آنحضرتﷺ کے شب و روز… مشرقین و مغربین کے لیےاسوۂ حسنہ
’’ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لیے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لیے سورج۔ وہ اندھیرے کے وقت میں ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کردیا‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے متعلق اپنے پاک کلام میں فرماتاہے۔
…اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَبۡلَ ذٰلِکَ مُحۡسِنِیۡنَ۔ کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ۔ وَ بِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ۔ (الذٰریٰت:17تا19)
یعنی …وہ بہت اچھے اعمال بجا لاتے تھے۔ تھوڑا تھاجو وہ رات کو سوتےتھے۔ اور صبحوں کے وقت وہ استغفار میں لگے رہتے تھے۔
انسان جب ان آیات پر غور کرتا ہے تو ذہن میں یہ سوال اُبھرتے ہیں کہ وہ کون بزرگ و پاک ہستیاں تھیں جن کا ان آیات میں ذکر ہے؟ انہوں نے کس طرح اس قدر بلند مقام حاصل کیا؟کس کی صحبت میں اُن کا اُٹھنا بیٹھنا تھاکہ وہ روحانی طور پر اتنے پاک و صاف ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ کی یاداُن کو بستروں سے الگ کردیتی اور وہ رات کا اکثر حصہ عبادات میں گزارتےاور دن کے اوقات میں استغفارسے اُن کی زبانیں تَر رہتیں ؟
تو بے سا ختہ درود بھیجنے کو جی چاہتا ہے اُس مقدس ذات پرجس کا نا م محمدﷺ ہے۔ جس کی صحبت میں رہ کر یہ لوگ کُندن بنے۔ اور دُنیا و آخرت میں مقام پا گئےاور ترقی کرتے کرتےرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوۡا عَنْہُ تک پہنچ گے۔
اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتاہے اے نبیﷺ تو اعلان کردے۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔
تُو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو، تو میری پیروی کرواللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ (آل عمران:32) یہ آیت اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ایک راستہ یہ بتا تی ہے کہ ہم آنحضرتﷺ کے نقش قدم پر چلیں اورجس طرح آپﷺ کیاکرتے تھے اُسی طرح ہم بھی کریں۔ قرآن کریم ہمیں آپﷺ کے اقوال و افعال کوانسانوں کےلیے نمونہ قرار دیتےہوئے فرماتا ہے۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:22)
کہ یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے۔
مذکورہ بالا امور ہمیں سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم اُس سراج منیراورہادیٔ کائناتﷺ کے حالات زندگی اور شب وروز کا مطالعہ کریں تاکہ اُس پرچلتے ہوئے ہم بھی خداتعالیٰ کے محبوب بن سکیں۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ آپﷺ دن رات میں کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ اعمال اِس قدر پسند آئے کہ آپﷺ کو مخاطب کر کےفرمایا:
وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُوْنٍ۔ وَاِ نَّکَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ( سورۃ القلم :4تا5)
اور یقیناً تیرے لئے ایک لا متناہی اجر ہے۔ اور یقیناً تو بہت بڑے خُلق پر فائزہے۔
آپؐ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نےاپنےاوقات کوتین حصوں میں تقسیم کیا ہواتھا۔ دن کا ایک حصہ عبادت الٰہی کےلیے مقرر ہوتا، ایک حصہ اہل خانہ اور اصحاب کے لیے اورایک حصہ اپنی ذاتی ضروریات کےلیے مقررتھا لیکن یہ وقت بھی زیادہ تربنی نوع انسان کی خدمت میں ہی گزارتے۔
آنحضرتﷺ کی عبادات اورذکر الٰہی
ہمارے نبی کریم حضرت محمدﷺ
فَا سْجُدُوْا لِلّٰهِ وَاعْبُدُوْا (النجم :63)
کہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤاور عبادت کرو۔ کی عملی تصویر تھے۔ عین عالم جوانی میں آپؐ دنیا کی دلچسپیوں سے بیزار غارحرا کی تنہائیوں میں جاکر محبوب حقیقی کو یادکرتے تھے۔ جس میں آپؐ کی زندگی کاسارا لطف تھا۔ دن ہو یا رات، خلوت ہویا جلوت عالم خواب ہو یا بیداری کبھی بھی آپؐ ا پنے ربّ کی یاد نہیں بھولے۔ رسول اللہؐ کی یاد الٰہی کی اصل معراج آپؐ کی نمازتھی۔ جس میں آپؐ کی آنکھوں اور دل کی ٹھنڈک تھی۔ نبی کریمؐ کا دل ہر وقت نماز میں ہی اٹکا ہوتا تھا۔ حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ کہتے ہیں کہ ایک رات مجھے نبی کریمﷺ کے ساتھ عبادت کرنے کی توفیق ملی۔ آپؐ نے پہلے سورۃالبقرۃ پڑھی۔ آپؐ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگتے۔ پھر نماز میں قیام کے برابر آپؐ نے رکوع فرمایا۔ جس میں تسبیح و تحمید کرتے رہے۔ پھر قیام کے برابر سجدہ کیا۔ سجدہ میں بھی تسبیح اوردعا پڑھتے رہے۔ پھر کھڑے ہوکر آل عمران کی تلاوت کی۔ پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورت پڑھتے رہے۔
(ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ فی الدعا ما یقول الرجال فی رکوعہ و سجود)
جب کوئی خوشی کی خبر آتی تورسول کریمؐ فوراً خدا کے حضور سجدہ میں گر جاتے اور سجدہ تشکّر بجالاتے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرتﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے۔ جب ہم عزوراء مقام پر پہنچے تووہاں حضورؐ اترے۔ آپؐ نے ہاتھ اٹھائے اور کچھ وقت دعا کی۔ پھرحضورؐ سجدے میں گر گئے۔ لمبی دیر سجدے میں رہے۔ پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کی۔ پھر سجدے میں گر گئے۔ آپؐ نے تین دفعہ ایسے کیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اپنے ربّ سے دعا مانگی تھی اور اپنی امّت کےلیے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے میری امّت کی ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دی۔ میں اپنے ربّ کا شکرانہ بجالانے کےلیے سجدے میں گر گیا اور سر اُٹھاکر پھر اپنے رب سے امّت کےلیے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزیدایک تہائی اپنی امّت کی شفاعت کےلیے اجازت مرحمت فرمائی۔ میں نے پھر شکرانے کا سجدہ بجالایا۔ پھر سر اُٹھایا اور امّت کےلیے اپنے ربّ سے دعا کی۔تب اللہ تعالیٰ نے میری امّت کی تیسری تہائی کی بھی شفاعت کے لیے مجھے اجازت عطافرما دی اور میں اپنے ربّ کے حضورسجدۂ شکر بجالانے کے لیے گر گیا۔
(ابوداؤد کتاب الجھاد باب فی سجودالشکر)
ایک اور جگہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ مسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رُو ہوکر سجدے میں گرگئے اور بہت لمبا سجدہ کیا۔ یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید آپؐ کی روح قبض کرلی ہے۔ میں آپؐ کے قریب ہوا تو آپؐ اُٹھ بیٹھے اور پوچھا کون ہے؟میں نے عرض کیا عبدالرحمٰن۔ فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہواکہ کہیں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی روح تو قبض نہیں کرلی۔ آپؐ نے فرمایا میرے پاس جبریلؑ آئے تھے انہوں نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے حق میں فرماتا ہے کہ جوآپؐ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں نازل کروں گا اور جو آپؐ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا۔ یہ سُن کر میں نےاللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجالایا۔
(مسند احمد جلد 1 صفحہ 191 مطبوعہ بیروت)
رسول کریمﷺ نےفرمایا کہ انسان حالت ِسجدہ میں اپنے رب کےبہت قریب ہوتا ہے۔ پس تم اس وقت کثرت سے دعائیں کیا کرو۔ رسول کریمؐ صحابہ کو دعا کے آداب بھی سکھاتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جو چُوزے کی طرح کمزور ہوچکا تھا۔ رسول کریمؐ نے اس کی حالت بھانپ کر فرمایا کیا تم کوئی خاص دعا کرتے تھے؟وہ کہنے لگا ہاں میں دعاکرتا تھا کہ اے اللہ تو نے جو سزا مجھے دینی ہے۔ آخرت کی بجائے اسی دنیا میں دے دے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا’’اللہ پاک ہے ،تمہیں اس سزا کی برداشت کہاں ہے؟ تمہیں یہ دعا کرنی چاہیے تھی!
اَللّٰھُمَّ اٰتِنَا فِیْ الدُّنیَا حَسَنَۃً وَّ فِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً، وَّقِنَا عَذَابَ النَّار۔
ہمارے آقا ومولیٰ کا اٹھنا بیٹھنا اور اوڑھنا بچھونا تو دعا ہی تھا، آپؐ کے ہر کام کا آغاز بھی دعا سے ہی ہوتا تھا اور دعاؤں سے ہی آپؐ کے کام انجام کو پہنچتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کے سچے واسطے دے کر محمدؐ سے بڑھ کر دعا کرنے والا کوئی نہیں سنا۔ ہمارے لیے تو اس دعاؤں کے رسولؐ نے یہ اسوہ چھوڑا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتوحات کے وعدے تھے اور فرشتوں کی فوجیں مسلمانوں کی مدد کے لیے نازل کی گئی تھیں تب بھی آپﷺ اپنے خیمہ میں خدا کے حضور نماز و دعاؤں میں مشغول تھے۔
آخری ایام میں بھی آپﷺ کو اگر کسی چیز کی فکر لاحق تھی تو وہ نماز تھی۔ پیارے آقاﷺ شدید بخار میں مبتلا تھے مگر گھبراہٹ کے عالَم میں بھی بار بار پوچھتے تھے، کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ آپؐ دو اصحاب کےکندھوں سے سہارا لے کر مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز ادا کی۔ آپؐ کے بارے میں بیان کیا جاتاہےکہ آپؐ اس قدر لمبی نمازیں پڑھتے تھے کہ آپؐ کے پاؤں متورم ہو جایا کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپؐ کی عبادات کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں :
’’دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا۔ اور نہ کسی کان نے سُنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیاتھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا۔ ‘‘
( برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 10)
محبت الٰہی اور شرک سے نفرت و دُوری
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شرک وبت پرستی کے تاریک دَور میں قیام توحید کا عظیم الشان کام لیا جانا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آغاز سے ہی آپؐ کے دل میں توحید کی محبت اور بت پرستی سے نفرت رکھ دی تھی اوراپنی خاص مشیت سے آپؐ کو ہرقسم کے شرک سے محفوظ رکھا۔ ایک دفعہ اپنی پھوپھیوں کے اصرار پر آپؐ ’’ بُوانہ‘‘ نامی بت کےپاس گئے مگر سخت خوفزدہ ہو کر واپس آگئے اور کہنے لگے۔ میں نے وہاں ایک عجیب منظر دیکھا ہے۔ پوچھا،آپؐ نے کیا دیکھا ہے؟آپؐ نے بتایا کہ جونہی میں بت کے قریب جانے لگتا تھاتو سفید رنگ اور لمبے قد کا ایک شخص چلّا کر کہتا تھا کہ اے محمدؐ! پیچھے رہو اور اس بت کو مت چھوؤ۔ بعد میں پھوپھیوں نے بھی بتوں کے پاس جانے کے لیے اصرار چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپؐ کو ایسی مشرکانہ رسوم سے محفوظ رکھا۔
(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 1 صفحہ 58مطبوعہ بیروت)
رسول اللہؐ کی محبت الٰہی کا یہ حال تھا کہ حضرت داؤدؑ کی یہ دعا بڑے شوق سے اپنی دعا ؤں میں شامل کرتے تھے:
’’اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتا ہے۔ میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے اللہ! اپنی اتنی محبت میرے دل میں ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو۔ ‘‘
(ترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح 3412)
توحید کے اقرار کا بھی آپؐ کو بہت لحاظ تھا۔ ایک دفعہ ایک انصاری نے عرض کیا کہ میرے ذمہایک مسلمان لونڈی آزادکرناہے۔ یہ ایک حبشی لونڈی ہے اگر آپؐ سمجھتے ہیں کہ یہ مومن ہے تو میں اسے آزاد کر دیتا ہوں۔ آنحضورؐ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ کیا تم گواہی دیتی ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟اس نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کیا گواہی دیتی ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟اس نے کہا ہاں۔ فرمایا کیا یوم آخرت پر ایمان لاتی ہو؟اس نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اسے آزادکر دو۔ یہ مومن عورت ہے۔ ‘‘
رسول اللہؐ کی شریعت کا پہلا سبق ہی کلمہ توحید
لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ
تھا۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپؐ کا اوڑھنا بچھونا توحید ہی تھا۔ صبح وشام خدا کی توحید کا دم بھرتے تھے۔ دن چڑھتا توآپؐ کے لبوں پریہ دعاہوتی: ’’ہم نے اسلام کی فطرت اور کلمۂ اخلاص (یعنی توحید) پر اور اپنے نبی محمدؐ کے دین اور اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر صبح کی جو موحّد تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔ ‘‘
(مسند احمد جلد3صفحہ406مطبوعہ بیروت )
شام ہوتی تو یہ دعا زبان پر ہوتی:’’ہم نے اور سارے جہاں نے اللہ کی خاطر شام کی ہے اور تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کی ہے۔ تمام تعریفوں کا وہی مالک ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔ ‘‘
(مسلم کتاب الذکر باب التعوْذ من شرماعمل4901)
حضرت مقداد بن عمرو کندیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریمؐ سے پوچھا کہ اگر کسی کافر کے ساتھ میدان جنگ میں میرا مقابلہ ہو، وہ میرا ہاتھ کاٹ دے اور کسی درخت کی آڑ لے کر مجھ سے بچنے کی خاطر کہہ دے کہ میں اللہ کی خاطر مسلمان ہوتا ہوں تو کیا اس کلمے کے بعد میں اسے قتل کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ فرمایا’’ نہیں تم اسے ہر گز قتل نہ کرو۔ ‘‘ میں نے عرض کیا یارسول اللہ!اس نے میرا ہاتھ کاٹا ہے اور اس کے بعد مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا’’اسے قتل نہ کرو۔ اگر تم اسے قتل کرو گے تو وہ مسلمان اور تم کافر سمجھے جاؤ گے۔ ‘‘
(بخاری کتاب المغازی باب شہود الملائکۃ بدر اً)
رسول کریمؐ کی توہر بات کی تان توحیدالٰہی اور عظمت باری پرجاکرٹوٹتی تھی۔ آپؐ کی اونٹنی عضباء بہت تیز رفتار تھی جس سے آگے کوئی اور اونٹنی نہ نکل سکتی تھی۔ ایک دفعہ ایک اعرابی نے اپنی اونٹنی اُس کے ساتھ دوڑائی اور آگے نکل گیا۔ صحابہ کو بڑا رنج ہوا مگر رسول کریمؐ نے عجب طمانیت کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی کسی بھی چیز کو اونچا کرتا ہے تو لازم ہے کہ اسے نیچا بھی کرے کیونکہ سب سے اونچی خدا کی ذات ہے۔
(ابوداؤد کتاب الادب باب فی کراھیۃ الرفعۃ فی الامور)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
’’ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لیے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لیے سورج۔ وہ اندھیرے کے وقت میں ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کردیا۔ وہ نہ تھکا نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کردیا۔ ‘‘
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ302تا303)
اللہ کے نام سےدن و رات کا آغاز و اختتام اور معمولاتِ زندگی
آپؐ روزانہ اپنی مصروفیات کا آغاز نماز تہجد سے فرماتے تھے۔ نماز سے قبل وضو کرتے ہوئے مسواک استعمال فرماتے اور منہ کو اچھی طرح صاف کرتے۔ نہایت خوبصورت اور لمبی نماز تہجد ادا کرتے جس میں قرآن شریف کی لمبی تلاوت فرماتے۔ نماز کے بعد آپؐ کچھ دیر لیٹ جاتے۔ اگر آپؐ کے گھر والوں میں سے کوئی جاگ رہا ہوتا تو اس سے بات کرلیتے ورنہ آرام فرماتے۔ پھر جونہی نماز کے لیے حضرت بلالؓ کی آواز کان میں پڑتی فوراًنہایت مستعدی سے اُٹھتے اور دو مختصر رکعات سنت ادا کرکے نماز فجر پڑھانے مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے۔ نمازفجر کے بعدسے طلوع آفتاب تک اگر کوئی اورمصروفیت نہ ہوتی تو صحابہ کے درمیان دن گزارتے۔ آپؐ پوچھتے کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہے تو سنائے۔ اچھی خواب پسند فرماتے اوراس کی تعبیر بیان کرتے۔ کبھی اپنی کوئی خواب بھی سنادیتے۔ اگر کسی صحابی کو تین دن سے زیادہ غیرحاضر پاتے اس کے بارے میں پوچھتے اگر وہ سفر پر ہوتا تو اس کے لیے دعا کرتے۔ شہر میں ہوتا تو اس کی ملاقات کو بھی جاتے۔ اور اگربیمار ہوتا تو اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے۔ ظہر کے بعد گھر میں حسب حالات کچھ قیلو لہ فرمالیتے اور فرمایا کرتے کہ قیلولہ کے ذریعے رات کی عبادت کےلیے مددحاصل کیا کرو۔
آپؐ کی مجالس میں صحابہ جاہلیت کے قصے بھی سناتے۔ آپ کی محفل نہایت بےتکلف اور مزے دار ہوتی تھی۔ اتنی روح پرور کہ صحابہ جنت اور جہنم کو قریب محسوس کرتے تھے۔ مگر بعد میں جب یہ کیفیت جاتی رہتی تو رسول اللہؐ سے پوچھتے کہ لگتا ہے ہم منافق ہو گئے ہیں تو آپؐ فرماتے کہ تم ہمیشہ اس اعلیٰ درجہ کی کیفیت میں نہیں رہ سکتے۔ انسان کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ورنہ انسان انسان نہ رہے فرشتہ بن جائے۔ عشاء سے قبل سونا آپؐ کو پسند نہ تھاتاکہ نماز عشاء نہ رہ جائے اورعشاء کے بعد بلاوجہ زیادہ دیر تک فضول باتیں پسند نہ فرماتے تھے۔ البتہ بعض اہم دینی کاموں کےلیے آپؐ صحابہ کرام سے عشاء کے بعد مشورہ بھی لیتے۔
نبی کریمؐ ہر کام اللہ کا نام لے کر شروع کرتے۔ فرماتے تھے کہ اس کے بغیر کام بے برکت ہوتے ہیں۔ فراغت و مصروفیت ہر حال میں اللہ کو یاد رکھتے تھے۔ الغرض آپؐ ’’دست بکارودل بایار‘‘ کے حقیقی مصداق تھے۔ ہر موقع اور محل کے لیے آپؐ سے دعائیں ثابت ہیں۔ صبح اٹھتے ہوئے خیرو برکت کی دعا مانگتے تو شام کو انجام بالخیر کی۔ گھر سے جاتے اور آتے ہوئے، مسجد داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے، کھانا کھانے سے پہلے اور بعدمیں، بیت الخلاء جاتے آتے، بازار جاتے ہوئے، سفر پر روانہ ہوتے ہوئے، سوتے اور جاگتے وقت ہر حال میں خدا کی طرف رجوع کرتے اور اسے ہی سہارا بناکر دعا کرتے۔ آپؐ مجلس میں بیٹھےہوئے استغفار فرماتے۔ دعاؤں میں زیادہ الحاح اور تضرّع کے وقت
یَاحَیُّ یَا قُیُّوْمُ
پڑھ کر دعا کرتے۔ مصیبت کے وقت آسمان کی طرف سر اٹھا کر
سُبْحَانَ اللّٰہِ العَظِیْمُ
پڑھتے۔ مجلس میں چھینک آنے پر دھیمی آواز میں الحمدللہ کہتے اور کسی دوسرے کو چھینک آنے پر یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کی دعا دیتے۔ اسی طرح مختلف قسم کی برائیوں سے بچنے کے لیے خاص دعائیں فرماتے نیز دنیاوی شر اور اشیاء کی بدبختی سے بچنے کے لیے دعا کا سہارا لیتے۔ دل کی مختلف کیفیات کے لیے مختلف دعائیں کرتے۔ مومنین کی جماعت پر جب بھی کوئی خوف کی حالت آتی تو فوراً آپﷺ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتےاور ان کی دلی تسکین کے واسطے اپنے محبوب حقیقی کے حضور فریاد کرتے۔ بارش نہ ہونے پر آپﷺ دعا کرتے۔ اور اگر بارش کی کثرت کی وجہ سے پریشانی ہو تی تو دعا کرتے۔ رزق و مال میں برکت کے لیے دعا کرتے، لوگوں کی ہدایت کے لیے دعائیں کرتے، بیماری سے شفایابی کے لیے، بری نظر سے بچنے کے لیے، بُرا خواب دیکھنے پر، بجلی کڑکنے پر، کسوف و خسوف پر، کسی کی تیمارداری کے واسطے اور کسی کے وفات پانے پردعا کرتے۔
تلاوت قرآنِ کریم آپؐ کااوڑھنا بچھونا تھا
قرآن کریم آپؐ کے بارے فرماتا ہے کہ
رَسُولٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً (البیّنۃ:3)
یعنی اللہ کا رسول مطہّرصحیفے پڑھتا تھا۔
آپؐ کی تلاوت کی عظمت اور شان کے بارے میں قرآن یوں گواہی دیتا ہے۔
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنَاھُمُ الْکِتَابَ یَتْلُوْ نَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ (البقرۃ:122)
یعنی جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جیسے تلاوت کا حق ہے۔
آپؐ حکم الٰہی کے مطابق خوبصورت لحن اور ترتیل کے ساتھ ایسی تلاوت کرتے تھے کہ تلاوت کا حق ادا ہوجاتا تھا۔ حضرت انسؓ سے پوچھا گیا کہ رسول کریمؐ کی تلاوت کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا آپؐ لمبی تلاوت کرتے تھے۔ پھر انہوں نے بسم اللّٰہ پڑھ کر سنائی۔ اسے لمبا کیا پھر الرحمٰن کو لمبا کرکے پڑھا پھر الرحیمکو۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی چیز کو کان لگا کر توجہ سے نہیں سنتا جتنا نبی کریمؐ کی تلاوت قرآن کو سنتا ہے۔ جب وہ خوبصورت لحن اور غنا کے ساتھ بآوازبلنداس کی تلاوت کرتے ہیں۔ دن بھر گاہے بگاہے اور خصوصاًنمازوں میں نازل ہونے والی تازہ قرآنی وحی کے تکرار اور دہرائی کا اہتمام تو ہوتا ہی تھا۔ عموماً رات کوبھی زبان پر قرآن ہی ہوتا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں:کبھی رات کو اچانک آنکھ کھل جاتی تو زبان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کی یہ آیات جاری ہوتیں :
وَّ مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ۔ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا الۡعَزِیۡزُ الۡغَفَّارُ (ص:66۔67)
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مگراللہ جو واحد (اور)صاحب جبروت ہے۔آسمانوں اور زمین کا ربّ اور اس کا جو ان کے درمیان ہے۔کامل غلبہ والا(اور)بہت بخشنے والا ہے
نبی کریمؐ قرآن شریف کے مضامین میں ڈوب کر تلاوت کرتے تھے اور اس کے گہرے اثرات آپؐ کی طبیعت پرہوتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ!آپؐ کے بالوں میں سفیدی آنےلگی ہے۔فرمایا ہاں! مجھے سورۂ ھود، الواقعہ، المرسلات، النبا اورالتکویرنےبوڑھا کردیا۔ بعض اوقات کلام الٰہی سن کررسول کریمؐ پررقت طاری ہوجاتی اورآنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ آپؐ ظہر و عصر کی نمازوں میں سورۃالفاتحہ کے بعد بعض سورتوں کی خاموش تلاوت فرماتے تھے اور مغرب وعشاء وفجر میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ کسی سورت یا حصۂ قرآن کی بآواز بلند تلاوت فرماتے۔ نبی کریمؐ جمعہ اور عیدین کے موقع پر سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرماتے تھے۔ حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ نبی کریمﷺ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرماتے۔ آپؐ
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
پڑھ کر ٹھہر جاتے، پھر
الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
پڑھ کر ٹھہر جاتے۔ پھر
مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ
پڑھتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہر رات رسول اللہﷺ جب اپنے بستر پر لیٹتے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا لیتے اور ان میں پھونک مارتے اور
قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ
اور
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ
اور
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ
پڑھتے۔ پھر جس قدر ممکن ہوتا اپنے جسم پر دونوں ہاتھ پھیرتے اور اپنے سر سے شروع کرتے اور بدن کے اگلے حصہ پر پھیرتے۔ آپؐ تین بارایسا کرتے۔
اہل خا نہ کے ساتھ پیار و محبت اور بے تکلفی
گھر میں بے تکلفی سےاور خوش خوش رہتے۔ کبھی بیویوں کو کہانیا ں اور قصے بھی سناتے۔ اہل خانہ سے حد درجہ کی نرمی اور اکرام کا سلوک فرماتے۔ گھریلو زندگی کا ایک نہایت دلکش اور قابل رشک نظارہ خود حضرت عائشہؓ کی زبانی سنیے۔ آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں گھر میں بیٹھی چرخے پر سوت کات رہی تھی اور نبی کریمؐ اپنے جوتے کی مرمت فرمارہے تھے کہ آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آگیا، پسینہ کے قطرے آپؐ کے پُرنور چہرے پر دمک رہے تھے اور ایک روشنی ان سے پھوٹ رہی تھی۔ میں محو حیرت ہوکر یہ حسین نظارہ دیکھنے میں مگن تھی کہ ناگہاں رسول اللہؐ کی نظر مجھ پر پڑگئی۔ آپؐ نے میری حالت بھانپ کر فرمایا عائشہؓ! تم اتنی کھوئی کھوئی اور حیران وششدر کیوں ہو؟میں نے عرض کیا ابھی جو آپؐ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آیا تو اس کے قطرات سے ایک عجب نور پھوٹتے میں نے دیکھا۔ اگر شاعر ابوکبیر ھُذلی آپؐ کو اس حال میں دیکھ لیتا تو اسے ماننا پڑتا کہ اس کے شعر کے مصداق آپؐ ہی ہیں۔ رسول کریمؐ نے فرمایا: اچھا! ابوکبیر کے وہ شعرتو سناؤ؟میں نے شعر سنائے جن میں ایک شعر (کا ترجمہ) یوں ہے۔
’’تم میرے محبوب کے روشن چہرے کے خدوخال کو دیکھو تو تمہیں اس کی چمک دمک بادل سے چمکنے والی بجلی کی طرح معلوم ہو۔ ‘‘
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں یہ شعر سن کر رسول کریمؐ جوش محبت اور فرطِ مسرت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور میری پیشانی کا بوسہ لے کر فرمانے لگے۔ اے عائشہؓ! اللہ آپ کو بہترین جزا عطافرمائے۔ شایدتم نے مجھے اس حال میں دیکھ کر اتنا لطف نہیں اُٹھایا ہوگا۔ جتنا مزامجھے آپ سے یہ شعر سن کر آیا ہے۔
(سنن البیھقی جلد 7، صفحہ 422، دائرہ المعارف حیدر آباد)
گھر میں بیک وقت نو بیویاں رہیں ہمیشہ ان میں عدل فرماتے، ان میں سے کسی کو سفر پر ہم راہ لے جانے کے لیے فیصلہ قرعہ انداز ی سے فرماتے۔ مدینہ سے رخصت ہوتے وقت سب سے آخر میں اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہؓ سے مل کر جاتے اور واپسی پر مسجد نبوی میں دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ سے ہی آکر ملتے۔ مغرب کے بعد سب بیویا ں اس گھر میں جمع ہوجاتیں جہاں حضورؐ کی باری ہوتی وہاں ان کے ساتھ مجلس فرماتے۔ آپؐ کےشب و روز کے حسن خُلق اوراخلاق کریمانہ کانتیجہ ہی تو تھا کہ آپؐ کی بیویوں نے آپؐ کے گھرکی سادہ اورغریبانہ زندگی کے مقابل پر دنیاکی زیب و زینت اورمال ومتاع کی ہرطرح کی پیشکش کو ٹھکرادیا تھا۔
گھر یلو زندگی آپؐ کا کھانا اورلباس
آپؐ جب گھر میں ہوتے تو کام کاج میں اہل خانہ کی مدد فرماتے۔ ہاتھ سے کام کرنے کوعار نہ سمجھتے۔ عام آدمی کی طرح گھر میں کام کرتے، کپڑے خود سی لیتے، پیوندبھی لگا لیتے۔ حسب ضرورت جانوروں کو باندھ دیتے اورچارہ بھی ڈال دیتے۔ دودھ دوہ لیاکرتے۔ خادم تھک جاتے تو ان کی مددبھی فرماتے۔ نبی کریمؐ کھانے سے پہلے اوربعدہاتھ دھونے کی ہدایت فرماتے تھے۔ نیز اللہ کا نام لے کر اپنے سامنے سے اور دائیں ہاتھ سے کھانے کی تلقین فرماتے۔ آپؐ کی خوراک و غذا نہایت سادہ تھی۔ بسااوقات رات کے کھانے کی بجائے دودھ پر ہی گزارہ کر لیتے۔ مشروب پیتے ہوئے تین مرتبہ سانس لیتے اور اللہ کے نام سے شروع کرتے اور اس کی حمد پرختم کرتے۔ جَو ملی گندم کے اَن چَھنے آٹے کی روٹی استعمال کرتے تھے۔ یوں توحضورؐ کو دستی کا گوشت پسند تھا مگر جومیسر آتاکھا کر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتے۔ سبزیوں میں کدّو پسندفرماتے۔ سِر کہ کے ساتھ بھی روٹی کھائی اور فرمایا ’’یہ بھی کتنا اچھا سالن ہوتا ہے۔ ‘‘ عربی کھانا ثَرِید(جس میں گندم کے ساتھ گوشت ملا ہوتا ہے) مرغوب تھا۔ اسی نوع کا ایک اور کھاناہریسہ بھی استعمال فرمایا۔ سنگترہ کھجور کے ساتھ ملاکر کھانے کالطف بھی اٹھایا۔ اللہ کی ہر نعمت کے بعد اس کا شکر ادا کرتے۔ پھلوں میں تربوز بھی پسند تھا۔ میٹھے میں شہد کے علاوہ حلوہ اور کھیربھی پسند تھی۔ آپؐ ٹیک لگاکرکھانا نہیں کھاتے تھے۔ سخت گرم کھانا کھانے سے پرہیزکرتے تھے۔ دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیتے، فرماتے تھے’’اگر اُمت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔ ‘‘ بوقت وفات بھی مسواک دیکھ کر اس کی خواہش کی تو حضرت عائشہؓ نے نرم کرکے استعمال کروائی۔ آپؐ عمدہ خوشبوپسندفرماتے۔ آپؐ اپنی مخصوص خوشبو سے پہچانے جاتے تھے۔ سر کے بال کانوں کی لَو سے بڑھ کر کندھوں پر آجاتے تو کٹوادیتے۔ داڑھی حسب ضرورت لمبے اور چوڑے رخ سے ترشواتے تھےجو مشت بھر ہوتی تھی۔ بالوں پر مہندی بھی لگاتے تھے۔ قرآنی ارشاد کے مطابق لباس میں پردہ اور زینت کی بنیادی شرائط کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ عام طور پر ایک تہبند اور ایک اوڑھنے کی چادر عربوں کا لباس تھاجو آپؐ نے بھی پہنا مگر سلا ہوا لمبی آستین والا کُرتہ زیادہ پسند فرماتے۔ بغیرآستین بھی پہنا۔ سادہ موٹے کپڑے استعمال فرماتے۔ آپؐ جبہ، پاجامہ اور سردی میں تنگ آستین والی روئی بھری صدری بھی استعمال فرماتے تھے۔ حسب موقع وضو کے بعدپونچھنے کےلیے تولیہ بھی استعمال فرماتے۔ آپؐ نے ٹوپی بھی استعمال فرمائی۔ جمعہ کے روز کلاہ کے اوپر پگڑی پہنتے۔ جمعہ عیدین اور وفود کی آمد پرعمدہ کپڑے اور خاص طور پر ایک سرخ قبا (جُبہ) زیب تن فرماتے۔ سفید کپڑے زیادہ پسند تھے۔ مگر سرخ، سبز اور زعفرانی رنگ بھی استعمال فرماتے۔ نیا کپڑا پہننے پر دو رکعت نماز ادا فرماتے اور پرانا کپڑا کسی ضرورت مند کو دے دیتے تھے۔ چمڑے کے موزے استعمال فرماتے اور بوقت وضو ان پر مسح فرماتے۔ چمڑے کے کھلے جوتے دو تسمے والےبھی استعمال فرماتے۔ آپؐ کی چاندی کی انگوٹھی پر
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
کندہ تھا جو خطوط پر مہر لگوانے کے لیےاستعمال فرماتے۔ بیت الخلاء جاتے تو یہ انگوٹھی اتار دیتے۔ وضو کرتے وقت اسے حرکت دے کر انگلی کو دھوتے۔ رسول اللہﷺ زیتون کا تیل بھی استعمال کرتےاور فرماتےاسےاستعمال کروکیونکہ یہ بابرکت درخت کا تیل ہے۔ آپؐ سونے سے قبل آنکھوں میں سرمہ بھی لگاتے۔ سفیدلباس رسول اللہﷺ کاسب سے زیادہ پسندیدہ لباس تھا۔ آپؐ فرماتے:’’سفید لباس پہنا کرو۔ تمہارے زندہ بھی یہ پہنیں اور اپنے مُردوں کو بھی اسی میں کفناؤکیونکہ یہ تمہارا بہترین لباس ہے۔ ‘‘آپؐ یہ بھی فرماتے:’’جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو دائیں سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں سے شروع کرے۔ ‘‘ حضرت انسؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی کریمﷺ جب کھانا تناول فرماتے تو اپنی تین انگلیاں چاٹ لیتے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک عطر کی ڈبیہ تھی۔ جس میں سے آپؐ خوشبو لگایاکرتے تھے۔
آپؐ کا اندازِ گفت وشنید
آنحضورﷺ بغیر ضرورت کے گفتگو نہ فرماتے اور جب بولتے تو فصاحت و بلاغت سے بھر پور نہایت بامعنی کلام فرماتے۔ جب بات شروع کرتے تو اُسے انتہا تک پہنچاتے۔ آپؐ کی گفتگو فضول باتوں اور ہر قسم کے نقص سے مبرّا اوربہت واضح ہوتی تھی۔ رسول کریمؐ کی گفتگو میں بھی ایک ترتیب اور حُسن ہوتا تھا۔ آپؐ کی گفتگو خشک نہ تھی۔ بلکہ ہمیشہ شگفتہ مزاح فرماتے تھے۔ مگر مذاق میں بھی کبھی دامن صدق نہ چھوڑتے۔ فرماتے :’’میرے منہ سے صرف حق بات ہی نکلتی ہے۔ ‘‘گفتگو میں الفاظ کے چناؤ میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے اور الفاظ کے بے محل استعمال کی اصلاح فرما دیتے، عرب میں غلام اپنے آقاؤں کو ’’رب‘‘ کہتے تھے جس کے معنے ہیں پالنے والا۔ اور جو حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ آپؐ فرماتےکہ آقا کو سید یعنی سردارکہا کرو۔ آقا اپنے غلام کو ’عبد‘ کہتے تھے یعنی نوکر۔ فرمایا فتٰیکہہ کر مخاطب کرو۔ یعنی نوجوان یا بچے تاکہ اس کی عزت نفس قائم رہے۔ رسول اللہﷺ سب لوگوں سے زیادہ فصیح تھے۔ بعض دفعہ رسول کریمؐ ایسا کلام کرتے تھے کہ لوگوں کو اس کے معنی کی سمجھ نہ آتی تھی، یہاں تک کہ آپؐ خود اس کے معنے بیان فرماتے۔ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ یہی سوال کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ! آپؐ کی زبان ہم سب سے بڑھ کر فصیح وبلیغ ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریلؑ آئے اور انہوں نے مجھے میرے باپ اسماعیلؑ کی زبان سکھائی۔ آپؐ کسی کی قطع کلامی پسند نہ فرماتے تھے سوائے اس کے کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کرے۔ ایسی صورت میں اسے روک دیتے تھے یا خود اس مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ رسول اللہﷺ جلدی جلدی بات نہیں کرتے تھے۔ بلکہ آپؐ ایسا کلام فرماتے جو واضح اور(ہر لفظ) الگ الگ ہوتا۔ آپؐ ایک بات کو تین دفعہ دہراتے تاکہ آپؐ کی بات اچھی طرح سمجھی جا سکے۔ نہ تو آپؐ سخت مزاج تھے نہ ہی کمزور اور بے حیثیت۔ آپؐ ہر نعمت کی تعظیم فرماتے خواہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ کسی نعمت کی ذرا بھی مذمت نہ کرتے۔ اگر کوئی حق سے تجاوز کرتا یا کسی کاحق غصب کرتا پھرآپؐ کے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہرسکتی تھی جب تک آپؐ اس کی دادرسی نہ کروا دیتے۔ اپنی ذات کے لیے کبھی غصے نہ ہوتے اور نہ بدلہ لیتے۔ جب آپؐ اشارہ کرتے تو پورے ہاتھ سے کرتے۔ جب آپؐ تعجب کا اظہار کرتے تو ہاتھ اُلٹا دیتے اور جب آپؐ بات کرتے تو ہاتھ کو اس کے مطابق حرکت دیتے۔ جب آپؐ ناراض ہوتے تو اعراض کرتے اورناپسندیدگی کا اظہار فرماتے۔
فریضۂ تبلیغ و دعوت الیٰ اللہ کی ادائیگی
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم فریضہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سےآپؐ کے سپردہوا وہ خدا تعالیٰ کی طرف بلانا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کو حکم دیتاہے۔
یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ (المائدہ:68)
یعنی اےرسول! اچھی طرح پہنچا دے جو تیرے رب کی طرف سے اُتارا گیا ہے۔ اور اگر تُو نے ایسا نہ کیا تو گویاتو نے اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔
آپؐ ہی تھے جنہوں نے’’ بَلِّغْ ‘‘کے حکم کی تعمیل میں دن رات ایک کیا۔ اورقرآن شریف میں آپؐ کا یہ مقام
دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ(الاحزاب :47)
بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے مخفی طور پر بھی دعوت الی اللہ کی اور اعلانیہ بھی۔ دن کے وقت بھی دنیا کو خدا کی طرف بلایا اور رات کو بھی۔ بنی نوع انسان کا گہرا درد آپؐ کے سینہ میں موجزن تھا جس کی بنا پر آپؐ ہر کس و ناکس کو اسلام کی تبلیغ کرتے تھے۔ آپؐ نے غرباء اور فقراء کو بھی پیغام پہنچایا، بادشاہوں اور امراء کو بھی دعوت حق دی۔ ہمیشہ قرآنی تعلیم کی تبلیغ حکمت اور استقلال کے ساتھ فرمایا کرتے تھے۔
یہی آپؐ کا وہ عظیم الشان منصب تھا۔ جس کا ذکرآپؐ ان الفاظ میں کیا کرتے تھےکہ میں تو صرف ایک مبلغ بناکر بھیجا گیا ہوں ہدایت اللہ ہی دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں دعوت الی اللہ کا جو دردتھااور دنیا کی ہدایت کی جو فکر تھی اس کا اندازہ آپؐ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے کہ ’’لوگو! میری اور تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی۔ پروانے اورکیڑے مکوڑے اس پرآآکر گرنے لگے۔ وہ انہیں پرے ہٹاتا ہے مگر وہ باز نہیں آتے اور اس میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ میں بھی تمہیں آگ میں گرنے سے بچانا چاہتا ہوں اور تم ہو کہ دیوانہ وار اس آگ کی طرف بھاگے چلے جاتے ہو۔ ‘‘
خدا کا پیغام پہنچانے کی خاطررسول اللہؐ نے حکمت کی تمام راہیں اختیار کیں۔ ہمیشہ نرم زبان استعمال کی۔ عمدہ نصیحت کے ذریعہ دنیا کو اسلام کے حسین پیغام کی طرف بلایا۔ بشارتیں اور خوشخبریاں دے کر بھی دعوت کی اور عذاب الٰہی سے ہوشیار کر کے اور ڈرا کر بھی دنیا کو متنبہ کیا۔ مگر ہمیشہ تواضع اور عاجزی کی راہ اختیار کرتے۔ اپنے زیر دعوت لوگوں کے لیے دعا بھی کرتے تھے اور اپنی مدد و نصرت کےلیے معاون ونصیر تیارہونے کی دعا ئیں بھی۔ یعنی ایسے داعیان جو آپؐ کی صحبت وتربیت سے فیض یاب ہونے کے بعد آگے جاکر دعوت اسلام بھی کریں اور مزید داعی الی اللہ بھی بنائیں۔ آپؐ کا دل بہت مضبوط تھا اور بڑی دلیری اور بہادری سے آپؐ نے یہ فریضہ انجام دیااور دنیاوی لحاظ سے بڑے بڑے حکمرانوں پر بھی اتمام حجت کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت الی اللہ کی راہ میں بہت دکھ اور اذیتیں اٹھائیں۔ ایک دفعہ آپؐ گھر سے نکلے۔ راستہ میں جو بھی آپؐ کو ملا خواہ وہ کوئی آزاد تھا یا غلام اس نے آپؐ کی تکذیب کی اور جھٹلایا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس لوٹ آئے اور جو تکلیف آپؐ کو پہنچی تھی اس کی وجہ سے کمبل اوڑھ کر بیٹھ رہے کہ وحی الٰہی ہوئی:
’’اے کمبل اوڑھے ہوئے! کھڑے ہوجاؤاور انذار کرتے چلے جاؤ‘‘۔
رسول کریمؐ نے ہر کس و ناکس کو پیغام حق پہنچایا، ان میں مکہ کا پہلوان رکانہ بھی تھا۔ آپؐ نے اُسے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا :’’کیا تم اللہ سے نہیں ڈرو گے اور جس پیغام کی طرف میں بلاتا ہوں اُسے قبول نہیں کرو گے۔ ‘‘ اُس نے کہا:’’اگر مجھے یقین ہوجائے کہ آپؐ کا دعویٰ سچا ہے تو میں آپؐ پر ایمان لے آؤں گا۔ ‘‘آپؐ نے فرمایا:’’اگر میں کُشتی میں تمہیں پچھاڑ دوں تو میرے دعویٰ کی سچائی کا یقین کرلو گے۔ ‘‘اُس نے اثبات میں جواب دیا۔ تو آپؐ نے اُسے کُشتی میں مقابلہ کی دعوت دے دی۔ اس نے یہ دعوت قبول کرلی۔ نبی کریمؐ نے اس بہادر پہلوان کو پچھاڑ دیا۔ اس نے دوبارہ اور سہ بارہ مقابلہ کی خواہش کی۔ ہر دفعہ نبی کریمؐ نے اسے پچھاڑ دیا۔ وہ کہنے لگا کہ میں حیران ہوں کہ آپؐ مجھے کیسے گرا لیتےہیں ؟ یہی واقعہ رکانہؓ کے قبول اسلام کا موجب بنا۔
( السیرۃ النبویۃ ابن ہشام جز2صفحہ31مصطفی البابی الحلبی مصر، بخاری کتاب اللباس باب العمائم)
آپؐ نے دن رات یہ فرض اس طرح ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ کو خود آپؐ کے بارے میں کہنا پڑا:
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ (الشعراء:4)
یعنی اے محمدﷺ کیاتو اس غم سے اپنے تئیں ہلاک کردے گاکہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔
آنحضرتﷺ کا اندازِ نصیحت وتربیت
تربیت کا فریضہ بھی آپؐ کے ذمّہتھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَ ذَکِّرۡ فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (الذٰریٰت:56)
تُو نصیحت کرتا چلا جا۔ پس یقیناً نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
اس لیےآپؐ ہمیشہ پیار و محبت سےنصائح کرتے۔ آپؐ نے اپنے گھر میں بیویوں اوربیٹیوں اورگھر میں کثرت سے آنے جانے والے بچوں اورنوجوانوں کی نہایت شفقت ومحبت اور دعاؤں سے ایسی تربیت کی کہ وہ آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کے میناربن گئے۔ بعض دفعہ گاؤں کے لوگ آیا کرتے تھے، جو بعض ایسی حرکتیں کر جاتے جس سے صحابہ کو اُن پر غصہ آجایاکرتا تھا۔ لیکن آپﷺ نہایت اچھے طریقے سے سمجھا دیتے تھے۔ لیکن کبھی غصہ نہیں کیا۔
ایک روایت میں ذ کرآتا ہے کہ ایک دفعہ مسجدمیں ایک اعرابی آیا اور وہیں پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔ لوگ اس کی طرف لپکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو منع کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس کو چھوڑ دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے وہاں پانی کا ڈول بہا دو۔ تم لوگوں کی آسانی کے لیے پیدا کیے گئے ہو نہ کہ تنگی کے لیے۔ ‘‘ (بخاری کتاب الوضوء باب صب الماء علی البول فی المسجد)یہ صحابی کہا کرتے تھے کہ رسول کریمﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپؐ نے کس طرح محبت سے مجھے سمجھایا۔ مجھے سرزنش نہیں کی بلکہ آرام سے سمجھا دیا۔
کبھی صحابہ کے ساتھ نہایت بے تکلفی کے ساتھ تشریف فرماہوتے اور سوالات پوچھ کر بات ذہن نشین کرواتے۔ ایک دفعہ پوچھاکہ بتاؤ وہ کونسادرخت ہے جس کی مثال بالکل ایک مومن جیسی ہے۔ جس کاپھل بھی مفید جس کی گٹھلی بھی مفید جس کے پتے بھی مفیدجس کاتنابھی مفید گویااس کی ہرچیز فائدہ مندہے۔ پھرخودہی بتایاوہ کھجورہے۔ آپؐ نے ایک بچے کو فرمایا کہ اگر بہت بھوک لگی ہوئی ہے برداشت نہیں ہوتا تو درخت سے نیچے گری ہوئی پکی کھجوریں ہیں وہ اٹھا کر کھا لو۔ لیکن ساتھ ہی یہ نصیحت بھی فرمائی کہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ مَیں تمہیں دعا دیتا ہوں کہ تمہیں ایسی حالت کی نوبت بھی نہ آئے کہ تمہیں نیچے سے اٹھا کے کھجوریں کھانی پڑیں۔ تم مجبور ہی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے سامان فرماتا رہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب من قال انہ یاکل مما سقط حدیث 2622) اس دعا کے ساتھ بچے کو بھی توجہ دلا دی کہ اپنی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو، نہ کہ غلط طریقے سے لوگوں کے مالوں کو اٹھاؤ۔ گو مجبوری میں بعض دفعہ اس طرح کی چیزیں جو نیچے زائد پڑی ہیں جائز بھی بن جاتی ہیں لیکن آپؐ نے فرمایا کہ اعلیٰ اخلاق اختیار کرو اور یہی نیکی ہے۔ پھر ایک بچے کوتیزی سےکھانا کھانے اور اپنا ہاتھ پلیٹ میں اِدھر اُدھر گھمانے کی وجہ سے فرمایا کہ پہلے بسم اللہ پڑھو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (صحیح البخاری کتاب الاطعمۃ باب التسمیۃ علی الطعام … الخ حدیث 5376)
جھوٹ سے دور رہنے اورسچ بولنے کی عادت کو بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں قائم کرنے کے لیے نصائح فرماتے۔ ایک صحابی اپنے بچپن کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور مَیں اپنے بچپن کی وجہ سے تھوڑی دیر بعد ہی گھر میں آپؐ کی موجودگی میں ہی کھیلنے کے لیے باہر جانے لگا تو میری ماں نے مجھے اس بابرکت ماحول سے دُور جانے سے روکنے کے لیے کہا کہ اِدھر آؤ۔ ابھی یہیں رہو۔ مَیں تمہیں ایک چیز دوں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تم اسے کچھ دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے کہا کہ ہاں میں اسے ایک کھجور دوں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اگر تمہارا یہ ارادہ نہ ہوتا اور تم صرف بچے کو بلانے کے لیے یہ کہتی تو تم پھر جھوٹ بولنے کا گناہ کرنے والی ہوتی۔
(سنن ابی داؤد کتاب الأدب باب فی التشدید فی الکذب حدیث 4991)
(ماخذ۔ اسوہ ٔانسانِ کامل ازمکرم حافظ مظفر احمد صاحب)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جماعت کو آپﷺ کے اسوہ پر چلنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ ہمیں اُسوہ رسول پر چلتے ہوئے اپنے اخلاق کو ہر لحاظ سے اور ہر موقع پہ اور ہر جگہ اور ہر صورت میں بہتر سے بہتر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے اخلاق کے معیار اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں، نہ کہ دنیا دکھاوے کے لئے۔ مخلوق کی سچی ہمدردی ہمارے دلوں میں پیدا ہو۔ تقویٰ کے معیار بلند کرنے والے ہم ہوں۔ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے تو ہماری سوچ ہر وقت یہ رہے کہ ہمارا کوئی عمل اسلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام کی بدنامی کا باعث نہ بنے بلکہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو ہم پھیلانے والے ہوں اور دنیا کو اس سے متاثر کرنے والے ہوں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم اپنے اخلاق کے معیاروں کو بڑھانے کی ہر وقت کوشش کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھک کر دعا سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اس کے حصول کے لئے مدد طلب کرنے والے ہوں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍ مارچ 2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍مارچ2018ءصفحہ8)
٭…٭…٭