سیرت النبی ﷺ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں جنت نظیر معاشرے کا قیام (قسط دوم۔ آخری)

(سیدہ منورہ سلطانہ۔ جرمنی)

بچوں سے محبت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاکیزہ اسوے پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کے لیے خدا سے مددطلب کرنی چاہیے اور ہمیشہ قطرہ قطرہ نیکی کی باتیں ان کے کانوں میں ڈالتے رہنا چاہیے۔ بعض بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن جب بچپن سے پیار محبت کے ساتھ بچوں کے کانوں میں پڑتی رہیں تو بچوں کی تربیت کے نتیجہ میں گھر کے سکون کا ذریعہ بن سکتی ہیں، وہ سکون جس کی تلاش میں آج معاشرہ گھر سے باہر نکل گیا ہے۔ اور بے سکونی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی اکثریت یہ سوچ رکھتی ہے اور ان کو یہ توجہ ہے یا کم از کم فکر ہے کہ کس طرح اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے ہماری سوچیں اس زمانے میں جبکہ دنیا کی خواہشات نے ہر ایک کو گھیرا ہوا ہے، یہ ہیں کہ ہم اپنی اولاد کے لئےصرف دنیا کی فکر نہیں کرتے بلکہ دین کی بہتری کا بھی خیال پیدا ہوتا رہتا ہے…منفی سوچ کی ایک فکر انگیز مثال گزشتہ دنوں ایک خط میں میرے سامنے آئی جب ایک شخص نے لکھا کہ آج کل کی دنیا میں پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ غیر اخلاقی سرگرمیوں کی انتہا ہوئی ہوئی ہے۔ منشیات کی نئی نئی قسمیں اور ان کا استعمال عام ہو رہا ہے۔ معاشرے کی عمومی بے راہ روی بڑھتی چلی جارہی ہے لکھنے والا کہتا ہے کہ اس وجہ سے میں نے سوچا کہ شادی تو بیشک کروں یا شادی ہوئی ہوئی ہے تو بہتر یہی ہے کہ بے اولاد رہوں۔ اولادنہ ہو۔ یہ انتہائی مایوس کن سوچ ہے…

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک بڑی جامع دعا بیان فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو شیطان کے حملوں سے بچنا چاہتے ہیں اور بچتے ہیں، جو رحمان خدا کے بندے بننا چاہتے ہیں ان کی جو بعض خصوصیات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ یہ دعا کرتے ہیں کہ

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (الفرقان:75)

کہ اے ہمارے ربّ ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍ جولائی 2017ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍جولائی2017ءصفحہ25تا27)

پھر آپؐ نے فرمایاکہ

اَکْرِمُوْااَوْلَادَکُمْ وَاَحْسِنُوْااَدَبَھُمْ

یعنی بچوں سے عزت سے پیش آؤ اوران کی تربیت کرتے ہوئے ان کی عزت نفس کاخیال رکھو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہؓ جب حضورؐ سے ملنے کے لیے آتیں تو حضور کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے۔ ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔

(سنن ترمذی کتاب المناقب باب مناقب فاطمہ)

حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا منہ بولا بیٹا زیدؓ تھا جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے ۔یہ ایک غلام تھا اور عربوں میں غلام کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔یہ طبقہ بہت ہی مظلوم و مقہور تھا۔ مالک جو چاہتا اس سے سلوک کرتا۔ حالت مویشیوں سے بھی بدتر تھی۔ حضورؐ نہ صرف زید کو بہت عزیز رکھتے تھے بلکہ ان کے بیٹے اسامہ سے بھی بہت پیار کرتے اوراپنے بچوں کی طرح اسے رکھتے۔ حضورؐ اپنے نواسے حسین کو ایک زانو پر بٹھالیتے اور اسامہ کو دوسرے پر اور دونوں کو سینہ سے لگا کر بھینچتے اور فرماتے اللہ میں ان سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کیجیو۔ حضرت اُسامہ کا ناک خود صاف کرتے۔

(صحیح بخاری کتاب المناقب باب الحسن والحسین۔ سنن ترمذی کتاب المناقب باب مناقب اسامہ)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابی حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم ظہر یا عصر کی نماز کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انتظار مسجد نبوی میں کر رہے تھے۔ حضرت بلالؓ حضورؐ کو نماز کی اطلاع دے کر نماز کے لیے آنے کے لیے عرض کر چکے تھے لیکن دیر ہورہی تھی اور ہم انتظار میں بیٹھے تھے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے اس طرح کہ حضورؐ نے ابوالعاص سے حضرت زینبؓ کی بچی امامہ کو اپنی گردن پر اٹھایا ہوا تھا۔ حضورؐ اسی طرح امامہ کو اٹھائے ہوئے آگے بڑھے اور اپنی نماز کی جگہ پہنچ کر کھڑے ہوگئے۔ ہم بھی حضورؐ کے پیچھے کھڑے ہوگئے لیکن امامہ اسی طرح حضورؐ کی گردن پر بیٹھی رہی اور اسی حالت میں حضورؐ نے تکبیر کہی اور ہم نے بھی تکبیر کہی۔ حضورؐ نے امامہ کو اٹھائے ہوئے قیام کیا اور جب رکوع کرنے لگے تو انہیں گردن سے اتار کر نیچے بٹھا دیا پھر رکوع کیا اور سجدے کیے۔ جب سجدوں سے فارغ ہو کر قیام کے لیے کھڑے ہونے لگے تو امامہ کو اٹھا کر پھر اپنی گردن پر بٹھالیا اور حضورؐ ساری نماز میں اسی طرح کرتے رہے۔ رکوع کرنے سے پہلے اتار دیتے اور سجدوں کے بعد قیام کے وقت اٹھالیتے یہاں تک کہ حضورؐ نماز سے فارغ ہوگئے۔

(سنن ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب العمل فی الصلوٰۃ)

اہل خانہ کی تربیت کا خیال

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔

(التحریم : 7)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چھ ماہ تک فجر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے حضرت فاطمہؓ کے دروازے کے پاس سے یہ فرما کر گزرتے رہے کہ اے اہل بیت! نما ز کا وقت ہو گیا ہے۔ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمایا کرتے تھے کہ

اِنَّمَا یُرِیْدُاللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا (الاحزاب:34)

کہ اے اہل بیت ! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے۔

(ترمذی -کتاب التفسیر -باب ومن سورۃ الاحزاب)

ایک اَور حدیث میں اسی طرح نصیحت کرنے کا ذکر آتا ہے اور اس سے آپؐ کے نصیحت کے رنگ اور وصف کا پتہ لگتا ہے۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رات کو ہمارے گھر تشریف لائے۔ اور مجھے اور فاطمہ کو تہجد کے لیے بیدار کیا۔ پھر آپؐ اپنے گھر تشریف لے گئے اور کچھ دیر نوافل ادا کیے۔ اس دوران ہمارے اٹھنے کی کوئی آہٹ وغیرہ محسوس نہ کی تو دوبارہ تشریف لائے اور ہمیں جگایا اور فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور کہا خدا کی قسم! جو نماز ہمارے لیے مقدر ہے ہم وہی پڑھ سکتے ہیں۔ ہماری جانیں اللہ کے قبضے میں ہیں وہ جب چاہے ہمیں اٹھا دے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹے۔ آپؐ نے تعجب سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے میرا ہی فقرہ دہرایا کہ ہم کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے اس کے جو ہمارے لیے مقدر ہے پھر یہ آیت تلاوت کی کہ

وَ کَانَ الْاِنْسَانُ اَکۡثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا (الکہف:55)

کہ انسان اکثر باتوں میں بحث کرنے والا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل۔ جلد 1صفحہ91 مطبوعہ بیروت)

آپؐ ڈانٹ بھی سکتے تھے، سرزنش بھی کر سکتے تھے لیکن بڑے آرام سے نصیحت فرمائی۔ یہ بھی بچوں کو سمجھا دیا کہ یہ تو مَیں سمجھاتا رہوں گا بتاتا رہوں گا، بلاتا رہوں گا، میرا کام نصیحت کرنا ہے اور یہ جو تم نے بات کی ہے یہ غلط ہے۔ انسان کی بہت بحث کرنے کی عادت اچھی نہیں۔ بحث کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 19 اگست 2005ء)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو اپنی بیویوں اور بچوں اورصحابہ کے اعلیٰ اخلاق دیکھنا چاہتے تھے۔اس کاذکرکرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقع پرفرمایا:

’’حضرت عائشہؓ سےروایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں چھوٹے قد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذاق کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کو صفیہ کے بارے میں یہ باتیں ہی کافی ہیں۔ ان کے چھوٹے قد پر طنز کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ اگر یہ سمندر میں ملا دیا جائے تو اس کو بھی مکدّر کر دے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب – باب فی الغیبۃ)‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ اگست 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍ستمبر2005ءصفحہ6)

سادگی اور قناعت اختیار کرنے کی نصیحت

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف ہو گئی اور ان دنو ں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضورؐ کے پاس گئیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو وہاں نہ پایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملیں اور آنے کی وجہ بتائی۔ جب حضورؐ باہر سے تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کا ذکر کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آئے، رات کا وقت تھا، کہتے ہیں کہ ہم بستروں پرلیٹ چکے تھے تو حضورؐ کے تشریف لانے پر ہم اٹھنے لگے تو آپؐ نے فرمایا نہیں لیٹے رہو۔ پھر آپؐ ہمارے درمیان تشریف فرما ہوئے۔ کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ حضور کے قدموں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہارے سوال سے بہتر چیز نہ بتاؤں ؟ جب تم بستروں پر لیٹنے لگو تو 34دفعہ اللہ اکبر کہو، 33بار سبحان اللہ اور 33بار الحمدللہ کہو۔ یہ تمہارے لیے نوکر سے بہتر ہے، ملازمین رکھنے سے بہتر ہے۔

(مسلم -کتاب الذکر -باب التسبیح اول النھاروعند النوم)

…تمہاری بھلائی کے لیے یہ میں کہتا ہوں کہ ان دنیاوی آسائشوں پر نظر نہ رکھو بلکہ سادگی اور قناعت کو اختیار کرو۔ تمہارے ہاتھوں کے یہ زخم اللہ تعالیٰ کو پیارے ہیں۔ اللہ کے فضلوں کو مزید سمیٹنے کے لیے اس طرح سادہ زندگی بسر کرو، اپنے کام کو ہاتھ سے کرو اور اس کے ساتھ ساتھ تکبیر، تسبیح اور تحمید جو بتائی ہے وہ کرو۔ یہ زیادہ بہتر ہے اور اللہ کا قرب دلانے والی چیز ہے اُس کی نسبت جس کا تم مطالبہ کر رہی ہو یعنی ایک غلام کا…آپ ہر قسم کے اسوہ کی مثالیں اپنی ذات اور اپنے گھر سے قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے آپؐ نے فرمایا کہ یہ چیزیں اپنے لیے نہ لو بلکہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور عبادت کی طرف تمہیں نظر رکھنی چاہیے۔ اور وہی دنیا و آخرت میں تمہارا بہترین سرمایہ ہو گی۔

(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ12؍ اگست 2005ء )

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اولاد سادگی سے زندگی بسر کرنے والی ہواور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والی ہو عبادت کرنے والی ہوا ور اس میں معیار حاصل کرنے والی ہو۔ دنیا کی چیزوں سے انہیں کوئی رغبت نہ ہو۔ لیکن یہ بات پیدا کرنے کے لئے آپؐ نے کبھی سختی نہیں کی۔ یا تو آرام سے سمجھاتے تھے یا اپنے رویّے سے اس طرح ظاہر کرتے تھے کہ ان کو خود ہی احساس ہو جائے۔ چنانچہ اس ضمن میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ثعبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب کسی سفر پر جاتے تو سب سے آخر پر اپنے گھر والوں میں سے حضرت فاطمہؓ سے ملتے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے۔ ایک مرتبہ جب آپؐ ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو حضرت فاطمہ کے ہاں گئے۔ جب دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ دروازے پر ایک پردہ لٹکا ہوا تھا اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما نے چاندی کے دو کڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپؐ کے بڑے لاڈلے نواسے تھے۔ جب آپؐ نے یہ دیکھا آپؐ گھر میں داخل نہ ہوئے۔ بلکہ واپس تشریف لے گئے۔ حضرت فاطمہؓ بھانپ گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ان چیزوں نے گھر میں داخل ہونے سے روکا ہے۔ اس پر حضرت فاطمہؓ نے پردہ پھاڑ دیا اور بچوں کے کڑے لے کر توڑ دئیے۔ اور اس کے بعد دونوں بچے روتے ہوئے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس گئے۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان میں سے ایک بچے کو اٹھایا اور راوی کہتے ہیں کہ مجھے ارشاد فرمایا کہ اس کے ساتھ مدینہ میں فلاں کے ہاں جاؤ اور فاطمہ کے لئے ایک ہار اور ہاتھی دانت کے بنے ہوئے دو کنگن لے آؤ اور پھر فرمایاکہ مَیں اپنے اہل خانہ کے لئے پسند نہیں کرتا کہ وہ اس دنیا میں ہی تمام آسائش اور آسانیاں حاصل کر لیں۔

(سنن ابی داؤد۔ کتاب الترجیل۔ باب فی الانتفاع بالعاج) ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ اگست 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍ستمبر2005ءصفحہ6)

ایک حدیث ہےکہ حضرت زہیرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

انصاف کرنے والے خدائے رحمٰن کے داہنے ہاتھ نور کے منبروں پر ہوں گے۔ (اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ ہی داہنے شمار ہوں گے۔ ) تو یہ لوگ اپنے فیصلے اور اپنے اہل و عیال میں اور جس کے بھی وہ نگران بنائے جاتے ہیں عدل کرتے ہیں۔

(مسلم کتاب الامارۃ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’مردوں کو اس حدیث کے مطابق ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ پانا ہے، اللہ تعالیٰ کے نور کے حقدار بننا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔ بچوں کی تربیت کا حق ادا کرنا ہو گا، ان میں دلچسپی لینی ہو گی، ان کو معاشرے کا ایک قابل قدر حصہ بنانا ہو گا۔ اگر نہیں تو پھر ظلم کر رہے ہو گے۔ انصاف والی تو کوئی چیز تمہارے اندر نہیں۔ بعض لوگ یہاں انگلستان، جرمنی اور یورپ کے بعض ملکوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، معاشرے میں، دوستوں میں بلکہ جماعت کے عہدیداروں کی نظر میں بھی بظاہر بڑے مخلص اور نیک بنے ہوتے ہیں۔ لیکن بیوی بچوں کو پاکستان میں چھوڑا ہوا ہے اور علم ہی نہیں کہ ان بیچاروں کا کس طرح گزارا ہو رہا ہے، یا بعض لوگوں نے یہاں بھی اپنی فیملیوں کو چھوڑا ہوا ہے…ایسے مردوں کو خوف خدا کرناچاہئے۔ احمدی ہونے کے بعدیہ باتیں زیب نہیں دیتی ہیں اور نہ ہی نظام جماعت کے علم میں آنے کے بعد ایسی حرکتیں قابل برداشت ہو سکتی ہیں یہ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ ہمیں بہرحال اس تعلیم پر عمل کرناہو گا جو اسلام نے ہمیں دی اور اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نکھار کر وضاحت سے ہمارے سامنے پیش کی۔ ایک حدیث ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا شخص وہ ہے جو اُن میں سے سب سےبہتر اخلاق کا مالک ہےاور تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں سے بہترین سلوک کرنے والے ہیں۔ ‘‘

(ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ علی زوجھا)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام(مردوں کے لئے) فرماتے ہیں : ’’دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان

عَاشِرُوْاھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ

کے حکم سے ہی کر سکتا ہے۔ ‘‘

(بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 2صفحہ216)

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍مارچ2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍مارچ 2004ء)

وقت پر گھر آنے کی ہدایت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے، جس کے لیے اُسے سفر کرنا پڑا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہوئے جلد گھر واپس آجائے۔

(صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر باب السرعۃ فی السیر حدیث3001)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’… ایک شادی شدہ مرد کے لئے قریبی رشتہ دار اس کے بیوی بچے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ عورتیں بعض گھروں میں اکیلی بیٹھی رہتی ہیں۔ بیاہ کر نئی لڑکیاں یہاں آئی ہیں، ان ملکوں میں کوئی واقف نہیں ہے، گھر میں بند پڑی ہیں اور ان ملکوں کے موسم بھی ایسے ہیں اس لئے بعض دفعہ ڈیپریشن کا شکار بھی ہو جاتی ہیں اور مرد کام کے بعد اپنے دوستوں میں بیٹھے گپیں مارتے رہتے ہیں۔ تو یہ حق بھی عورت کا آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قائم فرمایا۔ مردوں کو نصیحت فرمائی کہ عورتوں کو ان کا حق دو۔ رشتہ داروں کو ان کا حق دو۔ بچوں کو ان کا حق دو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے اس حرکت کو ناپسند فرمایا ہے کہ بیٹھ کے پھر بعد میں گپیں ماری جائیں اور عورت کو چھوڑ دیا جائے۔ ‘‘

(جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 26؍جولائی 2008ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍اپریل 2011ء)

مردوں کے نامناسب رویوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’بعض ایسی شکایات بھی آتی ہیں کہ ایک شخص گھر میں کرسی پہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے، پیاس لگی تو بیوی کو آواز دی کہ فریج میں سے پانی یا جوس نکال کر مجھے پلا دو۔ حالانکہ قریب ہی فریج پڑا ہوا ہے خود نکال کر پی سکتے ہیں اور اگر بیوی بیچاری اپنے کام کی وجہ سے یا مصروفیت کی وجہ سے یا کسی وجہ سے لیٹ ہو گئی تو پھر اس پر گرجنا، برسنا شروع کر دیا۔ تو ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور دوسری طرف عمل کیا ہے، ادنیٰ سے اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کرتےاور کئی ایسی مثالیں آتی ہیں جو پوچھو تو جواب ہوتا ہے کہ ہمیں تو قرآن میں اجازت ہے عورت کو سرزنش کرنے کی۔ تو واضح ہو کہ قرآن میں اس طرح کی کوئی ایسی اجازت نہیں ہے۔ اس طرح آپ اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے قرآن کو بدنام نہ کریں۔

گھریلو زندگی کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی گواہی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم، عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے، آپ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی، ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ نیز آپؓ فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھا یا نہ کبھی خادم کو مارا۔ خادم کو بھی کبھی کچھ نہیں کہا۔ ‘‘

(شمائل ترمذی باب ما جاء فی خلق رسول اللہﷺ )

…تو یاد رکھیں کہ بحیثیت گھر کے سربراہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر بھی نظر رکھے، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرے، انہیں بھی وقت دے ان کے ساتھ بھی کچھ وقت صرف کرے چاہے ہفتہ کے دو دن ہی ہوں، ویک اینڈ ز پر جو ہوتے ہیں۔ انہیں مسجد سے جوڑے، انہیں جماعتی پروگراموں میں لائے، ان کے ساتھ تفریحی پروگرام بنائے، ان کی دلچسپیوں میں حصہ لے تاکہ وہ اپنے مسائل ایک دوست کی طرح آپ کے ساتھ بانٹ سکیں۔ بیوی سے اس کے مسائل اور بچوں کے مسائل کے بارے میں پوچھیں، ان کے حل کرنے کی کوشش کریں۔ پھر ایک سربراہ کی حیثیت آپ کومل سکتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی جگہ کے سربراہ کو اگر اپنے دائرہ اختیار میں اپنے رہنے والوں کے مسائل کا علم نہیں تو وہ تو کامیاب سربراہ نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے بہترین نگران وہی ہے جو اپنے ماحول کے مسائل کو بھی جانتا ہو۔ یہ قابل فکر بات ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے اپنی نگرانی کے دائرے سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں یا آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اپنی دنیا میں مست رہ کر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو مومن کو، ایک احمدی کو ان باتوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہئے۔ مومن کے لئے تو یہ حکم ہے کہ دنیا داری کی باتیں تو الگ رہیں، دین کی خاطر بھی اگر تمہاری مصروفیات ایسی ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے تم نے مستقلاً اپنا یہ معمول بنا لیا ہے، یہ روٹین بنا لی ہے کہ اپنے گردو پیش کی خبر ہی نہیں رکھتے، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے ملنے والوں کے حقوق ادا نہیں کرتے، اپنے معاشرے کی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے تو یہ بھی غلط ہے۔ اس طرح تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ معیار حاصل کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو۔

جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عبداللہ! جو مجھے بتایا گیا ہے کیا یہ درست ہے کہ تم دن بھر روزے رکھے رہتے ہو اور رات بھر قیام کرتے ہو یعنی نمازیں پڑھتے رہتے ہو، اس پر میں نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ۔ تو پھر آپؐ نے فرمایا ایسا نہ کرو کبھی روزہ رکھو کبھی چھوڑ دو، رات کو قیام کرو اور سو بھی جایا کرو۔ کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری زیارت کو آنے والے کا بھی تم پر حق ہے۔

(بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم)

…آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے زیادہ مصروف اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے زیادہ عبادت گزار کون ہو سکتا ہے۔ لیکن دیکھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسوہ کیا ہے کتنی زیادہ گھریلو معاملات میں دلچسپی ہے کہ گھر کے کام کاج بھی کر رہے ہیں اور دوسری مصروفیات میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہت اچھا رہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ:میں تم سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔ (ترمذی کتاب المناقب)ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہم اس خوبصورت نمونہ پر، اس اسوہ پر عمل کرتے ہیں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍جولائی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16جولائی 2004ء)

سادہ گھریلو زندگی

کہتے ہیں کسریٰ شا ہ ایران نے اپنے ا یا م کی تقسیم اس طرح کر ر کھی تھی کہ جس دن با د بہا ر چلے وہ سو نے کےلیے مقر ر ہو تا تھا، ابر آلو دمو سم شکا ر کےلیے مختص تھا، بر سات کے دن رنگ و طر ب اور شراب کی محفلیں سجتی تھیں اور جب مطلع صا ف ہو تا اور دن روشن تو در با رشا ہی لگا یا جا تااور عوام و خوا ص کو اذن باریابی ہو تا۔ ظا ہر ہے یہ تو ان ا ہل د نیاکا حا ل ہے جو آخرت سے غا فل ہیں۔ مگر ہما رے آقا و مو لا حضر ت محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ہر حا ل میں عسر یا یُسرا پنے دن کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ دن کا ایک حصہ عبا دت الٰہی کے لیے، ایک حصہ اہل خا نہ کے لیے اورایک حصہ اپنی ذا تی ضروریا ت کے لیے مقرر تھا۔ پھر اپنی ذات کے لیے مقر رحصہ میں سے بھی ایک بڑا حصہ بنی نو ع انسان کی خد مت میں صر ف ہو تا تھا۔

(الشفا بتعر یف حقو ق المصطفیٰ للقا ضی عیا ض جلد 1صفحہ174دارالکتاب العر بی بحوالہ ’’اسوۂ انسان کامل‘‘صفحہ3 ایڈیشن 2004ء)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا پینااور خوراک و لباس اتنے سادہ تھے کہ اسراف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھےکہ میں تو عام مزدور سا آدمی ہوں۔ عام انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور اٹھتا بیٹھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی بھی اس پر گواہ تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گھریلو کام کاج میں مدد فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے خود دھو لیتے تھے، گھر میں جھاڑو بھی دے لیا کرتے، خود اونٹ کو باندھتے تھے، اپنے پانی لانے والے جانور اونٹ وغیرہ کو خود چارہ ڈالتے تھے، بکری خو د دوھتے، اپنے ذاتی کام خود کر لیتے تھے۔ خادم کے ساتھ اس کی مدد بھی کرتے، اُس کے ساتھ مِل کر آٹا بھی گوندھ لیتے، بازار سے اپنا سامان خود اٹھا کر لاتے۔

(مسند احمد جلد 6صفحہ49و121مطبوعہ بیروت اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 29 مشکوۃ بحوالہ’’ اسوہ ٔانسان کامل‘‘ صفحہ 746، 747ایڈیشن2004ء)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور اپنے گھر میں کبھی کھانا خودسے نہیں مانگتے تھے نہ ہی اس کی خواہش کرتے تھے۔ اگر گھر والے کھانا دے دیتے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم تناول فرما لیتے اور جو کھانے پینے کی چیز پیش کی جاتی قبول فر ما لیتے۔

(ابن ماجہ کتاب الاقتصادفی الاکل و الاکراھۃ الشبع3340بحوالہ’’اسوۂ انسان کامل‘‘صفحہ 772ایڈیشن 2004ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’سب سے حسین معاشرے کی جنت جو نازل ہوئی وہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نازل ہوئی۔ آپؐ نے بہترین اسوہ ہر آنے والی نسل کے لیے پیچھے چھوڑا۔ خواتین مبارکہ سے آپ کا کیا سلوک تھا، آپ کیسے گھر میں رہتے تھے، کس طرح ان کے حقوق کا خیال رکھتے تھے، کس طرح حقوق سے بڑھ کر ان پر التفات فرمایا کرتے تھے یہ وہ زندہ نمونے ہیں جو دنیا کی نظر سے اوجھل ہو چکے ہیں اور یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ بہت سے احمدی گھروں کی نظر سے بھی اوجھل ہو چکے ہیں۔ ‘‘

(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد 2صفحہ 21)

میاں بیوی ایک دوسرے کی خوبیوں پرنظررکھنے سے ہی خوشگوار اور پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں

حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میاں بیوی کو ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو دوسرے میں عیب نظر آتا ہے یا اس کی کوئی اور ادا ناپسند ہے تو کئی باتیں اس کی پسند بھی ہوں گی جو اچھی بھی لگیں گی۔ تو وہ پسندیدہ باتیں جو ہیں ان کو مدنظر رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرتے ہوئے موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہئے۔ آپس میں صلح و صفائی کی فضا پیدا کرنی چاہئے تو یہ میاں بیوی دونوں کونصیحت ہے کہ اگر دونوں ہی اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھیں تو چھوٹی چھوٹی جو ہر وقت گھروں میں لڑائیاں، چخ چخ ہوتی رہتی ہیں وہ نہ ہوں اور بچے بھی برباد نہ ہوں۔ ذرا ذرا سی بات پر معاملات بعض دفعہ اس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر جاتے ہیں کہ انسان سوچ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ ایسے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں کہ جو کہنے کو تو انسان ہیں مگر جانوروں سے بھی بدتر۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ2؍جولائی2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍جولائی 2004ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں کہ

’’میں اکثر ان جوڑوں کو جو نصیحت کے لیے کہتے ہیں یہ کہا کرتا ہوں کہ ایک دوسرے کے لیےاپنی زبان، کان، آنکھ کا صحیح استعمال کرو تو تمہارے مسائل کبھی پیدا نہیں ہوں گے۔ زبان کا استعمال اگر نرمی اور پیار سے ہو تو کبھی مسائل پیدا نہ ہوں … اگر جھگڑے ختم کرنے کےلیے تھوڑے وقت کے لیے کان بند کر لیے جائیں سارے مسائل وہیں دب سکتے ہیں …ایک دوسرے کی برائیوں کو دیکھنے کے لیے آنکھیں بند رکھو اور ایک دوسرے کی اچھائیوں کو دیکھنے کے لیے اپنی آنکھیں کھلی رکھو۔ ‘‘

(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ برطانیہ 2011ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ

’’پس جب شادی ہو گئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں، نیک سلوک کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں اور اللہ کا تقویٰ اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو گے تو بظاہر نا پسندیدگی، پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے بھلائی اور خیر پا سکتے ہو۔ کیونکہ تمہیں غیب کا علم نہیں اور اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے۔ اور سب قدرتوں کا مالک ہے وہ تمہارے لئے اس میں بھلائی اور خیر پیدا کر دے گا۔ ‘‘

(مشعلِ راہ جلد پنجم حصہ چہارم صفحہ 122تا123، ایڈیشن 2007ء)

عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران

شوہر کی اطاعت اور فرمانبردار ی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین رفیقہ حیات وہ ہے جس کی طرف دیکھنے سے طبیعت خوش ہو۔ مرد جس کام کے کرنے کے لئے کہے اُسے بجا لائے اور جس بات کو اُس کا خاوندنا پسند کرے اُس سے بچے۔

(نسائی بیہقی فی شعب الایمان)

اس بات کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس طرح فرمائی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ

’’عورت پر اپنے خاوند کی فرمانبرداری فرض ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر عورت کو اس کا خاوند کہے کہ یہ ڈھیر اینٹوں کا اٹھا کر وہاں رکھ دے اور جب وہ عورت اس بڑے اینٹوں کے انبار کو دوسری جگہ پر رکھ دے تو پھر اس کا خاوند اس کو کہے کہ پھر اس کو اصل جگہ پر رکھ دے تو اس عورت کو چاہئے کہ چون و چرا نہ کرے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے۔ ‘‘

( ملفوظات جلد 5صفحہ 30)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جہاں بطور گھر کے سربراہ عملاً حسن معاشرت کی دلکش مثال قائم کی وہیں ایک بیوی کو بحیثیت گھر کی نگران ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں اداکرنے کی طرف رہ نمائی فرمائی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیزنے عورتوں کو خصوصیت سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے جہاں وہ اس بات کا خیال رکھے کہ خاوند کے گھر کو کسی قسم کا بھی نقصان نہ ہو۔ کسی قسم کا کوئی مادی نقصان بھی نہ ہواور روحانی نقصان بھی نہ ہو۔ اُس کے پیسے کا بے جا استعمال نہ ہو کیونکہ بے جا استعمال، اسراف جو ہے یہی گھروں میں بے چینیاں پیدا کردیتا ہے۔ عورتوں کے مطالبے بڑھ جاتے ہیں۔ خاوند اگر کمزور اعصاب کا مالک ہے تو ان مطالبوں کو پورا کرنے کے لئے پھر قرض لے کر اپنی عورتوں کے مطالبات پورے کرتا ہےاور بعض دفعہ اس وجہ سے مقروض ہونے کی وجہ سے، اس قرضے کی وجہ سے جب بےسکونی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو فکروں میں مبتلا ہوتا ہےاور اگر اس کی طبیعت صبر کرنے والی بھی ہے تو پھرمریض بن جاتا ہے۔ کوئی شوگر کا مریض بن گیا، کوئی بلڈ پریشر کا مریض بن گیا۔ اگر خاوند نہیں مانتا تو بعض عورتیں اپنے خاوندوں کے رویہ کی وجہ سے شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض بن جاتی ہیں۔ لیکن اگر آپ نگرانی کا صحیح حق ادا کرنے والی ہوں گی تو نہ تو آپ کسی قسم کا مریض بن رہی ہوں گی نہ آپ کے خاوند کسی قسم کے مریض بن رہے ہوں گے۔ اگر کوئی خاوند بے صبرا ہے تو گھر میں ہر وقت توتکار رہتی ہے یہ بھی مریض بنارہی ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں وہی گھر جو جنت کا گہوارہ ہونا چاہئے، جنت نظیر ہونا چاہئے ان لڑائیوں جھگڑوں کی وجہ سے جہنم کا نمونہ پیش کررہا ہوتا ہے۔ پھر بچوں کے ذہنوں پر اس کی وجہ سے علیحدہ اثر ہورہا ہوتا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہورہی ہوتی ہے۔

اس معاشرے میں سچ کہنے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور معاشرہ کیونکہ بالکل آزاد ہے اس لئے بعض بچے ماں باپ کے منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ بجائے ہماری اصلاح کے پہلے اپنی اصلاح کریں۔ تو اس طرح جو عورت خاوند کے گھر کی، اس کے مال اور بچوں کی، نگران بنائی گئی ہے، اپنی خواہشات کی وجہ سے اس گھر کی نگرانی کے بجائے اس کو لٹوانے کا سامان کر رہی ہوتی ہے۔ پس ہر احمدی عورت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی عبادت اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کے لئے اس دنیا میں آئی ہے۔ ‘‘

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون2015ء)

حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں ’’…بیوی کو توجہ دلائی کہ خاوند کے گھر کی، اس کی عزت کی، اس کے مال کی اور اس کی اولاد کی صحیح نگرانی کرے۔ اس کا رہن سہن، رکھ رکھاؤ ایسا ہو کہ کسی کو اس کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہو۔ خاوند کا مال صحیح خرچ ہو۔ بعضوں کو عادت ہوتی ہے بلا وجہ مال لٹاتی رہتی ہیں یا اپنے فیشنوں یا غیر ضروری اشیاء پر خرچ کرتی ہیں ان سے پرہیز کریں۔ بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں ہو کہ انہیں جماعت سے وابستگی اور خلافت سے وابستگی کا احساس ہو۔ اپنی ذمہ داری کا احسا س ہو۔ پڑھائی کا احساس ہو۔ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کا احساس ہو تاکہ خاوند کبھی یہ شکوہ نہ کرے کہ میری بیوی میری غیر حاضری میں (کیونکہ خاوند اکثر اوقات اپنے کاموں کے سلسلہ میں گھروں سے باہر رہتے ہیں ) اپنی ذمہ داریاں صحیح اد انہیں کر رہی اور پھر یہی نہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خاوند کا شکوہ یا زیادہ سے زیادہ اگر سزا بھی دے گاتو یہ تو معمولی بات ہے۔ یہ تو سب یہاں دنیا میں ہو جائیں گی لیکن یاد رکھو تم جزا سزا کے دن بھی پوچھی جاؤ گی اور پھر اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا سلوک ہونا ہے۔ اللہ ہر ایک پہ رحم فرمائے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍اپریل 2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27؍اپریل 2007ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا:

’’ایک دفعہ حضرت علی مرتضیٰؓ گھر تشریف لائے۔ کچھ کھانے کو مانگا کہ کچھ کھانے کو دو حضرت فاطمہؓ سے۔ تو آپؓ نے بتا یا کہ آج تیسرا دن ہے گھر میں جو کا ایک دانہ تک نہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اے فاطمہ! مجھ سے تم نے ذکر کیوں نہیں کیا کہ میں کوئی انتظام کرتا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے باپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ میں کبھی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں۔ یہ نہ ہو کہ آپ کے حالات ایسے ہوں اور میں سوال کروں اور وہ میری خواہش پوری نہ ہو سکے اور اس کی وجہ سے آپ پر بوجھ پڑے یا قرض لے کر پورا کریں یا ویسے دل میں ایک پریشانی پیدا ہو کہ میں اس کی خواہش پوری نہیں کر سکا۔ تو یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر عورت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ ہر اُس عورت کے لئے جو خاوندوں سے ناجائز مطالبات کرتی ہیں۔ ‘‘

(جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 28؍جولائی2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍نومبر 2015ء)

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا:

’’کئی ایسی عورتیں ہیں جو تقویٰ پر چلنے والی ہیں یا تقویٰ کے ساتھ ساتھ عقل سے بھی چلنے والی ہیں، جو باوجود تھوڑی آمد کے اپنے خاوند سے ملنے والی رقم میں سے کچھ نہ کچھ بچا لیتی ہیں اور جمع کرتی جاتی ہیں اور بعض دفعہ مشکل حالات میں خاوند کو دے دیتی ہیں۔ خاوند کو تو نہیں پتہ ہوتا کہ کیا بچت ہو رہی ہے؟ اب وہ اُس کے مال کی اِس طرح غیب میں حفاظت کر رہی ہیں یا اگر اُن کو ضرورت ہے تو خاوند کو بتا کر اُس کا استعمال کر لیتی ہیں۔ اپنی اولاد کی صحیح نگرانی کرتی ہیں اور یہ اولا دکی نگرانی صرف خاوند کی اولاد ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہی ہوتی بلکہ اِس لئے ہو رہی ہوتی ہے اور یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہوتی ہے کہ یہ قوم کی امانت ہیں۔ یہ جماعت کی امانت ہیں۔ ‘‘

( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11؍مارچ 2011ء)

پھر فرمایا :

’’کہ اگر آپ جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ یقینا ًجو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے یہ نیک اعمال کر رہی ہیں اُن کی زندگیوں میں جو سکون اور اطمینان ہے وہ دنیا دار عورتوں کی زندگیوں میں نہیں ہے۔ ایسی عورتوں کے گھروں میں بھی بے سکونی ہے جو دنیا داری والی ہیں۔ لیکن جو دین کو مقدم رکھنے والی ہیں، اُس کی خاطر قربانیاں کرنے والی ہیں، اُنہیں گھروں میں بھی سکون ہے، اور ان کی عائلی زندگی بھی خوش و خرم ہے۔ اُن کے بچے بھی نیکیوں پر قائم ہیں اور جماعت کے ساتھ منسلک ہیں۔ ‘‘

( جلسہ سالانہ جرمنی 2012ءخطاب از مستورات مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍اکتوبر 2012ء)

ازواج مطہرات کا پاک نمونہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نےالٰہی منشاء کے مطابق ایک وقت میں نوشادیاں کیں اور ایک مشکل عائلی زندگی کو نہایت دلکش اور کامیابی سے نبھایا۔ مشکل اس لحاظ سے کہ انسان اگر گھریلو زندگی کی ذمہ داریوں کو تقویٰ سے گزارلے اور اپنی بیوی بچوں کے حقوق جس طرح خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ادا کرے تو یہ ہی اتنا آسان نہیں۔ چہ جائیکہ ایک سے زیادہ بیویاں۔ ازواج مطہرات کی عائلی زندگی میں تقویٰ وطہارت کےا علیٰ نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بہترین تربیت اور حسن معاشرت کا ثبوت ہے۔ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ان سے فرمایا۔ ترجمہ…اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں مالی فائدہ پہنچاؤں۔ اور عمدگی کے ساتھ تمہیں رخصت کروں۔ اور اگر تم اللہ کو چاہتی ہواور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کوتو یقیناًاللہ نے تم میں سےحسن ِعمل کرنے والیوں کے لئے بہت بڑا اجر رکھاہے۔

( سورۃ الاحزاب: 29تا30)

چنانچہ تمام ازواج نے دنیاوی جاہ وحشمت کو چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم کے ساتھ کو منتخب کرنے کو ترجیح دی۔ اور آخرت میں جنتوں کی وارث ٹھہریں۔

غرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ تعلق ایسا پاکیزہ اور بے لوث تھا کہ جواب میں اُن سب کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ایک نیک اور روحانی تعلق بنا ہوا تھا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو ارشاد فرمایا اس پر عمل کرکے بھی دکھایا۔ اور معاشرے کی ہر برائی کا جواب اور حل اپنے خوبصورت اور پاک نمونہ سے دنیا کو دکھایا جس پر عمل کرکے ہم نہ صرف ایک خوبصورت گھریلو زندگی گزار سکتے ہیں بلکہ تمام معاشرے میں امن اور سکون قائم ہوسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بہترین رنگ میں عمل کرتے ہوئے جنت نظیر معاشرہ قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button