سیرت النبی ﷺ

آنحضورﷺ کابے مثال جذبۂ خدمتِ خلق (قسط اوّل)

(ابوظہیر)

اَلْخَلْقُ کُلُّھُمْ عِیَالُ اللّٰہِ (حدیث)

آپؐ جتنا وقت گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپؐ کونماز کا بلاوا آتا اور آپؐ مسجد میں تشریف لے جاتے

آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

راغب اندر رحمتت یا رحمۃ اللہ آمدیم

ایکہ چوں ما بردرِ تو صد ہزار امید وار

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ 26)

اے اللہ کی رحمت ہم تیرے رحم کے امیدوار ہیں تو وہ ہے کہ ہم جیسے لاکھوں تیرے دَر کے امیدوار ہیں۔

آں ترحّمہا کہ خلق از وَے بدید

کس ندیدہ در جہاں از مادرے

(براہین احمدیہ حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 18)

وہ شفقت وکرم اور مہربانیاں جو خلقِ خدا نے آپؐ سے پائیں وہ دنیا میں کسی نے اپنی ماں سے بھی نہیں پائیں۔

فَاقَ الۡوَرٰی بِکَمَالِہِ وَ جَمَالِہٖ

وَجَلَالِہٖ وَ جَنَانِہِ الرَّیَّانٖ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 592)

آپؐ ساری خلقت سے اپنے کمال اور اپنے جمال اور اپنے جلال اور اپنے شاداب دل کے ساتھ فوقیت لے گئے ہیں۔

یہ تینوں اشعار آنحضوررحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے مثال جذبۂ خدمت خلق کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں جیسا کہ قارئین کرام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی زندگی کے درج ذیل حالات و واقعات میں ملاحظہ کریں گے۔ حضورﷺ کے مخلوق خدا سے تعلق رکھنے والے ان اخلاق حسنہ اور اوصافِ کریمانہ کے واقعات پیش کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آنحضورﷺ کو اپنے خالقِ حقیقی سے جو والہانہ محبت اور پیار تھا اُسی طرح آپ کو اپنے ربّ کے بندوں (خلق خدا ) سے بھی بے حد پیار اور بےمثال محبت تھی۔ اسی لیے آپ فرماتے ہیں کہاَلۡخَلۡقُ عَیَالُ اللّٰہ کہ مخلوق خدا کا کنبہ ہے۔

یہ پہلا سبق ہے کتاب ہدیٰ کا

کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

(مسدس حالی)

جس طرح اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے اُسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے اس سب سے پیارے رسول مقبولﷺ کو رحمۃ للعالمین کا لقب عطا فرمایا ہے۔ اس رحمت کے بے شمار جلوے آپ کی حیات طیبہ میں اپنوں، بیگانوں، دوستوں، دشمنوں، ہمسایوں، مہمانوں، یتیموں، بیواؤں، مسافروں، بیماروں اور دکھی انسانوں اور اسی طرح حاکموں اور محکوموں، آقاؤں اور غلاموں سب نے بلا استثنا آپ کی شفقت و مہربانی اور رحمت کے سلوک سے حصہ پایا اور ربّ رحمان ومنان کے اس رحمت کے سحاب اور ابرکرم نے ہر لمحۂ زندگی میں ہزاروں دکھ درد کے ماروں کے دلوں کی ویران کھیتیوں کو سر سبزوشاداب کر دیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آنحضورﷺ کے اخلاق کیسے تھے تو آپؓ نے فرمایا :کَانَ خُلُقُہٗ الۡقُرۡآنَکہ آپ کے اخلاق کو معلوم کرنا چاہتے ہو تو قرآن کریم کو پڑھ کر دیکھو۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو اوامر اور نواہی بیان فرمائے آنحضورﷺ کی زندگی اور آپ کے اعمال اُن کی حقیقی تفسیر اور تصویر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوشنودی کا سرٹیفکیٹ ان الفاظ میں عطا فرمایا :

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ۔ (القلم:5)

تُو(اپنی تعلیم اور عمل میں ) نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ حکم دیا کہ

لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ(الاحزاب:22)

یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے

اس لیے اس کا اسوہ ٔحسنہ تمہارے لیے قابل تقلید ہے جس کے بغیر تم اپنے ربّ کی محبت کو نہیں پاسکتے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں خلق اللہ کے تمام طبقوں کی خدمت، اُن کی حاجت روائی اور اُن سے ہمدردی و حسنِ سلوک کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتا ہے:

وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا

’’اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ، رشتہ داروں اور یتیموں اور بےکسوں اور قرابت دار پڑوسیوں اوراجنبی پڑوسیوں اور پاس بیٹھنے والے رفیقوں اور بیبیوں اور مسافروں اور غلام باندیوں اور جانوروں کے ساتھ جو تمہارے قبضہ میں ہوں نیک سلوک کرو۔ بے شک اللہ اُن کو دوست نہیں رکھتا جو اتراتے اور بڑائی مارتے پھرتے ہیں۔‘‘

(سورۃ النساء آیت 37، ترجمہ از قرآن کریم مترجم حضرت مولانا نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ )

قرآن کریم کی اس تعلیم پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کماحقُّہٗ عمل فرمایا اور اپنے ماننے والوں کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پہلی وحی پر رسول کریمﷺ کے اخلاق پر جو گواہی دی وہ آپ کی ہمدردی ٔ خلق سے عبارت ہے۔ انہوں نے آنحضورﷺ کو تسلی دیتے ہوئے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ

خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اورصادق القول ہیں، لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں اور معدوم اخلاق اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہیں آپ مہمان نوازی کرتے ہیں اور تمام حوادث میں حق اور صداقت کا ساتھ دیتے ہیں۔

(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی )

آنحضرتﷺ کی نبوت سے پہلی زندگی میں جذبۂ خدمت خلق کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’ہم آپ کی زندگی کے اخلاقی پہلو اور غرباء کی امداد کو لیتے ہیں تو اس میں بھی آپ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ مکہ کے بعض اشخاص نے مل کر ایک ایسی جماعت بنائی جو غریب لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرے اور چونکہ اس کے بانیوں میں سے اکثرکے نام میں فضل آتا تھا اس لیے اسے حلف الفضول کہا جاتاہے۔ اس میں آپ بھی شامل ہوئے۔ یہ نبوت سے پہلے کی بات ہے بعد میں صحابہؓ نے ایک دفعہ دریافت کیا کہ یہ کیا بات تھی ؟ آپ سمجھ گئے کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ تو نبی ہونے والے تھے۔ آپ ایک انجمن کے ممبر کس طرح ہوگئے جس میں دوسروں کے ماتحت ہوکر کام کرنا پڑتا تھا۔ آپ نے فرمایا یہ تحریک مجھے ایسی پیاری تھی کہ اگر آج بھی کوئی اس کی طرف بلائے تو میں شامل ہونے کو تیار ہوں۔ گویا غرباء کی مدد کے لیے دوسروں کی ماتحتی سے بھی آپ کو عار نہیں تھی۔ ایک غریب شخص نے ابوجہل سے کچھ قرضہ لینا تھا اور وہ غریب سمجھ کے ادا نہیں کر رہا تھا۔ وہ حلف الفضول کے لیڈروں کے پاس گیا کہ دلوا دو۔ مگر ابوجہل سے کہنے کی کوئی جرأت نہ کرتا تھا۔ آخر وہ شخص ان ایام میں جب آپ نبوت کے مقام پر فائز ہوچکے تھے آپ کے پاس آیا کہ آپ بھی حلف الفضول کے ممبروں میں سے ہیں، ابوجہل سے میرا قرضہ دلوادیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابوجہل آپ کے قتل کا فتویٰ دے چکا تھا اور مکہ کا ہر شخص آپ کا جانی دشمن تھا۔ آپ فوراً ساتھ چل پڑے اور جاکر ابوجہل کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نے پوچھا کون ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: محمدؐ وہ گھبراگیا کہ کیا معاملہ ہے فوراً آکر دروازہ کھولا اور پوچھا کیا بات ہے۔ آپؐ نے فرمایا:اس غریب کا روپیہ کیوں نہیں دیتے۔ اس نے کہا ٹھہریئے ابھی لاتا ہوں اور اندر سے روپیہ لاکر فوراً دے دیا۔ لوگوں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کردیا کہ یہ ڈر گیا ہے۔ مگر اس نے کہا میں تمہیں کیا بتاؤں کہ کیا ہوا۔ جب میں نے دروازہ کھولا تو ایسا معلوم ہوا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے دائیں اور بائیں دودیوانے اونٹ کھڑے ہیں جو مجھے نوچ کر کھا جائیں گے۔ کوئی تعجب نہیں یہ معجزہ ہو۔ مگر اس میں بھی شک نہیں کہ صداقت کا بھی ایک رعب ہوتا ہے غرضیکہ ایک غریب کاحق دلوانے کے لیے آپؐ نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا۔‘‘

(نبی کریمؐ کے پانچ عظیم الشان اوصاف۔ انوارالعلوم جلد 12صفحہ 360۔ خطاب فرمودہ 8؍نومبر1931ء)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ

سَیِّدُ الۡقَوۡمِ خَادِمُھُمۡ (مشکوٰۃ جلد سوم حدیث نمبر1032)

آپؐ نے عمر بھر حاجتمندوں، ناداروں، یتیموں، بیواؤں، محکوموں، غلاموں، قیدیوں، مقروضوں اور ہر قسم کے مظلوموں کی ایسی بے مثال و بے نظیر خدمت کی کہ مخدومُ العالمین کے مقام پر فائز ہوگئے۔ آپؐ فرماتے ہیں :

خَیۡرُ النَّاسِ مَنۡ یَّنۡفَعُ النَّاسَ(کنزالعمال جلد8صفحہ201حدیث نمبر44154)

کہ لوگوں میں سے بہترین وہ ہے جو اُن کے لیے نفع رساں ہو۔

اسی طرح آپؐ فرماتے ہیں کہ

’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ پھر خدمتِ خلق کے اس دائرہ کو وسیع تَر فرماتے ہوئے فرمایا:

عن فضالۃ بن عبید رضی اللّٰہ عنہ: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم فِیۡ حَجَّۃِ الۡوَدَاعِ اَلَا اُخۡبِرُکُمۡ بِالۡمُؤمِنِ؟ مَنۡ اَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی اَمۡوَالِھِمۡ وَ اَنۡفُسِھِمۡ، وَالۡمُسۡلِمُ مَنۡ سَلِمَ النَّاسُ مِنۡ لِّسَانِہِ وَیَدِہِ (رواہُ احمد)

فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حجۃالوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ مومن کون ہے ؟ پھر خود ہی فرمایاکہ (مومن وہ ہے) جس سے لوگوں کے اموال اور اُن کی جانیں محفوظ رہیں۔ اورپھر فرمایاکہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سےتمام انسان محفوظ رہیں۔

اسی طرح آنحضورﷺ کے بے مثال جذبۂ خدمت خلق کا اظہار آپؐ کے اس جامع ارشاد سے بھی ہوتا ہے کہ

’’دین تو خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ کس کی خیر خواہی ؟ اس پر آپؐ نے فرمایا : ’’اللہ، اُس کی کتاب، اُس کے رسولؐ، مسلمان ائمہ اور اُن کے عوام النّاس کی خیر خواہی۔‘‘

(مسلم کتاب الایمان باب بیان ان الدّین النّصیۡحَۃ)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضورؐ نے فرمایا:

’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے۔ وہ حرام ہے ہر اُس شخص پر جو (اللہ اور اُس کے بندوں سے ) قریب ہے، اُن سے نرم سلوک کرتا ہے، ملائمت رکھتا ہے، اور اُن کے لیے سہولت مہیّا کرتا ہے۔‘‘

(جامع ترمذی ابواب صفۃ القیامۃ)

آنحضورﷺ کی گھر میں خدمت اور بیویوں کے لیے بے مثال جذبۂ رحمت

آنحضرتﷺ کی طبیعت ہر قسم کے تصنُّع سے پاک تھی۔ آپ کالباس، آپ کی خوراک، آپ کی رہائش، آپ کا اندازگفتگو اور آپ کی معاشرت ہر تکلف سے پاک اورحددرجہ سادہ تھی۔ آپؐ ہمہ جہت مصروفیات کے باوجود گھر والوں کے لیے وقت نکالتے اور گھریلو ماحول میں اپنے لیے کسی خاص توجہ کے طلب گار نہ ہوتے بلکہ اپنے آرام کی بجائے زیادہ وقت گھر والوں کی خدمت میں لگے رہتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی گھریلو زندگی کے بارہ میں شہادت یہ ہے کہ

’’رسول اللہﷺ اپنے جوتے کی مرمت کر لیتے تھے۔ اپنے کپڑوں کو سی لیتے تھے۔ اور اپنے گھر کے کام ویسے ہی کرتے تھے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھر کے کام کرتا ہے۔‘‘

حضرت عائشہؓ نے مزید فرمایا :

’’آپؐ انسانوں میں سے ایک انسان تھے…اپنی بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے اور اس کے علاوہ اپنے سے متعلق دیگر کام بھی خود ہی کرتے تھے۔‘‘

(مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفضائل باب فی اخلاقہٖ وشمآئِلِہٖ حدیث نمبر5822)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

آپؐ جتنا وقت گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپؐ کونماز کا بلاوا آتا اور آپؐ مسجد میں تشریف لے جاتے۔

(بخاری کتاب الادب، باب کیف یکون الرجل فی اہلہ)

حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیاکہ آنحضرتﷺ گھرمیں کیا کیا کرتے تھے۔ فرمانے لگیں آپؐ تمام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے کپڑے کو خود پیوند لگا لیتے تھے بکر ی خود دوہ لیتے تھے اور ذاتی کام خود کرلیا کرتے تھے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 6صفحہ 397)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :

رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دیے بغیر کھانا یا دودھ خود تناول فرمالیتے۔

(مسلم کتاب الاشربہ باب اکرام الضیف)

حضرت عائشہؓ کی ہی روایت ہے کہ

…عید کا دن تھا۔ …کچھ حبشی نیزوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے۔ میرے پوچھنے پر یا ازخود مجھے فرمایا کہ کیا تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کی ہاں! اس پر آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپ انہیں کہتے تھے کہ اے بنی اَرْفِدہ! اپنا کھیل جاری رکھو۔ یہاں تک کہ جب میں اُکتا گئی تو آپ نے فرمایا کہ کیا کافی ہے ؟ میں نے عرض کی کہ ہاں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا پھر چلی جائو۔

(بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق یوم العید، حدیث نمبر 949-950)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ اور ابوطلحہ نبیﷺ کے ساتھ آئے اور آنحضورﷺ کی معیت میں حضرت صفیہ تھیں جنہیں حضورنے اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا تھا۔ رستہ میں سواری کو ٹھوکر لگی تو نبیﷺ اور آپ کی اہلیہ گر گئیں۔ راوی کہتے ہیں کہ غالباًحضرت ابوطلحہؓ نے کہا اے اللہ کے نبی! میں آپ پر قربان جائوں آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی؟ آنحضورﷺ نے فرمایا مجھے تو کوئی تکلیف نہیں پہنچی البتہ تم خاتون کو دیکھو۔

(بخاری کتاب الجھاد مایقول اذا رجع من الغزو۔ حدیث نمبر 3086)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ آنحضرتﷺ کی پاکیزہ گھریلو زندگی اور آپ کے گھروالوں کے لیے جذبہ خدمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’آنحضرتﷺ جب خود بیمار ہوتے تھے تو اپنی بیگمات پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے تھے جب وہ بیمار ہوتی تھیں تو ان کے ساتھ حسن سلوک فرمایا کرتے تھے۔ روزانہ گھر میں کاموں میں حصہ لیا کرتے تھے اپنے کپڑے خود سیا کرتے تھے، اپنی جوتیوں کو بھی بعض دفعہ خود پیوند لگایا کرتے تھے، روزمرہ کے کاموں میں اپنی بیویوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ آج کل اگر کسی مرد سے کہا جائے کہ تم بھی گھر کے کاموں میں دلچسپی لو، تم بھی اپنی عورت کے ساتھ مدد کرو، اس پر بے وجہ بوجھ نہ ڈالو، اگر وہ خود شوق سے خدمت کرتی ہے تو بیشک کروائو خدمت، لیکن وقت بے وقت بیمار دیکھ کر اور مصیبت میں دیکھ کر بھی اس کو خدمت پر مجبور کرنا یہ سنت نبوی کے خلاف ہے۔ تو ایسا مرد بعض دفعہ یہ کہتا ہے کہ جی وہ اَور وقت تھے، ہم تو بڑے مصروف ہیں، اس مصروف زندگی میں بھلا ہوسکتا ہے کہ ہم باہر بھی کام کریں اور اندر آکر بھی عورت کی مدد کریں۔ وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ ساری دنیا میں جب سے انسان بنا ہے اور جب تک رہے گا حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ سے زیادہ مصروف کوئی انسان نہیں تھا، نہ ہے اور نہ ہوگا۔ اتنا حیرت انگیز ہے آپ کا مصروف الاوقات ہونا کہ خود یہ اپنی ذات میں ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کریم گواہی دیتا ہے کہ سارا دن تجھ پر اتنے کام ہیں، ا تنے بوجھ ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ تو ہر وقت ہماری یاد میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی ان کاموں کی وجہ سے الگ نہیں ہوسکتا، اس لئے اے میرے بندے رات کو اُٹھ کر مجھ سے ملا کر، رات کو اُٹھ کر عبادت کیا کر۔ اس سے زیادہ قطعی گواہی کسی کے مصروف الاوقات ہونے کی نہیں ہوسکتی اور آپؐ روزمرہ کے گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ کیا اس سے بہتر کام کرنے کا موقع آپؐ کے پاس نہیں تھا، یقیناً تھا بے انتہا کام تھے آپ کو۔ ساری دنیا کی اصلاح کا بیڑا اُٹھانا اور پھر قیامت تک کے لئے اور پھر ایسے دشمنوں میں گھِرا ہونا، ادنیٰ سے ادنیٰ خادم کی پرواہ اور اس کے دکھ دور کرنے کی فکر اور دعائیں صرف ان لوگوں کے لئے نہیں جو زندہ ہیں۔ نسلاً بعد نسلٍ آنے والوں کے لئے بھی دعائیں اور فوت شدگان کے لئے بھی دعائیں اور دعائیں وہ جن کا آغازِ انسانیت سے بھی تعلق ہے اور انجامِ انسانیت سے بھی تعلق ہے۔ بے شمار مسائل جن کا سامنا کرنا پڑتا تھا، بے شمار تعلیمات تھیں ہر زندگی کی دلچسپی کے موضوع پر آنحضرتﷺ نے تعلیم دینی تھی اور پھر اس تعلیم کی حکمت سمجھانی تھی۔ کتنے بڑے کام تھے، ایک ایسا مصروف الاوقات گھر میں بیٹھا اپنی جوتی کو بھی پیوند لگا رہا ہے، اپنے پھٹے ہوئے کپڑے بھی سی رہا ہے، کھانے پکانے میں چیزیں پکڑا رہا ہے اپنی بیوی کو اور اس کی مدد کررہا ہے، ٹوٹے ہوئے برتن جوڑ رہا ہے کہ کسی کی دل شکنی نہ ہوجائے کسی دوسری بیوی کی۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ نمونہ کیوں نہیں پکڑتے لوگ اپنے گھروں میں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 31؍جنوری 1986ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 5صفحہ 102-103)

سر ولیم میور آنحضورﷺ کے اخلاق کریمانہ اور بے مثال جذبہ خدمت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ

’’اپنا ہر ایک کام مکمل کرتے اور جس کام کو بھی ہاتھ میں لیتے جب تک اس کو ختم نہ کرلیتے اُسے نہ چھوڑتے … آپ کو ہر کام خود کرنے کی عادت تھی جب بھی آپ صدقہ دیتے تو سوالی کو اپنے ہاتھ سے دیتے۔ گھریلو کام کاج میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے …‘‘

(The Life of Mahomet by William Muir, Vol.IV, London: Smith, Elder and Co, 65 Cornhill, 1861, pp.510 to 513)

مشہور مستشرق جناب جیمز اے مچنرنبی کریمﷺ کے بے مثال جذبہ خدمت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ

’’دُرِّ یتیم جو ہمیشہ غریب اور نادار، بیوہ اور یتیم، غلام اور مسکین، سب کی ہمیشہ حاجت روائی کرنے پر کمربستہ رہتا تھا۔ بیس سال کی عمر میں آپؐ ایک کامیاب تاجر کے طور پر اُبھرے اور جلد ہی ایک امیر خاتون کے اُونٹوں کے قافلہ کے نگران بن گئے۔ جب آپ پچیس سال کے ہوئے تو آپ کی صلاحیتوں کو پہچانتے ہوئے اس خاتون نے، آپ کو شادی کی پیشکش کی۔ باوجود اس کے کہ وہ آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں۔ آپؐ نے ان سے شادی کرلی اور جتنا عرصہ بھی ساتھ گزارا، آپؐ ایک وفادار شوہر رہے۔ چالیس سال کی عمر تک صحرا کا یہ شہزادہ نہایت درجہ مطمئن زندگی گزار رہا تھا ایک محبت کرنے والی بیوی، اچھے بچے اور مال ودولت کی ریل پیل۔

(James A Michener: Islam: The Misunderstood Religion, Reader´s Digest (American Edition) May 1955, P.68)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button