سیرت النبی ﷺ

آنحضرتﷺ پر آنے والے 38 قسم کے ابتلاؤں میں پاکیزہ تجلیات (قسط سوم۔ آخری)

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

32۔ بھوک کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قریباً ساری زندگی بھوک کے ابتلا سے دوچار ہونا پڑا۔ اور یہ تین قسم کا ہے۔

1۔ وہ ابتلا جب دشمن نے بھوک و پیاس کے ذریعہ آپ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

2۔ وہ ابتلا جو معاشی حالات کی تنگی کے نتیجہ میں آیا۔

3۔ وہ رضا کارانہ بھوک جو آپ نے انفاق فی سبیل اللہ اور ایثار کرتے ہوئے اختیار کی۔ یعنی سب کچھ راہ خدا میں دے کر خود بھوکے رہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر رنگ میں آنے والے ان ابتلائوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مجھ پر تیس دن ایسے گزرے کہ میرے اور بلال کےلیے کوئی کھانا نہیں تھا جسے کوئی زندہ وجود کھا سکے سوائے معمولی سے کھانے کے جو بلال کی بغل کے نیچے آ سکتا تھا۔

(جامع ترمذی کتاب صفة القیامہ حدیث نمبر2396)

شعب ابی طالب کا ابتلاتین سال جاری رہا۔ جس کی تفاصیل بہت درد ناک ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں سخت بھوک کا شکار تھااورباوجود بعض اشاروں کے صحابہ ان کی کیفیت کو نہ سمجھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی حالت دیکھ کر گھرلے گئے۔ وہاں دودھ کا ایک پیالہ تھا۔ رسول اللہﷺ کو خود بھی کافی بھوک کا سامنا تھا مگر آپ یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ اصحاب صفہ بھوکے رہیں۔ رسول اللہﷺ نے حضرت ابوہریرہؓ سے فرمایا اصحاب صفہ کو بلا لاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا یہ فرمان کہ میں ان کو بلا لاؤں، مجھے ناگوار گزرا کہ ایک پیالہ دودھ ہے یہ اہل صفہ میں کس کس کے کام آئے گا۔ میں اس کا زیادہ ضرورت مند تھا تاکہ پی کر کچھ تقویت حاصل کرتا۔ پھر جب اہل صفہ آجائیں اور مجھے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پلانے کے لیے فرمائیں تو یہ اور بھی برا ہو گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے فرمان کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ میں اہل صفہ کو بلا لایا۔ جب سب آگئے اور اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو رسول اللہﷺ نے مجھے حکم دیا کہ ان کو باری باری پیالہ پکڑاتے جائو (میں نے دل میں خیال کیا مجھ تک تو اب یہ دودھ پہنچنے سے رہا) بہرحال میں پیالہ لے کر ہر آدمی کے پاس جاتا۔ جب وہ سیر ہو جاتا تودوسرے کے پاس، اور جب وہ سیر ہو جاتا تو تیسرے کے پاس، یہاں تک کہ آخر میں مَیں نے پیالہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کہ سب کے سب سیر ہو کر پی چکے ہیں۔ پیالہ میں نے آپ کے ہاتھ پر رکھا۔ آپؐ نے میری طرف دیکھا اور تبسم فرمایا پھر کہا اب تو صرف ہم دونوں رہ گئے ہیں۔ پھر فرمایا کہ بیٹھو اور خوب پیئو۔ جب میں نے بس کیا تو فرمایا۔ ابوہریرہ اور پیئو۔ میں پھر پینے لگا۔ چنانچہ جب بھی میں پیالے سے منہ ہٹاتا تو آپؐ فرماتے۔ ابوہریرہ اور پیئو۔ جب اچھی طرح سیر ہو گیا تو عرض کیا۔ جس ذات نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے اس کی قسم اب تو بالکل گنجائش نہیں چنانچہ میں نے پیالہ آپؐ کو دے دیاآپؐ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر بسم اللہ پڑھ کر دودھ نوش فرمایا۔

(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی حدیث نمبر5971)

اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ایثار غیر معمولی عظمت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ آپ نے حضرت ابوہریرہؓ کو بھی ایثار کا سبق سکھایا اور خود سب سے آخر میں پی کر بتایا کہ آپؐ کو سب سے زیادہ بھوک تھی۔

حضرت مقدادؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو ساتھی بھوک اور فاقوں سے ایسے بدحال ہوئے کہ سماعت وبصارت بھی متاثر ہو گئی۔ ہم نے محتاجی کے اس عالم میں رسول اللہ ؐ کے صحابہؓ سے مدد چاہی مگر کوئی بھی ہمیں مہمان بنا کر پاس نہ رکھ سکا۔ بالآخر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر لے گئے آپؐ کے گھر میں تین بکریاں تھیں آپؐ نے ہمیں فرمایا ان بکریوں کا دودھ دوہ لیا کرو ہم چاروں پی لیا کریں گے۔ چنانچہ یوں گزارہ ہونے لگا ہم تینوں دودھ کا اپنا حصہ پی کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ بچا کر رکھ لیتے تھے آپ رات کو تشریف لاتے پہلے ہلکی آواز میں سلام کرتے کہ سونے والے جاگ نہ جائیں اور جاگنے والا سن لے۔ پھر اپنی جائے نماز پر نماز پڑھ کر اس جگہ آتے جہاں آپ کے حصہ کا دودھ رکھا ہوتا تھا اور دودھ پی لیتے تھے ایک رات شیطان نے میرے دل میں خیال ڈالا کہ دودھ کا اپنا حصہ پی کر میں سو چنے لگا کہ یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھوڑا سا دودھ بچاکر رکھا ہے۔ اس کی آپ کو ضرورت ہی کیا ہے۔ آپ کی خدمت میں تو انصار تحفے پیش کرتے رہتے ہیں۔ اور آپ ان میں سے کھا پی لیتے ہوں گے یہ سوچ کر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا۔ جب اس سے پیٹ خوب بھر چکا اور یقین ہو گیا کہ اب رسول کریمؐ کےلیے کوئی دودھ باقی نہیں رہا تو اپنے کیے پر سخت ندامت کا احساس ہونے لگا کہ تیرا برا ہو تو نے کیا کیاکہ رسول کریمﷺ کا حصہ بھی ہڑپ کر گیا۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے اور حسب معمول جب دودھ اس جگہ نہیں ملے گا تو ضرور تمہارے خلاف کوئی بددعا کریں گے اور تو ایسا ہلاک ہو گا کہ دنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی۔ مقداداپنی اس وقت کی مالی تنگی کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک اوڑھنے کی چادر تھی وہ بھی اتنی مختصر کہ سر ڈھانپتاتو پائوں ننگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھانکتا تو سر ننگا رہتا تھا۔ اب اسی مخمصے اور بے چینی میں میری نیند اڑ گئی تھی جبکہ میرے دونوں ساتھی میٹھی نیند سو رہے تھے کیونکہ وہ میری حرکت میں شامل نہیں تھے۔ اسی اثنا میں رسول کریمﷺ تشریف لائے آپ نے حسب عادت پہلے سلام کیاپھر اپنی جائے نماز پر جاکر نماز پڑھتے رہے پھر اپنے دودھ والے برتن کے پاس آ کر ڈھکنا اٹھایا تو اس میں کچھ نہ پایا۔ ادھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور ادھر مجھے یہ خوف کہ لو اب میرے خلاف بددعا ہوئی اور میں مارا گیا مگر آپ نے جو دعا کی وہ یہ تھی اے اللہ! جو مجھے کھلائے تو اس کو کھلا، جو مجھے پلائے تو خود اس کو پلا… یہ سننا تھا کہ میں فوراً اٹھا چادر اوپر باندھی اور چھری لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ذبح کر کے حضورؐ کو کھلا کر آپ کی دعا کا وارث بنوں۔ جب میں سب سے موٹی بکری کو ذبح کرنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے تھنوں میں دودھ اترا ہوا ہے۔ حالانکہ شام کو دودھ نکالا تھا اور جب باقی بکریوں پہ نظر کی تو سب کا یہی حال دیکھا چنانچہ میں نے ان کو ذبح کرنے کا ارادہ ترک کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دودھ کا برتن لیا اور بکریاں دوبارہ دوہ کر بھر لیا اور لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا آپ نے جب تازہ دودھ دوہا ہوا دیکھا تو خیال ہوا کہ ان بیچاروں نے بھی ابھی تک دودھ نہیں پیا اور پوچھنے لگے کیا تم لوگوں نے آج رات دودھ نہیں پیا۔ میں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ بس آپ پیئیں رسول اللہ نے کچھ دودھ پی کر باقی مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ اب تم پی لو۔ میں نے کہا کہ آپ اور پیئیں رسول اللہ نے اَور پیا اور پھر مجھے دے دیا۔ اب دل کو تسلی ہوئی کہ رسول اللہ بھوکے نہیں رہے خوب سیر ہو چکے ہیں اور یہ خوشی بھی کہ آپ کی دعا کہ اے اللہ! جو مجھے پلائے تو اسے پلا بھی میرے حق میں قبول ہو چکی ہے۔ تورسول اللہ کا حصہ پینے کی اپنی حرکت کو یاد کرکے مجھے اچانک ہنسی چھوٹ گئی اتنی کہ میں لوٹ پوٹ ہو کر زمین پر گر پڑا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا اے مقداد!تجھے کون سی اپنی عجیب حرکت یاد آئی ہے جس پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہو تب میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا قصہ کہہ سنایا کہ اس طرح آپ کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا دعا کا حصہ دار بھی بنا اور دوبارہ دودھ پی لیا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے (قبولیت دعا کے نتیجہ میں ) خاص رحمت کا نزول تھا تم نے اپنے ساتھی کو جگا کر کیوں نہ اس دودھ میں سے پلا کر ان کے حق میں یہ دعا پوری کروائی میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اب مجھے جب اس برکت سے حصہ مل گیا تو مجھے کوئی پروا نہ رہی تھی کہ کوئی اور اس میں حصہ دار بنتا ہے کہ نہیں۔

(مسلم کتاب الاشربہ باب اکرام الضیف و فضل ایثار حدیث نمبر3831)

حضرت ابوبصرہ غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں قبول اسلام سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے میرے لیے بکری کا دودھ پیش کیا جوآپ کے اہل خانہ کے لیے تھا۔ آپ نے مجھے سیر ہو کر وہ دودھ پلایا اور صبح میں نے اسلام قبول کرلیا۔ بعد میں مجھے پتہ لگا کہ آنحضرتؐ کے اہلِ خانہ نے وہ رات بھوکے رہ کر گزاری جبکہ اس سے پچھلی رات بھی بھوکے گزاری تھی۔

(مسند احمد بن حنبل جلد6صفحہ 397حدیث نمبر27269)

جنگ خندق میں جب بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ ہم نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باند ھ رکھے ہیں تو رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر دکھایا کہ اگر تم نے ایک ایک پتھر باندھا ہے تو میں نے دو پتھر باندھ رکھے ہیں۔

(جامع ترمذی کتاب الزھد باب فی معیشة اصحاب النبی حدیث نمبر2293)

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ گھر سے باہر نکلے تو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے عرض کیاکہ بھوک کی وجہ سے باہر نکلے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی اسی وجہ سے نکلا ہوں۔ پھر یہ سب ایک انصاری ابو الھیثم بن تیھان کے ہاں گئے۔ انہوں نے بزرگ ترین مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔

(جامع ترمذی کتاب الزھد باب فی معیشة اصحاب النبی حدیث نمبر2292)

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ بعض اوقات رسول اللہؐ فجر کے بعد گھر تشریف لاتے اور پوچھتے کھانے کو کچھ ہے۔ اگر جواب نہ میں ملتا تو فرماتے اچھا پھر آج روزہ ہی رکھ لیتے ہیں۔ (یعنی بھوکا تو رہنا ہی ہے کیوں نہ اپنی نیت کو خدا کی خاطر مخصوص کرکے ثواب حاصل کر لیں )۔

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب جواز صوم النافلة حدیث نمبر1950)

کئی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پکانے والی کوئی چیز نہ ہوتی جس کی وجہ سے کئی کئی دن آگ نہ جلتی تھی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے ایک دن میں کبھی ایک دفعہ سے زیادہ گوشت روٹی نہیں کھائی۔ ایک روایت میں ہے کہ کبھی آپ کو مسلسل دو دن گندم کی روٹی میسر نہیں ہوئی۔

(جامع ترمذی کتاب الزھد باب فی معیشة النبی حدیث نمبر2279تا2280)

33۔ خوف کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کے خوفوں کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر کوئی خوف آپ کو خوفزدہ اور کوئی حزن محزون نہ کر سکا۔ قرآن کریم جنگ احزاب کے ذکر میں خود ان خوفوں کا نقشہ یوں کھینچتا ہےکہ

اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا۔ ہُنَالِکَ ابۡتُلِیَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ زُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِیۡدًا (الاحزاب:11تا12)

جب وہ تمہارے پاس تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور تمہارے نشیب کی طرف سے بھی آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل (اچھلتے ہوئے)ہنسلیوں تک پہنچے اور تم لوگ اللہ پر طرح طرح کے گمان کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ مومن ابتلا میں ڈالے گئے اور سخت آزمائش کے جھٹکے دیے گئے۔

ا س سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اہل مکہ نے انصار مدینہ کو دھمکیاں دینی شروع کر دی تھیں اور گو ان کو خدا کے وعدوں پر پورا بھروسہ تھا، لیکن فطرتاًوہ سخت خوفزدہ اور پریشان بھی تھے کہ دیکھیے ہمیں کن کن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ خطرات طبعاً دوسرے مسلمانوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زیادہ تھے اور چونکہ ویسے بھی آپ کو سب کی نسبت مسلمانوں کی حفاظت کا زیادہ فکر تھا۔ اس لیے آپؐ سب سے زیادہ محتاط رہتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت آتی ہے کہ

کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اول ما قدم المدینة یسھرمن الیل۔

یعنی جب شروع شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لاتے تو آپ عموماً راتوں کو جاگتے رہتے تھے۔

(فتح الباری شرح بخاری جلد6صفحہ 82)

صحیح بخاری میں ہے کہ ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیر تک جاگتے رہے اور پھر فرمایا کہ اگر اس وقت ہمارے دوستوں میں سے کوئی مناسب آدمی پہرہ دیتا تو میں ذرا سو لیتا۔ اتنے میں ہم نے ہتھیاروں کی جھنکارسنی۔ آپ نے پوچھا کون ہے؟ آواز آئی۔ یا رسول اللہ! میں سعد بن ابی وقاص ہوں۔ میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ پہرہ دوں۔ اس اطمینان کے بعد آپؐ تھوڑی دیر کےلیے سو گئے۔

(صحیح بخاری کتاب التمنی باب قولہ لیت کذا وکذا حدیث نمبر6690)

صحیح مسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ابتدائے ہجرت کا ہے (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فضل سعد)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ان روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فکر اپنی ذات کے متعلق نہ تھابلکہ اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کا فکر تھا اور ان خوف کے ایام میں یہ ضروری خیال فرماتے تھے کہ مدینہ میں رات کے وقت پہرہ کا انتظام رہے چنانچہ اس غرض سے بسااوقات آپ خود رات کو جاگا کرتے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ہوشیار و چوکس رہنے کی تاکید فرماتے تھے اور آپ کا یہ فکر ڈریا بزدلی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ احتیاط اور بیدار مغزی کی بناء پر تھاورنہ آپ کی ذاتی شجاعت او ر مردانگی تو دوست و دشمن میں مسلّم ہے چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک رات مدینہ میں کچھ شور ہوا اور لوگ گھبرا کر گھروں سے نکل آئے اور جس طرف سے شور کی آواز آئی تھی ادھر کا رخ کیا۔ ابھی وہ تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تلوار حمائل کئے ابو طلحہؓ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار واپس تشریف لا رہے تھے۔ جب آپ قریب آئے تو آپ نے صحابہ سے فرمایا۔ ’’ میں دیکھ آیا ہوں کوئی فکر کی بات نہیں، کوئی فکر کی بات نہیں ‘‘ جس پر لوگ واپس آئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس رات بھی آپ جا گ رہے تھے اور جونہی آپ نے شور کی آواز سنی آپ جھٹ ابو طلحہ والے گھوڑے پر سوار ہو کر اس طرف نکل گئے اور لوگوں کے روانہ ہوتے ہوتے پتہ لے کر واپس بھی آ گئے۔

(صحیح بخاری کتاب الجہاد باب اذا فزعوا۔ حدیث نمبر2813)

قریش مکہ کے جن خونی ارادوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ صرف انہی تک محدود نہ تھے بلکہ ہجرت کے بعد سے انہوں نے قبائل عرب میں مسلمانوں کے خلاف ایک باقاعدہ پراپیگنڈہ جاری کر رکھا تھا اور چونکہ کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے ان کا سارے عرب پر ایک گہرا اثر تھا، اس لیے ان کی اس انگیخت سے تمام عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا سخت دشمن ہو رہا تھا۔ قریش کے قافلوں نے تو گویا اپنا یہ فرض قرار دے رکھا تھا کہ جہاں بھی جاتے تھے راستہ میں قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔ چنانچہ قرآن شریف میں قریش کے ان اشتعال انگیز دوروں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بیچارے مسلمان جو اس وقت تک صرف قریش کے خیال سے ہی سہمے جاتے تھے اب بالکل ہی سراسیمہ ہونے لگے۔ چنانچہ … مندرجہ ذیل روایت ان کی اس وقت کی مضطربانہ حالت کا پتہ دیتی ہے:

…’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہؓ ہجرت کر کے مدینہ میں آئے اور انصار نے انہیں پناہ دی تو تمام عرب ایک جان ہو کر ان کے خلا ف اٹھ کھڑا ہوا۔ اس وقت مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ رات کو بھی ہتھیار لگا کر سوتے تھے اور دن کو بھی ہتھیار لگائے رہتے تھے کہ کہیں کوئی اچانک حملہ نہ ہو جاوے اور وہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ دیکھئے ہم اس وقت تک زندہ بھی رہتے ہیں یا نہیں جب ہم رات کو امن کی نیند سو سکیں گے اور سوائے خدا کے ہمیں اور کسی کا ڈر نہ ہوگا۔ ‘‘

(مستدرک حاکم جلد2صفحہ 435حدیث نمبر 3512کتاب التفسیر سورة النور)

قرآن شریف نے جو مخالفین اسلام کے نزدیک بھی اسلامی تاریخ کا سب سے زیادہ مستند ریکارڈ ہے۔ مسلمانوں کی اس حالت کا مندرجہ ذیل الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے:

وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡتُمۡ قَلِیۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰٮکُمۡ وَ اَیَّدَکُمۡ بِنَصۡرِہٖ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ۔ (الانفال:27)

’’یعنی اے مسلمانو! وہ وقت یاد رکھو جبکہ تم ملک میں بہت تھوڑے اور کمزور تھے اورتمہیں ہر وقت یہ خوف لگا رہتا تھا کہ لوگ تمہیں اُچک کر لے جائیں یعنی اچانک حملہ کر کے تمہیں تباہ نہ کردیں مگرخدا نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہاری مدد فرمائی اور تمہارے لئے پاکیزہ نعمتوں کے دروازے کھولے۔ پس تمہیں اب شکر گزار بندے بن کر رہنا چاہئے۔ ‘‘

(سیرت خاتم النبیین صفحہ283تا284)

یہ یقینی بات ہے کہ ان سارے بد ارادوں اور سازشوں کا پہلا اور آخری نشانہ حضرت اقدس محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر آپ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی پژمردہ اور مضمحل نہ ہوئے۔ 11ھ میں آپ کی زندگی کے آخری دور میں مسیلمہ کذاب ایک لشکر کثیر کے ساتھ مدینہ پر چڑھ آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ مجھے اپنے بعد حاکم مقرر کر دیں تو میں آپ کا متبع ہو جاؤں گا۔ آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی۔ آپ نے فرمایا اگر تو مجھ سے یہ بھی مانگے تو نہیں دوں گا اور اگر تو پیٹھ پھیر کر چلا جائے گا تو خدا تیری کونچیں کاٹ دے گا۔

(صحیح بخاری کتاب المغاز ی باب قصہ اسود عنسی حدیث نمبر4028)

34۔ غیر ملکی حکومتوں کی دشمنی کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ کو دعوت اسلام کا خط لکھا تو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کو پھاڑنے پر ہی اکتفا نہیں کی، بلکہ یہودی پراپیگنڈا کے گہرے تاثرات کے ماتحت اس نے اپنے یمن کے گورنر کو جس کا نام باذان تھا ہدایت کی کہ حجاز میں جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کی طرف فوراًدو طاقتور آدمی بھجوا دو تاکہ وہ اسے گرفتار کر کے ہمارے سامنے حاضر کریں اور ایک روایت یہ ہے کہ دو آدمی بھجوا کر اس سے توبہ کراؤاور اگر وہ انکار کرے تو اسے قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ باذان نے اس غرض کےلیے اپنے ایک قہرمان یعنی سیکرٹری کو جس کا نام بانویہ تھا منتخب کیا اور اس کے ساتھ ایک مضبوط سوار مقرر کر کے مدینہ کی طرف بھجوا دیا اور ان کے ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ایک خط بھی بھجوایا کہ آپ فوراً ان لوگوں کے ساتھ کسریٰ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باذان کا خط دے کر بطریق نصیحت سمجھایا کہ بہتر ہے آپ ہمارے ساتھ چلے چلیں ورنہ کسریٰ آپ کے ملک اور قوم کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔ آپ نے ان کی یہ بات سن کر تبسم فرمایا اور جواب میں اسلام کی تبلیغ کی اور پھر فرمایا کہ تم آج رات ٹھہرو میں ان شاء اللہ تمہیں کل جواب دوں گا۔ پھر جب وہ دوسرے دن آپ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا:۔ ابلغا صاحبکما ان ربی قتل ربہ فی ھذہ الیلة۔ یعنی اپنے آقا (والی ٔیمن ) سے جا کر کہہ دو کہ میرے رب یعنی خدائے ذوالجلال نے اس کے رب (یعنی کسریٰ) کو آج رات قتل کر دیا ہے۔ چنانچہ بانویہ اور اس کا ساتھی واپس لوٹ گئے اور باذان کے پاس جا کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا۔ باذان نے کہا جو بات یہ شخص کہتا ہے اگر وہ اسی طرح ہو جائے تو پھر وہ واقعی خدا کا نبی ہوگا۔ چنانچہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ باذان کو خسرو پرویز کے بیٹے شیرویہ کا ایک خط پہنچا جس میں لکھا تھا کہ ’’میں نے ملکی مفاد کے ماتحت اپنے باپ خسرو پرویز کو جس کا رویہ ظالمانہ تھا اور جو اپنے ملک کے شرفاء کو بے دریغ قتل کرتا جا رہا تھا قتل کر دیا ہے۔ پس جب تمہیں میرا یہ خط پہنچے تومیرے نام پر اپنے علاقہ کے لوگوں سے اطاعت کا عہد لو اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے باپ نے تمہیں عرب کے ایک شخص کے متعلق ایک حکم بھیجا تھا اسے اب منسوخ سمجھو اورمیرے دوسرے حکم کا انتظار کرو۔ جب باذان کو نئے کسریٰ شیرویہ بن خسرو کا یہ فرمان پہنچا تو اس نے بے اختیار ہو کر کہا کہ پھر تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی نکلی۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کے برحق رسول ہیں اور میں ان پر ایمان لاتا ہوں چنانچہ اس نے اسی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ (تاریخ طبری جلد2صفحہ 296تاریخ الخمیس جلد2صفحہ 36) رو م کا بادشاہ بھی مسلسل بدامنی پھیلانے میں مصروف تھا 9ھ میں مدینہ میں یہ خبر پہنچی کہ روم کا قیصر ہرقل بھی 40ہزار کی فوج لے کر عرب کی سرحد پر آ گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی لشکر لے کر تبوک کے مقام پر پہنچے مگربعدمیں معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔

35۔ صحابہ کی تربیت کا ابتلا

رسول اللہؐ کے تمام صحابہ شروع سے اعلیٰ درجہ کے تربیت یافتہ نہ تھے۔ کئی دفعہ آپ کسی کام کا حکم دیتے تو وہ عدم علم یا عدم تربیت کی وجہ سے اس کی کما حقہ اتباع نہ کر سکتے تو رسول کریمﷺ اور مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑتا یا دوبارہ کرنا پڑتا۔ مگرآپ نہایت حوصلے اور ہمت سے اس کو برداشت فرماتے۔ احد کی جنگ میں بعض صحابہ کا درہ چھوڑ دینا معمولی اورقابل برداشت بات نہ تھی مگر آپ نے کسی پر بھی ناراضی کا اظہار نہ فرمایاکیونکہ انہوں نے اپنے خون سے اس کا کفارہ ادا کر دیا تھا۔

ایک دنیا کا لیڈر جب اپنے ساتھیوں اور جاں نثاروں کی مدد سے کوئی فتح یا غلبہ پاتا ہے تو اس کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس موقع پر اپنے ان رفیقوں کے بھی جذبات کا خیال رکھے خواہ وہ اخلاق اور انسانیت سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں اور دنیا کی فتوحات کی تاریخ اس امر پر شاہد ہے۔

ہمارے آقا و مولیٰ کا اسوہ اس میدان میں بھی بے مثال ہے۔ فتوحات حاصل کرنے کے بعد آپ نے بھی اپنے صحابہ اور جاں نثاروں کا خیال کیا مگر اس طور پر کہ کوئی ایسی معمولی سی حرکت بھی سرزد نہ ہو جو خدا تعالیٰ کی منشاء اور اس کی اعلیٰ تعلیمات کے خلاف ہو۔ آپ نے ایسے فتوحات کے مواقع کو ان کی تربیت کےلیے اتنے عمدہ رنگ میں استعمال کیا کہ ان کی خواہشات اور تمنائوں کو ارفع مقاصد کی طرف موڑ دیا اور وہ بھی اپنے آقا کے شانہ بشانہ ان ابتلائوں کو بڑے حسن وخوبی کے ساتھ طے کر گئے۔ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانی دشمنوں پر غلبہ پایا جنہوں نے آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کو دکھوں کے جنگلوں سے ننگے پائوں گزرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس موقع پر یہ طبعی بات تھی کہ کئی مظلوم صحابہ آج اپنے بدلے اتارنا چاہتے ہوں گے۔ چنانچہ مکہ کی طرف کوچ کرتے ہوئے ایک صحابی نے کہا کہ آج جنگ و جدل کا دن ہے اور آج کعبہ کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھا جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دارالامن کے متعلق اس قسم کے ناپسندیدہ کلمات سنے تو فوراً اس صحابی حضرت سعد بن عبادہ کو لشکر کی کمان سے معزول کر دیا مگر دلجوئی اتنے لطیف طریق سے کی کہ اس کا دل راضی ہو گیا ہوگا۔ آپؐ نے اسی کے بیٹے قیس کو اس قافلہ کا سالار بنا دیا اور فرمایا آج تو رحمت عام کا دن ہے۔ آج تو کعبہ کی عظمت قائم کرنے کا دن ہے۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی حدیث نمبر3944۔ و شرح فتح الباری زیر حدیث مذکورہ)

مکہ میں داخل ہوتے ہوئے مظلومین کے قافلہ میں ایک حضرت بلالؓ تھے۔ جن کے اقارب ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کے اس انتقام کو عفو ومغفرت کے دھاروں سے بدل دیا۔ آپؐ نے حضرت بلالؓ کے مدنی بھائی ابو رویحہؓ کے ہاتھ میں جھنڈا دیا اور اعلان کروایا کہ جوشخص اس جھنڈے تلے آ جائے گا وہ بھی امن پائے گا۔ (السیرة الحلبیہ جلد3صفحہ 93) صلح حدیبیہ کے موقع پر ابو جندلؓ زنجیروں میں جکڑے ہوئے آ گئے۔ معاہدہ حتمی طور پر مکمل نہ ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صبر کر نے کا ارشاد فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس عاشق اور مظلوم صحابی سے کم محبت نہیں تھی مگر امن کے قیام اور دین کی اعلیٰ اقدار کی خاطر آپ نے سارے جذبات کی قربانی دے کر اخلا ق کا جھنڈاسر بلند رکھا۔

بعض مقامات سلوک ایسے سخت آئے جہاں صحابہ کی ہمتیں جواب دے گئیں اور اطاعت کے پتلے بشری تقاضوں کے آگے بے بس ہو گئے تب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بجھتی چنگاریوں میں نئی زندگی پیدا کی اور شعلۂ جوالہ بنادیا۔ ان میں سے ایک موقعہ وہ تھا جب حدیبیہ کی شرائط صلح نے صحابہ کے دماغوں کو مائوف کر دیا۔ یہ امتحان ان کی حد استعداد سے باہر تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اٹھو اور قربانیاں دو تو کسی بدن میں جنبش نہ ہوئی۔ آپؐ بڑی رنجیدگی کے ساتھ حضرت ام سلمہؓ کے خیمہ میں داخل ہوئے اور اس انہونی بات کا تذکرہ کیا ان کے مشورہ پر آپ نے اپنی قربانی کے گلے پر چھری چلائی تو وہ میدان خفتگان ایک میدان حشر میں تبدیل ہو گیا۔ (بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد حدیث نمبر2529) ابتلا کی ان مہیب گھڑیوں میں بھی آپ کی زبان پر کوئی سختی اور مایوسی کا حکم نہ آیا بلکہ آپ نے خود آگے بڑھ کر اس کھوئی ہوئی بازی کو جیتا اور تنگ و تاریک راہوں کو کشادہ کیا۔

36۔ سچائی کی نمائندگی کا ابتلا

قومی رہ نماؤں سے محبت کی وجہ سے لوگ ان کے مقام اور مرتبہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور لیڈر عام طور پر عوام الناس کی اس محبت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدق اور سچائی کے نمائندہ تھے اس لیے خدا تعالیٰ نے آپ کو جو عظیم الشان مقام عطا فرمایا تھا اس سے سرِمو بھی ادھر ادھر ہونا آپؐ کے لیے ناممکن تھا۔ آپ نے فرمایا انا سید ولد آدم۔ میں بنی نوع آدم کا سردار ہوں۔ مگر ساتھ ہی فرماتے کہ میں تمہاری طرح کا ہی انسان ہوں اور اسی طرح بھولتا ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو۔ فرمایا انتم اعلم بامور دنیا کم تم اپنے دنیاوی معاملات مجھ سے بہتر سمجھتے ہو۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقالہ حدیث نمبر4357) ایک شخص نے آپ سے کہا کہ شاہان فارس اور روم کو ان کی رعایا سجدہ کرتی ہے کیا ہم آپؐ کو سجدہ نہ کریں تو آپؐ نے فرمایا اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا روا نہیں۔ (بحوالہ فصل الخطاب جلدنمبر1صفحہ 18) ایک صحابی نے کہا کہ فلاں معاملہ میں اس طرح ہو گا جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گایا آپؐ چاہیں گے تو آپؐ نے فرمایا تو نے تو مجھے خدا کا شریک بنا دیا ہے۔ یوں کہو کہ وہی ہوگا جو خدا چاہے گا۔ (تفسیر ابن کثیر جلد اول صفحہ 99)آپؐ روحانی علوم کا دعویٰ رکھتے تھے اورنبوت کے منصب میں آئندہ کی خبریں دینا ایک لازمی امر ہے مگر جب بعض خواتین نے ایک دفعہ مبالغہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں ایک رسول موجود ہے جو کل ہونے والی باتیں جانتا ہے تو آپؐ نے ان کلمات میں جھوٹی عزت کی بو محسوس کی اور فرمایا ایسی باتیں مت کرو جو خلاف واقعہ ہیں۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکة بدراً حدیث نمبر3700)

37۔ وسائل کی کمی کا ابتلا

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریاں بہت زیادہ اور سب نبیوں سے بڑھ کر وسیع اور جامع تھیں۔ مگر اس کے مقابل پر ظاہری وسائل بہت کم نظر آتے ہیں۔ بہت محدود وسائل کے ذریعہ اس قدر لاثانی انقلاب برپا کر دینا یقینا ًایک معجزہ ہے۔ ان وسائل کی کمی ہر موقع پر نظر آتی ہے جنگ بدرمیں ایک ہزار کے مسلح لشکر جرار کے مقابلہ پر محض 313؍افراد تھے جن میں بچے اور بوڑھے بھی تھے اور اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ جنگ احزاب میں وسائل کی کمی کو خندق کی کھدائی کے ذریعہ چھپایا گیا۔ بعض دفعہ جنگ میں جانے والے صحابہ کے مطالبہ پر آپ کے پاس سواریاں یا جوتیاں تک نہیں تھیں اور وہ روتے ہوئے لوٹ گئے۔ قرآن کریم فرماتا ہے نہ ان لوگوں پر کوئی حرف ہے کہ جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تاکہ تو انہیں جہاد کے لیے ساتھ کسی سواری پر بٹھا لے تو تو انہیں جواب دیتا ہے کہ میں تو کچھ نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کر سکوں اس پر وہ اس حال میں واپس ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسو بہا رہی ہوتی ہیں کہ وہ کچھ نہیں رکھتے جسے راہ مولیٰ میں خرچ کر سکیں۔

(سورة التوبہ آیت 92و تفسیر درمنثور زیر آیت ھذا جلد4صفحہ263)

38۔ بیماری کا ابتلا

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ذمہ داریوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بہت عمدہ صحت عطا فرمائی تھی اور آپؐ عام طور پر بیماریوں سے محفوظ رہے لیکن آپ کے عزیزوں، دوستوں اور پیاروں کو قسما قسم کی بیماریوں سے گزرنا پڑا اور ان میں سے بہت سے جان سے بھی گزر گئے۔ مگر رسول اللہؐ نے اس ابتلاکو بھی باعث رحمت و برکت بنا دیا اور یہ تکالیف طب کے میدان میں آپؐ کی عالی شان رہنمائی کا موجب بن گئیں۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی رہ نمائی میں علاج کے نئے باب کھولے عیادت کی حسین داستانیں رقم فرمائیں اور پھر رضا بالقضاء کا اعلیٰ اسوہ چھوڑا۔

مؤرخین نے لکھا ہے کہ بچپن میں آپؐ کو آشوب چشم کی تکلیف ہوئی(رسول اللہ کی سیاسی زندگی۔ ڈاکٹر حمید اللہ۔ صفحہ 50) جنگوں میں زخموں کے علاوہ بعض دفعہ سردرد کی تکلیف ہوئی ایک بار پاؤں میں تکلیف ہوئی آپؐ کی آخری بیماری کم و بیش تیرہ دن پر محیط تھی جس میں سر درد، شدید بخار اور کمزوری کی شکایت تھی۔ خیبر کے موقع پر دیے جانے والے زہر کے اثرات بھی محسوس کر رہے تھے۔ (ابو داؤد کتاب الدیات باب فیمن سقی رجلا حدیث نمبر3912) مگر ان ایام میں بھی آپؐ اپنے رب کے کاموں پر ڈٹے رہے۔ تمام امور کی نگرانی فرماتے رہے۔ جب تک جسم نے اجازت دی نماز باجماعت پڑھاتے رہے اور قوم کی رہ نمائی کرتے رہے اور توحید کا درس دیتے رہے۔ بیماری کے دوران کوئی واویلا کوئی شکوہ نہیں تھا اور موت کے سکرات کو بڑے تحمل اور صبر سے برداشت کرتے رہے۔

سیرت کے بعض ممتاز پہلو

ان تمام ابتلاؤں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے جو پہلو بہت ممتاز ہو کر نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں۔ 1۔ صبر واستقامت۔ 2۔ توکل علی اللہ۔ 3۔ صحیح اصولی موقف پر قائم رہنا۔ 4۔ شجاعت و عزم 5۔ سختی قلب سے بچاؤ۔ 6۔ عفو و کرم 7۔ رضا بالقضاء۔ 8۔ حسب حالات خلق عظیم کا اظہار9۔ صحابہؓ کی غیر معمولی تربیت۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آنے والے دکھوں اور ابتلاؤں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’خداتعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح کو دو حصوں پرمنقسم کردیا۔ ایک حصہ دکھوں اور مصیبتوں اور تکلیفوں کا اور دوسرا حصہ فتح یابی کا۔ تا مصیبتوں کے وقت میں وہ خلق ظاہر ہوں جو مصیبتوں کے وقت ظاہر ہوا کرتے ہیں اور فتح اور اقتدار کے وقت میں وہ خلق ثابت ہوں جو بغیر اقتدار کے ثابت نہیں ہوتے۔ سو ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قسم کے اخلاق دونوں زمانوں اور دونوں حالتوں کے وارد ہونے سے کمال وضاحت سے ثابت ہوگئے۔ چنانچہ وہ مصیبتوں کا زمانہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تیرہ برس تک مکہ معظمہ میں شامل حال رہا۔ اس زمانہ کی سوانح پڑھنے سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پرتوکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارا کرنا اور اور اپنے کام میں سست نہ ہونااور کسی کے رعب سے نہ ڈرنا ایسے طور پر دکھلادیئے جو کفار ایسی استقامت کو دیکھ کر ایمان لائے اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو تو اس استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کرسکتا۔ اور پھر جب دوسرا زمانہ آیا یعنی فتح اور اقتدار اور ثروت کا زمانہ، تو اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق عفو اور سخاوت اور شجاعت کے ایسے کمال کے ساتھ صادر ہوئے جو ایک گروہ کثیر کفار کا انہی اخلاق کو دیکھ کر ایمان لایا۔ دکھ دینے والوں کو بخشا اور شہر سے نکالنے والوں کو امن دیا۔ ان کے محتاجوں کو مال سے مالا مال کردیا اور قابو پاکر اپنے بڑے بڑے دشمنوں کو بخش دیا۔ چنانچہ بہت سے لوگوں نے آپ کے اخلاق دیکھ کر گواہی دی کہ جب تک خدا کی طرف سے اور حقیقةً راستباز نہ ہو یہ اخلاق ہرگز دکھلا نہیں سکتا۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ447)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button