سیرت النبی ﷺ

آنحضرتﷺ کی نفیس عادتِ مزاح

(حافظ مظفر احمد)

آنحضور ؐ کی حسّ مزاح بہت لطیف تھی۔آپؐ صاف ستھرا اور سچا مذاق کرتے تھے۔فرماتے تھے کہ میں مذاق میں بھی جھوٹ نہیں کہتا

اللہ تعالیٰ کااپنے مومن بندوں کو ارشادہے کہ انہیں خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو یادکرتے ہوئے ہمیشہ خوش رہنا چاہیے۔فرمایا:

قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا

(يونس:59)

تُو کہہ دے کہ (یہ) محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے۔ پس اس پر چاہئے کہ وہ بہت خوش ہوں۔

ہمارےرسول کریمﷺ فرمایا کرتے تھے کہ مومن کا حال بھی عجیب ہے کہ جب اسے کوئی مصیبت آئےتو وہ بخوشی صبر کرتا اور خدا سے اجر پاتا ہے۔اورجب اسے انعام ملے تو شکر کرتا اور اس کابھی اجرپاتا ہے۔گویا مومن ہر حال میں خوش اور راضی برضاہوتا ہے۔پس سچی خوشی اور خوش طبعی نہ صرف انسان کے صحت مندجسم و ذہن اوراعلیٰ ظرف وذوق کی علامت ہے بلکہ اس کے ایمان کی نشانی بھی بن جاتی ہے۔امر واقعہ بھی یہ ہے کہ خوش رہنا نہ صرف خود ایک انسان کےلیے بلکہ پورےماحول کےلیے صحت افزا اقدام ہے۔نفسیاتی جائزے کے مطابق ایک مسکرانے والا جتنے لوگوں سے ملتا ہے وہ ان میں خوشی کی ایک لہر پھیلا کر سارے معاشرہ میں مسکراہٹیں بکھیر کر طمانیت پیدا کرنے والا بن جاتا ہے جو ایک صحت مند معاشرہ کی علامت ہے۔

ہمارے نبی کریمؐ سے بڑھ کر کون ہے جسے نفس مطمئنہ اورمقام رضا نصیب ہوا ہو۔ آپؐ نہایت خوش طبع تھے،ہمیشہ مسکرانا آپؐ کی عادت تھی۔آپؐ اپنے صحابہ کو بھی تلقین فرماتے تھے کہ کسی نیکی کو حقیر مت سمجھو خواہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی اور مسکراہٹ سے پیش آنے کی نیکی ہو۔

(مسلم کتاب الادب باب 12)

صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ سب لوگوں سے بڑھ کر مسکرانے والے اور سب سے زیادہ عمدہ طبیعت کے تھے۔حضرت جابر ؓکی روایت ہے کہ رسول کریمؐ پر جب وحی آتی یا جب آپؐ وعظ فرماتے تو آپؐ ایک ایسی قوم کو ڈرانے والے معلوم ہوتے جس پر عذاب کا خطرہ ہو مگر آپؐ کی عمومی کیفیت یہ تھی کہ سب سے زیادہ مسکراتا ہوا حسین چہرہ آپؐ کا ہوتاتھا۔

(مجمع الزوائد جلد9صفحہ17)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ گھر میں ہمیشہ خوش اور ہنستے مسکراتے وقت گزارتے تھے۔

(شرح مواھب اللدنیہ للزرقانی جلد4صفحہ253)

حضرت جریر بن عبداللہ البجلیؓ بیان کرتے ہیں کہ قبول اسلام کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہؐ نے مجھے دیکھا ہو اور مسکرائے نہ ہوں۔

(بخاری کتاب الادب باب 17)

لطیف اور پاکیزہ مزاح

آنحضور ؐ کی حسّ مزاح بہت لطیف تھی۔آپؐ صاف ستھرا اور سچا مذاق کرتے تھے۔فرماتے تھے کہ میں مذاق میں بھی جھوٹ نہیں کہتا۔

(ترمذی کتاب البرو الصلۃ باب 10)

لطیف اور پاکیزہ مزاح اعلیٰ درجہ کی ذہانت کا متقاضی ہوتا ہے۔رسول اللہؐ کو اس لحاظ سے بھی غیر معمولی فراست عطا ہوئی تھی۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ بہت مزاح کرتے تھےاور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سچا مزاح کرنے والے پر ناراض نہیں ہوتا۔ (جامع الکبیر للسیوطی صفحہ142) رسول کریم ؐ کے مزاج میں مایوسی،یبوست یا خشکی ہرگز نہیں تھی آپؐ شگفتہ مذاق پسند فرماتے تھے۔صحابہ رسول ؐبیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ ہماری مجلس میں آکر بیٹھ جاتے،کبھی ایسانہیں ہوا کہ ہم ہنسی خوشی بیٹھے ہوں اورآپؐ نے کوئی مایوسی یا غم والی بات کردی ہو۔ آپؐ ہمارے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے۔ہمارے ساتھ خوش ہوتے تھے ،لطیفے وغیرہ سنتے اورکبھی خود سناتے بھی تھے۔ (مسلم کتاب الفضائل باب 11)

حضرت جابرؓ بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کے ساتھ سو سے زیادہ مجالس میں فیض صحبت پایا۔آپؐ کے اصحاب آپؐ کے سامنے اعلیٰ اشعار اور دورِجاہلیت کی دیگر متفرق باتیں بیان کرتے۔رسول اللہؐ خاموشی سے ان کی باتیں سنتے اور بسااوقات آپؐ تبسّم فرماتے۔(ترمذی کتاب الادب باب12)

حضرت زید بن ثابتؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہؐ کی مجالس میں جب ہم دنیاداری کی باتوں کا ذکر کرتے تو آپؐ ہمارے ساتھ اس میں شریک ہوتے۔جب ہم کھانے وغیرہ کی باتیں کرتے تو اس میں بھی حصّہ لیتے۔

(دلائل النبوۃ للبیھقی جلد1صفحہ324مطبوعہ بیروت)

گھریلو ماحول میں خوش طبعی

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے پوچھا کہ رسول اللہؐ کامذاق کیسا ہوتاتھا؟ انہوں نے بیان کیاکہ مثلاً ایک دفعہ اپنی کسی زوجہ محترمہ کو ایک کشادہ ساکپڑا عطاکیااورفرمایا:

یہ کپڑا پہنواور اللہ کی حمدوثنا کرو اور اپنا یہ دامن دلہن کی طرح گھسیٹ کر چلو۔

(کنزالعمال جلد4صفحہ43مطبوعہ بیروت)

رسول کریمؐ کے مزاح کا ایک اچھوتا اسلوب یہ تھا کہ روز مرہ بات بھی ایسے ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرتے کہ مزاح کی کیفیت پیدا ہوجاتی۔

ایک دفعہ رسول اللہﷺ اپنی صاحبزادی فاطمہؓ کے ہاں تشریف لائے تو حضرت علیؓ کو گھر میں موجود نہ پایا تو آپؐ نے پوچھا تمہارے شوہر کہاں ہیں؟انہوں نے بتایا کہ ہمارے مابین کچھ تکرار ہوگئی۔ وہ مجھے ناراض پاکر چلے گئے اور گھر میں دوپہرآرام بھی نہیں کیا۔رسول کریمﷺ نے ایک شخص کوبھجوایا کہ دیکھو وہ کہاں گئے؟ اس نے آکر بتایا کہ وہ مسجد میں ہیں۔رسول اللہﷺ وہاں تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ زمین پر لیٹے تھے ان کی چادرجسم سے سرکی ہوئی تھی اور پہلو غبار آلود تھا۔رسول کریمﷺ پہلے تو پیارسےحضرت علیؓ سےمٹی پونچھنے لگے پھر فرمایا:اٹھو اے ابوتراب(مٹی کے باپ)!اور یوں حضرت علیؓ کی ایک یہ کنیت بھی معروف ہوئی۔

(صحيح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ)

اسی طرح رسول اللہﷺبعض دفعہ اپنے گھر کےخادم حضرت انسؓ کو دوکانوں والاکہہ کریاد فرماتے۔اب ظاہر ہے کہ ہرشخص کے دوکان ہی توہوتے ہیں۔مگررسول اللہؐ کا پیار سے انسؓ کو یوں پکارنا کہ اے دوکانوں والے ذرا ادھر آنا۔کیسا مزاح پیداکردیتا ہوگا۔

(شمائل الترمذی باب فی صفۃ مزاح رسول اللّٰہؐ)

اس مزاح میں ایک یہ لطیف نکتہ بھی تھا کہ اطاعت شعار انسؓ بھی تورسول اللہؐ کے ارشاد پر کان لگائے رکھتے تھے۔

ایک اور صحابی لمبے قد کےتھے، نام خرباق بن ساریہ تھا، ایک مرتبہ رسول کریمﷺ نےانہیں ’’ذُوْالیَدیْن‘‘ یعنی لمبے ہاتھوں والا کہہ کر یاد فرمایا تو ان کی یہی نسبت معروف ہوگئی۔

رسول کریمﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھل مل کر رہتے اوربے تکلف ماحول پیدا کرتے۔حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ نبی کریمؐ کے مدینہ منورہ میں ابتدائی زمانے کے ایک سفر کا ذکر ہے، میں لڑکی سی تھی،ابھی موٹا پا نہیں آیا تھا۔نبی کریمؐ نے قافلہ کے لوگوں کو آگے جانے کی اجازت دے دی۔پھر مجھے فرمانے لگے آؤ،دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں۔میں نے دوڑ لگائی تو آپؐ سے آگے نکل گئی۔حضورؐ خاموش رہے۔(معلوم ہوتا ہے آنحضورؐ نے حضرت عائشہؓ کی خوشی کی خاطر انہیں آگے نکلنے دیا تبھی کسی تبصرہ کی بجائے خاموشی اختیار کی)۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ بعد میں جب میرا جسم کچھ فربہ ہوگیا اوروزن بڑھ گیا ہم ایک اور سفر کے لیے نکلے۔ رسول اللہؐ نے پھر قافلہ سے فرمایا کہ آپ لوگ آگے نکل جائیں۔اور مجھے فرمایا آؤ آج پھر دوڑ لگاتے ہیں۔ ہم نے دوڑ لگائی اس دفعہ رسول کریمؐ آگے نکل گئے۔اورمسکراتے ہوئے فرمانے لگے لو پہلی دفعہ تمہارے جیتنے کا بدلہ بھی آج اُترگیا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد6صفحہ264)

عمررسیدہ خواتین اور مزاح

عمررسیدہ لوگوں پر بعض دفعہ توجہ نہیں دی جاتی،رسول کریمؐ اس کا بھی خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک بڑھیا آپﷺ سےملنے آئی۔ آپؐ نے فرمایا بوڑھی عورتیں تو جنت میں نہ ہوں گی وہ بےچاری رونے لگی۔آپؐ نے فرمایا بی بی!میرامطلب ہے کہ آپ جوان ہوکر جنت میں جاؤگی(یعنی روح بوڑھی نہیں ہوتی اور جنت میں روح کا لطیف جسم عمر کی قید سے آزاد ہوگا۔)اس پر وہ بڑھیابہت خوش ہوئی۔آپؐ نے اپنی بات کی تائید میں سورۃ الواقعہ کی یہ آیت بھی تلاوت فرمائی کہ ہم نے جنت کی عورتوں کو نو عمر اور کنواریاں بنایاہے۔

(شمائل ترمذی باب فی صفۃ مزاح رسول اللّٰہؐ)

کسی روزمرہ کی عام سی بات پر زیادہ زور دے کر بھی رسول کریمﷺ مذاق کی بات پیدا کرلیتے تھے۔حضرت زید بن اسلمؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ام ایمنؓ نے(جورسول اللہﷺ کی کھلائی بھی تھیں)آپؐ سے عرض کیا کہ میرے شوہرنے آپ کو دعوت پربلایا ہے۔آپؐ نے فرمایا :کس نے؟،وہی آپ کا شوہرجس کی آنکھوں میں سفیدی ہے۔اس نے عرض کیا:یارسول اللہﷺ! خدا کی قسم!اس کی آنکھوں میں کوئی سفیدی (کا عیب) نہیں۔ آپؐ نے فرمایا:کیوں نہیں،اس کی آنکھوں میں توسفیدی ہے۔ام ایمنؓ نے پھرعرض کیا: خدا کی قسم! ایسا نہیں ہے تب رسول اللہﷺ نے یہ بات کھولی کہ بی بی! کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوتاجس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو۔آپؐ کا اشارہ آنکھ کےسفید ڈیلے کی طرف تھاجوہرآنکھ میں ہوتا ہے۔

(تخريج أحاديث الإحياء ، المغني عن حمل الأسفار،صفحہ 1019)

بچّوں سے مذاق

بڑے توبڑے کم سن بچوں سے بھی حضورؐ بے تکلفی سے پیش آتے اور ازراہ شفقت پُرلطف مذاق کرتے اور انہیں اپنے ساتھ مانوس رکھتے تھے۔حضرت انس بن مالکؓ خادم رسولؐ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ بچوں کے ساتھ سب سے زیادہ مزاح اور بے تکلفی کی باتیں کرتے تھے۔

(دلائل النبوۃ للبیھقی جلد1صفحہ331 بیروت)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ اپنی زبان اپنے نواسے حضرت حسن بن علیؓ کے سامنے نکال کر دکھاتے اور کم سن حسنؓ زبان کی سرخی دیکھ کر آپ کی طرف لپکتے تھے۔

(شرح السنة للبغويجزء 13صفحہ 180)

ایک دفعہ آپؐ اپنے ایک خادم انسؓ کے ہاں گئے،ان کے چھوٹے بھائی کو اداس دیکھ کر سبب پوچھاتوپتہ چلا کہ اس کی پالتو مینا مرگئی ہے۔اس کے بعد جب بھی آپؐ اس کے گھر جاتے تو اُسے محبت سے چھیڑتے اوراس کم سن کوکنیت سے یاد فرماکرکہتے۔ اے ابو عمیر(کم عمرمینا کے ابا) تمہاری مینا کا کیا ہوا؟اس طرح آپؐ بچوں سے پیار بھرے مزاح کی باتیں کرتے تھے۔

حضرت محمود بن ربیع ؓنے کم سنی میں حضور ؐکے محبت بھرے مزاح کی ایک بات عمر بھر یادرکھی۔ وہ فرماتے تھے کہ میری عمرپانچ سال تھی حضورؐ ہمارے ڈیرے پر تشریف لائے۔ آپؐ نےہمارے کنویں سے پانی پیا اورڈول سے پانی منہ میں لے کر اس کی ایک پچکاری میرے اوپر پھینکی تھی۔

(بخاری کتاب العلم باب 13)

یہ محبت بھری بے تکلفی کی ادا اس بچے کو عمر بھر نہیں بھولی اور وہ عجیب وارفتگی سے اس کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔

حضرت ام خالدؓ بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہؐ کے پاس آئی۔اور میں نے زرد رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھی۔رسول اللہﷺنےفرمایا:اچھی ہے،خوبصورت ہے۔پھر میں حضورﷺ کی مہر نبوت سے کھیلنے لگی۔(حضورؐ کے دونوں شانوں کے درمیان گوشت کا ابھرا ہواایک ٹکڑا، کبوتری کے انڈے کے برابر تھا۔جسےمہر نبوت کا نام دیا جاتاہے،جو اس موعودرسولؐ کی شناخت کی ایک جسمانی علامت بھی تھی۔)جس پروالد نے مجھے ڈانٹا۔نبی کریمؐ نے فرمایا :اسے کچھ نہ کہو۔پھر رسول اللہﷺ نے مجھے یہ دعا دی کہ خوب پہنو اور بوسیدہ کرو۔پھر پہنو اور بوسیدہ کرو پھر پہنو اور (کپڑے) بوسیدہ کرو(یعنی لمبی عمر پاؤ)۔راوی کہتے ہیں اس لڑکی کی خاصی لمبی عمر ہوئی۔

(بخاری کتاب الادب باب من ترك صبية غيره حتى تلعب به أو قبلها أو مازحها)

نوجوانوں سے مزاح

رسول کریمؐ کنیت یا نام کے معنی و مفہوم کی مناسبت سے بھی گفتگو اور ماحول میں شگفتگی پیدا فرمادیتے تھے۔حضرت ابوالوردؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مجھے دیکھا تو ایک سرخ رنگ کا آدمی پایا تو مجھے ابو الورد(یعنی سرخ گلاب کا باپ) کہہ کر یاد فرمایا۔

(شرح السنة للبغوي جزء13صفحہ 183)

پھر یہی ان کی کنیت ٹھہرگئی۔

یمن سے آنے والے حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں(جب وہ عیسائی تھے) ان کا نام عبد شمس بن صخر تھا۔ رسول اللہﷺنے عبد الرحمٰن نام رکھا اور مجھے دیکھا کہ ایک بلی کا بچہ اپنے دامن میں اٹھایا ہے تو مجھے ابوہریرہ(یعنی بلّی کا باپ) کہہ کر یاد فرمایا اور یوں میری کنیت ہی ابوہریرہؓ پڑگئی۔

(اصابہ فی تمييز الصحابة جزء7صفحہ349)

ایک دفعہ ایک صحابی نےحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کیا مجھے اپنی سواری کے لیے ایک اونٹنی چاہیے۔آپؐ نے ازراہ تفنن فرمایا میرے پاس تو اونٹ کا بچہ ہے۔ اُس نے تأسف سےعرض کیا۔ حضورؐ میں اونٹ کے بچہ پر سواری کیسے کروں گا؟فرمایا:ارے بھائی!ہر اونٹ بھی اونٹنی کا بچہ ہی توہوتا ہے۔ پھر ازراہ شفقت اسےایک اونٹ بغرض سواری عطافرمادیا۔

(ابوداؤد کتاب الادب باب 18)

ایک اور صحابی حضرت سفینہ ؓبیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریمؐ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، جب ہمارا کوئی ساتھی تھک جاتا تو وہ اپناسامان تلوار ڈھال یا نیزہ مجھے پکڑا دیتایہاں تک کہ میرے پاس بہت ساسامان اکٹھا ہوگیا۔نبی کریمؐ نے یہ سب دیکھ کر فرمایا تم تو واقعی سفینہ(یعنی کشتی) ہو۔ جس نے سب مسافروں کا سامان سنبھال رکھا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5صفحہ221)

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریمﷺ نے ایک شخص سے ازراہ مزاح فرمایا:

اللہ تمہاری گردن مارے۔اس نے بھی حاضر جوابی سے کام لیا اوراس فقرہ سے شہادت کی تمنا اور دعا کا موقع پیدا کرلیا۔عرض کیا یارسول اللہﷺ! (کاش!)خدا کی راہ میں یہ گردن ماری جائے۔آپؐ نے فرمایا:ہاں! خدا کی راہ میں ہی۔

(إمتاع الأسماع جزء2صفحہ255)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عام گفتگو میں بھی توجہ اور سرعت فہم کے نتیجہ میں مزاح کا نکتہ پیداکرلیا کرتے تھے۔ابو رمثہؓ اپنے والد کے ساتھ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ حضورؐ نے ازراہ تعارف ان کے والد سے پوچھا یہ تمہارا بیٹا ہے؟حضورؐ کا زور ’’یہ‘‘ پر تھا۔ انہوں نے اپنی سادگی میں سمجھا کہ زور ’’تمہارا‘‘ پر ہے اور آپؐ پوچھ رہے ہیں واقعی تمہاراہی بیٹا ہے۔ نہایت سنجیدگی سے بولے۔رب کعبہ کی قسم! یہ میرا ہی بیٹا ہے۔حضورؐ بات تو سمجھ گئے مگر ان کے اصرار پر ازراہ تفنن فرمایا واقعی پکی بات ہے؟ وہ اس پر اور سنجیدہ ہوکر کہنے لگے حضورؐ! میں پختہ قسم کھاکر کہہ سکتا ہوں کہ یہ میرا ہی بیٹا ہے۔ رسول کریمؐ یہ سن کر مسلسل ہنستے مسکراتے رہے۔ خصوصاً ابو رمشہؓ کے باپ کی سنجیدہ قسمیں کھانے کی وجہ سے توحضورؐ بہت محظوظ ہوئے، کیونکہ بچے کی شباہت والد سے اتنی ملتی تھی کہ اس کے نسب میں کسی شبہ کا احتمال ہوہی نہیں سکتاتھا۔

(ابوداؤدکتاب الدیات باب 2)

رسول کریمﷺ ہر طبقہ کے نوجوان ساتھیوں سے بےتکلفی اور مانوسیت پسند فرماتے تھے اور ان سے گھلنا ملنا اور انہیں خوش کرنے کےلیے موقع محل کی مناسبت سے کوئی راہ پیدا کرلینا آپ کا ہی کمال تھا۔

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدّو زاہر نامی تھا وہ رسول اللہﷺ کےلیے دیہات سے تحفے لے کر آتااور آپ اسے جاتے ہوئے شہر سے سامان ضرورت ہم راہ بھجواتے۔نبی کریمﷺ فرمایا کرتے تھے ’’زاہر ہمارا دیہات اور ہم اس کا شہر ہیں‘‘۔ وہ سادہ شکل کا تھا مگر رسول کریمﷺ اس سے محبت فرماتے تھے۔ایک روز وہ مدینہ میں اپنا سودا بیچ رہا تھا۔رسول کریمﷺ نے اسے پیچھے سے آکر گلے لگالیا،کہ بوجھو تو جانیں!وہ آپ کو دیکھ نہیں پایا اور پوچھا کہ کون ہے مجھے چھوڑ دو۔مڑکرجو دیکھا تو رسول اللہﷺ تھے پھرتو اپنی پشت برکت کی خاطررسول اللہﷺ کے سینہ سے مس کرنےلگا۔اب نبی کریمﷺ نے ایک اور انداز مزاح اختیار کیااورفرمایا کوئی ہے جو اس غلام کو خریدے؟ اب اسے اپنی اوقات یاد آئی تو بولا:یا رسول اللہؐ! پھر تو آپ مجھے بڑا گھاٹے کا سودا پائیں گے،نبی کریمﷺ نے فرمایا اللہ کے نزدیک تو بے کار نہیں،تمہاری بڑی قیمت ہے۔

(الشمائل المحمدية للترمذي صفحہ143)

بامقصد مزاح

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہلکے پھلکے انداز میں مذاق کے رنگ میں تربیتی امور کی طرف توجہ دلا کر نصیحت فرمادیتے تھے۔

حضرت خوات بن جُبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں مَیں نے رسول کریمؐ کے ساتھ مرالظہرانمیں پڑاؤ کیا۔اپنے خیمہ سے نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ عورتیں ایک طرف بیٹھی باتیں کررہی ہیں۔میں خیمہ میں واپس آیا اور اپنی ریشمی پوشاک پہن کر ان عورتوں کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ دریں اثناء رسول اللہؐ اپنے خیمہ سے باہر تشریف لائے۔ مجھے دیکھا تو فرمانے لگے اے ابوعبد اللہؓ! تم ان عورتوں کے قریب آکر کیوں بیٹھے ہو؟میں نے رسول اللہؐ کے رعب سے ڈر کر جلدی میں یہ عذر گھڑلیاکہ اے اللہ کے رسولؐ! میرا اونٹ آوارہ سا ہے،اسے باندھنے کو رسی ڈھونڈتا ہوں۔رسول کریمؐ نے اپنی چادر اوڑھی اور درختوں کے جھنڈ میں قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ وضو فرماکر واپس آئے تو مجھے چھیڑتے ہوئے فرمایا۔ابوعبداللہؓ! تمہارے آوارہ اونٹ کا کیا حال ہے؟اب خوّات ؓدل ہی دل میں سخت نادم تھے۔وہ کہتے ہیں ہم نے وہاں سے کوچ کیا رسول کریمؐ ہر پڑاؤ پر مجھے دیکھتے ہی فرماتے:

’’السلام علیکم۔ اے ابو عبداللہؓ! تمہاراآوارہ اونٹ کیسا ہے؟‘‘

خداخداکر کے مدینہ پہنچے۔اب میں رسول کریمؐ سے آنکھیں بچانے لگا بلکہ رسول اللہؐ کی مجالس سے بھی کنی کتراجاتا۔ کچھ عرصہ گزرگیا تو ایک روز مسجد میں تنہائی کا ایک وقت تلاش کرکے میں نماز پڑھنے لگا۔اتنے میں رسول کریمؐ بھی گھر سے مسجد تشریف لائے اور آکر نماز پڑھنے لگے۔آپؐ نے دو رکعت نماز مختصر سی پڑھی اور میرےانتظار میں بیٹھ رہے۔یہ دیکھ کر میں نے نماز لمبی کردی کہ شایداس دوران حضورؐ گھر تشریف لے جائیں۔آپؐ نے یہ بھانپ کر فرمایا: ا بوعبداللہؓ! جتنی مرضی نماز لمبی کرلو۔میں بھی آج تمہارے سلام پھیرنے سے پہلے نہیں اٹھوںگا۔میں نے دل میں سوچا کہ خدا کی قسم! اب تو مجھے رسول اللہؐ سے معذرت کر کے بہرحال آپؐ کو راضی کرنا ہوگا۔جونہی میں نے سلام پھیرا۔رسول اللہؐ نے فرمایا۔ السلام علیکم اے ابوعبداللہ! تمہارا آوارہ اونٹ کیسا ہے؟میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔جب سے میں مسلمان ہوا ہوں میرااونٹ کبھی بھاگا،نہ آوارہ ہوا۔رسول اللہؐ نے فرمایا اللہ تم پر رحم کرے۔آپؐ نے دو یا تین مرتبہ یہ دعا دی۔پھر اس کے بعد آپؐ نے میرے ساتھ کبھی یہ مذاق نہیں فرمایا۔

(معجم الکبیر للطبرانی جلد4صفحہ243)

اب ایک ایسے دلچسپ مزاح کا ذکر جسے صحابہ رسول اللہؐ کی مجلس میں ایک سال تک سنا کرمحظوظ ہوتے رہے۔حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓرسول اللہؐ کی وفات سے ایک سال قبل تجارت کے لیے بصریٰ گئے۔آپؐ کے ساتھ نُعیمانؓ اور سُویبطؓ بھی تھے۔ان دونوں کو غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی سعادت حاصل تھی۔ نُعیمانؓ کی ڈیوٹی کھانے وغیرہ پر مقرر تھی۔ سُویبطؓ بہت مزاحیہ طبیعت کے (ذہین) انسان تھے۔دوران سفر انہوں نے نُعیمانؓ سے کھانا طلب کیا تو وہ کہنے لگے کہ حضرت ابوبکرؓ کام سے واپس آجائیں تو پھرکھانا دوں گا۔تھوڑی دیر کے بعد ایک قافلہ وہاں سے گزرا۔ سُویبطؓان کو کہنے لگے کہ تم مجھ سے ایک غلام خریدوگے۔انہوں نے کہا ضرور خریدیں گے۔یہ کہنے لگے بس ایک خامی اس غلام میں ہے کہ وہ تمہیں یہی کہے گا کہ میں آزاد ہوں۔غلام نہیں ہوں۔ اگر تم نے اس کی یہ بات سن کر مجھے واپس کردینا ہو تو پھر میں اسے نہیں بیچتا۔تم میرا غلام خراب کر کے مجھے نہ لوٹانا۔انہوں نے ہر طرح سے تسلّی دلائی کہ وہ ضرور یہ غلام خریدیں گے اور دس اونٹوں کے عوض انہوں نے نُعیمانؓکا سودا کردیا۔جب قافلہ کے لوگ نُعیمانؓکو لینے آئے اور اس کے گلے میں پٹکا ڈالا کہ چلو ہمارے ساتھ تو وہ کہنے لگے۔یہ تم سے مذاق کررہا ہے میں تو آزاد ہوں غلام نہیں ہوں۔قافلہ والوں نے کہایہ تو ہمیں پہلے سے پتہ تھا کہ تم یہ کہو گے چنانچہ وہ اسے پکڑ کر لے گئے۔ (اب سُویبط ؓنے آرام سے کھانا وغیرہ کھالیا )۔ حضرت ابوبکرؓ کام سے واپس تشریف لائے تو ان کو اس قصہ کا پتہ چلا، وہ اس قافلہ کے پیچھے گئے اور انہیں دس اونٹ واپس کر کے نُعیمانؓکو چھڑاکر لے آئے۔

سفر سے واپس نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور ؐکو یہ قصہ سنایا تو حضورؐ بہت محظوظ ہوئے اور آپؐ کے صحابہ ایک سال تک یہ واقعہ یاد کر کے ہنستے رہے۔

(ابن ماجہ کتاب الادب باب 25)

اصحاب رسولؐ کی آپؐ سے بے تکلفی اور مزاح

اپنے صحابہ میں بھی حضورؐ نے لطیف حس مزاح بیدارکردی تھی۔صحابہ ؓجانتے تھے کہ اگر وہ مزاح کے رنگ میں حضورؐ سے بات کریں گے تو حضور ؐخوش ہوں گے اور مجلس کشتِ زعفران!

حضرت عوف بن مالک ؓکہتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک میں رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ چمڑے کے ایک چھوٹے سے خیمے میں تھے، مَیں نے سلام عرض کرکے اجازت چاہی تو آپؐ نے فرمایا اندر آجاؤ۔ میں نے خیمہ کے چھوٹےپن پر طنز کرتے ہوئے عرض کیا کہ کیا سارے کا سارا ہی آجاؤں۔آپؐ نے بھی بلاتکلف فرمایا ہاں سارے کے سارے ہی آجاؤ۔

(ابوداؤد کتاب الادب باب 18)

ایک دفعہ حضرت صہیب ؓرسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔حضورؐ کے سامنے کھجوریں اور روٹی پڑی تھی۔آپؐ نے صہیبؓ کو بھی دعوت دی کہ کھانے میں شامل ہوجائیں۔صہیبؓ روٹی کی بجائے کھجوریں زیادہ شوق سے کھانے لگے۔ رسول کریمؐ نے ان کی آنکھ میں سوزش دیکھ کر فرمایا کہ تمہاری ایک آنکھ دکھتی ہے۔اس میں اشارہ تھا کہ کھجور کھانے میں احتیاط چاہیے۔انہوں نے عرض کیا یارسول اللہؐ میں صحت مند آنکھ والی طرف سے کھجوریں کھارہا ہوں۔نبی کریم ؐاس مزاح سے بہت محظوظ ہوئے اور اس صحابی کی حاضر جوابی پر تبسّم فرمانے لگے۔

(مسند احمد جلد4 صفحہ61 دارالکتاب العربی بیروت)

الغرض رسول کریمﷺ کا نمونہ اس قرآنی آیت کے مطابق تھا کہ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ (ص:87) یعنی مَیں تکلّف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔آپؐ کے پاکیزہ اخلاق میں کوئی تصنّع یا بناوٹ نہیں تھی نہ ہی کبھی آپ کے مذاق میں غلط بیانی یا جھوٹ کا کوئی شائبہ ہوتا تھا۔آپؐ بارعب بادشاہ ہوکر بھی جابر اور درشت رُو نہیں تھے بلکہ شگفتہ مزاج،نفیس طبع،خوش گفتار اور اعلیٰ مذاق رکھتے تھے۔اور کمال ذہانت و فراست اور توجہ سے اپنی روز مرہ گفتگو میں خوش طبعی اور مزاح کا کوئی نہ کوئی نکتہ پیدا کرکے ماحول میں خوشیاں بکھیرتے تھے۔آپ کا یہ پاکیزہ نمونہ بھی ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے جس کی دَورحاضر کے بیمار معاشرہ کو بہت ضرورت ہے۔پس اسوۂ نبویؐ کی پیروی میں ہر طرف محبت،مسکراہٹ اور خوشی کے پھول بکھیرنا ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button