سیرت النبی ﷺ

ہجرت سے قبل آنحضرت ﷺ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ

دیکھو ہمارے نبی ﷺ نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اپنے پرائے سب کے سب دشمن ہو گئے مگر آپ نے ایک دم کے لئے بھی کبھی کسی کی پروا نہیں کی

حضرت رسولِ خدا خاتم النبیین احمد مجتبیٰ ﷺ کےساتھ مسلمانوںکو یقیناً ایک خاص عقیدت ، محبت اور انس ہے۔ایک بے عقیدہ انسان کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس عظیم الشان شخصیت کے حالات زندگی غور اور توجہ کےساتھ پڑھے جس نے ساری دنیا کے فکر و تصور اور سوچ کا انداز بدل دیا۔ عرب جیسی وحشی قوم کومہذب اور بااخلاق بنایا اور ایک امی قوم کو سارےجہان کی سیادت بخش دی۔ہر ذی عقل اور دانشور کا یہ فرض ہے کہ آخر دیکھنا چاہیے کہ اُس ذات نے کیا کر دکھایاجس کی وجہ سے اُس کی بارگاہ میں جنید و شبلی ہی نہیں، ابن سینا اور فارابی بھی با ادب سر بزانو نظر آتے ہیں۔

دنیا کے تمام بانیان و مذاہب کی سیرتیں بھولے بسرے ماضی کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں رو پوش ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت کرشن علیہ السلام کی سیرتیں بلکہ ان کے واقعی کبھی موجود ہونے تک کی شہادتیں محفوظ نہیں ہیں۔ لیکن دنیا میں ایک ہی قابل اقتدار ہستی ایسی گزری ہے جس کے احوال مستند طور پر محفوظ ہیں۔ وہ دنیا کا کامیاب ترین انسان تھا۔ اُس کی سیرت کسی ہومر، کسی بیاس اور کسی والمیک کے شاعرانہ تخیل کی محتاج نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ رہنے سہنے والوں اور اس کےسوانح حیات میں برابر کے شریک کئی ہزار انسانوں کی زندہ شہادتوں سے ثابت ہے۔ دنیا میں ایک ہی شخص کی سیرت ایسی ہے جس پر پورا وثوق کیا جا سکتا ہے۔ آپ کی زندگی میں ہمیں دائمی قابل عمل اسباق ملتے ہیں۔ اس لیے بد عقیدہ سے بد عقیدہ انسان بھی اگر صدق دل سے محمد رسول اللہ ﷺ کی سوانح حیات کو پڑھے گا اور آپ کی تعلیمات کو سمجھنے کی کو کشش کرے گا تو وہ ہرگز بد عقیدہ نہیں رہ سکے گا۔

اس بارے امام الزمان سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’غرض انبیاء کے واقعات عمری اور ان کی سلامت روشی ایسی بدیہی اور ثابت ہے کہ اگر سب باتوں کو چھوڑ کر ان کے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو ان کی صداقت ان کے واقعات سے ہی روشن ہورہی ہے مثلاً اگر کوئی منصف اور عاقل ان تمام براہین اور دلائل صدق نبوت حضرت خاتم الانبیاء ﷺسے جو اس کتاب میں لکھی جائیں گی قطع نظر کرکے محض ان کے حالات پر ہی غور کرے تو بلاشبہ انہیں حالات پر غور کرنے سے ان کے نبی صادق ہونے پر دل سے یقین کرے گا اور کیونکر یقین نہ کرے وہ واقعات ہی ایسے کمال سچائی اور صفائی سے معطر ہیں کہ حق کے طالبوں کے دل بلااختیار ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ108)

ہمارے آقا و مطاع حضرت محمدﷺ کی زندگی اور آپ کی تعلیمات کاہر پہلو بذاتِ خود ایک مستقل موضوع بن سکتا ہے۔ ذیل کے مضمون میں ہم ’’ہجرت سے قبل آنحضرت ﷺ کی زندگی پرایک نظر‘‘ پر ایک مختصرنظر ڈالیں گے۔ آپ کی مکی زندگی کے چند اہم واقعات کو اپنے قارئین کےلیے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

آنحضرت ﷺ کے ظہور کے وقت زمانہ کی حالت

کسی انسان کے حالات بخوبی سمجھنے کےلیے اس شخص کے ملک اور زمانہ کے عام حالات کا پیش رکھنا ضروری ہیں۔ اس بارے میں امام الزمان سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی و معہوؑد کی ایک تحریر پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتےہیں:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانہ میں مبعوث ہوئے تھے کہ جب تمام دنیا میں شرک اور گمراہی اور مخلوق پرستی پھیل چکی تھی۔ اور تمام لوگوں نے اصول حقہ کو چھوڑ دیا تھا اور صراط مستقیم کو بھول بھلا کر ہریک فرقہ نے الگ الگ بدعتوں کا راستہ لے لیا تھا۔ عرب میں بت پرستی کا نہایت زور تھا۔ فارس میں آتش پرستی کا بازار گرم تھا۔ ہند میں علاوہ بت پرستی کے اور صدہا طرح کی مخلوق پرستی پھیل گئی تھی اور انہیں دنوں میں کئی پوران اور پستک کہ جن کے رو سے بیسیوں خدا کے بندے خدا بنائے گئے اور اوتار پرستی کی بنیاد ڈالی گئی، تصنیف ہوچکی تھی اور بقول پادری بورٹ صاحب (سہو کتابت معلوم ہوتی ہے۔ درست جان ڈیون پورٹ ہے۔) اور کئی فاضل انگریزوں کے ان دنوں میں عیسائی مذہب سے زیادہ اور کوئی مذہب خراب نہ تھا اور پادری لوگوں کی بدچلنی اور بداعتقادی سے مذہب عیسوی پر ایک سخت دھبہ لگ چکا تھا۔ اور مسیحی عقائد میں نہ ایک نہ دو بلکہ کئی چیزوں نے خدا کا منصب لے لیا تھا۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1صفحہ112حاشیہ 10)

رسول اللہ کی ولادت باسعادت

اللہ تعالیٰ نے سید البشر حضرت محمدﷺ کو پیدا فرما کر دنیائے انسانیت پر سب سے بڑا احسان کیا۔ آپ نے انسان کو شیطان سے بچنے کےطریقےبتائے۔ کفر، شرک، بدعت، معصیت، جہالت، خوف اور حزن سے محفوظ رہنے کے سلیقے سکھائے اور اللہ رب العزت کی بندگی سے روشناس کرا کر قافلہ انسانیت کو فلاح و کامیابی کی صراط مستقیم پر ڈال دیا۔ آپ کی تاریخ پیدائش کائنات کا انتہائی اور اہم ترین واقعہ ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ اپنی معرکہ آراء کتاب سیرت خاتم النبیین میں آپ کی ولادت باسعادت کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ

’’واقعہ اصحاب الفیل کے پچیس روز بعد 12؍ربیع الاوّل مطابق 20؍اگست 570عیسوی کو یا ایک جدید اور غالباً صحیح تحقیق کی رُو سے 9؍ربیع الاوّل مطابق 20؍اپریل 571ء بروز پیر بوقت صبح آنحضرت ﷺکی ولادت ہوئی۔ واقعہ فیل کے اس قدر متّصل آنحضرت ﷺ کی ولادت کا ہونا اپنے اندر یہ خدائی اشارہ رکھتا تھا کہ جس طرح خدا نے کعبہ کے خلاف اس ظاہری حملہ کو خائب و خاسر کیا ہے اسی طرح اب وقت آتا ہے کہ دینِ الٰہی کے مقابل پر باطل پرستی کا سر کچلا جائے اور قرآن شریف میں اصحاب الفیل کے حملہ کا ذکر بھی بظاہر اسی غرض و غایت کے ماتحت نظر آتا ہے۔

بہرحال بچہ کے پیدا ہوتے ہی آمنہ نے عبدالمطلب کو اطلاع بھجوا دی جو سُنتے ہی فوراً خوشی کے جوش میں آمنہ کے پاس چلے آئے۔ آمنہ نے اُن کے سامنے لڑکا پیش کیا اور کہا کہ مَیں نے ایک خواب میں اس کا نام محمد ؐ دیکھا تھا۔ عبدالمطلب بچے کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر بیت اﷲ میں لے گئے اور وہاں جاکر خدا کا شکر ادا کیا اور بچے کا نام محمدؐ رکھا جس کے معنے ہیں ’’بہت قابلِ تعریف‘‘ اور پھر اسے واپس لاکر خوشی خوشی ماں کے سپر د کر دیا گیا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین صفحہ93،ایڈیشن1996ء)

رضاعت و ایام طفولیت

عرب کے ممتاز گھرانوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو شہری اور وبائی بیماریوںسے محفوظ رکھنے کے لیے دودھ پلانےو الی بدوی عورتوں کے حوالے کر دیتے تھے تاکہ و ہ تندرست رہیں اور ان کے جسم طاقتور اور اعصاب مضبوط ہو جائیں۔ نیز وہ فصیح عربی زبان سیکھ سکیں۔

رسول اللہ ﷺ کی پیدائش پر سب سے پہلے آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ ؓنے ہی آپ کو اپنا دودھ پلایا۔ آپ کے علاوہ جن عظیم عورتوں کو آپ کو بچپن میں کھلانے اوردودھ پلانے کی سعادت نصیب ہوئی اُن کے نام درج ذیل ہیں:

٭…اُمِّ ایمنؓ:

آنحضرت ﷺ کے پید اہوتے ہی اُمِّ ایمن آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کےساتھ دیکھ بھال میں لگ گئیں۔ آپ نے آنحضرت ﷺ کو ابتدائی دنوںمیں دودھ پلایا۔

٭…ثوبیہ:

حضرت آمنہ کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کو ابتدائی دنوں میں ابولہب کی ثوبیہ نامی لونڈی نے بھی دودھ پلایا تھا۔ثوبیہ نے آنحضرتؐ کے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب اور عبد اللہ بن جحش ؓ کو بھی دودھ پلایا تھا۔

٭…حضرت حلیمہ سعدیہ:

اس کے علاوہ حضرت حلیمہ بنت ابی ذُوَیب نے آپ کو دودھ پلایا تھا۔ حضرت حلیمہ قبیلہ بنو سعد سے تعلق رکھتی تھیں۔ اسی مقدس عورت کو ابتدائی 6سال آنحضرت ﷺ کی نگہداشت کی توفیق ملی۔ آنحضرت ﷺ کا اس خاندان میں تشریف لانا اس سارے قبیلہ اور خاندان کے لیے خیر و برکت کا موجب بن گیا۔

امام الزمان سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ کی رضاعت اور بچپن کی بیکسی کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے بیان فرماتے ہیںکہ

’’ہمارے سیّد ومولیٰ ﷺ نے ایک بڑا حصہ عمر کا جو چالیس برس ہے بیکسی اور پریشانی اور یتیمی میں بسر کیا تھاکسی خویش یا قریب نے اس زمانہ تنہائی میں کوئی حق خویشی اور قرابت کا ادا نہیں کیا تھا یہاں تک کہ وہ روحانی بادشاہ اپنی صغر سنی کی حالت میں لاوارث بچوں کی طرح بعض بیابان نشین اور خانہ بدوش عورتوں کے حوالہ کیا گیا اوراُسی بے کسی اور غریبی کی حالت میں اس سیّد الانام نے شیر خوارگی کے دن پورے کئے اورجب کچھ سن تمیز پہنچاتو یتیم اور بے کس بچوں کی طرح جن کا دنیا میں کوئی بھی نہیں ہوتا اُن بیابان نشین لوگوں نے بکریاں چرانے کی خدمت اُس مخدوم العالمین کے سپُرد کی اور اُس تنگی کے دنوں میںبجز ادنیٰ قسم کے اناجوں یا بکریوں کے دُودھ کے اور کوئی غذانہ تھی۔‘‘

(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 112حاشیہ)

حضرت نبی اکرم ﷺ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ میں نے آپ سے زیادہ کسی کو فصیح اللسان نہیں پایا۔ آپ نے فرمایا کیسے نہ ہو ،میں قبیلہ کے لحاظ سے قریشی ہوں اور بنی سعد میں مَیںنے دودھ پیا۔

(سیرت ابن ہشام جلد 1صفحہ 131مطبوعہ دار الکتب العمیہ بیروت 2001ء)

رسالت سے قبل آپ ﷺ کی امانت داری

آپ ﷺ مکہ میں امین کے لقب سے مشہو ر تھے۔ یہ وجہ تھی کہ اہل مکہ آپ ﷺ کو نام کے بجائے اس لقب سے پکارتے اور بلاتے تھے۔

ایک دفعہ سیلاب کی وجہ سے بیت اللہ کی عمارت بوسیدہ ہو گئی۔ جب اہل مکہ بیت اللہ کی تعمیر نو کی طرف متوجہ ہوئے تو حجر اسود کو واپس اپنی جگہ نصب کرنا بہت بڑا مسئلہ بن گیا۔ قبائل نے تلواریں سونت لیں۔ ہر قبیلہ اس سعادت کو حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ جس کی وجہ سے قریب تھا کہ بہت بڑا فتنہ برپاہو جاتا۔ آخر اہل مکہ کا اتفاق ہو گیا کہ اگلے دن سب سے پہلے بیت اللہ میں داخل ہونے والےشخص کو ثالث بنایاجائے۔ جس سے فتنہ کی چنگاریاں بجھ گئیں۔چنانچہ سب کی نظریں بیت اللہ کے دروازےپر لگ گئیں کہ کون سب سے پہلے بیت اللہ میں داخل ہوتا ہے جیسےہی رسول کریم ﷺ اپنے مبارک اور نورانی چہرےکےساتھ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو سب خوشی سےپکار اٹھے ھذا الامین… رضینا… ھذا محمد

یہ امین ہیں ہم (ان کی ثالثی پر) راضی ہیں،یہ محمد ہیں۔

جب رسول اکرم ﷺ خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو آپ کو اس معاملہ کی کچھ خبر نہ تھی۔ اہل مکہ نے یہ بات اس لیےکہی تھی کہ انہیں آپ ﷺ پرمکمل اعتماد تھا۔ حالانکہ ابھی تک آپ نبوت سےسرفراز نہ ہوئے تھے لیکن چونکہ آپ ﷺ میں نیک فطرت اور پاکیزہ سیرت کے مالک تھےاس لیے لوگوں کو آپ ﷺ پر اعتماد تھا۔

آپؐ نے الٰہی فراست سےکام لیتےہوئے حجر اسود کو ایک چادر پر رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں نےاُس چادر کے کونہ کو پکڑا اور اُسےاُس کے مقام تک لے گئے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے حجر اسود کو اٹھا کر اُس کی جگہ پر رکھ دیا۔

پاکیزہ شباب

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہو گیا۔ اور ماں صرف چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر مرگئی تھی تب وہ بچہ جس کے ساتھ خدا کا ہاتھ تھا بغیر کسی کے سہارے کے خدا کی پناہ میں پرورش پاتا رہا۔ اور اس مصیبت اور یتیمی کے ایام میں بعض لوگوں کی بکریاں بھی چرائیں اور بجز خداکے کوئی متکفّل نہ تھا۔ اور پچیس برس تک پہنچ کر بھی کسی چچا نے بھی آپ کو اپنی لڑکی نہ دی۔ کیونکہ جیسا کہ بظاہر نظر آتا تھا آپ ا س لائق نہ تھے کہ خانہ داری کے اخراجات کے متحمل ہوسکیں۔ اور نیز محض اُمّی تھے اور کوئی حرفہ اور پیشہ نہیں جانتے تھے۔‘‘

(پیغام صلح ،روحانی خزائن جلد23صفحہ465)

مذکورہ بالا تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ ﷺ کے مبارک زمانہ شباب پر مختصر الفاظ میں نہایت جامع تبصرہ فرمایا ہے۔ بظاہر تمام حالات ناموافق تھے۔ غربت،یتیمی ، امی محض کوئی حرفہ یا فن باقاعدہ سیکھنے کاموقع نہ ملا۔ سو خاندان میںکسی کم عمر لڑکی سے شادی بھی بظاہر ناممکن تھی۔ لیکن آپ کی ذات میں وہ جوہر مخفی تھے جو تجربہ کے محتاج نہ تھے۔ آپ کو امانت و دیانت اور ہمدردی مخلوق سےپُر مطہر قلب عطا ہوا تھا۔ خدا تعالیٰ نے ایسے نامساعد حالات میں بھی آپ ﷺ کی حیرت انگیز خبر گیری فرمائی۔

حضرت خدیجہ ؓسے شادی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’جب سن بلوغ پہنچا تو آنحضرت ﷺکی شادی کے لئے کسی چچاوغیرہ نے باوجود آنحضرت کے اول درجہ کے حسن وجمال کے کچھ فکر نہیں کی بلکہ پچیس برس کی عمر ہونے پر اتفاقی طورپر محض خدائے تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایک مکّہ کی رئیسہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے پسند کر کے آپ سے شادی کر لی یہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا ابو طالب اور حمزہ اور عباس جیسے موجود تھے اور بالخصوص ابوطالب رئیس مکہ اور اپنی قوم کے سردار بھی تھے اوردنیوی جاہ وحشمت ودولت ومقدرت بہت کچھ رکھتے تھے مگر باوجود ان لوگوں کی ایسی امیرانہ حالت کے آنحضرت ﷺکے وہ ایام بڑی مصیبت اور فاقہ کشی اور بے سامانی سے گذرے یہاں تک کہ جنگلی لوگوں کی بکریاں چرانے تک نوبت پہنچی اور اس دردناک حالت کو دیکھ کر کسی کے آنسو جاری نہیں ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شباب پہنچنے کے وقت کسی چچا کو خیال تک نہیں آیا کہ آخر ہم بھی تو باپ ہی کی طرح ہیں شادی وغیرہ امور ضروریہ کے لئے کچھ فکر کریں حالانکہ اُن کے گھر میں اوراُن کے دوسر ے اقارب میں بھی لڑکیاں تھیں۔ سو اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر سرد مہری اُن لوگوں سے کیوں ظہور میں آئی اس کا واقعی جواب یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے سیّد ومولیٰ ﷺ کو دیکھا کہ ایک لڑکا یتیم ہے جس کا باپ نہ ماں ہے بے سامان ہے جس کے پاس کسی قسم کی جمعیت نہیں نادار ہے جس کے ہاتھ پلّے کچھ بھی نہیں ایسے مصیبت زدہ کی ہمدردی سے فائدہ ہی کیا ہے اور اُس کو اپنا داماد بنانا تو گویا اپنی لڑکی کو تباہی میں ڈالنا ہے مگر اس بات کی خبر نہیں تھی کہ وہ ایک شہزادہ اور روحانی بادشاہوں کا سردار ہے جس کو دنیا کے تمام خزانوں کی کُنجیاں دی جائیں گی۔‘‘

(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 113تا114 حاشیہ)

کسی شخص کے دل میں یہ سوال پید اہو سکتا ہے کہ عرب میں تو چھوٹی عمر میں ہی شادی کا رواج تھا پھر کیا وجہ ہوئی تھی کہ آپ کی شادی پچیس سال کی عمر تک نہ ہو سکی۔ اور شادی ہوئی بھی تو ایک چالیس سالہ بیوہ کے ساتھ۔ اوپر کے ارشاد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان بلیغ الفاظ میں اس ممکنہ سوال کا جواب بھی دیا ہے۔ آپؐ کی پاکیزہ جوانی کا بھی تذکرہ فرما دیا ہے۔ آپؐ کی شادی پچیس برس کی عمر تک نہ ہونے کا باعث کوئی ذاتی عیب نہ تھا بلکہ آپ کا بظاہر بے مال و متاع ہونا تھا۔ جو آپؐ کے اختیار کی بات نہ تھی۔ اہل مکہ کے نزدیک ظاہری حالات ہی سب کچھ تھے۔اخلاقی خوبیوں سے کچھ سروکار نہ تھا۔ ایسے نازک حالات میںاللہ تعالیٰ نے آپ کو بہتر اور اعلیٰ رشتہ خاص اپنے فضل سے عطا فرمایا۔ یعنی حضرت خدیجہؓ سے آپؐ کی شادی ہوئی۔

غار حرا سےآغاز اسلام و آغاز تبلیغ

آنحضرتﷺ کی عمر جب تقریباً چالیس سال کی ہوئی تو خلوت و تنہائی آپ کو محبوب ہو گئی۔ اور اپنے خالق و مالک رب کی جستجو میں مشغول رہنےلگے۔ اس عرصہ میں آپؐ غار حرا میں تشریف لے جاتے۔ اور بہت سا وقت وہاں گزارتے۔ اس مبارک دَور کے بارے حضرت اقدس مسیح موعو دعلیہ السلام فرماتےہیں:

’’پھر جب آپ چالیس برس کے سن تک پہنچے تویک دفعہ آپ کا دل خداکی طر ف کھینچا گیا۔ ایک غار مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے۔ جس کا نام حرا ہے۔ آپ اکیلے وہاں جاتے اور غار کے اندر چھپ جاتے اور اپنے خدا کو یاد کرتے۔ ایک دن اُسی غار میںآپ پوشیدہ طور پر عبادت کر رہے تھے تب خدا تعالیٰ آپ پر ظاہر ہوا اور آپ کو حکم ہوا کہ دنیا نے خدا کی راہ کو چھوڑ دیا ہے۔ اور زمین گنہ سے آلودہ ہو گئی ہے۔ اس لئے میں تجھے اپنا رسول کرکے بھیجتا ہوں۔ اب تُو اور لوگوں کو متنبہ کر کہ وہ عذاب سے پہلے خدا کی طرف رجوع کریں۔ اس حکم کے سننے سے آپ ڈرے کہ میں ایک اُمّی یعنی ناخواندہ آدمی ہوںاور عرض کی کہ میں پڑھنانہیں جانتا۔ تب خدا نے آپ کے سینہ میں تمام روحانی علوم بھردیئے اور آپ کے دل کو روشن کیا۔ آپ کی قوت قدسیہ کی تاثیر سے غریب اور عاجز لوگ آپ کے حلقہ اطاعت میں آنے شروع ہوگئے۔ اور جو بڑے بڑے آدمی تھے انہوں نے دشمنی پر کمر باندھ لی۔ یہاں تک کے آخر کار آپ کو قتل کرنا چاہا۔‘‘

(پیغام صلح ،روحانی خزائن جلد23صفحہ466)

قریش کو دعوت اسلام

آنحضورﷺ نے قرآن مجید کےا رشاد کے مطابق اپنے خاندان اور قبیلہ اور قوم یعنی اہل مکہ کو دعوت اسلام سے اپنے پیغام کی تبلیغ شروع کی۔ اس بار ے حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام فرماتےہیں:

’’ایک دفعہ اوائل دعوت میں آنحضرت ﷺ نےساری قوم کو بلایا۔ ابو جہل وغیرہ سب ان میں شامل تھے۔ اہل مجمع نے سمجھا تھا کہ یہ مجمع بھی کسی دنیوی مشورہ کے لئے ہوگا۔ لیکن جب ان کو اللہ تعالیٰ کے آنےوالے عذاب سےڈرایا گیا تو ابو جہل بول اٹھا۔

تبًا لَکَ اَلِھَذَا جَمَعْتَنَا

(تجھ پر افسوس کیا اس لئے تونےہمیں جمع کیا ہے) غرض باوجود اس کے کہ آنحضرت ﷺ کو وہ صادق اورا مین سمجھتےتھے مگر اس موقعہ پر انہوں نے خطرناک مخالفت کی اور ایک آگ مخالفت کی بھڑک اٹھی۔ لیکن آخر آپ کامیاب ہوگئے اور آپ کے مخالف سب نیست و نابود ہو گئے۔‘‘

( ملفوظات جلد 4صفحہ379، ایڈیشن 1988ء)

ابتدائی مسلمان

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’آپ کی قوت قدسیہ کی تاثیر سے غریب اور عاجز لوگ آپ کے حلقہ اطاعت میں آنا شروع ہو گئے اور جو بڑے بڑے آدمی تھے انہوںنے دشمنی پر کمر باندھ لی۔‘‘

(پیغام صلح ،روحانی خزائن جلد 23صفحہ 466)

دَور ابتلاء

اسلام کے آغاز کے ساتھ ہی اس کی مخالفت کا آغاز ہو گیا۔ مخالفین نے ہر صورت اسلام کی تبلیغ روکنے کی کوشش کی اور اس کے لیے انہوں نے مسلمانوں کو ڈرایا دھمکایا، مارا پیٹا بائیکاٹ کیا اور پھر کئی مسلمانوں کو شہید کیا۔ لیکن ہر تکلیف پر مسلمانوںنے صبر کیااور ثابت قدمی دکھائی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلامی تاریخ کے اس دَور کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ

’’دیکھو ہمارے نبی ﷺ نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اپنے پرائے سب کے سب دشمن ہو گئے مگر آپ نے ایک دم کے لئے بھی کبھی کسی کی پرواہ نہیں کی۔ یہاں تک کہ جب ابو طالب آپ کے چچا نے لوگوں کی شکایتوں سے تنگ آکر کہا اس وقت بھی آپ نے صاف طور پر کہہ دیا کہ میں اس کے اظہار سے نہیں رُک سکتا۔ آپ کا اختیار ہے میر اساتھ دیں یانہ دیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ281، ایڈیشن 1988ء)

ابو طالب کے پاس قریش کے وفود کا آنا

آغاز اسلام کے بعد مکہ میں اسلام کا چرچا ہونے لگا اور لوگ اسلام کی اعلیٰ تعلیم کو قبول کرنے لگے۔ تب قریش کے سرداروں میں بے چینی شروع ہوئی اور وہ وفود بنا کر آپ کے چچا ابو طالب کے پاس آئے تاکہ آنحضورﷺ کو سمجھا بجھا کر دنیا وی لالچ دے کر تبلیغ کے کام سے روکا جائے۔ آپ ﷺ کے چچا کا حضور ﷺکے پاس آنااور آنحضور ﷺ کا اس پر جواب ارسال کرنا سیرت النبی ﷺ کا ایک شاندار باب ہے۔ اور ہجرت سےقبل آنحضرت ﷺ کی سنہری زندگی پر تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے۔

اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے امام الزمان سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں پلید ہیں شرّالبریّہ ہیں سفہاء ہیں اور ذرّیت شیطان ہیں اور ان کے معبود وقود النّار اور حصب جہنم ہیں تو ابوطالب نے آنحضرتﷺکو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی۔تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شرّالبریّہکہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کانام ہیزم جہنّم اور وقود النّار رکھااور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذرّیت شیطان اور پلید ٹھہرایا۔مَیں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتاہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے بازآجاورنہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔آنحضرت ﷺ نے جواب میں کہاکہ اے چچایہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے مَیں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا اور اے چچا اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تُو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہوجا بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکام الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں۔یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہاء لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں۔آنحضرت ﷺیہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیّت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرتﷺ یہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں تیری اِس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا تُو اور ہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے جااپنے کام میں لگارہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ110۔111)

مذکورہ بالا تحریر کے بعد حضورؑ نے حاشیہ میں فرمایا:

’’یہ سب مضمون ابو طالب کے قصہ کا اگرچہ کتابوں میں درج ہے مگر یہ تمام عبارت الہامی ہے۔‘‘

آنحضور ﷺ پر قریش کے مظالم

قریش نے آنحضرت ﷺ اور صحابہ پر مظالم کا ایک درد ناک سلسلہ شروع کر دیا۔ اور آپ ﷺ کی تو جان کے درپے ہو چکے تھے کیونکہ اسلام کی روح ہی آپ کی بابرکت زندگی تھی۔ بنو ہاشم میں سے صرف ابو طالب اور حضرت علیؓ آپ کے ساتھ تھے۔ سارا خاندان آپ کے خلاف تھا اور قریش مخالفت میں دن بدن بڑ ھتے جا رہے تھے۔

ان حالات کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےبرہمو پرکاش دیو جی کی کتاب ’’سوانح عمری حضرت محمد صاحب‘‘ کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ

’’اور جب قریش اپنے اس حیلہ میں کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کو بے انتہا اذیتیں اور تکلیفیں پہنچانی شروع کیں۔ عزیزوں کا لہو سفید ہوگیا۔ سگا چچا ابولہب دشمن جانی بن گیا۔ سگی چچی کا یہ حال تھا کہ وہ بہت سے کانٹے گو کھڑو سمیٹ لیتی اور جن جن راہوں سے آپ گذرتے وہاں وہ گو کھڑو اور کانٹے بکھیر دیتی اور آپ کے پاؤں زخمی ہوجاتے تب آپ بیٹھ جاتے اپنے پاؤں سے بھی کانٹے نکالتے اور راستہ میں سے بھی دور کرتے تا دوسرے چلنے والے بھی اُس اذیّت سے بچیں۔ آپ جب وعظ کہنے کے لئے کھڑے ہوتے اور قرآن مجید پڑھتے تو لوگ غل مچاتے تا کوئی شخص اُن کی بات کو نہ سن سکے۔ آپ کو کہیں کھڑا نہ ہونے دیتے اور جب آپ تنگ آکرچلے جاتے تو اُن پر پتھر اور ڈھیلے پھینکے جاتے یہاں تک کہ آپ کے ٹخنے اور پنڈلیاں زخمی ہوجاتیں۔

ایک دفعہ چند دشمنوں نے آپ کو تنہا پاکر پکڑ لیا اور آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اُسے مروڑنا شروع کیا۔ قریب تھا کہ آپ کی جان نکل جائے کہ اتفاق سے ابوبکر آنکلے اور انہوں نےمشکل سے چھڑایا۔ اس پر ابوبکر کو اس قدر مار ا پیٹا کہ وہ بیہوش ہوکرزمین پر گر پڑے۔‘‘

(چشمۂ مَعرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 258)

حضرت عمر ؓکا قبول اسلام

حضرت حمزہ ؓ کے ایمان لانے کے بعدحضرت عمر ؓکا قبول اسلام آنحضور ﷺ کی مکی زندگی میں رونما ہونے والا ایک اہم واقعہ ہے۔حضرت عمر قریش کے رؤسا میں سے تھے۔ ابتدا میں آپ اسلام اور بانئ اسلام کے شدید مخالف تھے۔ مخالفت کا کوئی حیلہ نہ چھوڑا۔ آخرآپ نے یہ ارادہ کیا کہ نعوذ با للہ اسلام کے بانی حضرت محمدﷺ کو قتل کر دیں لیکن آپ خود آنحضرت ﷺ کے اخلاق اور آپ کی تعلیم کی خوبصورتی سے اسلام کی آغوش میںآگئے۔ حضرت عمرؓ کےاسلام قبول کرنے کا واقعہ انتہائی مشہور و معروف ہے۔ آپ کے ایمان کا اصل سبب وہ اندھیری راتوں کی دعائیں تھیں جو خاص طور پر آنحضور ﷺ نے آپ کے حق میں کی تھیں۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعو دعلیہ السلام اس حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دیکھو کس قدر فائدہ پہنچا۔ایک زمانہ میں یہ ایمان نہ لائے تھے اور چار برس کا توقف ہو گیا۔ (یعنی آپ کے دعویٰ سے لے ایمان لانے تک کا عرصہ۔ ناقل) اللہ تعالیٰ خوب مصلحت کو سمجھتا ہے کہ اس میں کیا سِر ہے۔ابو جہل نے کوشش کی کہ کوئی ا یسا شخص تلاش کیا جاوے جو رسول اللہ کو قتل کر دے۔اس وقت حضرت عمر بڑے بہادر اور دلیر مشہور تھے۔اور شوکت رکھتے تھے۔انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے رسول اللہ کے قتل کا بیڑا اٹھایا اور معاہدہ پر حضرت عمرؓ اور ابو جہل کے دستخط ہو گئے اور قرار پایا کہ اگر عمر قتل کر آویں تو اس قدر روپیہ دیا جاوے۔

اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ جو ایک وقت رسول اللہ ﷺکوشہید کرنے جاتے ہیں۔دوسرے وقت وہی عمر اسلام میں ہو کر خود شہید ہوتے ہیں۔وہ کیا عجیب زمانہ تھا۔غرض اس وقت یہ معاہدہ ہوا کہ میں قتل کرتا ہوں۔اس تحریر کے بعد آپ ﷺکی تلاش اور تجسس میں لگے۔راتوں کو پھرتے تھے کے کہیں تنہا مل جاویں تو قتل کر دوں۔لوگوں سے دریافت کیا کہ آپ تنہا کہاں ہوتے ہیں۔لوگوں نے کہا نصف رات گزرنے کے بعد خانہ کعبہ میں جا کر نماز پڑھا کرتے ہیں۔حضرت عمر یہ سنکر بہت ہی خوش ہوئے چنانچہ خانہ کعبہ میں آکر چھپ رہے۔جب تھوڑی دیر گزری تو جنگل سے لا الہ الااللّٰہ کی آواز آتی ہوئی سنائی دی۔اور وہ آنحضرت ﷺہی کی آواز تھی۔اس آواز کو سن کر اور یہ معلوم کر کے کہ وہ ادھر ہی کو آرہی ہے۔حضرت عمر اور بھی احتیاط کر کے چھپے اور یہ ارادہ کر لیا کہ جب سجدہ میں جائیں گے ،تو تلوار مار کر تن مبارک سر سے جدا کر دوںگا۔آپؐ نے آتے ہی نماز شروع کر دی۔پھر اس سے آگے کے واقعات حضرت عمر خود بیان کرتے ہیںکہ رسول للہ ﷺنے سجدہ میں رو رو کر اس قدر دعائیں کیں کہ مجھ پر لرزہ طاری ہونے لگا۔یہاں تک کہ آنحضرت ﷺنے یہ بھی کہا کہ سَجَدَ لَکَ رُوْحِی وَجَنَانِییعنی اے میرے مولیٰ میری روح اور میرے دل نے بھی سجدہ کیا۔حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ ان دعاؤں کو سن کر جگر پاش پاش ہوتا تھا۔آخر میرے ہاتھ سے ہیبت حق کی وجہ سے تلوار گر پڑی۔میں نے آنحضرت ﷺ کی اس حالت سے سمجھ لیا کہ یہ سچاہے اور ضرور کامیاب ہو جائے گا۔مگر نفس امارہ برا ہوتا ہے۔جب آپ نماز پڑھ کر نکلے۔میں پیچھے پیچھے ہو لیا۔پاؤں کی آہٹ جو آپؐ کو معلوم ہوئی۔رات اندھیری تھی۔آنحضرت ﷺنے پوچھا کہ کون ہے؟میں نے کہا کہ عمرؓ۔آپ نے فرمایا۔ ’’اے عمرؓ نہ تو رات کو پیچھا چھوڑتا اور نہ دن کو۔‘‘ اس وقت مجھے رسول اللہ ﷺ کی روح کی خوشبو آئی اور میری روح نے محسوس کیا کہ آنحضرت ﷺ دعا کریں گے۔میں نے عرض کی کہ یا حضرت!بد دعا نہ کریں۔حضرت عمر کہتے ہیں کہ وہ گھڑی میرے اسلام کی تھی۔یہاں تک کہ خدا نے مجھے توفیق دی کہ میں مسلمان ہو گیا۔‘‘

( ملفوظات جلد 1 صفحہ 424تا425، ایڈیشن 1988ء)

سفر طائف

مکہ میں دس سال تبلیغ کے نتیجہ میں بظاہر کوئی راہ اسلام کے پھیلنے کی نظر نہ آتی تھی۔اور قریش اسلام کے بارے میںکوئی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ اس پر آنحضرتﷺ نے طائف کے سفر کا ارادہ فرمایا تاکہ اہل طائف کوبراہ راست اسلام کی تبلیغ کی جائے۔ طائف کا شہر مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلہ پر ہے۔ اس دَور میں طائف میں بنو ثقیف آباد تھے۔ جن کے اہل مکہ سے گہرے دوستانہ تعلقات تھے۔ شوال 10؍نبوی میں آنحضرتﷺ حضرت زید بن ثابت ؓکو ساتھ لے کر طائف تشریف لے گئے۔ آپؐ نے وہاں دس دن قیام فرمایا اور کئی لوگوں کو جن میں کچھ سردار بھی تھے تبلیغ کی۔لیکن کسی نے بھی اسلام کے پیغام میں دلچسپی نہ لی۔ بلکہ تکذیب اور استہزاء سے کام لیا۔اور شہر کے اوباش لڑکوں کے ذریعہ آپ پر پتھر برسائے گئے۔آنحضور ﷺ کا جسم مبارک زخمی ہو گیا۔ ایسی حالت میں بھی جب کہ آپؐ شدید زخمی حالت میں تھے آپ نے اس قوم کے لیے ہدایت کی دعا طلب فرمائی۔

حضرت مسیح موعو د علیہ السلام سفر طائف کے حوالے سے آنحضرت ﷺ کی سیرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ہمارے ہادی کامل کو یہ دونوں باتیں دیکھنی پڑیں۔ ایک وقت تو طائف میں پتھر برسائے گئے۔ایک کثیر جماعت نے سخت سے سخت جسمانی تکلیف دی ،لیکن آنحضرت ﷺکے استقلال میں فرق نہ آیا۔ جب قوم نے دیکھا کہ مصائب وشدائد سے ان پر کوئی اثر نہ پڑا ،تو انہوں نے جمع ہو کر بادشاہت کا وعدہ دیا۔اپنا امیر بنانا چاہا۔ہر ایک قسم کے سامان آسائش مہیا کرنے کا وعدہ کیا حتٰی کے عمدہ سے عمدہ بی بی بھی۔بدیں شرط کہ حضرت بتوں کی مذمت چھوڑ دیں۔لیکن جیسے کہ طائف کی مصیبت کے وقت ویسی ہی اس وعدہ بادشاہت کے وقت حضرت نے کچھ پرواہ نہ کی اور پتھر کھانے کو ترجیح دی۔سو جب تک خاص لذت نہ ہو ،تو کیا ضرورت تھی کہ آرام کو چھوڑ کر دکھوں میں پڑتے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ11،ایڈیشن 1988ء)

اسی طرح آپؑ فرماتےہیں:

’’مومنوں پر ابتلاء آتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ تیرہ برس تک کیسی تکلیفیں اٹھاتےرہے۔ طائف میں گئے تو پتھر پڑے اس وقت جب آپ کے جسم سے خون جاری تھا آپ نے کیسا صدق اور وفا کا نمونہ دکھایا۔ اور کیا پاک الفاظ فرمائے کہ یا اللہ میں یہ سب تکلیفیں اس وقت تک اٹھاتا رہوں گا جب تک تُو راضی نہ ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ284،ایڈیشن 1988ء)

معراج و اسراء

معراج اور اسراء سیرت النبی ﷺ کے مکی دَور کےدو اہم واقعات ہیں۔جو آپ ﷺ کی علو شان کے مظہر ہیں۔ جن کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہوا ہے۔یہ دونوں الگ واقعات ہیں۔ لیکن غلطی سے ان کو ایک ہی واقعہ سمجھا گیا۔ اس کی وجہ احادیث میں ان سفروں کے واقعات کا بلا تخصیص مل جانا ہے۔ لیکن ان دونوں واقعات یعنی معراج اور اسراء کے الگ الگ عنوان باندھے گئے ہیں۔ معراج سے مراد وہ روحانی سفر ہے جو آپؐ نے مکہ سے آسمانوں تک کیا۔ اس کا ذکرسورۃ النجم آیات 6تا 19 میں ہے۔ اور اسراء سے مرادمسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا روحانی سفر ہے۔ جو سورہ بنی اسرائیل میں مذکور ہے۔یہ دونوں واقعات آپ کی علو شان کے مظہر ہیں۔ لیکن امّت نے ان واقعات کو سمجھنے میں غلطی کھائی۔ جس کی اصلاح حضرت اقدس مسیح موعو دعلیہ السلام نے بطور حکم و عدل فرمائی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام معراج و اسراء کے بارے میں بیان فرماتےہیں کہ

’’ایسا ہی ایک اور غلطی جو مسلمانوں کے درمیان پڑ گئی ہوئی ہے وہ معراج کے متعلق ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ کو معراج ہوا تھا۔مگر اس میں جو بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ صرف ایک معمولی خواب تھا۔سو یہ عقیدہ غلط ہے۔اور جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ معراج میں آنحضرت ﷺ اسی جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے۔سو یہ عقیدہ بھی غلط ہے۔بلکہ اصل بات اور صحیح عقیدہ یہ ہے کہ معراج کشفی رنگ میں ایک نورانی وجود کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ ایک وجود تھا مگر نورانی،اور ایک بیداری تھی مگر کشفی اور نورانی جس کو اس دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے مگر وہی جن پر وہ کیفیت طاری ہوئی ہو؛ ورنہ ظاہری جسم او رظاہری بیداری کے ساتھ آسمان پر جانے کے واسطے تو خود یہودیوں نے معجزہ طلب کیا تھا جس کے جواب میں قرآن شریف میں کہا گیا تھا

قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسرائیل : 94)

کہہ دے میرا رب پاک ہے میں تو ایک انسان رسول ہوں۔انسان اس طرح اُڑ کر کبھی آسمان پرنہیں جاتے۔یہی سنت اﷲ قدیم سے جاری ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ646،ایڈیشن1988ء)

اسراء کا لفظ عربی زبان کاہے۔اس کے معنی کسی کو رات کےوقت ایک جگہ سے دوسری جگہ لےجانے یاسفر کرانےکےہیں۔چونکہ آنحضرت ﷺ کو یہ روحانی سیر رات کے وقت کرائی گئی تھی اس لیےاس کانام اسراء رکھاگیا۔قرآن مجید کی سورت بنی اسرائیل میں اس کا ذکر موجود ہے۔

اسراء کے بارے میں یہ حدیث میں آتا ہےکہ آپﷺ کو مکہ سے لے کر بیت المقدس تک سیرکرائی گئی۔ یہ سفر رات کے وقت ہوا تھا۔ ایک ہی رات کےدوران یہ سفر مکمل ہو کر ختم ہو گیا اور اس سفر کی غرض و غایت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ کو نشانات دکھانا چاہتا تھا۔

شق قمر

آنحضرت ﷺ کے عظیم الشان معجزات میں سے ایک معجزہ شق قمر ہے۔ قرآن مجید میں شق قمر کا ان الفاظ میں ذکر ہوا ہے۔

اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَ انۡشَقَّ الۡقَمَرُ۔وَ اِنۡ یَّرَوۡا اٰیَۃً یُّعۡرِضُوۡا وَ یَقُوۡلُوۡا سِحۡرٌ مُّسۡتَمِرٌّ۔ وَ کَذَّبُوۡا وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ وَ کُلُّ اَمۡرٍ مُّسۡتَقِرٌّ(القمر:2تا4)

ترجمہ: ساعت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔ اور وہ کوئی نشان دیکھیں تو منہ پھیرلیتے ہیں اور کہتےہیں کہ ہمیشہ کی طرح کیا جانے والا جادو ہے۔ اور انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی( اور جلدبازی سے کام لیا) حالانکہ ہر اَمر( اپنے وقت پر) قرار پکڑنے والا ہوتاہے۔

بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمان ابھی شعب ابی طالب میں ہی قید تھے کہ یہ معجزہ رونما ہواتھا۔ بعض کفار نے آپ ﷺ سے معجزہ طلب کیا۔ جس پر آپ ﷺ نے خدا کے تصرف سے یہ معجزہ دکھایا۔ چاند کا ایک ٹکڑا جبل حرا کے ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف دکھائی دیتا تھا۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضور ﷺ صحابہ کے ساتھ منیٰ میں تھے جب یہ شق القمر ہوا۔ جس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا دیکھو اور گواہ رہو۔ اہل عرب چاند کو حکومت کی علامت سمجھتےتھے ان کے لیےشق قمر کا نشان اِنذار کے رنگ میں تھا کہ اب نہ صرف عرب بلکہ دنیا کی حکومتیں ختم ہو کر نئی حکومت یعنی اسلام کی حکومت قائم ہونے کا وقت ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف لطیف ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ میں ایک آریہ لالہ مرلی دھر ڈرائنگ ماسٹر صاحب کے اعتراضات کے جواب میں مباحثہ کے دوران تفصیل کے ساتھ اس معجزہ کی حقیقت پر روشنی ڈالی۔چنانچہ اس امر کو بیان کرتے ہوئے کہ شق قمر کا معجزہ قانون قدرت سے مطابقت رکھتا ہے،اس حوالہ سے بیان کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ

’’باقی رہا یہ سوال کہ شق قمر ماسٹر صاحب کےزعم میں خلافِ عقل ہے۔ جس سے انتظام ملکی میں خلل پڑتا ہے یہ ماسٹر صاحب کا خیال سراسر قلت تدبر سے ناشی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ جل شانہ جوکام صرف قدرت نمائی کے طور پر کرتا ہے وہ کام سراسر قدرتِ کاملہ کی ہی وجہ سےہوتا ہے نہ قدرتِ ناقصہ کی وجہ سے یعنی جس ذات قادر مطلق کویہ اختیار اور قدرت حاصل ہے کہ چاند کو دو ٹکڑہ کر سکے اس کو یہ بھی تو قدرت حاصل ہے کہ ایسے پُر حکمت طور سے یہ فعل ظہور میںلاوے کہ اس کے انتظام میں بھی کوئی خلل عائد نہ، ہو اسی وجہ سے وہ سرب شکتی مان اور قادرِ مطلق کہلاتا ہے اور اگر وہ قادر مطلق نہ ہو تا تو اس کا دنیا میں کوئی کام نہ چل سکتا۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد2 صفحہ 109)

10؍نبوی کے ماہ حج سے اسلام کی تاریخ میں ایک نیا موڑ شروع ہوتاہے۔ مدینہ (جس کا پہلا نام یثرب تھا) سےآکر چھ افراد نے ایک کھائی کے اندراسلام قبول کیا۔اگلےسال حج کے موقع پر یہ لوگ تجدید بیعت کے لیے مزید چھ لوگوں کواپنے ساتھ لے آئے اور ان لوگوں نےبھی اسلام قبول کیا۔ اور آنحضرت ﷺ نے ان کےساتھ قرآن کی تعلیم کے لیے حضرت مصعب بن عمیر ؓکو روانہ کیا۔12؍نبوی کے ماہ حج میں 70؍انصار نےاسلام قبول کیا۔ اور مسلمانوںکومکّہ سےہجرت کر کے مدینہ میں آنے کی دعوت دی اور مکّہ سے لوگوں نے یکےبعد دیگرے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔چند دنوں کے بعد خود آنحضرت ﷺ کو حکم ملا کےواھْجُرْ ھُمْ ھِجْرًا جَمِیْلًا اور آپ ﷺ نے جمعہ یکم ربیع الاوّل 1 ہجری کو مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارےمیں بیان فرماتے ہیں کہ

’’ہمارے سید و مولیٰ خیر الرسل محمدﷺ کو بھی مکّہ معظمہ میں جب دشمنوں نے قتل کرنے کےلئےچاروں طرف سےآپ کے گھر کو گھیرلیا تھا ایسا ہی اضطر اب اب پیش آیا تھا اور آپ نے دعا بھی نہیں کی تھی بلکہ راضی برضا ء مولیٰ ہو کر خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا۔ پھردیکھنا چاہیے کہ آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے کیسے بچا لیا۔ دشمنوں کے بیچ میں سے گزر گئے اور ان کے سر پر خاک ڈال گئے مگر ان کو نظر نہ آسکے۔‘‘

( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 10 حاشیہ)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ

’’بدھ کا روز اور دوپہر کا وقت اور سخت گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلا منجانب اللہ ظاہر ہوا اس مصیبت کی حالت میں جب آنحضرت ﷺ ایک ناگہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیر لیا۔‘‘

( سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 64تا65حاشیہ)

تین یوم آپ ﷺ اور حضرت ابو بکرصدیقؓ غارِ ثور میں چھپے رہے۔دوشنبہ 5؍ربیع الاوّل 1؍ہجری کو غار سے نکلے اور دو شنبہ12؍ربیع الاوّل 1؍ہجری کو مدینہ پہنچے۔ اس روز سے اسلامی تاریخ کا مدنی دَور شروع ہوتا ہے۔

آنحضرت ﷺ کا مکی دَور آپ ﷺ کی ساری زندگی کی طرح ہمارےلیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دَور میں آپؐ نے کامل صبر کا نمونہ دکھایا اور ہر حال میں تبلیغ دین کے فریضہ کا حق ادا کیا۔ آپؐ کا معصوم بچپن، پاکیزہ جوانی اور غار حرا میں خلوت کی عبادتیں، اسلام کی تبلیغ کے لیےجسمانی تکلیف برداشت کرنا ، سچائی کے اظہار کے لیے جاہ وحشمت کو ٹھکرانا وغیرہ کئی امور ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پیارے آقا خاتم النبیینﷺ کےان مبارک رہ نما اصولوںکو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button