مساجد

خواتین کا ایامِ مخصوصہ میں مسجد آنا

سوال:۔ ایک خاتون نے عورتوں کے مخصوص ایام میں ان کے مسجد میں آنے کے بارے میں مختلف احادیث نیز موجودہ دَور میں خواتین کو ان ایام میں اپنی صفائی وغیرہ کے لیے میسر جدید ساز وسامان کے ذکر پر مبنی ایک نوٹ حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کر کے مساجد میں ہونے والی جماعتی میٹنگز اور اجلاسات وغیرہ میں ایسی عورتوں کی شمولیت اور ایسی غیر مسلم خواتین کو مسجد کا وزٹ وغیرہ کروانے کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہ نمائی طلب کی۔ جس پر حضور انورنے اپنے مکتوب مؤرخہ 14؍مئی 2020ء میں درج ذیل جواب عطا فرمایا:

جواب:۔ایام حیض والی خواتین کے مسجد میں سے کوئی چیز لانے یا مسجد میں چھوڑ کر آنے نیز مسجد میں جا کر بیٹھنے کے بارہ میں الگ الگ احکامات بڑی وضاحت سے حضورﷺ نے ہمیں سمجھا دیے ہیں۔ چنانچہ جیسا کہ آپ نے اپنے خط میں بھی ذکر فرمایا ہے کہ حضورﷺ اپنی ازواج کو اس حالت میں چٹائی وغیرہ بچھانے کے لیے مسجد میں جانے کی اجازت فرمایا کرتے تھے۔ لیکن جہاں تک اس حالت میں مسجد میں جا کر بیٹھنے کا تعلق ہے تو اس بارہ میں بھی حضورﷺ کی ممانعت بڑی صراحت کےساتھ احادیث میں مذکور ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے عیدین کے موقع پر کنواری لڑکیوں، جوان و پردہ دار اور حائضہ تمام قسم کی عورتوں کو عید کے لیے جانے کی تاکیداًہدایت فرمائی یہاں تک کہ ایسی خاتون جس کے پاس اوڑھنی نہ ہو اسے بھی فرمایا کہ وہ اپنی کسی بہن سے عاریۃً اوڑھنی لے کر جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ایام حیض والی خواتین کے لیے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں۔

اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر جب حج سے پہلے دیگر مسلمان عمرہ کر رہے تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے مخصوص ایام میں تھیں۔ چنانچہ حضورﷺ نے انہیں عمرہ کی اجازت نہ دی کیونکہ طواف کرنے کے لیے مسجد میں زیادہ دیر تک رہنا پڑتا ہے۔ پھر جب وہ ان ایام سے فارغ ہو گئیں تو حج کے بعد انہیں الگ عمرہ کے لیے بھجوایا۔

پس احادیث میں اس قدرصراحت کے بیان کے بعد کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ ہم اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے نئی نئی راہیں تلاش کریں۔

جہا ں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پہلے زمانہ میں عورتوں کو اپنی صفائی کے لیے ایسے ذرائع میسر نہیں تھے جیسے اب ہیں۔ ٹھیک ہے ایسے جدید ذرائع میسر نہیں تھے لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ اپنی صفائی کا خیال ہی نہیں رکھ سکتی تھیں اور ان کے حیض کے خون ادھر ادھر گرتے پڑتے تھے۔ انسان نے ہر زمانہ میں اپنی ضروریات کے لیے بہتر سے بہتر انتظام حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پس پہلے زمانہ میں بھی عورتیں اپنی صفائی ستھرائی کے لیے بہترین انتظام کیا کرتی تھیں۔

پھر اس جدید دور کے ذرائع صفائی ستھرائی میں بھی بہرحال سقم موجود ہیں۔ ایسی خواتین جن کو بہت زیادہ خون آتا ہے بعض اوقات ان کا پیڈ Leakکر جانے کی وجہ سے کپڑے خراب ہو جاتے ہیں۔

پس اسلام کی جو تعلیمات دائمی اور ہر زمانہ کے لیے یکساں ہیں، ان پر ہر زمانہ میں اسی طرح عمل ہو گا جس طرح آنحضورﷺ کے زمانہ میں ہوتا تھا۔

اگرکسی جگہ مجبوری ہے اور نماز کے کمرہ کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں تو اسی کمرہ کے آخر پر دروازہ کے قریب ایک ایسی جگہ مخصوص کی جا سکتی ہے جہاں نماز نہ پڑھی جائے اور ایسی عورتیں وہاں بیٹھ جایا کریں، یا مسجد کے آخر حصہ میں ایسی عورتوں کے لیے کرسیاں رکھ کر ان کے بیٹھنے کا انتظام کردیا جائے، تا کہ نماز پڑھنے کی جگہ کے گندا ہونے کا ہلکا سا بھی شبہ باقی نہ رہے۔

جہاں تک غیر مسلم عورتوں کے مساجد کا وزٹ کرنے کی بات ہے تو اوّل تو وزٹ کے دوران انہیں مساجد میں بٹھایا نہیں جاتا بلکہ صرف مساجد کا وزٹ کروایا جاتا ہے۔جس کا دورانیہ تقریباً اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ مسجد سے چٹائی لانے یا بچھا کر آنے کا دورانیہ ہوتا ہے۔لیکن اگر کہیں انہیں مسجد میں بٹھانے کی ضرورت پڑے تو نیچے صفوں پر نماز پڑھنے کی جگہ بٹھانے کی بجائے مسجد کے آخر پر کرسیوں پر انہیں بٹھائیں۔

(اس سوال کے جواب میں ایام حیض والی خواتین کے عید کے موقع پر دعا میں شامل ہونے کے لیے حضورﷺ کی تاکیداًہدایت کا جو اوپر ذکر ہوا ہے۔ اس حوالہ سے خطبہ عید کے سننے کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حدیث نبویہﷺ کی روشنی میں جو جواب عطا فرمایا اسے بھی احباب کے استفادہ کے لیے یہاں درج کیا جا رہا ہے۔ مرتب)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button