صدارت کی اور نہایت پر زور تقریر کی۔ بانکی پور میں مسٹر پی کے سین صاحب بیرسٹر سابق جج ہائیکورٹ پٹنہ اور بابو بلدیو سہائے صاحب ممبر لیجسلیٹو کونسل نے تقریریں کیں۔ بھاگلپور میں مشہور ہندو لیڈر بابو اننت پرشاد صاحب وکیل نے جلسہ کی صدارت کی۔ امراؤتی میں آنریبل سرجی ایس کھپارڈے صاحب ممبر کونسل آف سٹیٹ کی صدارت میں جلسہ منعقد ہوا۔ بنگلور میں مسٹر کے سیمپت گری راؤ صاحب ایم۔ اے نے تقریر کی۔ حیدر آباد دکن کے جلسہ کے لئے راجہ سر کرشن پرشاد صاحب نے نعتیں بھیجیں، بہاؤنگر کاٹھیا واڑ کے جلسہ میں جناب کیپل رائے صاحب بی۔ اے بی ٹی نے تقریر کی جو کاٹھیا واڑ میں ایک ممتاز علمی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ سینکڑوں غیر مسلم معززین اور غیر مسلم تعلیم یافتہ خواتین بھی جلسوں میں شریک ہوئیں۔ اور دنیا کے سب سے بڑے محسن سب سے بڑے پاکباز اور سب سے بڑے ہمدرد کے متعلق اپنی عقیدت اور اخلاص کا اظہار کیا۔ یہ ایسا روح پرور نظارہ تھا جو اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اور جس کی یاد دیکھنے والوں کے ذہن میں آج بھی تازہ ہے۔

ہندوستان کے علاوہ سماٹرا، آسٹریلیا، سیلون، ماریشس، ایران، عراق، عرب، دمشق(شام)، حیفا، گولڈ کوسٹ(غانا)، نائجیریا، جنجہ، ممباسہ(مشرقی افریقہ) اور لندن میں بھی سیرت النبیﷺ کے جلسے ہوئے۔ اس طرح خدا کے فضل سے عالمگیر پلیٹ فارم سے آنحضرتﷺ کی شان میں محبت و عقیدت کے ترانے گائے گئے اور سپین کے مشہور صوفی حضرت محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی اس پیشگوئی کا ایک پہلو کہ آنحضرتﷺ کے مقام محمود کا ظہور حضرت امام مہدی کے ذریعہ سے ہوگا۔ امام مہدی کے خلیفہ برحق کے زمانہ میں (جس کا نام خدائے ذوالعرش نے محمود رکھا تھا) پوری ہوگئی۔ و لعل اللّٰہ یحدث بعد ذالک امرا۔

(ملاحظہ ہو تفسیر حضرت محی الدین ابن عربی سورۃ بنی اسرائیل۔ زیر آیت عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا)

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ 34تا 36)

جلسوں کی کامیابی پر تبصرے

مجالس سیرت النبیﷺ کی کامیابی ایسے شاندار رنگ میں ہوئی کہ بڑے بڑے لیڈر دنگ رہ گئے اور اخباروں نے اس پر بڑے عمدہ تبصرے شائع کئے۔ اور اس کی غیر معمولی کامیابی پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو مبارکباد دی مثلاً :

1۔ اخبار مشرق گورکھپور (21 جون 1928ء) نے تبصرہ شائع کیا۔

2۔ ‘‘مخبر’’ اودھ نے ‘‘انسان اعظم حضرت رسول اکرمﷺ کی سیرت پر شاندار لیکچر’’ اور ‘‘ہندوستان میں جلسے’’ کے دوہرے عنوان سے ایک مفصل مضمون شائع کیا۔

3۔ کلکتہ کے بنگالی اخبار ‘‘سلطان’’ (21؍جون) نےتبصرہ لکھا۔

4۔ اخبار ‘‘کشمیری’’ لاہور (28؍جون 1928ء) نے ‘‘17؍جون کی شام’’ کے عنوان سے تبصرہ شائع کیا۔

5۔ ‘‘اردو اخبار’’ ناگپور (5؍جولائی 1928ء) نے ‘‘جماعت احمدیہ کی قابل قدر خدمات’’ کی سرخی دے کر نوٹ لکھا۔

6۔ اخبار ‘‘پیشوا’’ دہلی (8؍جولائی 1928ء)نے 17جون کے جلسوں کی کامیابی پر خوشی اور اس کے مخالفین پر افسوس کا اظہار کیا۔

نیز اخبار ہمدم(لکھنؤ)، وکیل (امرت سر)، مشرق (گورکھپور)، کشمیری گزٹ (لاہور)، ‘‘حقیقت، خادم المومنین’’،‘‘منادی’’(دہلی)،‘‘اردواخبار’’(ناگپور)، ‘‘پیشوا’’ اور ‘‘حق’’، ‘‘مخبر’’(اودھ)، ‘‘توحید’’(کراچی) اس کے علاوہ جزوی طور پر غیر مسلم اخبارات نے بھی جلسہ کی رپورٹیں شائع کیں۔ مثلاً اخبار ‘‘دی انگلش مین’’(کلکتہ)، ‘‘دی امرت بازار پترکا’’(کلکتہ)، ‘‘انقلاب’’(لاہور)، ‘‘سیاست’’(لاہور)، ‘‘تنظیم’’، (امرت سر)۔ مقدم الذکر دو اخبارات نے تو جلسوں کے انعقاد سے قبل اس کی افادیت و اہمیت پر زور دار نوٹ بھی لکھے۔

(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الفضل 17؍جولائی 1928ء)

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ 36تا 40)

جلسوں کے عظیم الشان فوائد

سیرت النبیﷺ کے جلسوں نے ملک کے عرض و طول میں اتحاد و اتفاق اور محبت و آشتی کی ایک نئی روح پھونک دی اور اس سے ملک کو کئی فوائد حاصل ہوئے۔ چنانچہ

پہلا فائدہ : یہ ہوا کہ ہندوستان کے مختلف گوشوں کے ہزار ہا افراد نے وہ لٹریچر پڑھا جو آنحضرتﷺ کے مقدس حالات پر شائع کیا گیا تھا۔

دوسرا فائدہ : یہ ہوا کہ ممتاز غیر مسلموں نے جن میں ہندو سکھ عیسائی سب شامل تھے آنحضرتﷺ کی خوبیوں کا علی الاعلان اقرار کیا۔ اور آپﷺ کو محسن اعظم تسلیم کیا۔

تیسرا فائدہ:یہ ہوا کہ بعض ہندو لیڈروں نے آنحضرتﷺ کی صرف تعریف و توصیف ہی نہیں کی۔ بلکہ ان پر آپﷺ کے حالات سن کر اتنا اثر ہوا۔ کہ انہوں نے کہا ہم آپ کو نہ صرف خدا کا پیارا سمجھتے ہیں بلکہ سب سے بڑھ کر اعلیٰ انسان یقین کرتے ہیں کیونکہ آپ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ محفوظ ہے مگر دوسرے مذہبی راہنماؤں کی زندگی کا کوئی پتہ نہیں لگتا۔

چوتھا فائدہ : یہ ہوا کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو ایک مشترک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقعہ مل گیا اور ہر فرقہ کے لوگوں نے نہایت اخلاص اور جوش سے متحدہ طور پر ان جلسوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ خصوصاً شیعہ اصحاب نے ہر جگہ اور ہر مقام پر جس طرح اتحاد عمل کا ثبوت دیا۔ وہ نہایت ہی قابل تعریف تھا۔ اہلسنت و الجماعت مسلمانوں نے بھی حتی الامکان پوری امداد دی اہلحدیث نے بھی ان کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ سنی علماء میں سے فرنگی محل لکھنؤ کے علماء خاص طور پر قابل ذکر تھے۔ اگرچہ بعض مقامات پر بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے مخالفت بھی ہوئی۔ لیکن اکثر مسلمانوں نے بہت شاندار خدمات سر انجام دیں۔ اور بعض جگہ تو ان کی مساعی اس قدر بڑھی ہوئی تھیں کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں انہوں نے احمدیوں سے بھی زیادہ کام کیا۔ مثلاً امرت سر، لکھنؤ، مدراس، پٹنہ وغیرہ مقامات میں دوسرے فرقوں کے مسلمانوں نے جلسوں کو کامیاب بنانے میں نہایت قابل تعریف کام کیا۔ اور دہلی لاہور اور پشاور وغیرہ مقامات میں بھی بڑی امداد دی۔

پانچواں فائدہ : یہ ہوا کہ پبلک پر یہ بات کھل گئی کہ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ بانی اسلام کے خلاف ناپاک لٹریچر کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور بانی اسلام کو دنیا کا بہت بڑا مصلح تسلیم کرتا ہے۔

چھٹا فائدہ : یہ ہوا کہ بعض مقامات کے لوگوں نے لیکچروں کو اتنا مفید اور موثر پایا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ پندرہ روزہ یا ماہوار یا سہ ماہی یا ششماہی ایسے جلسے ہوا کریں۔ ایک جگہ ایک مسلمان رئیس نے کہا کہ آج تک ہم مسلمانوں کا ایمان رسول اللہﷺ کی نسبت ورثہ کا تھا اب آپﷺ کے حالات زندگی سن کر ایمان کامل حاصل ہوا۔ بعض غیر مسلم اصحاب نے بھی کہا کہ ‘‘ہمیں علم نہ تھا کہ بانی اسلام میں ایسے کمالات ہیں اب معلوم ہوا ہے کہ وہ بے نظیر انسان تھے’’۔

ساتواں فائدہ : ان جلسوں کا یہ ہوا کہ اس سے ملکی اتحاد پر نہایت خوشگوار اثر پڑا۔ اور یہ ایسی واضح حقیقت تھی کہ بعض مشہور مسلم و غیر مسلم لیڈروں نے اس کا اقرار کیا۔ چنانچہ سر شیخ عبدالقادر صاحب نے لاہور کے جلسہ کی صدارتی تقریر میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا حاضرین کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔ ‘‘یہ مبارک تحریک نہایت مفید ہے جس سے ہندوستان کی مختلف اقوام میں رواداری پیدا ہو کر باہمی دوستانہ تعلقات پیدا ہوں گے اور ملک میں امن و اتحاد پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے’’۔ کلکتہ میں سر پی سی رائے صاحب نے بحیثیت صدر تقریر کرتے ہوئے کہا ‘‘ایسے جلسے جیسا کہ یہ جلسہ ہے ہندوستان کی مختلف اقوام میں محبت اور اتحاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں ’’۔ اسی طرح اینگلو انڈین کمیونٹی کے مشہور لیڈر ڈاکٹر ایچ بی مانروا صاحب نے کہا۔ ‘‘میں نے باوجود اپنی بے حد مصروفیتوں کے اس جلسہ میں آنا ضروری سمجھا کیونکہ اس قسم کے جلسے ہی اس اہم سوال کو جو اس وقت ہندوستان کے سامنے ہے (یعنی ملک کی مختلف اقوام میں اتحاد) صحیح طور پر حل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں اور اسلام میں متحد کرنے کی طاقت ایک تاریخی بات ہے غرضیکہ ہندو مسلم اور عیسائی لیڈروں نے تسلیم کیا کہ اقوام ہند میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے جلسے نہایت مفید ہیں۔ ’’

(ماخوذ از مضمون حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اےؓ مطبوعہ الفضل 24؍جولائی 1928ء صفحہ4-5)

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ 41تا42)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button