الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

’’سیرت سیّد خیرالوریٰ ﷺ‘‘ کے حوالے سےچند خصوصی اشاعتیں

دورِحاضر میں دشمنانِ اسلام کی طرف سے سوچی سمجھی سازش کے تحت حضرت سیّدالانبیاءمحمدمصطفیٰ ﷺ کی پاکیزہ ذات کو ہرزہ سرائی اور تمسخر کا بےجا نشانہ بناکر ہتکِ رسولؐ کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدیوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’ہمارے دل اس فعل پر چھلنی ہیں۔ ہمارے جگر کٹ رہے ہیں۔ ہم خداتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ ان ظالموں سے بدلہ لے۔ انہیں وہ عبرت کا نشان بنائےجو رہتی دنیا تک مثال بن جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ستمبر 2012ء)

حضورانور نے مزید فرمایا کہ ’’دنیا کے سامنے ہم نے آنحضرت ﷺ کی سیرت کے خوبصورت پہلوؤں کو رکھنا ہے، یہ ہمارا کام ہے اور اس کو ہمیں بہرحال ایک کوشش کرکے سرانجام دینا چاہیے، آج یہ کام ایک لگن کے ساتھ صرف جماعت احمدیہ ہی کرسکتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍ستمبر 2012ء)

چنانچہ خود حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعدد خطبات اور خطابات کے ذریعے آنحضور ﷺ کے محاسن کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے آپؐ کی ذات اقدس پر کیے جانے والے لغو اعتراضات کا ردّ فرمایا۔ نیز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک پر لبّیک کہتے ہوئے دنیابھر میں متعدد اخبارات و رسائل نے سیرۃالنبیﷺ کے حوالے سے خصوصی نمبر شائع کیے جن میں تین صد سے زائد صفحات پر مشتمل ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر دسمبر 2012ء، ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ نومبر 2012ء، ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان جون جولائی 2012ء اور سہ ماہی ’’الناصر‘‘ جرمنی اکتوبر تا دسمبر 2012ء بھی شامل ہیں۔ آئندہ چند اشاعتوں میں ان خصوصی اشاعتوں کے حوالے سے انتخاب ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بنایا جائے گا۔ ان شاءاللہ

………٭………٭………٭………

آنحضورﷺ کا پاکیزہ بچپن اور جوانی

قرآن کریم میں انبیائے کرام کی بعثت سے پہلے کی زندگی کو اُن کی صداقت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے پاکیزہ بچپن اور جوانی کے بارے میں مکرم مصباح الدین محمود صاحب کا مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر و دسمبر 2012ء میں شائع ہوا ہے۔

زمانۂ رضاعت میں آنحضورﷺ اپنی رضاعی والدہ کے پاس مکّہ سے باہر رہے اور بنوسعد کے بچوں میں کھیل کود کر بڑے ہوئے۔ چار سال کی عمر میں شق صدر کا واقعہ پیش آیا جب دو سفیدپوش آدمی آئے اور آپؐ کو پکڑ کر زمین پر لٹادیا، پھر آپؐ کا سینہ چاک کیا تو یہ نظارہ دیکھ کر آپؐ کےرضاعی بھائی عبداللہ بن حارث نے فوراً گھر جاکر ماں باپ کو اطلاع دی۔ حارث اور حلیمہ یہ سن کر بھاگے آئے۔ حلیمہ نے آگے بڑھ کر آپؐ کو گلے سے لگایا اور پوچھا کہ کیا بات ہوئی؟آنحضرتﷺ نے سارا ماجرا بتایا کہ انہوںنے میرے سینے میں کوئی چیز تلاش کرکے نکالی اور باہر پھینک دی۔ حلیمہ خوفزدہ ہوکر آپؐ کو آپؐ کی والدہ حضرت آمنہ کے پاس لے آئیں تو انہوں نے فرمایا: پریشان نہ ہوں، میرا بیٹا بڑی شان والا ہے۔ جب یہ حمل میں تھا تو مَیں نے دیکھا تھا کہ میرے اندر سے ایک نُور نکلا ہے جو دُوردراز ملکوں تک پھیل گیا ہے۔

والدین کی وفات کے بعد آپؐ پہلے اپنے دادا اور پھر اُن کی وفات کے بعد اپنے چچا کے زیرکفالت رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ بلاشبہ ابوطالب نے بڑی محبت اور پیار کے ساتھ آپؐ کی پرورش کی مگر آپؐ کی زندگی کا ایک واقعہ ایسا ہے جو ہمیشہ ہی میرے قلب کو مضطرب کردیتا ہے کہ گھر میں جب کھانا تقسیم ہوتا تھا تو آپؐ کبھی بڑھ کر مانگا نہیں کرتے تھے۔ باقی بچے لڑجھگڑ کر مانگتے مگر آپؐ ایک طرف خاموش کھڑے رہتےاور جب چچی کچھ دیتی تو لے لیتے۔ بالعموم اس واقعہ کو رسول کریمﷺ کے وقار اور متانت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر وہ آپؐ کی نبوت کا زمانہ نہیں تھا۔ آپؐ آٹھ نو سال کے تھے اور اس عمر کے بچے کے متعلق یہ ثابت کرنا ضروری نہیں ہوتا کہ وہ بڑا باوقار تھا۔ حدیث ہے کہ بچہ بچہ ہی ہے خواہ آئندہ زمانہ میں وہ نبی بننے والا ہو۔ پس آپؐ اُس عمر میں اپنی ذہانت کی وجہ سے یہ محسوس کرتے تھے کہ مَیں اس گھر سے بطور حق کے کچھ نہیں مانگ سکتا۔ جو بچے ذہین نہیں ہوتے وہ چچی اور ماں کا فرق زیادہ نہیں سمجھتے اور چچی سے بھی اسی طرح لڑجھگڑ کر چیزیں مانگ لیتے ہیں جس طرح ماں سے مانگی جاتی ہیں۔ یہ محبت کا نہیں بلکہ عقل کی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پس کبھی بھی آپؐ کے اس واقعہ کو پڑھتے ہوئے مَیں بغیر اس کے کہ رقّت مجھ پر غلبہ نہ پائے، آگے نہیں گزر سکتا اور ہمیشہ سوچتا ہوں کہ اُس وقت آپؐ کے دل میں کیا جذبات پیدا ہوتے ہوں گے۔

آنحضورﷺ بارہ سال کی عمر میں ابوطالب کے ساتھ شام کے ایک تجارتی سفر پر گئے تو بُصریٰ کے مقام پر رہنے والے عیسائی راہب بحیرا کی خانقاہ کے قریب جب قریش کا یہ قافلہ پہنچا تو بحیرا نے کشفی نظارہ دیکھا کہ تمام پتھر اور درخت وغیرہ سجدہ میں گرگئے۔ اُسے معلوم تھا کہ الٰہی نوشتوں کی رُو سے ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے اس لیے اُس نے اپنی فراست سے سمجھ لیا کہ اس قافلے میں وہ نبی موجود ہے اور اپنے قیافہ سے آنحضورﷺکو پہچان لیا۔

نوجوانی کے زمانے میں آنحضورﷺ نے بعض نوجوانوں کے ساتھ مل کر حلف الفضول معاہدے میں شرکت فرمائی جس کا مقصد غرباء اور مظلوموں کی مدد کرنا تھا۔زمانۂ نبوت میں آپؐ نے فرمایا: اس معاہدے کے مقابلے میں اگر مجھ کو سرخ اونٹ بھی دیے جاتے تو مَیں اس سے نہ پھرتا اور آج بھی ایسے معاہدے کے لیے کوئی بلائے تو حاضر ہوں۔

آنحضورﷺ نوجوانی کے عالم میں تھے تو اُس وقت بھی اہل مکّہ آپؐ کی صداقت اور امانت کے قائل تھے۔ کعبہ کی تعمیرنَو کے وقت جب حجراسود کو اُس کی جگہ پر رکھنے کا جھگڑا سردارانِ قریش کے درمیان پیدا ہوا اور رات گئے بحث کے نتیجے میں کوئی فیصلہ نہ کیا جاسکا تو ابوامیہ بن مغیرہ نے کہا کہ اس نزاع کے تصفیہ کو اُس شخص کے حوالے کردو جو کل صبح سب سے پہلے یہاں آئے۔ سب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ اتفاقاً آنحضورﷺ ہی علی الصبح سب سے پہلے وہاں تشریف لائے تو تمام قریش نے متفقہ طورپرآپؐ سے تصفیہ کرنے کی درخواست کی۔ آپؐ نے ایک کپڑا بچھاکر اپنے ہاتھ سے اُس پر حجر اسود رکھا۔ پھر سردارانِ قریش سے کہا کہ وہ چادر کونوں سے اٹھاکر اسے حجراسود رکھنے کے مقام تک لے آئیں۔ جب وہ وہاں پہنچے تو آپؐ نے اپنے ہاتھ سے حجراسود اٹھاکر اُسے اُس کی جگہ پر رکھ دیا۔

عنفوانِ شباب میں آنحضورﷺ نے اپنی رفیقہ حیات کے انتخاب میں خاندانی شرافت اور حضرت سیّدہ خدیجہؓ کی ذاتی سیرت کو پیش نظر رکھا اور پھر نہ صرف تمام عمر اس کو نبھایا بلکہ اُن کی وفات کے بعد بھی اُن سے وفا کا تعلق قائم رکھا۔

………٭………٭………٭………

آنحضورﷺ کا حلیہ مبارک

رسول کریم ﷺ کے حلیہ مبارک کے بارے میں مکرم نوید احمد سعید صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبرو دسمبر 2012ء میں شامل اشاعت ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اوائل جوانی میں ایک رات (رؤیا میں) دیکھا کہ … جب مَیں حضورﷺ کی خدمت میں پہنچا تو بہت خوش ہوئے اور آپؐ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا۔ آپؐ کا حسن و جمال اور ملاحت اور آپؐ کی پُرشفقت و پُرمحبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے اور وہ مجھے کبھی نہیں بھول سکتی۔ آپؐ کی محبت نے مجھے فریفتہ کرلیا اور آپؐ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنالیا۔…اور مَیں ذوق اور وجد سے آپؐ کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا۔ … ایک رات مَیں کچھ لکھ رہا تھا کہ اسی اثناء میں مجھے نیند آگئی اور مَیں سوگیا۔ اس وقت مَیں نے آنحضرت ﷺکو دیکھا۔ آپؐ کا چہرہ بدرتام کی طرح درخشاں تھا۔‘‘ (روحانی خزائن جلد پنجم)

آنحضورﷺ کے صحابہؓ نے بھی آپؐ کا چہرہ اس طرح ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ وہ حسنِ ظاہری و باطنی کا کامل مجموعہ نظر آتا ہے۔ حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو چاندنی رات میں دیکھا۔ آپ سرخ جوڑے میں ملبوس تھے۔ مَیں کبھی آپؐ کی طرف دیکھتا اور کبھی چاند کی طرف دیکھتا۔ آپ میرے نزدیک چاند سے زیادہ حسین تھے۔ حضرت براء بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ سرخ رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے تھے۔ مَیں نے آپؐ سے زیادہ حسین کوئی نہیں دیکھا۔ اُن سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ چاند کی طرح تھا۔ حضرت براءؓ سے روایت ہے کہ مَیں نےکوئی زلفوں والا سرخ جوڑے میں رسول اللہﷺ سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھا، آپؐ کے بال کندھوں پر پڑتے تھے۔ دونوں شانوں کے درمیان فاصلہ تھا (یعنی سینہ چوڑا تھا)، نہ آپؐ پستہ قد کے تھے نہ ہی لمبے تھے۔

حضرت ابوالطفیلؓ کہتے ہیں کہ آنحضورﷺ سفید رنگ کے تھے، خوبصورت اور معتدل القامت تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سفید رنگ کے تھے گویا کہ آپ کو چاندی سے بنایا گیا ہے۔ بال قدرے خمدار تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ میانہ قد کے تھے، نہ تو آپؐ بہت لمبے تھے نہ چھوٹے قد کے تھے۔ آپؐ خوبصورت جسم والے تھے۔ آپؐ کے بال نہ گھنگریالے تھے نہ بالکل سیدھے، آپؐ گندمی رنگ کے تھے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کے سرمبارک اور ریش مبارک میں چودہ سے زائد سفید بال شمار نہیں کیے۔

حضرت ہندؓ بن ہالہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بارعب اور وجیہ شکل و صورت کے تھے۔ چہرۂ مبارک یوں چمکتا تھا جیسے چودھویں کا چاند۔ آپؐ میانہ قد سے کسی قدر دراز اور طویل القامت سے کسی قدر چھوٹے تھے۔ بال خمدار۔ اگر مانگ سہولت سے نکل آتی تو نکال لیتے ورنہ نہ نکالتے۔پھول سا رنگ،کشادہ پیشانی، ابرو لمبے باریک اور بھرے ہوئے جو باہم ملے ہوئے نہیں تھے، ان کے درمیان ایک رگ تھی جو جلال میں نمایاں ہوجاتی۔ ناک ستواں جس پر نُور جھلکتا تھا، سرسری دیکھنے والے کو اُٹھی ہوئی نظرآتی تھی۔ ریش مبارک گھنی، رخسار نرم، دہن کشادہ، دانت ریخدار،آنکھوں کے کوئے باریک، گردن خوبصورت اور لمبی صراحی دار جس پر سرخی جھلکتی تھی۔ صفائی میں چاندی کی مانند، اعضاء متوازن، بدن کچھ بھاری مگر نہایت موزوں اور مضبوط، شکم و سینہ ہموار، چوڑے سینے والے، جوڑ مضبوط اور بھرے ہوئے، جسم چمکتا ہوا اور بالوں سے خالی۔ سینہ اور پیٹ بالوں سے صاف، صرف ایک باریک دھاری جو سینے سے ناف تک باریک خط کی طرح جاتی تھی۔ دونوں بازوؤں اور کندھوں اور سینے کے بالائی حصے پر بال تھے۔ کلائیاں دراز، ہتھیلی چوڑی، ہاتھ اور پاؤں گوشت سے پُر اور نرم، انگلیاں دراز، تلوے قدرے گہرے۔ جب چلتے تو قوّت سے قدم اٹھاتے۔ قدرے آگے جھکتے ہوئے قدم اٹھاتے جیسے بلندی سے اُتر رہے ہوں۔ جب کسی کی طرف رُخ فرماتے تو پوری طرح فرماتے، نظر جھکائے رکھتے، اکثر آپؐ کی نظریں نیم وا ہوتیں۔

اُمّ معبدؓ کا تعلق قوم خزاعہ سے تھا۔ اُسے پہلے آنحضورﷺ سے کوئی تعارف نہ تھا۔ سفر ہجرت کے دوران آپؐ اپنے رفیق حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ اس عورت کے خیمہ میں گئے تو اُس کی ایک مریل سی بھوکی بکری نے اتنا دودھ دیا کہ سب نے سیر ہوکر پیا اور پھر بھی بچ گیا۔ شام کو اُس کا شوہر گھر آیا تو اُمّ معبدؓ نے اُس کے سامنے حضورﷺ کی ذات بابرکات کا نقشہ یوں کھینچا: پاکیزہ رُو،کشادہ چہرہ، پسندیدہ خُو، نہ پیٹ باہر نکلا ہوا نہ سر کے بال گرے ہوئے۔ زیبا، صاحب جمال، آنکھیں سیاہ و فراخ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن، بلند گردن، آنکھیں جیسے سُرمہ لگا ہو، باریک و پیوستہ ابرو، خاموش باوقار، دُور سے دیکھنے میں دلفریب، قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین، شیریں کلام، واضح الفاظ، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد۔ رفیق ایسے کہ ہر وقت اُس کے گردوپیش رہتے ہیں۔ جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں جب حکم دیتا ہے تو تعمیل کے لیے جھپٹتے ہیں۔ مخدوم، مطاع، نہ کوتاہ سخن نہ فضول گو۔

آنحضرتﷺ کی مدینہ آمد پر آپؐ کی زیارت کے لیے یہودیوں کے ایک بڑے عالم حصینؔ آئے اور اسلام قبول کرلیا۔ اُن کا اسلامی نام عبداللہ بن سلام ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے جونہی حضورﷺ کو دیکھا تو فوراً سمجھ لیا کہ یہ چہرہ جھوٹے آدمی کا نہیں ہوسکتا۔

………٭………٭………٭………

آنحضورﷺ کی قیامِ توحید کے لیے عظیم الشان جدوجہد

آنحضورﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات و صفات کا کامل عرفان بخشا تھا۔ آپؐ نے اتنے قریب سے وہ حُسنِ بےپایاں دیکھا کہ الوہیت کے بحراعظم میں وہ ذرّہ بشریت گم ہوگیا۔ رسول کریم ﷺ کی قیام توحید کے لیے جدوجہد سے متعلق مکرم عبدالسمیع خان صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر و دسمبر 2012ء کی زینت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’آنحضرت ﷺ اس قدر خدا میں گم اور محو ہوگئے تھے کہ آپؐ کی زندگی کے تمام انفاس اور آپؐ کی موت محض خداتعالیٰ کے لیے ہوگئے تھے اور آپؐ کے وجود میں نفس، مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ باقی نہیں رہا تھا اور آپؐ کی روح خدا کے آستانہ پر ایسے اخلاص سے گری تھی کہ اس میں غیر کی ایک ذرّہ آمیزش نہیں رہی تھی۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز جلد اوّل صفحہ178)

عیسائی مستشرق ڈاکٹر سپرنگر لکھتا ہے: نبی عربی کے خیال میں ہمیشہ خدا کا تصور غالب رہتا تھا۔ اُس کو نکلتے ہوئے آفتاب اور برستے ہوئے پانی اور اُگتی ہوئی روئیدگی میں خدا ہی کا دستِ قدرت نظر آتا تھا۔ کڑکتی ہوئی بجلی اور طیور کے نغمات میں خدا ہی کی آواز سنائی دیتی تھی اور سنسان جنگلوں اور پرانے شہروں کے کھنڈروں میں خدا ہی کے قہر کے آثار دکھائی دیتے تھے۔ (برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ29)

خدا کی وحدانیت کے اعلان نے مشرک عربوں کے صحرا میں حشر برپا کردیا۔ آنحضرت ﷺ پر مصائب کے پہاڑ توڑے گئے لیکن حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے یہی اعلان فرمایا: ’’بخدا اگر مَیں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہوکر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں۔ یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذّت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ111)

چنانچہ ہم کبھی آنحضورﷺ کو نوحؑ کی طرح خفیہ اور اعلانیہ تبلیغ کرتے دیکھتے ہیں،کبھی ابراہیمؑ کی طرح پُرزور دلائل کے ساتھ مشرکین کو قائل کرتے ہوئے اور کبھی موسیٰؑ کی طرح جابر سلطانوں کو کلمہ حق سناتے ہوئے اور کبھی عیسیٰؑ کی طرح خدا کی خاطر دکھوں کی صلیب اٹھاکر مقتل کی طرف جاتے ہوئے۔ کبھی آپؐ کوہ صفا پر قریش کو زندگی کا پیغام دیتے ہیں اور کبھی مکّہ کی گلیوں میں تبلیغ کرتے ہیں لیکن دھتکارے جاتے ہیں۔ کبھی عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز کے بازاروں میں خدا کی طرف بلاتے ہیں اور حج کے ایام میں ایک ایک گروہ کے پاس جاکر پیغام دیتے ہیں تو ابولہب پتھر برساتے ہوئے تعاقب کرتا ہے اور لوگوں کو کہتا ہے کہ اس کی بات نہ سننا۔ کبھی آپؐ طائف میں پیغامِ حق پہنچاتے ہیں تو اس معصوم کو پتھروں سے لہولہان کردیا جاتا ہے۔ الغرض آپؐ کی ساری زندگی توحید کے لیے غیرمعمولی لگن اور شجاعت کا پتہ دیتی ہے۔سر ولیم میور لکھتے ہیں: محمدؐ کے سفر طائف میں عظمت اور شجاعت کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ایک تنہا شخص جسے اس کی قوم نے حقارت کی نظر سے دیکھا اور ردّ کردیا وہ خدا کی راہ میں دلیری کے ساتھ اپنے شہر سے نکلتا ہے اور جس طرح یونس بن متی نینوا کو گیا اسی طرح وہ ایک بُت پرست شہر میں جاکر اُن کو توحید کی طرف بلاتا اور توبہ کا وعظ کرتا ہے۔

(سیرت خاتم النبیّینﷺ صفحہ184)

توحید سے عشق کا ہی نتیجہ تھا کہ قریش نے جب حضرت ابوطالب کو آپؐ کی حمایت واپس لینے پر کہا تو اُن کے پوچھنے پر آپؐ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں تب بھی مَیں اپنے فرض سے باز نہیں رہوں گا حتیٰ کہ خدا اسے پورا کردے یا مَیں اس راہ میں مارا جاؤں۔

آہستہ آہستہ پاکباز انسانوں کی ایک جماعت تیار ہونے لگی جو توحید کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار تھی۔ مشرکین کے ہاتھوں بلالؓ، خبابؓ اور آل یاسرؓ کی بےکسی کو سیّد سلیمان ندوی نے یوں بیان کیا کہ عیسائیت کو ایک سولی پر بہت ناز ہے مگر دیکھو کہ اسلام کے دامن میں کتنے مقتل، کتنی سولیاں اور کتنے مذبح خانے ہیں۔

زمین پر توحید کا عجیب منظر ابھرنے لگا۔ خدائے واحدو یگانہ کی عبادت کے لیے غلام اور بادشاہ والہانہ طور پر لبّیک کہنے لگے۔ شاہِ حبشہ نجاشی، شام کا رئیس فردہ، حمیر کا رئیس عامر، یمن کا رئیس مرکبود اور عمان کے رئیس عبید اور جعفر بھی مکّہ کے غلاموں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔اس سحرآفرین داستان کی ایک دلکش منزل فتح مکّہ کا مبارک دن ہے جس دن خانہ کعبہ کو ہمیشہ کے لیے بتوں سے پاک کیا جاتا ہے۔ اگر کائنات کا مقصد محمد مصطفیٰ ﷺ تھے تو آپؐ کا مقصود توحید کا قیام تھا۔ یہ توحید اتنی تیزی سے سینوں پر نقش ہونے لگی کہ حجۃالوداع تک دس لاکھ مربع میل پر بسنے والے انسانوں کو منور کرگئی۔ نپولین بوناپارٹ نے اسی انقلاب پر کہا کہ پندرہ سال کے عرصے میں لوگوںکی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کرلی، مٹی کی بنی ہوئی دیویاں مٹی میں ملادی گئیں، بت خانوں میں رکھی مورتیوں کو توڑ دیا گیا۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرتﷺ کی تعلیم کا۔

اسی غیرتِ توحید نے ذاتِ مصطفیٰ ؐکے لیے احتیاط کے کڑے اصول قائم کیے کیونکہ گزشتہ انبیاء کی طرح آپؐ کے عظیم الشان منصب کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ممکن تھا کہ نافہم آپؐ کی ذات کو شرک کا منبع بنالیتے۔ مگر آنحضرتﷺ اپنے عاجز بندہ ہونے میں ہی خوشی اور فخر محسوس کرتے تھے اور ہر موقع پر اپنے جذبات کو خدا کی طرف منتقل کردیتے۔ چنانچہ فتح کے موقع پر آپؐ کا سر جھکتے جھکتے اونٹ کے کجاوے سے جالگا اور سوائے خدا کی عظمت اور کبریائی کے وہاں اَور کوئی نعرہ نہ لگا۔ کسی نے کہا کہ شاہانِ فارس اور روم کو اُن کی رعایا سجدہ کرتی ہے، کیا ہم آپؐ کو سجدہ نہ کریں؟ فرمایا کہ سجدہ اللہ کے سوا اَور کسی کے لیے روا نہیں۔

سجدہ تو درکنار آپؐ کو تو مشرکوں سے مشابہت رکھنے والی تعلیم بھی ایک آنکھ نہ بھاتی۔ فرمایا میرے لیے اس طرح نہ کھڑے ہوا کرو جس طرح عجمی کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھی تو پیچھے کھڑے صحابہؓ کو اشارے سے بٹھادیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بات میری خاص تعظیم خیال کی جاوے۔ ایک بار کسی صحابی نے عرض کیا کہ فلاں معاملے میں اُسی طرح ہوگا جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گا یا آپؐ چاہیں گے۔ آپؐ نے فرمایا:کیا تُو نے مجھے خدا کا شریک بنایا ہے؟ یوں کہو کہ مَاشَاءاللّٰہُ وَحْدَہٗ یعنی وہی جو خدائے واحدویگانہ چاہے گا۔

ایک ہندو جناب لالہ بشن داس لکھتے ہیں: آپؐ نے وحدانیت کا ننھا سا بیج عرب کے ریگستان میں ایسا بویا اور بجائے پانی کے اپنے خونِ جگر سے ایسا سینچا کہ آج وہ اتنا بڑا درخت ہوگیا ہے کہ اس کی شاخیں چاردانگ عالم میں پھیل گئی ہیں اور کروڑہا روحیں اس کے سایہ میں بیٹھ کر ایک سچے خدا کی سچی عبادت کا نہایت ہی لذیذ پھل کھارہی ہیں۔

(برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ28)

سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’آج صفحۂ دنیا میں وہ شے کہ جس کا نام توحید ہے بجز اُمّت آنحضرتﷺ کے اَور کسی فرقہ میں نہیں پائی جاتی اور بجز قرآن شریف کے اَور کسی کتاب کا نشان نہیں ملتا کہ جو کروڑہا مخلوقات کو وحدانیت الٰہی پر قائم کرتی ہو اور کمال تعظیم سے اس سچے خدا کی طرف رہبر ہو۔ ہریک قوم نے اپنا اپنا مصنوعی خدا بنالیا۔ مسلمانوں کا خدا وہی ہے جو قدیم سے لازوال اور غیرمبدّل اور اپنی ازلی صفتوں میں ایسا ہی ہے جو پہلے تھا۔

(براہین احمدیہ جلداوّل صفحہ118-117)

قیامِ توحید کی خاطر روحِ مصطفویﷺ کی جدوجہد آج بھی جاری ہے اور تب تک جاری رہے گی جب تک تمام ابنائے آدم زمین پر اُمّتِ واحدہ نہیں بن جاتے۔ آپؐ کی وفات پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کتنی سچی بات عرض کی تھی کہ خداکی قسم! اللہ تعالیٰ آپؐ پر ہرگز دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ آپؐ اپنی قوّتِ قدسیہ اور روحانی فرزندوں کے ذریعے زندہ رہیں گے اور زندگیاں عطا کرتے رہیں گے۔ آپؐ کی روحانی توجہ خلفائے راشدین، مجدّدین اور اولیائےکرام کی صورت توحید کی منادی کرتی رہے گی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: ’’آخر توحید کی فتح ہے۔ غیرمعبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کیے جائیں گے۔ …… وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتےہیں ملکوں میں پھیلے گی۔ اس دن نہ کوئی مصنوعی کفّارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کردے گا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ304)

………٭………٭………٭………

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر و دسمبر 2012ء میں مکرم ثاقب زیروی صاحب کا نعتیہ کلام شائع ہوا ہے جس میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

سلام اُن پر ، درود اُن پر ، زباں پہ آیا ہے نام جن کا

مرے تخیّل کی رفعتوں سے بلند تر ہے مقام جن کا

اُنہیں کے فیضِ کرم سے علم و ادب کے چشمے اُبل رہے ہیں

مثالِ قرآں زبانِ عالم پہ آج تک ہے کلام جن کا

ہمارے دل کا تو پوچھنا کیا ، اُنہی کا قائل اُنہی پہ مائل!

بلند رُتبہ ہے بادشاہوں سے ایک ادنیٰ غلام جن کا

وہ نُور دیکھو ، ظہور دیکھو ، جمال دیکھو ، کمال دیکھو

وہی ہیں عقبیٰ میں میرِ محفل سنا تھا دنیا میں نام جن کا

نہیں یہ جرأت تو اَور کیا ہے ، مَیں اُن کی توصیف کر رہا ہوں

خدا نے ذوقِ طلب میں ثاقبؔ کیا ہے خود احترام جن کا

سہ ماہی ’’الناصر‘‘ جرمنی اکتوبر تا دسمبر 2012ء میں مکرم فرید احمد نوید صاحب کی ایک طویل نعت شائع ہوئی ہے جس کے ہر بند کے آخر پر بارگاہِ نبوی کے شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ کا وہ شعر ہے جو انہوں نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی وفات پر کہا تھا اور جس کا مطلب یہ ہے کہ تُو تو میری آنکھ کی پُتلی تھا ، تیری وفات سے میری آنکھ اندھی ہوگئی ہے، اب تیرے بعد کوئی بھی مرے مجھے اس کی پروا نہیں۔

اس خوبصورت نعتیہ کلام میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

تری ذات رونقِ بزم تھی ، تُو چلا گیا تو خزاں ہوئی

ترے ایک جلوۂ نور سے نئی صبحِ پاک عیاں ہوئی

تری عظمتوں کی گواہ خود ، ترے دشمنوں کی زباں ہوئی

وہ جو روشنی ترے دَم سے تھی ، ترے بعد پھر سے کہاں ہوئی

کُنْتَ السَوَادَ لِناظِرِیْ فَعَمِیْ عَلَیْکَ النَّاظِرُ

مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

یہ زمیں تری ، یہ فلک ترا ، ہے ترا یہ سارا جہان بھی

تری چاکری میں ہیں صف بہ صف ، یہ زماں یہ کون و مکان بھی

مرے حرف تیرے حضور ہیں ، تری حمد میں ہے زبان بھی

مری دھڑکنیں ترے واسطے ، ترے واسطے مری جان بھی

کُنْتَ السَوَادَ لِناظِرِیْ فَعَمِیْ عَلَیْکَ النَّاظِرُ

مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

تُو عظیم تر مَیں ترا گدا ، وہاں عظمتیں یہاں عاجزی

تُو فلک نشیں مَیں تہِ زمیں ، وہاں قدرتیں یہاں بے بسی

تری دُوریاں مرے زخم ہیں تری فرقتیں مری بے کلی

تری راہ میں مری موت ہو تری چاہ میں کٹے زندگی

کُنْتَ السَوَادَ لِناظِرِیْ فَعَمِیْ عَلَیْکَ النَّاظِرُ

مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button