یہ عشقِ یار ہی رسمِ حرا کا موجب ہےطلسمِ دنیا جزا اور سزا کا موجب ہے نویدِ امن ہے ہر اک شفا کا موجب ہےوہ خندہ لب ہی تو ہر ارتقا کا موجب ہے دریچہ دل کا کھلا ہے کہ غنچہ ہائے خیالکہ لفظ لفظ مسیحا، ہُدیٰ کا موجب ہے حسین اُسوہ فقط آپؐ کو ہی لکھا گیاعمل بھی آپؐ کا رب کی رضا کا موجب ہے صفات باری تعالیٰ کی جلوہ گاہ ہیں آپؐکہ قرب آپؐ کا قربِ خدا کا موجب ہے جہاں سے قافلہ قدوسیوں کا گزرا تھاوہ نقشِ نازِ بہاراں وفا کا موجب ہے حصولِ طرزِ رضا آپؐ نے ہی سکھلایایہ دل کا نالہ ہے جو اِتّقا کا موجب ہے درونِ ذات میں رس گھولتا درودِ پاکمجھے یقیں ہے کہ صدق و صفا کا موجب ہے جگہ جگہ پہ حکایت ہے صبر کی کندہنیا یہ نقش اُسی مہ لقا کا موجب ہے (احمدمنیبؔ)