سیرت النبی ﷺ

حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

عشق و وفا اور اخلاق فاضلہ عظیمہ کے مجسم پیکر حضرت سیدِ وُلد آدم، حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہﷺ کی ولادت باسعادت کو ماہ ربیع الاوّل میں لوگ مختلف طریقوں سے بجا لاتے ہیں۔ لیکن اسلامی نقطہ نگاہ اور اسلامی تعلیمات اور آنحضرتﷺ کے اسوہ ٔحسنہ سے جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ ہےکہ اسوہ ٔنبی ﷺکا بیان کسی خاص دن کا محتاج نہیں بلکہ آپ کے خلق کا تذکرہ تو ہر روز اور ہر آن ہونا چاہیے۔ جبکہ خداتعالیٰ خود یہ فرماتا ہے کہ

إِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب:57)

ىقىناً اللہ اور اس کے فرشتے نبى پر رحمت بھىجتے ہىں اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! تم بھى اس پر درود اور خوب خوب سلام بھىجو۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

چنانچہ یہ حکم خداوندی کسی ایک دن کا خصوصیت کے ساتھ محتاج نہیں ہے۔ بلکہ ہر آن اور ہر لحظہ ہمیں شانِ رسولﷺ اور آپ کے اخلاق جمیع فاضلہ کا بیان کرتے چلے جانا چاہیے۔ تااس سے لوگوں کی روحانیت اور اخلاق پر ایک خاص اثر پڑے اور لوگ خداتعالیٰ کا قرب اور اس کی رضامندی حاصل کریں جو ہماری تخلیق کا اصل مطلوب ہے۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کی مدح میں براہین احمدیہ حصہ اول میں آپﷺ کی شان میں تحریر فرمایا آپؐ میں:

’’عفت، حیا، صبر، قناعت، زہد، تضرع، جوانمردی، استقلال، عدل، امانت، صدق لہجہ، سخاوت فی محلہ، ایثار فی محلہ، کرم فی محلہ، مروت فی محلہ، شجاعت فی محلہ، علو ہمت فی محلہ، حلم فی محلہ، تحمل فی محلہ، حمیت فی محلہ، تواضع فی محلہ، ادب فی محلہ، شفقت فی محلہ، رافت فی محلہ، رحمت فی محلہ، خوف الٰہی، محبت الٰہیہ، انس باللہ، انقطاع الی اللہ، وغیرہ وغیرہ۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ اول صفحہ 195 حاشیہ) اعلیٰ صورت میں پائے جاتے تھے۔

محمدؐ ہی نام اور محمدؐ ہی کام

آنحضرتﷺ کو ’’محمد‘‘ کا نام دیا گیا جس کے معنی ہی یہ ہیں کہ تعریف کیا گیا۔ اس لفظ میں ایک زبردست پیشگوئی موجود ہے کہ آپﷺ کی سب سے بڑھ کر تعریف کی جائے گی اور اس بات کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ دنیا کے ہزار ہا مصنفین نے اس کائنات کے ہر حصہ میں، ہر ملک و قوم میں، ہر زبان میں، آپ کی شانِ مبارک میں کتابیں اور مضامین تحریر کیے ہیں۔ آپؐ کی تعریف میں قصیدے اور منظوم کلام لکھےہیں۔ ہزارہا جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ میں آپ کے اخلاق فاضلہ کا بیان کیا گیا ہے۔ اور خداتعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ کیونکہ جب خداتعالیٰ اور فرشتے آپؐ کی مدح میں، برکتیں اور سلام بھیج رہے ہیں تو پھر دنیا پر بسنے والے کیوں نہ ایسا کریں ؟ پس یہ لفظ محمد (ﷺ ) کی صداقت کی ایک بہت بڑی اور قوی اور زبردست دلیل ہے۔

جیسا کہ خاکسار نے شروع میں لکھا ہے کہ آپ عشق و وفا کے پیکر مجسم تھے۔ آئیے اس کا تھوڑا سا مطالعہ کریں جو ہمارے ایمانوں میں حلاوت پیدا کرنے کا موجب ہو۔

عشق و وفا

عشق و وفامیں سب سے اول خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے کس قدر محبت کی، کس قدر عشق و وفا کا مظاہرہ کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ آپ کے اس عشق ووفا کو دیکھ کر کفار مکہ بھی کہہ اٹھے کہ

’’عَشِقَ مَحَمَّدٌ رَّبَّہٗ‘‘۔

اس کی ایک جھلک تو تب ملتی ہے جب آپؐ غار حرا میں اپنے رب کے ساتھ راز و نیاز، عبادت کے لیے کئی کئی دن تک دنیا سے منہ موڑ کر چلے جاتے تھے۔ وہ غار حرا کیا تھی؟ خدا کے ساتھ عشق و وفا کی تاریخ رقم کرنے کی جگہ تھی اور جو ابتدا تھی آئندہ زندگی میں اس کو نبھانے کی۔

غار حرا سے نکل کر جو پیغام آپؐ قوم کے پاس لائے وہ عبادت الٰہی کا ہی تو پیغام تھا۔ ابتدا میں جو چند گھر کے افراد آپ پر ایمان لائے تھے ان کےساتھ مل کر ہی آپ نے نماز کا قیام اور اہتمام شروع کرایا۔

حضرت بلالؓ کی ڈیوٹی تھی کہ وہ نماز کے وقت اذان دیتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ بلالؓ کی نماز کے لیے اطلاع پر آپؐ فوراً بلاتوقف اٹھ کر جلدی کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔ بلکہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آپ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ اتنے میں حضرت بلالؓ نے اذان بھی دے دی اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے، آپؐ نے اس لمحہ وہ چھری جس سے بھنا ہوا گوشت کاٹ کر تناول فرما رہے تھے، ایک طرف رکھ دی اور فوراً نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ حالانکہ آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہوا ہے کہ اگر سامنے کھانا ہو اور نماز کا وقت ہو جائے تو کھانا پہلے کھا لو۔ یہ نہ ہو کہ نماز میں کھانے کا خیال آتا رہے۔ لیکن خدا کی محبت اور عشق اور وفا اتنا غالب تھا کہ آپ نے اپنے لیے یہ نہ گوارا کیا کہ نماز کو مؤخر کر دیا جائے اور کھانے کو مقدم۔

عبادت اور صرف عبادت ہی میں لذت عشق

’’کبھی گھر کے لوگ سو جاتے تو آپ چپ چاپ بستر سے اٹھتے اور دعا و مناجات الٰہی میں مصروف ہو جاتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات میری آنکھ کھلی تو آپ کو بستر پر نہ پایا۔ سمجھی کہ آپ کسی اور بیوی کے حجرے میں تشریف لے گئے ہیں، اندھیرے میں ادھر ادھر ٹٹولا تو دیکھا کہ پیشانی مبارک خاک پر ہے اور آپ سر بسجود مصروفِ دعا ہیں۔

سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ،

اے اللہ تو پاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

فرماتی ہیں :’’یہ دیکھ کر مجھے اپنے شبہ پر ندامت ہوئی اور دل میں کہا سبحان اللہ! میں کس خیال میں ہوں اور خدا کا رسول کس عالم میں۔‘‘

(اسوۂ انسان کامل، صفحہ 67-68)

اسی طرح حضرت عائشہؓ ہی کا بیان ہے کہ

’’ایک دفعہ موسم سرما کی سرد رات کو ان کے لحاف میں داخل ہو جانے کے بعد ان سے فرماتے ہیں کہ عائشہ! اگر اجازت دو تو آج رات میں اپنے رب کی عبادت میں گزار دوں۔ وہ بخوشی اجازت دیتی ہیں اور آپؐ ساری رات عبادت میں روتے روتے سجدہ گاہ تر کر دیتے ہیں۔‘‘

(اسوۂ انسان کامل، صفحہ 69)

حضرت مصلح موعودؓ دیباچہ تفسیر القرآن میں تحریر فرماتے ہیں:

’’رسول کریمﷺ کی ساری زندگی عشقِ الٰہی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے۔ باوجود بہت بڑی جماعتی ذمہ داری کے دن اور رات آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ نصف رات گزرنے پر آپ خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور صبح تک عبادت کرتے رہتے یہاں تک کہ بعض دفعہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے اور آپ کے دیکھنے والوں کو آپ کی حالت پر رحم آتا تھا۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے ایسے ہی موقع پر کہا یا رسول اللہ! آپ تو خداتعالیٰ کے پہلے ہی مقرب ہیں آپ اپنے نفس کو اتنی تکلیف کیوں دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اے عائشہؓ!

اَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔

جب یہ بات سچی ہے کہ خداتعالیٰ کا میں مقرب ہوں اور خداتعالیٰ نے اپنا فضل کرکے اپنا قرب عطا فرمایا ہے تو کیا میرا یہ فرض نہیں کہ جتنا ہو سکےمیں بھی اس کا شکریہ ادا کروں۔ کیونکہ آخر شکر احسان کے مقابل پر ہی ہوا کرتا ہے۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القران، انوار العلوم جلد 20صفحہ382)

اللّٰہُ اعلیٰ و اجل

حضرت مصلح موعودؓ ایک اَور واقعہ خداتعالیٰ سے محبت، عشق اور قربت الٰہی اور توحید الٰہی کے ساتھ جو آپ کو لگاؤ تھا کا ذکر کر کے فرماتے ہیں :

’’اسی طرح احد کے موقع پر جب مسلمان زخمی اور پراگندہ حالت میں ایک پہاڑی کے نیچے کھڑے تھے اور دشمن اپنے سارے ساز وسامان کے ساتھ اسی خوشی میں نعرے لگا رہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں کی طاقت توڑ دی ہے اور ابوسفیان نے نعرہ لگایا۔ اُعْلُ ھُبَل۔ اُعْلُ ھُبَل۔ یعنی ہبل کی شان بلند ہو، ہبل کی شان بلند ہو۔ تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو جو دشمن کی نظروں سے چھپے کھڑے تھے اور اس چھپنے میں ہی ان کی خیر تھی حکم دیا کہ جواب دو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَ اَجَلّ۔ اَللّٰہُ اَعْلٰی وَ اَجَلّ۔ اللہ ہی سب سے بلند اور جلال والا ہے۔ اللہ ہی سب سے بلند اور جلال والا ہے۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد 20صفحہ 385)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جماعت کو خداتعالیٰ سے دلی محبت اور عبادت الٰہی کرتے رہنے کے لیے تحریک فرمائی اور اس ضمن میں آنحضرتﷺ کا یہ واقعہ سنایا۔ آپؒ نے نصیحت فرمائی کہ

’’جنگ بدر میں 313 صحابہؓ جن میں بوڑھے بھی تھے اور بچے بھی، کمزور اور نحیف بھی تھے اور نہتے بھی تھے۔ وہ سب کے سب ایسے حال میں اسلام کے دفاع کے لئے نکل کھڑے ہوئے کہ ان کے پاس لڑنے کے سامان بھی پورے نہیں تھے بلکہ پہننے کے کپڑے بھی پورے نہیں تھے۔ نہ ان کے پاس تلوار تھی۔ کسی کے پاس محض جھنڈا تھا۔ کسی کے پاس لکڑی کی تلوار تھی۔ مگر جو بھی کچھ کسی کے پاس تھا وہ لے کر خدا کے دین کی حفاظت کے لئے میدان میں حاضر ہو گیا۔ چنانچہ ایک جنگ اس میدان میں لڑی گئی جو بدر کا میدان تھا اور ایک اس خیمہ میں لڑی جارہی تھی جہاں دراصل فتح و شکست کافیصلہ ہونا تھا۔ یعنی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا خیمہ۔ بے حد گریہ و زاری کے ساتھ روتے ہوئے آنحضرتﷺ اپنے رب کے حضور یہ عرض کر رہے تھے۔

اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکَ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ فَلَا تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَدًا

(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر1 حدیث 203)

کہ اے میرے اللہ! مجھے اور کچھ پرواہ نہیں۔ مجھے تو تیرے ذات تقدس کی فکر ہے۔ اگر یہ عبادت گزار بندے اس میدان میں ہلاک کر دیئے گئے تو پھر تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ یہ کوئی دھمکی کا رنگ اس لئے نہیں تھا کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ تو اللہ کے عشق و محبت میں فنا ہوکر مجسم عجز و انکسار بن گئے تھے۔ یہ دراصل اظہار غم تھا، اظہار فکر تھا، بےچینی کی ایک آواز تھی، درد و کرب میں ڈوبی ہوئی ایک چیخ تھی کہ اے میرے رب! میں نے تو ساری عمر کی محنت کے ساتھ تیرے عبادت گزار بندے تیار کئے تھے اگر آج مشرکوں کے ہاتھوں یہ عبادت کرنے والے بھی ہلاک ہو گئے تو میرے بعد اور کون ہو گا جو تیرے عبادت گزار بندے پیدا کر سکے، مجھ سے بڑھ کر عبادت کا حق اور کون ادا کر سکتا ہے۔ میں نے خود ان کو دین سکھایا، ان کو عبادت کے اسلوب بتائے۔ ان کو راتوں کو جاگنے کی لذت بخشی، ان کو جاگتے ہوئے اور سوتے ہوئے اور لیٹتے ہوئے اور اٹھتے ہوئے اور بیٹھتے ہوئے، ہمیشہ یادِ الٰہی میں محو رہنے کی تعلیم دی۔ پس مجھے یہ غم نہیں ہے کہ یہ لوگ مارے جائیں گے۔ مجھے تو یہ غم ہے کہ اے میرے آقا! اگر یہ لوگ مارے گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔ کون لوگ ہوں گے جو تیری عبادت کے لئے اس دنیا میں آئیں گے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍اگست 1982ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد اول صفحہ 111-112)

مرض الموت اور آخری وقت میں بھی آپؐ کو اپنی امّت کی اصلاح اور ان کی طرف سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا فکر لاحق تھا۔ چنانچہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت آپؐ پر غرغرہ کی حالت تھی آپؐ اس وقت یہ فرما رہے تھے

اَلصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ

کہ نماز اور وہ جو تمہارے زیر نگیں ہیں۔ (ان کا خیال رکھنا ہرگز نہ بھولنا)۔ تعلیم و احکام کے لحاظ سے یہ آپؐ کا آخری کلام تھا اور دعا کے لحاظ سے بعض نے آپ کا آخری کلام

اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثَنًا

قرار دیا ہے۔ کہ اے میرے اللہ میری قبر کو شرک کی جگہ نہ بننے دینا۔ اور اختیار اور اخروی مقام کی تمنا و خواہش کے اعتبار سے بھی اور عملاً بھی سب سے آخر میں ادا ہونے والے الفاظ فِی

الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی بِالْجَنَّۃِ

تھےجو آپ کی زبان مبارک سے ادا ہوئے کہ ’’میں جنت میں اپنے رفیق اعلیٰ میں جذب ہو جانا چاہتا ہوں ‘‘وقت وصال بھی یہی الفاظ آپ کی زبان مبارک پر جاری تھے۔

دنیا میں آپ کی آخری خواہش اور خوشی نماز اور عبادت الٰہی ہی کی تھی اور جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے اقتباس سے ظاہر ہے کہ آپ نے عبادت گزاروں کی جماعت ہی کے لیے دعا کی تھی۔ بدر میں فتح، دراصل یہی فتح تھی کہ عبادت گزاروں کی جماعت زندہ رہے اور ہمیشہ ہمیش کے لیے پیدا ہوتی رہے۔ چنانچہ جس روز آپ نے دنیا سےرحلت فرمائی فجر کی نماز کے وقت اپنے حجرے کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو صحابہ محوِ عبادت تھے۔ اپنے غلاموں کو نماز میں دیکھ کر آپؐ کا دل سرور سے بھر گیا۔ خوشی سے چہرے پر تبسم کھلنے لگا۔

حضرت ام المومنین سودہؓ نہایت سادہ اور نیک مزاج تھیں، ایک رات انہوں نے بھی اپنی باری میں نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کا ارادہ کیا اور حضورؐ کے ساتھ نماز میں شامل ہوئیں۔ نامعلوم کتنی نماز ساتھ ادا کر پائیں۔ مگر اپنی سادگی میں دن کو رسول کریمﷺ کے سامنے اس لمبی نماز پر جو تبصرہ کیا اس سے حضورؐ بہت محظوظ ہوئے، کہنے لگیں یا رسول اللہ ! رات آپ نے اتنا لمبا رکوع کروایا کہ مجھے تو لگتا تھا جھکے جھکے کہیں مجھے نکسیر ہی نہ پھوٹ پڑے۔ حضورﷺ یہ تبصرہ سن کر خوب مسکرائے۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ721)

صحابہؓ کے اند رتوحید اور عبادتِ الٰہی کا نشہ اور ان کی قربانیوں اوروفا کے قصے

آنحضرتﷺ نے جہاں عشق و وفا کی مثالیں قائم فرمائیں وہاں اپنے ماننے والوں کے اندر بھی اس عشق و وفا کی آگ کو بڑھکایا۔ وہ بھی خداتعالیٰ کی راہ میں استقامت، وفا، توکل علی اللہ، جان نثاری، وفاداری، برداشت جیسی صفات میں اپنی مثال آپ بن گئے۔

علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب سیرت النبیﷺ میں ان جان نثار صحابہ جنہوں نے ہمارے پیارے آقا محمد مصطفیٰﷺ کی صحبت میں رہ کر آداب وفا سیکھے ،کا ذکر یوں کرتے ہیں :

’’قریش نے جور و ظلم کے عبرتناک کارنامے شروع کئے۔ جب ٹھیک دوپہر ہو جاتی تو وہ غریب مسلمانوں کو پکڑتے، عرب کی تیز دھوپ، ریتلی زمین کو دوپہر کے وقت جلتا توا بنا دیتی ہے، وہ ان غریبوں کو اسی توے پر لٹاتے، چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتے کہ کروٹ نہ بدلنے پائیں …… لوہے کو آگ پر گرم کر کے اس سے داغتے، پانی میں ڈبکیاں دیتے۔ یہ مصیبتیں اگرچہ تمام بے کس مسلمانوں پر عام تھیں، لیکن ان میں جن لوگوں پر قریش زیادہ مہربان تھے ان کے نام یہ ہیں :

حضرت خبابؓ بن الارت تمیم کے قبیلہ سے تھے، جاہلیت میں غلام بنا کر فروخت کر دیئے گئے تھے۔ ام انمار نے خرید لیا تھا۔ یہ اس زمانہ میں اسلام لائے جب آنحضرتﷺ حضرت ارقمؓ کے گھر میں موجود تھے اور صرف چھ سات شخص اسلام لا چکے تھے، قریش نے ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں، ایک دن کوئلے جلا کر زمین پر بچھائے، جب چت لٹایا، ایک شخص چھاتی پر پاؤں رکھے رہا کہ کروٹ بدلنے نہ پائیں۔ یہاں تک کہ کوئلے پیٹھ کے نیچے پڑے پڑے ٹھنڈے ہو گئے۔ خبابؓ نے مدتوں کے بعد جب یہ واقعہ حضرت عمرؓ کے سامنے بیان کیا تو پیٹھ کھول کر دکھائی کہ برص کے داغ کی طرح بالکل سپید تھی۔ حضرت خبابؓ جاہلیت میں لوہاری کا کام کرتے تھے، اسلام لائے تو بعض لوگوں کے ذمہ ان کا بقایا تھا، مانگتے تو جواب ملتا جب تک محمد کا انکار نہ کرو گے، ایک کوڑی نہ ملے گی…۔

حضرت بلالؓ یہ وہی حضرت بلالؓ ہیں جو مؤذن کے لقب سے مشہور ہیں۔ حبشی النسل اور امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جب ٹھیک دوپہر ہو جاتی تو امیہ ان کو جلتی بالو پر لٹاتا اور پتھر کی چٹان سینہ پر رکھ دیتا کہ جنبش نہ کرنے پائیں، ان سے کہتا کہ اسلام سے باز آؤ ورنہ یوں ہی گھٹ گھٹ کر مر جائے گا۔ لیکن اس وقت بھی ان کی زبان سے اَحَدکا لفظ نکلتا۔ جب یہ کسی طرح متزلزل نہ ہوئے تو گلے میں رسی باندھی اور لونڈوں کے حوالہ کیا، وہ ان کو شہر کے اس سرے سے اس سرے تک گھسیٹتے پھرتے تھے لیکن اب وہی رَٹ تھی اَحد اَحَد۔

حضرت عمارؓ یمن کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد ’’یاسر‘‘ مکہ میں آئے، ابوحذیفہ مخزومی نے اپنی کنیز سے جس کا نام سمیّہ تھا شادی کر دی تھی، عمارؓ اسی کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ یہ جب اسلام لائے تو ان سے پہلے صرف تین شخص اسلام لا چکے تھے۔ قریش ان کو جلتی ہوئی زمین پر لٹاتے اور اس قدر مارتے کہ بے ہوش جاتے۔ ان کے والد اور والدہ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتا تھا۔

حضرت سمیہؓ حضرت عمارؓ کی والدہ تھیں۔ ان کو ابوجہل نے اسلام لانے کے جرم میں برچھی ماری اور وہ ہلاک ہو گئیں۔ حضرت یاسرؓ حضرت عمارؓ کے والد تھے، یہ بھی کافروں کے ہاتھ سے اذیت اٹھاتے اٹھاتے ہلاک ہو گئے۔ ……

آنحضرتﷺ نے جب دعوتِ اسلام شروع کی تو یہ اور عمارؓ بن یاسر ایک ساتھ آنحضرتﷺ کے پاس آئے۔ آپ نے اسلام کی ترغیب دی اور یہ مسلمان ہو گئے۔ قریش ان کو اس قدر اذیت دیتے تھے کہ ان کے حواس مختل ہو جاتے تھے۔ جب انہوں نے مدینہ کو ہجرت کرنی چاہی تو قریش نے کہا اپنا سارا مال و متاع چھوڑ جاؤ تو جا سکتے ہو، انہوں نے نہایت خوشی سے منظور کیا۔

حضرت ابوفکیہؓ صفوان بن امیہ کے غلام تھے اور حضرت بلالؓ کے ساتھ اسلام لائے۔ امیہ کو جب یہ معلوم ہوا تو ان کے پاؤں میں رسی باندھی اور آدمیوں سے کہا کہ گھسیٹتے ہوئے لے جائیں اور تپتی ہوئی زمین پر لٹائیں۔ ایک گبریلا راہ میں جارہا تھا، امیہ نے ان سے کہا ’’تیرا خدا یہی تو نہیں ہے۔ انہوں نے کہا میرا اور تیرا دونوں کا خدا اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘ اس پر امیہ نے اس زور سے ان کا گلا گھونٹا کہ لوگ سمجھے دم نکل گیا، ایک دفعہ ان کے سینہ پر اتنا بھاری بوجھل پتھر رکھ دیا کہ ان کی زبان نکل پڑی۔

حضرت لبینہ، … ایک کنیز تھیں، حضرت عمرؓ اس بے کس کو مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے تھے کہ میں نے تجھ کو رحم کی بنا پر نہیں بلکہ اس وجہ سے چھوڑ دیا ہے کہ تھک گیا ہوں۔ وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں کہ اگر تم اسلام نہ لاؤ گے تو خدا اس کا انتقام لے گا۔

حضرت زنیرہؓ حضرت عمرؓ کے گھرانے کی کنیز تھیں اور اس وجہ سے حضرت عمرؓ (اسلام سے پہلے) ان کو جی کھول کر ستاتے۔ ابوجہل ان کو اس قدر مارتا کہ ان کی آنکھیں (باہر)آجاتیں۔

حضرت ابوبکرؓ کے دفتر فضائل کا یہ پہلا باب ہے کہ انہوں نے ان مظلوموں میں سے اکثروں کی جان بچائی۔ حضرت بلالؓ، عامرؓ بن فہیرہ، لبینہؓ، زنیرہؓ، نہدیہؓ، ام عبیسؓ سب کو بھاری بھاری داموں خریدا اور آزاد کر دیا۔ یہ لوگ وہ تھے جن کو قریش نے نہایت جسمانی اذیتیں پہنچائیں، ان سے کم درجہ پر وہ تھے جن کو طرح طرح سے ستاتے تھے۔

حضرت عثمانؓ جو کبیر السن اور صاحب جاہ و اعزاز تھے، جب اسلام لائے تو دوسروں نے نہیں بلکہ خود ان کے چچا نے رسی سے باندھ کر مارا۔ حضرت ابوذرؓ جو ساتویں مسلمان ہیں جب مسلمان ہوئے اور کعبہ میں اپنے اسلام کا اعلان کیا تو قریش نے مارتے مارتے ان کو لٹا دیا۔ حضرت زبیرؓ بن العوام جن کا مسلمان ہونے والوں میں پانچواں نمبر تھا جب اسلام لائے تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کے ناک میں دھواں دیتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے چچا زاد بھائی سعیدؓ بن زید جب اسلام لائے تو حضرت عمرؓ نے ان کو رسیوں سے باندھ دیا۔

لیکن یہ تمام مظالم، یہ جلادانہ بے رحمیاں، یہ عبرت خیز سفاکیاں، ایک مسلمان کو بھی راہِ حق سے متزلزل نہ کر سکیں۔ ایک نصرانی مؤرخ نے نہایت سچ لکھا ہے:

’’عیسائی اس کو یاد رکھیں تو اچھا ہوکہ محمد (ﷺ ) کے خصائل نے وہ درجہ نشۂ دینی کا آپ کے پیروؤں میں پیدا کیا جس کو عیسیٰؑ کے ابتدائی پیروؤں میں تلاش کرنا بے فائدہ ہے۔ جب عیسیؑ کو سولی پر لے گئے تو ان کے پیرو بھاگ گئے، ان کا نشہ دینی جاتا رہا اور اپنے مقتدا کو موت کے پنجہ میں گرفتار چھوڑ کر چل دیئے۔ برعکس اس کے محمد (ﷺ ) کے پیرو اپنے مظلوم پیغمبر کے گرد آئے اور آپ کے بچاؤ میں اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر کل دشمنوں پر آپ کو غالب کیا۔‘‘

(سیرت النبی جلد اول، ازعلامہ شبلی نعمانی صفحہ 139-142)

آنحضرتﷺ کی خداتعالیٰ کےساتھ عشق و وفا کی باتیں تو آپ کا ذاتی فعل تھا۔ لیکن آپؐ جس مقصد کے لیے تشریف لائے تھے اور جو مقصد آپ کی بعثت کا تھا اس کو بھی کامل درجہ پورا کیا۔ یعنی وہی وفا اور عشق الٰہی آپؐ نے اپنے صحابہؓ کے اندر پیدا بھی کیا جس کا تھوڑا سا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔

اہل خانہ، دوستوں اور عوام کے ساتھ وفا کی مثالیں

یہ مضمون نامکمل رہے گا اگر آپؐ کی اس صفت کو نہ بیان کیا جائے کہ آپ کا اہل خانہ کے ساتھ کیا سلوک تھا۔ دوستوں اور دیگر مسلمانوں کےساتھ آپ اپنا عہد دوستی، ایفائے عہد اور کس طرح وفاکو نبھاتے تھے۔

حضرت خدیجہؓ کی قدردانی

ہمارے آقا و مولیٰﷺ کی عائلی زندگی میں ایک نمایاں خلق یہ بھی نظر آتا ہے کہ آپ بیویوں کے نیک اوصاف کی بہت قدر فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت خدیجہؓ کے ایثار و فدائیت اور وفا کی ان کی زندگی میں بھی ہمیشہ پاسداری کی۔ اور وفا ت کے بعد بھی کئی سال تک آپؐ نے دوسری بیوی نہیں کی۔ ہمیشہ محبت اور وفا کے جذبات کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کا محبت بھرا سلوک یاد کیا۔ آپؐ کی ساری اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھی اس کی تربیت و پرورش کا آپ نے خوب لحاظ رکھا نہ صرف ان کے حقوق ادا کیے بلکہ حضرت خدیجہؓ کی امانت سمجھ کر ان سے کمال درجہ محبت فرمائی۔ آپؐ حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے کہ خدیجہؓ کی بہن ہالہ آئی ہیں۔ گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرماتے۔ (مسلم)

الغرض آپ حضرت خدیجہؓ کی وفاؤں کے تذکرے کرتے تھکتے نہ تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :

’’مجھے نبی کریم کی کسی دوسری زندہ بیوی کے ساتھ بھی اس قدر غیرت نہیں ہوئی جس قدر حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ہوئی۔ حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پا چکی تھی۔ ‘‘(بخاری)

فرماتی تھیں کہ کبھی تو میں اُکتا کر کہہ د یتی یا رسول اللہ!خدا نے آپ کو اس قدر اچھی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں اب اس بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں۔ آپؐ فرماتے:

’’نہیں نہیں۔ خدیجہ اس وقت میری ساتھی بنیں جب میں تنہا تھا۔ وہ اس وقت میری سپر بنی جب میں بے یار و مددگار تھا۔ وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پر فدا ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولاد بھی عطا کی۔ انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا۔‘‘

(بحوالہ اسوۂ انسان کامل، صفحہ 626-627)

ایک دیہاتی سے حسن سلوک

’’حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی جس کا نام زاہر تھا وہ نبی کریمؐ کو دیہات کی چیزیں تحفہ میں لا کر دیتا تھا اور نبی کریمﷺ اسے انعام و اکرام سے نوازتے اور فرمایا کرتے تھے کہ زاہر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں۔

حضورؐ اس سے بہت محبت کا سلوک فرماتے تھے۔ وہ شخص بہت سادہ شکل کا بھدا سا تھا۔ ایک دفعہ حضورؐ نے اس کو دیکھا کہ وہ بازار میں اپنا سودا بیچ رہا ہے آپؐ نے پیچھے سے جاکر اپنی باہیں اس کی گردن میں ڈال دیں۔ وہ آپؐ کو دیکھ نہ سکا۔ کہنے لگا اے شخص! مجھے چھوڑ دو۔ پھر جو اس نے مڑ کر دیکھا تو اسے پتاچلا کہ حضورﷺ ہیں، تو وہ خوشی سے اپنی پشت حضورﷺ کے جسم مبارک سے رگڑنے لگا۔ حضورؐ فرمانے لگے میرا یہ غلام کون خریدے گا؟ وہ بولا اے اللہ کے رسول! پھر تو آپ مجھے بہت ہی بیکار سودا پائیں گے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا لیکن اللہ کے نزدیک تم گھاٹے کا سودا نہیں ہو۔ تمہاری بڑی قدر و قیمت ہے۔ ‘‘

(اسوۂ انسان کامل، صفحہ 242)

سیاہ فام حبشی سے حسن سلوک کاتذکرہ

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک سیاہ فام حبشی آنحضرتﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کچھ سوالات کیے کہ کیا ہم بھی جنت میں جائیں گے۔ ہمیں بھی وہ نعماء جنت میسر آئیں گی جو آپ کو اور دیگرمسلمانوں کو میسر آئیں گی۔ آپؐ نے فرمایا:

’’جس شخص نے کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ پڑھ لیا تو اللہ کے ہاں اس کے لئے اس کلمہ کی وجہ سے ایک عہد لکھا جاتا ہے اور جو سبحان اللّٰہ وبحمدہ پڑھتا ہے اس کے لئے ایک لاکھ 24 ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ پھر حضورﷺ نے سورۃ الدھر کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائیں جن میں جنت اور جنت کی نعماء کا ذکر ہے۔ اس پر وہ سیاہ فام بےا ختیار رونے لگا اور اتنا رویا کہ اس کی روح پرواز کر گئی۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ اس سیاہ فام حبشی کی تدفین کے وقت آپؐ خود اسے اپنے ہاتھوں سے قبر میں رکھ رہے تھے۔ ‘‘

(اسوۂ انسان کامل، صفحہ 246-247)

خدمت گزاروں کےساتھ حسن سلوک

ہماری زندگی کا روزمرہ مشاہدہ ہے کہ امراء کے گھروں میں بہت سارے خدمت گزار ہوتے ہیں اور بعض لوگ تو متمول خاندانوں کی جدی پشتی خدمت کرتے چلے آئے ہیں۔ اکثر اوقات ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ چاہیے کہ امراء اپنے ان خادموں سے وفا کا سلوک کریں اوران سے محبت سے پیش آئیں۔

رسول کریمﷺ نے ایک دفعہ یہ قصہ سنایا کہ ایک تاجر کا لوگوں کے ساتھ لین دین کا معاملہ تھا۔ وہ اپنے کارکنوں سے کہتا کہ تنگدست سے درگزر کرنا اور اسے مہلت دینا شاید اسی طرح اللہ تعالیٰ ہم سے بھی درگزر کرے۔ پھر واقعی اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر کا سلوک فرمایا۔

(بخاری کتاب البیوع)

ایک دفعہ ایک شخص نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ہم کتنی دفعہ خادم کو معاف کریں۔ رسول اللہؐ خاموش رہے اس نے پھر سوال کیا رسول اللہﷺ پھر خاموش رہے۔ جب تیسری مرتبہ اس نے یہی سوال دہرایا تو آپؐ نے فرمایا میں تو دن میں ستّر مرتبہ اسے معاف کرتا ہوں۔

(ابوداؤد کتاب الادب ماخوذ از روزنامہ الفضل ربوہ 24؍دسمبر 2014ء صفحہ71)

حضرت ابورافع قطبیؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے قریش نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں سفیر بنا کر بھیجا۔ رسولِ کریمﷺ کو دیکھ کر میرے دل میں اسلام کی سچائی گھر کر گئی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں قریش کی طرف لوٹ کر واپس نہیں جانا چاہتا۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا میں عہدشکنی نہیں کرتا اور نہ ہی سفیر کو روکتا ہوں۔ آپ اس وقت بہرحال واپس جاؤ پھر اگر بعد میں یہی ارادہ ہو کہ اسلام قبول کرنا ہے تو وہاں جا کر واپس آجانا۔ چنانچہ یہ قریش کے پاس لوٹ کر گئے اور بعد میں آکر اسلام قبول کیا۔

(ابوداؤد ماخوذ از اسوۂ انسان کامل، صفحہ 211)

بعثت نبویﷺ سے قبل آپؐ نے معاہدہ حلف الفضول میں شرکت فرمائی تھی جس کے تحت مظلوموں کی امداد کرنا تھا۔ بعثت نبوی کے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک اجنبی شخص ’’الاراشی‘‘ کا حق سردار مکہ ابوجہل نے دبا لیا۔ اس شخص نے آنحضرتﷺ سے آکر مدد چاہی۔ آپؐ نے اسی وقت معاہدہ حلف الفضول کی پابندی کرتے ہوئے اپنے سخت دشمن ابوجہل کے دروازے پر جا کر دستک دی اور مظلوم اجنبی کے حق کا تقاضا کیا اور وہاں سے ہلے نہیں جب تک کہ اس کا حق اسے دلوا نہ دیا۔

(سیرت ابن ہشام)

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺ کی سیرت کے اس پہلو کہ آپؐ کس قدر وعدوں کا اور عہدوں کا خیال رکھتے تھے۔ اپنے ایک خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍جولائی 2005ء میں فرمایا:

’’جب اسلامی فوجوں نے خیبر کو گھیرا تو اس وقت وہاں کے ایک یہودی سردار کا ایک ملازم، ایک خادم، ایک جانور چرانے والا، جانوروں کا نگران جانوروں سمیت اسلامی لشکر کے علاقہ میں آگیا اور مسلمان ہو گیا اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضرہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں تو اب مسلمان ہو گیا ہوں، واپس جانا نہیں چاہتا، یہ بکریاں میرے پاس ہیں، ان کا اب میں کیا کروں ؟ ان کا مالک یہودی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ان بکریوں کا منہ قلعے کی طرف پھیر کر ہانک دو۔ وہ خود اس کے مالک کے پاس پہنچ جائیں گی۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور قلعہ والوں نے وہ بکریاں وصول کر لیں۔ قلعے کے اندرلے گئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍جولائی 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جولائی2005ءصفحہ5تا6)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسی خطبہ جمعہ میں یہ واقعہ بھی بیان فرمایا کہ

’’ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ سے ان کی بعثت سے پہلے ایک سودا کیا۔ میرے ذمہ کچھ رقم تھی، ادا کرنی رہ گئی تھی۔ تو میں نے کہا آپؐ اسی جگہ ٹھہریں میں بقیہ رقم لے کر آیا۔ گھر آنے پر کہتے ہیں میں بھول گیا، کہتے ہیں مجھے تین دن کے بعد یاد آیا۔ پس میں گیا تو دیکھا آپ اسی جگہ کھڑے ہیں۔ مجھے دیکھ کر آپؐ نے فرمایا: اے نوجوان ! تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا۔ میں تین دن سے اسی جگہ تیرا انتظار کر رہا ہوں۔

(ابو داؤد کتاب الادب باب فی العدۃ)

یہ عہد کا اتنا پاس تھا اس سے کہہ دیا ٹھیک ہے میں تمہارے انتظار میں یہاں کھڑا ہوں اور کیونکہ ایک بات منہ سے نکال دی کہ انتظار میں کھڑا ہوں اس لئے تین دن تک مختلف اوقات میں وہاں جاتے رہے، دیکھتے رہے اور خاص طور پر اس وقت جس وقت وہ کہہ کے گیا تھا کہ انتظار کریں۔ آپؐ وہاں جا کر انتظار کرتے رہے۔ تو یہ معیار تھے جو آپؐ نے اپنی بات کے، اپنے وعدوں کے، اپنے عہدوں کے قائم کئے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍جولائی 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جولائی2005ءصفحہ6)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺ کی سیرت کے اسی پہلو کو بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ

’’جب آپؐ نے ہجرت کا فیصلہ کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے، حکم سے، فیصلہ ہوا کہ آپؐ ہجرت کریں اور پروگرام کے مطابق بڑی خاموشی سے ہجرت کی تھی۔ اگر آپ پہلے امانتیں لوٹانے کا انتظام فرماتے تو بات نکل جاتی، خطرہ پیدا ہو جاتا۔ لیکن آپؐ کو اس بات کی بھی فکر تھی کہ لوگوں کی امانتیں ان تک پہنچ جائیں۔ کسی کو یہ کہنے کی جرأت نہ ہو کہ ہماری امانتیں دیئے بغیر چلے گئے۔ ہم تو امین سمجھتے تھے آج ہم دھوکاکھا گئے۔ یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، تو اس کے لئے آپ نے یہ انتظام فرمایا کہ حضرت علیؓ کو مقرر فرمایا اور ان کے سپرد امانتیں کیں کہ جن جن لوگوں کی امانتیں ہیں ان کو لوٹا دینا اور فرمایا اس وقت تک تم نے مکہ ہی میں رہنا ہے جب تک ہر ایک کو اس کی امانت نہ پہنچ جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍جولائی 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جولائی2005ءصفحہ6)

پس اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ آپ کو کس قدر اپنے عہد کا، وفا کا اور امانت داری کا پاس اور خیال تھا کہ دشمن آپ کی جان کے درپے ہے۔ مگر آپ نے کسی صورت میں یہ گوارا نہ کیا کہ بدعہدی ہو یا امانت کے خلاف کوئی بات ہو۔

فتح مکہ اور حضرت بلالؓ کے ساتھ وفا

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ 18؍ستمبر 2020ء کو مسجد مبارک اسلام آباد یوکےمیں بدری صحابہ کے ذکر میں حضرت بلالؓ کا ذکر فرمایا کہ کس طرح مکہ والے خصوصاً آپ کا آقا امیہ بن خلف آپ پر مظالم ڈھاتا تھا مگر آپ کے منہ سے صرف احد احد ہی نکلتا تھا۔ اس تکلیف میں بھی خدا کی وحدانیت اور محمد رسول اللہﷺ کے ساتھ وفا داری جو آپ انہی سے سیکھ چکے تھے کس طرح نبھائی۔

جب مکہ فتح ہوتا ہے تو حضرت بلالؓ بھی آنحضرتﷺ کے ساتھ تھے۔ ابوسفیان آنحضرتﷺ سے اپنے لوگوں کے لیے امان اور معافی کا خواستگار ہوا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرے اسے امن دیا جائے گا۔ جو شخص ابوسفیان کے گھر چلا جائے اسے بھی امن دیا جائے گا۔ جو اپنے ہتھیار پھینک دے اسے بھی امن دیا جائے گا جو اپنا دروازہ بند کرکے بیٹھ جائے گا اسے بھی امن دیا جائے گا، جو حکیم بن حزام کے گھر چلا جائے گا اس کو امن دیا جائے گا۔

حضرت مصلح موعودؓ اس کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ

’’اس کے بعد ابی رویحہؓ جن کو آپ نے بلال حبشیؓ غلام کا بھائی بنایا ہوا تھا ان کے متعلق آپ نے فرمایا ہم اس وقت ابی رویحہؓ کو اپنا جھنڈا دیتے ہیں جو شخص ابی رویحہؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا ہم اس کو بھی کچھ نہ کہیں گے اور بلال سے کہا تم ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے جاؤ کہ جو شخص ابی رویحہؓ کے جھنڈے کے نیچے آجائے گا اس کو امن دیا جائے گا۔ ‘‘

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’اس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی۔ مکہ کے لوگ بلال کے پیروں میں رسی ڈال کر اس کو گلیوں میں کھینچاکرتے تھے، مکہ کی گلیاں، مکہ کے میدان بلال کے لئے امن کی جگہ نہیں تھے بلکہ عذاب اور تذلیل اور تضحیک کی جگہ تھے، رسول اللہﷺ نے خیال فرمایا کہ بلال کا دل آج انتقام کی طرف بار بار مائل ہوتا ہو گا اس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی نہایت ضروری ہے۔ مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا انتقام اسلام کی شان کے مطابق ہو۔ پس آپؐ نے بلال کا انتقام اس طرح نہ لیا کہ تلوار کے ساتھ اس کے دشمنوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں بلکہ اس کے بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑا جھنڈا دے کر کھڑا کر دیا اور بلالؓ کو اس غرض کے لئے مقرر کر دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ جو کوئی میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے آکر کھڑا ہو گا اسے امن دیا جاے گا۔ کیسا شاندار یہ انتقام تھا، کیسا حسین یہ انتقام تھا، جب بلال بلند آواز سے یہ اعلان کرتا ہو گا کہ اے مکہ والو! آؤ میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو جاؤ تمہیں امن دیا جائے گا تو اس کا دل خود ہی انتقام کے جذبات سے خالی ہوتا جاتا ہو گا اور اس نے محسوس کر لیا ہو گا کہ جو انتقام محمد رسول اللہﷺ نے میرے لئے تجویز کیا ہے اس سے زیادہ شاندار اور اس سے زیادہ حسین انتقام میرے لئےکوئی نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ 340تا341)

آنحضرتﷺ نے جہاں خداتعالیٰ کے ساتھ اپنے عشق و وفا کو انتہائی مقام پر پہنچایا وہاں اپنے ساتھیوں، دوستوں اور تعلقات رکھنے والوں سے بھی ’’وفا‘‘ کا ثبوت دیا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اپنی زندگیوں میں ان واقعات کی روشنی میں ایک انقلاب لائیں اور انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔

بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِہٖ

کَشَفَ الدُّجٰی بِجَمَالِہٖ

حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ

صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button