متفرق مضامین

تحریری جمع القرآن کی تاریخ (قسط دوم۔ آخری)

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

اختلاف قراءت اور ان کی حقیقت

حضرت نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی مختلف قراءتوں کی بنا پر بعض اوقات صحابہ میں اختلاف ہوجایا کرتا تھا۔ چنانچہ احادیث میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو بعض آیات کی کسی قدر فرق سے تلاوت کرتے سنا۔ حضرت عمرؓ کو بڑا تعجب آیا کہ یہ کیا بات ہے کہ الفاظ کچھ اور ہیں اور یہ کسی اور طرح پڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ آپؓ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو لے کر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا معاملہ عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! آپ نے یہ سورت مجھے اَور طرح پڑھائی تھی اور عبداللہ بن مسعودؓ اس کو اَور طرح پڑھ رہے تھے ۔رسول کریمؐ نے عبداللہ بن مسعودؓ سے فرمایا تم یہ سورت کس طرح پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے آیات پڑھ کر سنائیںتو رسول کریمؐ نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ آپ نے تو مجھے اَور طرح پڑھائی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے پھر آپؐ نے فرمایا قرآن کریم سات قراءتوں میں نازل کیا گیا ہے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں اختلاف نہ کیا کرو۔

آنحضورﷺ کے وصال کے بعد خلافت ثانیہ کے زمانہ میں جب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ عراق تشریف لے گئے اور وہاں قیام پذیر ہوگئے، تو وہاں بھی اسی قسم کی قراءت کا مسئلہ پیش آیا۔ جس پر حضر ت عمرؓ نے آپ کو خط تحریر فرمایا جس میں ہدایت دی کہ صرف لغت قریش کو ہی اپنایا اور پھیلایا جائے۔ چنانچہ حضرت کعب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ

أنَّ عُمَرَ کَتَبَ إِلَی بن مَسْعُودٍ أَنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ فَأَقْرِءِ النَّاسَ بِلُغَۃِ قُرَیْشٍ لَا بِلُغَۃِ ہُذَیْلٍ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن مسعودؓ کو لکھا کہ قرآن کریم لغت قریش میں نازل ہوا ہے۔ پس آپ لوگوں کو لغت قریش میں قرآن پڑھائیں، نہ کہ (لغت)ھذیلمیں۔

(فتح الباری فی شرح البخاری جلد 9 صفحہ7۔ زیر کتاب فضائل القرآن، باب نزول القرآن بلسان قریش۔ الطبعۃ الثالثۃ، دارالأحیاء۔ بیروت1985ء)

اسی طرح حضرت ابودرداءؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جیسے کبار صحابہ کا بھی اختلاف قراءت کا تذکرہ احادیث میں ملتاہے۔ یہ اختلاف افراد سے بڑھ کر ملک شام اور عراق وغیرہ کی گروہ بندی کے اختلاف قراءت تک ممتد ہوگیااوراپنی قراءت کے مخالفین کو بعض اوقات کافر تک قرار دیا جانے لگا۔ (عمدۃ القاری۔ کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن )چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ اليَمَانِ، قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ أَرْمِينِيَةَ، وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ العِرَاقِ، فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلاَفُهُمْ فِي القِرَاءَةِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، أَدْرِكْ هَذِهِ الأُمَّةَ، قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الكِتَابِ اخْتِلاَفَ اليَهُودِ وَالنَّصَارَى، فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى حَفْصَةَ: أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي المَصَاحِفِ، ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ، فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ، فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدَ بْنَ العَاصِ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي المَصَاحِفِ، وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ القُرَشِيِّينَ الثَّلاَثَةِ: إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ مِنَ القُرْآنِ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ، فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ» فَفَعَلُوا حَتَّى إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي المَصَاحِفِ، رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَى حَفْصَةَ، وَأَرْسَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا، وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنَ القُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ، أَنْ يُحْرَقَ

ترجمہ:حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اس وقت وہ اہل شام و عراق کے ساتھ فتح آرمینیا و آذربائیجان میں جنگ میں شرکت کر رہے تھے۔ دوران معرکہ قراءت میں اہل عراق و شام کے اختلاف نے حضرت حذیفہ کو بے چین کردیا۔چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے امیرالمومنین! اس امت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب میں اختلاف کرنے لگیں ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حفصہؓ کو کہلا بھیجا کہ تم مخطوط قرآنی میرے پاس بھیج دو ہم اس کے چند صحیفوں میں نقل کرا کر پھر تمہیں واپس کردیں گے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنا نے یہ مخطوط قرآنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیج دیے حضرت عثمان نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعید بن عاص، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام کو حکم دیا تو ان لوگوں نے اس کو مصاحف میں نقل کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں قریشیوں سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کہیں (قراءت)قرآن میں اختلاف ہو تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو ۔اس لیے کہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ جب ان مخطوطات قرآنی کو مصاحف میں نقل کرلیا گیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ مخطوطات حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھجوا دیے اور نقل شدہ مصاحف میں سے ایک ایک تمام علاقوں میں بھیج دیے اور حکم دے دیا کہ اس صحفہ کے سوائے جو قرآن کی کوئی آیت کسی پرچے یا ورقے پرہےسب کو جلا دیا جائے۔

(بخاری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن)

شروحات میں لکھا ہے کہ مصحف ابوبکرؓ سے نقول تیار کرنے کے دوران بعض جگہ حضرت زیدؓ اور دیگر اصحاب میں اختلاف بھی ہوا۔ اور جب اس قسم کے اختلاف رائے کے حل کے لیے معاملات حضرت عثمانؓ کی خدمت میں پیش ہوئے تو آپ نے لغت قریش کو فیصلہ کن قرار دیا اور اسی کے اصول کے مطابق ان اختلافات کاآپؓ نے فیصلہ کیا۔ مثلاً لکھا ہے کہ

فَاخْتَلَفُوا یَوْمَئِذٍ فِی التَّابُوتِ وَالتَّابُوْہِ فَقَالَ الْقُرَشِیُّونَ التَّابُوتُ وَقَالَ زَیْدٌ التَّابُوہُ فَرُفِعَ اخْتِلَافُہُمْ إِلَی عُثْمَانَ فَقَالَ اکْتُبُوہُ التَّابُوتَ فَإِنَّہُ نَزَلَ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ

(فتح الباری فی شرح البخاری جلد 9 صفحہ16۔ زیر کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن۔ الطبعۃ الثالثۃ، دارالأحیاء۔ بیروت1985ء)

یعنی اس دن حضرت زید اور آپ کے ساتھیوں میں اس بات پر اختلاف ہوا کہ لفظ التَّابُوت یا التَّابُوہہے۔ قریشی اصحاب کا موقف تھا کہ لفظ التَّابُوت ہے اور حضرت زید کا موقف تھا کہ لفظ التَّابُوہ۔ پھر یہ اختلاف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا، تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ لفظ التَّابُوت ہے، کیونکہ یہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔

اسی طرح مندرجہ بالا حدیث کی شرح میں امام ابن حجر عسقلانیؒ تحریر کرتے ہیں کہ

فَلَمَّا جَمَعَ عُثْمَانُ النَّاسَ عَلَی حَرْفٍ وَاحِدٍ رَأَی أَنَّ الْحَرْفَ الَّذِی نَزَلَ الْقُرْآنُ أَوَّلًا بِلِسَانِہِ أَوْلَی الْأَحْرُفِ فَحَمَلَ النَّاسَ عَلَیْہِ لِکَوْنِہِ لِسَانَ النَّبِیِّ وَلِمَا لَہُ مِنَ الْأَوَّلِیَّۃِ الْمَذْکُورَۃِ وَعَلَیْہِ یُحْمَلُ کَلَامُ عُمَرَ لِابْنِ مَسْعُودٍ أَیْضًا

ترجمہ: جب حضرت عثمانؓ نے لوگوں کو ایک قراءت پر جمع کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فیصلہ کیا کہ وہ قراءت جس میں قرآن کا نزولِ اوّل ہوا ہے باقی سب قراءتوں سے اولیٰ حیثیت رکھتی ہے۔ پھر آپ نے اس قراءت پرہی لوگوں کو جمع کیا۔ کیونکہ یہ نبی پاکؐ کی زبان بھی تھی اور اس وجہ سے بھی کہ اس قراءت کومتذکرہ بالا اوّلیت نزول بھی حاصل تھا۔ اور اسی پر حضرت عمرؓ کا حضرت ابن مسعودؓ کے بارے میں کلام محمول کیا جائے گا۔

(فتح الباری فی شرح البخاری جلد 9صفحہ7۔ زیر کتاب فضائل القرآن، باب نزول القرآن بلسان قریش۔ الطبعۃ الثالثۃ، دارالأحیاء۔ بیروت1985ء)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ

(یونس:16)

اور جب ان پر ہماری کھلی کھلی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے کہتے ہیں اس کی بجائے کوئی اور قرآن لے آیا اِسے ہی تبدیل کردے۔ تو کہہ دے کہ مجھے اختیار نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں۔ میں نہیں پیروی کرتا مگر اُسی کی جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے۔ اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو میں یقیناً ایک عظیم دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

‘‘مطلب یہ ہے کہ مَیں قرآن مجید کے متعلق تمام باتیں وحی الٰہی سے کرتا ہوں اور اس میں خود کوئی دخل نہیں دیتا۔ لہٰذا میں کوئی تبدیلی یا تغیر نہیں کر سکتا۔ اس آیت سے ان لوگوں کا بھی رد ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کاہر سورت سے پہلے لکھنا آنحضرتؐ کے حکم سے ہے نہ کہ وحی سے۔ یا ترتیبِ قرآن اور سورتوں کے نام آنحضرتؐ نے خود رکھے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کی طرف سے فرماتا ہے کہ قرآن مجید سے متعلق میں ہر بات کو وحی سے ہی طے کرتا ہوں اور یہ کہنا کہ بے شک رسول کریمؐ تو وحی الٰہی سے ایسا کرتے تھے مگر صحابہ نے اپنی مرضی سے بعض تغیرات کر دئیے۔ بالکل ہی خلافِ عقل ہے۔ کیونکہ جب آنحضرتؐ کو حق نہیں تھا تو صحابہ کو کیسے یہ حق حاصل ہو سکتا تھا اور وہ سوائے اس کے کہ نعوذ باللہ انہیں مرتد قرار دیا جائے کب ایسا کر سکتے تھے ؟ ’’

(تفسیر کبیر جلد 3صفحہ 45)

سورت یونس کی اس آیت کے تحت کئی مفسرین نے بھی یہ بات لکھی ہے کہ قرآن مجید کی ترتیب خود خدا تعالیٰ نے قائم کی تھی اور اپنے رسول کو اس بات کا کوئی اختیار نہیں دیا تھا کہ اپنی مرضی سے ترتیب قرآن میں کوئی تصرف کرتے۔

(تفسیر کبیر راز ی جزو 17صفحہ 55تا56ناشر دارالکتب العلمیہ تہران طبع دوم)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ جمع القرآن کی تاریخی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

‘‘رسول کریمؐ کی وفات کے معاًبعد جب مسیلمہ نے بغاوت کرکے ایک لاکھ سپاہیوں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کردیا اور ان کے مقابلہ کے لیے حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالدبن ولیدؓ کو تیرہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ بھیجا تو اس وقت بعض نئے نئے مسلمان ہونے والے لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے متواتر مسلمانوں کو ضمنی طور پر شکست پر شکست ہونے لگی…اس وقت حضرت خالد بن ولید نے قرآن شریف کے حفاظ صحابہ کو الگ کردیا، اور وہ تین ہزار نکلے۔ ان تین ہزار آدمیوں نے اس شدّت سے مسیلمہ کے لشکر پر حملہ کیا کہ اس کو پیچھے ہٹ کر ایک محدود مقام میں محصور ہونا پڑا اور آخر اس کا لشکر تباہ ہوگیا …اس لڑائی میں پانچ سو قاری صحابی مارا گیا…جب یہ پانچ سو قرآن کا حافظ اس لڑائی میں مارا گیا، تو حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور انہیں جا کر کہا کہ …قرآن کو ایک ہی جلد میں جمع کر دینا چاہئے، حضرت ابوبکرؓ نے پہلے تو اس بات سے انکار کیا، لیکن آخر آپ کی بات مان لی، حضرت ابوبکرؓ نے زیدبن ثابتؓ کو اس کام کے لیے مقرر کیا جو رسول کریمؐ کی زندگی میں قرآن کریم لکھا کرتے تھے اورکبار صحابہؓ ان کی مدد کے لیے مقرر کیے، گوہزاروں صحابہؓ قرآن شریف کے حافظ تھے، لیکن قرآن کریم کے لکھتے وقت ہزاروں صحابہ جمع کرنا تو نا ممکن تھا۔ اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے حکم دیدیا کہ قرآن کریم کو تحریری نسخوں سے نقل کیا جائے، اور ساتھ ہی یہ احتیاط کی جائے کہ کم از کم دوحافظ قرآن کے اور بھی اس کی تصدیق کرنیوالے ہوں …جو کتاب گو ایک جلد میں اکٹھی نہیں کی گئی تھی لیکن بیسیوں صحابہ اسے لکھا کرتے تھے اور ٹکڑوں کی صورت میں وہ لکھی ہوئی ساری کی ساری موجود تھی۔ اسے ایک جلد میں جمع کرنے میں کسی کو دِقت محسوس ہو سکتی تھی! اور پھر کیا ایسے شخص کو دقت ہو سکتی تھی جو خود رسول کریمؐ کے زمانہ میں قرآن کی کتابت پر مقرر تھا اور اس کا حافظ تھا! اور جب کہ قرآن روزانہ پڑھا جاتا تھا، کیا یہ ہو سکتا تھا کہ اس جلد میں کوئی غلطی ہو جاتی اور باقی حافظ اس کو پکڑ نہ لیتے ؟اگر اس قسم کی شہادت پر شبہ کیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔ حق یہ ہے کہ دنیا کی کوئی تحریر ایسے تواتر سے دنیا میں قائم نہیں جس تواتر سے قرآن شریف قائم ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں یہ شکایت آئی کہ لوگ مختلف قراءتوں کے ساتھ قرآن کریم کوپڑھتے ہیں اور غیر مسلموں پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی نسخے ہیں …پس اس فتنے سے بچانے کے لیے حضرت عثمانؓ نے یہ تجویز فرمائی کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جو نسخہ لکھا گیا تھا اس کی کاپیاں کروائی جائیں اور مختلف ملکوں میں بھیج دی جائیں اور حکم دے دیا جائے کہ بس اسی قراءت کے مطابق قرآن پڑھنا ہے اور کوئی قراءت نہیں پڑھنی۔ یہ بات جو حضرت عثمان نے کی بالکل معیوب نہ تھی۔ ’’

(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 274تا275)

حضرت الحاج حکیم مولانا نورالدین خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں :

‘‘لوگ حضرت عثمانؓ کو جامع القرآن بتاتے ہیں۔ یہ بات غلط ہے۔ صرف عثمانؓ کے لفظ کے ساتھ قافیہ ملایا ہے۔ ہاں شائع کنندہ قرآن اگر کہیں تو کسی حد تک بجا ہے۔ آپ کی خلافت کے زمانہ میں اسلام دُور دُور تک پھیل گیا تھا۔ اس لئے آپ نے چند نسخےنقل کراکر مکہ، مدینہ، شام، بصرہ، کوفہ اور بلاد میں بھجوا دئیے تھے۔ اور جمع تو اللہ تعالیٰ کی پسند کی ہوئی ترتیب کے ساتھ نبی کریمؐ نے ہی فرمایا تھا اور اسی پسندیدہ ترتیب کے مطابق ہم تک پہنچایا گیا۔ ہاں اس کا پڑھنا اور جمع کرنا ہم سب کے ذمہ ہے۔ ’’

(ضمیمہ اخبار بدر قادیان، 4؍اپریل 1912ء بحوالہ حقائق الفرقان جلد 4صفحہ 272)

حکم و عدل کا قول فیصل

اس یقین کی بنیاد حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس قول فیصل پر ہے :

ثم بعد ذلک قام الخلیفۃ الأول أبو بکر الصدّیق رضی اللّٰہ عنہ لتعہُّد جمیعِ سورہ بترتیب سمع من النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ثم بعد الصدّیق الأکبر وفّق اللّٰہ الخلیفۃ الثالث فجمَع القرآن علی قراء ۃ واحدۃ بحسب لغۃ قریشٍ وأشاعہ فی البلاد۔

(حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد 7صفحہ 217)

ترجمہ :پھر اس کے بعد خلیفہ اوّل حضرت ابوبکرؓ کھڑے ہوئے تا جمیع سُوَر قرآن کو اس ترتیب کے مطابق جمع کرنے کا اہتمام کریں جس ترتیب کو انہوں نے آنحضرتؐ سے سنا تھا، پھر حضرت صدیق اکبرؓ کے بعد خدا تعالیٰ نے خلیفہ الثالثؓ کو توفیق دی، انہوں نے ایک قراءت پر قرآن کو جمع کردیا، لغت قریش کے مطابق اور پھر اسے مختلف ممالک میں پھیلا دیا۔

سبعۃ أحرف کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کا ایک نوٹ

تتمہ کے طور پر ضروری معلوم ہوتاہے کہ قرآن مجید کے سبعۃ أحرف پرنزول یعنی سات قراءتوں کے بارے میںایک ضروری نوٹ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کا بیان فرمودہ پیش کردیا جائے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

‘‘اس بارہ میں یاد رکھنا چاہیئے کہ قراءتوں کا فرق شروع زمانہ سے چلا آیا ہے۔ پوری واقفیت نہ رکھنے والے مسلمان بعض دفعہ ایسی روایتوں سے گھبر ا جاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر یہ روایتیں درست ہیں تو پھر ہمارا یہ کہنا درست نہیں ہو سکتا کہ قرآن کریم کامل طور پر محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کاتغیر و تبدل نہیں ہوا۔ مگر ایسا نتیجہ نکالنا درست نہ ہوگا۔ اس لئے کہ شروع زمانہ سے ہی نسخ کے منکر اور حفاظتِ قرآنیہ کے قائل قراءت کے اس فرق کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں مگر باوجود اس فرق کے ان کے نزدیک یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ ایک قراءت دوسری کو منسوخ نہیں کرتی اور دوسرے مضمون میں فرق نہیں ڈالتی۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک قراءت ایسا مضمون بیان کرے جس کی دوسری قراءت حامل نہ ہو سکے ہاں بعض دفعہ وہ مضمون کو وسیع کر دیتی ہے اور اس کی مصدق ہوتی ہے۔ در اصل بعض زبانوں کے فرق کی وجہ سے یا بعض مضامین کو نمایاں کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سبعۃ أحرف پر نازل کیا ہے یعنی اس کی سا ت قراءتیں ہیں۔ ان قراءتوں کی وجہ سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے کہ قرآنِ کریم میں کوئی اختلاف ہے بلکہ اسے زبانوں کے فرق کا ایک طبعی نتیجہ سمجھنا چاہیئے۔ بسا اوقات ایک ہی لفظ ہوتا ہے مگر ایک ہی ملک کے ایک حصہ کے لوگ اسے ایک طر ح بولتے ہیں اور اسی ملک کے دوسرے حصہ کے لوگ اسے اور طرح بولتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ لفظ بدل گیا ہے یا اس لفظ کا مفہوم تبدیل ہو گیا ہے۔ لفظ بتغیر قلیل وہی رہے گا اس لفظ کے معنے بھی وہی رہیں گے صرف اس وجہ سے کہ کوئی قوم اس لفظ کو صحیح رنگ میں ادا نہیں کر سکتی وہ اپنی زبان میں ادا کرنے کے لئے اس کی کوئی اور شکل بنا لے گی۔ رسول کریمؐ کے زمانہ میں چونکہ عرب کی آبادی کم تھی قبائل ایک دوسرے سے دور دور رہتے تھے اس لئے ان کے لہجوں اور تلفظ میں بہت فرق ہوتا تھا۔ زبان ایک ہی تھی مگر بعض الفاظ کا تلفظ مختلف ہوتا تھا اور بعض دفعہ ایک معنی کے لئے ایک قبیلہ میں ایک لفظ بولا جاتا تھا دوسرے قبیلہ میں دوسرا لفظ بولا جاتا تھا ان حالات میں رسول کریمؐ کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی کہ فلاں فلاں الفاظ جو مختلف قبائل کے لوگوں کی زبان پر نہیں چڑھتے۔ ان کی جگہ فلاں فلاں الفاظ وہ استعمال کر لیا کریں۔ چنانچہ جب تک عرب ایک قوم کی صورت اختیار نہیں کر گئی اس وقت تک یہی طریق ان میں رائج رہا۔ اگر اس کی اجازت نہ دی جاتی تو قرآن کریم کا یاد کرنا اور پڑھنا مکہ کے باشندوں کے سوا دوسرے لوگوں کے لئے مشکل ہوتا اور قرآن کریم اس سرعت سے نہ پھیلتا جس طرح کہ وہ پھیلا۔ قبائل کی زبان کا یہ فرق غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں اب تک بھی ہے تعلیم یافتہ لوگ تو کتابوں سے ایک ہی زبان سیکھتے ہیں لیکن غیر تعلیم یافتہ لوگ چونکہ آپس میں بول کر زبان سیکھتے ہیں ان میں بجائے ملکی زبان کے قبائلی زبان کا رواج زیادہ ہوتا ہے۔

میں جب حج کے لئے گیا تو ایک یمنی لڑکا جو سولہ سترہ سال کا تھا اور جو سیٹھ ابو بکر صاحب کا ملازم تھا قافلہ کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔ میں راستہ میں عربی زبان میں اس سے گفتگو کرتا رہا اور میں نے دیکھا کہ وہ میری اکثر باتوں کو سمجھ جاتا اور ان کا جواب بھی دیتا مگر بعض دفعہ حیرت سے میرے منہ کو دیکھنے لگ جاتا اور کہتا کہ میں آپ کی بات کو سمجھا نہیں۔ میں حیران ہوا کہ یہ بات کیا ہے کہ یہ لڑکا عربی سمجھتا بھی ہے مگر کبھی کبھی رک بھی جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کی بات کو نہیں سمجھا۔ جب میں مکہ پہنچا تو میں نے کسی سے ذکر کیا کہ یہ لڑکا عرب ہے اور عربی کوخوب سمجھتا ہے مگر باتیں کرتے کرتے بعض جگہ رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میری سمجھ میں بات نہیں آئی معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ تو ان صاحب نے بتایا کہ یہ لڑکا یمنی ہے اور یمنیوں اور حجازیوں کے بعض الفاظ میں بڑا بھاری فرق ہوتا ہے اس لئے یہ اسی اختلاف کے موقع پر ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھتے چنانچہ انہوں نے اس فرق کے بارہ میں یہ لطیفہ سنایا کہ مکہ میں ایک امیر عورت تھی اس کا ایک یمنی ملازم تھا وہ عورت حقہ پینے کی عادی تھی وہاں عام رواج یہ ہے کہ حقہ کے نیچے کا پانی کا برتن شیشے کا ہوتا ہے اس لئے اسے کہتے بھی شیشہ ہی ہیں۔ ایک دن اس عورت نے اپنے ملازم کو بلایا اور اس سے کہا غَیِّرِالشِّیْشَۃَ شیشہ بدل دو۔ لفظ تواس نے یہ کہے کہ شیشہ بدل دو مگر محاورہ کے مطابق اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کا پانی گرا کر نیا پانی بدل کر ڈال دو۔ ملازم نے یہ فقرہ سنا تو اس کے جواب میں کہا سِتِّیْ ھٰذَا طَیِّبٌ۔ بیگم صاحبہ یہ تو بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ عورت نے پھر کہا کہ قُلْتُ لَکَ غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ۔ میں نے جو تم کو کہا ہے کہ بدل دو تم انکار کیوں کرتے ہو۔ نوکر نے پھر حیرت کا اظہار کیااور کہا کہ سِتّیْ ھٰذَا طَیِّبٌ۔ میری آقا یہ تو اچھا بھلا ہے۔ آخر آقا نے ڈانٹ کر کہا تم میرے نوکر ہو یا حاکم ہو میں جو تم سے کہہ رہی ہوں کہ اسے بدل دو تم میری بات کیوں نہیں مانتے۔ نوکر نے شیشہ اٹھایا اورباہر جا کر اس زور سے زمین پر مارا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ عور ت نے کہا ارے یہ تم نے کیا غضب کیا۔ اتنا قیمتی برتن تم نے توڑ کر رکھ دیا۔ نوکر نے کہا میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ برتن اچھا ہے مگر آپ مانتی نہیں تھیں۔ اب جو میں نے توڑ دیا ہے تو آپ ناراض ہو رہی ہیں۔ عورت نوکر پر سخت خفا ہوئی مگر ایک یمنی زبان کے واقف نے اسے سمجھایا کہ نوکر کا قصور نہیں کیونکہ حجاز میں غَیِّرْ کے معنے بدلنے کے ہیں اور محاورہ میں جب شیشہ کے ساتھ بولا جائے تو اس کے پانی بدلنے کے ہو جاتے ہیں۔ یمنی زبان میں تَغْیِیْر کے معنے توڑنے کے ہوتے ہیں پس جب تم نے غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ کہا تو نوکر اپنی زبان کے مطابق یہ سمجھا کہ تم اسے برتن توڑنے کا حکم دے رہی ہو اسی لئے وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ بی بی یہ تو اچھا بھلا ہے اسے کیوں تڑوا رہی ہو۔ مگر جب تم نہ مانی اور بار بار زور دیا تو وہ غریب کیا کرتا۔ اب دیکھو غَیِّرِ الشِّیْشَۃ ایک معمولی فقرہ ہے مگر زبان کے فرق کی وجہ سے یمنی نوکر نے اس کے کچھ کے کچھ معنے سمجھ لئے۔ اس قسم کے الفاظ جو زبان کے اختلاف کی وجہ سے معانی میں بھی فرق پید اکر دیتے ہیں اگر قرآن کریم میں اپنی اصل صورت میں ہی پڑھے جاتے تو یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ان قبائل کو سخت مشکلات پیش آتیں اور ان کے لئے قرآن کریم کا سمجھنا مشکل ہو جاتا۔ اس نقص کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے ہم معنی الفاظ پڑھنے کی اجازت دی جن سے قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کے صحیح تلفظ کے ادا کرنے میں مختلف قبائلِ عرب کو دقت پیش نہ آئے۔ پس مضمون تو وہی رہا صرف بعض الفاظ یا بعض محاورات جو ایک قوم میں استعمال ہوتے ہیں اور دوسری قوم میں نہیں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ یا ان محاورات کی جگہ ان کی زبان کے الفاظ یا اپنی زبان کے محاورات انہیں بتا دیئے تا کہ قرآن کریم کے مضامین کی حفاظت ہو سکے اور زبان کے فرق کی وجہ سے اس کی کسی بات کو سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل نہ ہوجائے۔ اسی طرح اس کا پڑھنا اور یاد کرنا بھی مشکل نہ رہے ورنہ اصل قراءت قرآن کریم کی وہی ہے جو حجازی زبان کے مطابق ہے اس تفصیل کو معلوم کر کے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک عارضی اجازت تھی اصل کلام وہی تھا جو ابتداءً رسول کریمؐ پر نازل ہوا۔ ان الفاظ کے قائمقام اسی وقت تک استعمال ہو سکتے تھے جب تک قبائل آپس میں متحد نہ ہو جاتے۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں جب بجائے اس کے کہ مکہ والے مکہ میں رہتے۔ مدینہ والے مدینہ میں رہتے۔ نجد والے نجد میں رہتے۔ طائف والے طائف میں رہتے۔ یمن والے یمن میں رہتے اور وہ ایک دوسرے کی زبان اور محاورات سے واقف ہوتے۔ مدینہ دارالحکومت بن گیا تو تمام قومیں ایک ہو گئیں کیونکہ اس وقت مدینہ والے حاکم تھے جن میں ایک بڑا طبقہ مہاجرین مکہ کا تھا اور خود اہل مدینہ بھی اہل مکہ کی صحبت میں حجازی عربی سیکھ چکے تھے پس چونکہ قانون کا نفاذ ان کی طرف سے ہوتا ہے، مال ان کے قبضہ میں ہوتا ہے اور دنیا کی نگاہیں انہیں کی طرف اٹھتی ہیں۔ اس وقت طائف کے بھی اور نجد کے بھی اور مکہ کے بھی اور یمن کے بھی اور دوسرے علاقوں کے بھی اکثر لوگ مدینہ میں آتے جاتے تھے اور مدینہ کے مہاجرو انصار سے ملتے اور دین سیکھتے تھے اور اسی طرح سب ملک کی علمی زبان ایک ہو تی جاتی تھی۔ پھر کچھ ان لوگوں میں سے مدینہ میں ہی آکر بس گئے تھے ان کی زبان تو گویا بالکل ہی حجازی ہو گئی تھی۔ یہ لوگ جب اپنے وطنوں کو جاتے ہوں گے تو چونکہ یہ علماء اور استادہوتے تھے یقیناً ان کے علاقہ پر ان کے جانے کی وجہ سے بھی ضرور اثر پڑتا تھا۔ علاوہ ازیں جنگوں کی وجہ سے عرب کے مختلف قبائل کو اکٹھا رہنے کا موقع ملتا تھا اور افسر چونکہ اکابر صحابہؓ ہوتے تھے ان کی صحبت اور ان کی نقل کی طبعی خواہش بھی زبان میں یک رنگی پید ا کرتی تھی۔ پس گو ابتداء میں تو لوگوں کو قرآن کریم کی زبان سمجھنے میں دقتیں پیش آتی ہوں گی مگر مدینہ کے دارالحکومت بننے کے بعد جب تمام عرب کا مرکز مدینہ منورہ بن گیا اور قبائل اور اقوام نے بار بار وہاں آنا شروع کر دیا تو پھر اس اختلاف کا کوئی امکان نہ رہا۔ کیونکہ اس وقت تمام علمی مذاق کے لوگ قرآنی زبان سے پوری طرح واقف ہو چکے تھے۔ چنانچہ جب لوگ اچھی طرح واقف ہو گئے تو حضرت عثمانؓ نے حکم دیا کہ آئندہ صرف حجازی قراءت پڑھی جائے اور کوئی قراءت پڑھنے کی اجازت نہیں۔ آپ کے اس حکم کا مطلب یہی تھا کہ اب لوگ حجازی زبان کو عام طور پر جاننے لگ گئے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں حجازی عربی کے الفاظ کا بدل استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عثمانؓ کے اس حکم کی وجہ سے ہی شیعہ لوگ جو سنّیوں کے مخالف ہیں کہا کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن بیاضِ عثمانی ہے حالانکہ یہ اعتراض بالکل غلط ہے حضرت عثمانؓ کے زمانہ تک عربوں کے میل جول پر ایک لمبا عرصہ گذر چکا تھا اور وہ آپس کے میل جول کی وجہ سے ایک دوسرے کی زبانوں کے فرق سے پوری طرح آگاہ ہو چکے تھے۔ اس وقت اس بات کی کوئی ضروت نہیں تھی کہ اور قراءتوں میں بھی لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی اجازت دی جاتی۔ یہ اجازت محض وقتی طور پر تھی اور اس ضروت کے ماتحت تھی کہ ابتدائی زمانہ تھا قومیں متفرق تھیں اور زبان کے معمولی معمولی فرق کی وجہ سے الفاظ کے معنے بھی تبدیل ہو جاتے تھے اس نقص کی وجہ سے عارضی طور پر بعض الفاظ کو جو ان قبائل میں رائج تھے اصل وحی کے بدل کے طور پر خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی تا کہ قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اور ا س کی تعلیم سے روشناس ہونے میں کسی قسم کی روک حائل نہ ہو اور ہر زبان والا اپنی زبان کے محاورات میں اس کے احکام کو سمجھ سکے اور اپنے لہجہ کے مطابق پڑھ سکے۔ جب بیس سال کا عرصہ اس اجازت پر گذز گیا، زمانہ ایک نئی شکل اختیار کر گیا، قومیں ایک نیا رنگ اختیار کر گئیں، وہ عرب جو متفر ق قبائل پر مشتمل تھا ایک زبردست قوم بلکہ ایک زبردست حکومت بن گیا، آئین ِ ملک کا نفاذ اور نظام ِتعلیم کا اجراء ان کے ہاتھ میں آگیا، مناصب کی تقسیم ان کے اختیار میں آ گئی، حدوداور قصاص کے احکام کا اجراء انہوں نے شروع کر دیا تو اس کے بعد اصلی قرآنی زبان کے سمجھنے میں لوگوں کو کوئی دقت نہ رہی اور جب یہ حالت پیدا ہو گئی تو حضرت عثمانؓ نے بھی اس عارضی اجازت کو جو محض وقتی حالات کے ماتحت دی گئی تھی منسوخ کر دیا اور یہی اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا مگر شیعہ لوگ حضرت عثمانؓ کا سب سے بڑا قصور اگر قرار دیتے ہیں تو یہی کہ انہوں نے مختلف قراءتوں کو مٹا کر ایک قراءت جاری کر دی۔ حالانکہ اگر وہ غور کرتے تو آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مختلف قراءتوں میں قرآن کریم پڑھنے کی اجازت اسلام کے دوسرے دور میں دی ہے ابتدائی دور میں نہیں دی جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم کا نزول گو حجازی زبان میں ہوا ہے مگر قراءتوں میں فرق دوسرے قبائل کے اسلام لانے پر ہوا۔ چونکہ بعض دفعہ ایک قبیلہ اپنی زبان کے لحاظ سے دوسرے قبیلہ سے کچھ فرق رکھتا تھا اور یا تو وہ تلفظ صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتاتھا یا ان الفاظ کے معنوں کے لحاظ سے فرق ہو جاتا تھا اس لئے رسول کریمؐ نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت بعض اختلافی الفاظ کے لہجہ کے بدلنے یا اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھنے کی اجازت دے دی۔ مگر اس کا آیات کے معانی یا ان کے مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا بلکہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو فرق پڑتا چنانچہ اس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ رسول کریمؐ نے ایک سورت عبداللہ بن مسعودؓ کو اور طرح پڑھائی اور حضرت عمرؓ کو اور طرح پڑھائی کیونکہ حضرت عمرؓ خالص شہری تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ گڈریا تھے اور اس وجہ سے بدوی لوگوں سے ان کا تعلق زیادہ تھا۔ پس دونو ں زبانوں میں بہت فرق تھا۔ ایک دن عبداللہ بن مسعودؓ قرآن کریم کی وہی سورت پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمرؓ پاس سے گذرے اور انہوں نے عبداللہ بن مسعودؓ کو کسی قدر فرق سے اس سورت کی تلاوت کرتے سنا۔ انہیں بڑا تعجب آیا کہ یہ کیا بات ہے کہ الفاظ کچھ اور ہیں اور یہ کچھ اور طرح پڑھ رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے گلے میں پٹکا ڈالا اور کہا چلو رسول کریمؐ کے پاس میں ابھی تمہارا معاملہ پیش کرتا ہوں تم سورت کے بعض الفاظ اور طرح پڑھ رہے ہو اور اصل سورت اور طرح ہے۔ غرض وہ انہیں رسول کریمؐ کے پاس لائے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہؐ آپ نے یہ سورت مجھے اور طرح پڑھائی تھی اور عبداللہ بن مسعودؓ اور طرح پڑھ رہے تھے رسول کریمؐ نے عبداللہ بن مسعودؓ سے فرمایا تم یہ سورت کس طرح پڑھ رہے تھے؟ وہ ڈرے اور کانپنے لگ گئے کہ کہیں مجھ سے غلطی نہ ہو گئی ہو مگر رسول کریمؐ نے فرمایا ڈرو نہیں پڑھو۔ انہوں نے پڑھ کر سنائی تو رسول کریمؐ نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ آپ نے تو مجھے اور طرح پڑھائی تھی۔ آپؐ نے فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے پھر آپؐ نے فرمایا قرآن کریم سات قراءتوں میں نازل کیا گیا ہے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑا نہ کرو۔ اس فرق کی وجہ دراصل یہی تھی کہ رسول کریمؐ نے سمجھا عبداللہ بن مسعودؓ گڈریا ہیں۔ اور ان کا لہجہ اَور ہے اس لئے ان کے لہجے کے مطابق جو قراءت تھی وہ انہیں پڑھائی۔ حضرت عمرؓ کے متعلق آپؐ نے سوچا کہ یہ خالص شہری ہیں اس لئے انہیں اصل مکّی زبان کی نازل شدہ قراءت بتائی۔ چنانچہ آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو ان کی اپنی زبان میں سورت پڑھنے کی اجازت دے دی اور حضرت عمرؓ کو خالص شہری زبان میں وہ سورت پڑھا دی۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فرق ہیں جو مختلف قراءتوں کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے مگر ان کا نفس ِمضمون پر کوئی اثر نہیں پڑتاتھا ہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ تمدن اور تعلیم اور زبان کے فرق کا ایک لازمی نتیجہ ہے …یہی ضرورت اس زمانہ میں مختلف قراءتوں کی اجازت کی تھی لیکن جب تمدن اور حکومت کے ذریعہ سے قبائلی حالت کی جگہ ایک قومیت اور ایک زبان نے لے لی اور سب لوگ حجازی زبان سے پوری طرح آشنا ہو گئے تو حضرت عثمانؓ نے سمجھا اور صحیح سمجھا کہ اب ان قراءتوں کو قائم رکھنا اختلاف کو قائم رکھنے کا موجب ہو گا ا س لئے ان قراءتوں کا عام استعمال اب بند کرنا چاہیئے باقی کتب ِقراءت میں تو وہ محفوظ رہیں گی۔پس انہوں نے اس نیک خیال کے ماتحت عام استعمال میں حجازی اور اصل قراءت کے سوا باقی قراءتوں سے منع فرما دیا اور عربوں اور عجمیوں کو ایک ہی قراءت پر جمع کرنے کے لئے تلاوت کے لئے ایسے نسخوں کی اجازت دے دی جو حجازی اور ابتدائی قراءت کے مطابق تھے۔ ’’

(تفسیر کبیر جلد 9صفحہ 47تا 51)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button